Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

ادب : لفظ تصویرمعنی کو بدل دیتا ہے

$
0
0

جگن ناتھ آزاد ؔکہتے ہیں کہ میں نے علامہ اقبال کی ’’بال جبریل‘‘ علامہ تاجور ؔنجیب آبادی سے سبقاً سبقاً پڑھی۔ دوران تدریس شاعرانہ تفہیم کی مختلف جہتیں بھی زیربحث رہتیں۔

کبھی کبھار میں اپنا کہا گیا کلام بھی بغرض اصلاح پیش کرتا جسے وہ کمال شفقت و محبت سے سماعت فرماتے اور ضروری تبدیلیوں سے بھی آگاہ فرماتے۔ میں نے ایک مرتبہ اپنا ایک شعر ان کے گوش گزار کیا:

؎کوئی دیکھے تو یہ دشواریاں اہل محبت کی

پریشاں ہو کے حال دل رقیبوں کو سنایا ہے

اس پر علامہ صاحب نے فرمایا کہ ’’اہل محبت‘‘ کی بجائے ’’راہ محبت‘‘ کرلو۔ اب ذرا دیکھیے کہ معمولی سی لفظی تبدیلی سے شعر کا ر نگ ہی اور ہوگیا ہے:

؎کوئی دیکھے تو یہ دشواریاں ’’را ہِ محبت‘‘ کی

پریشاں ہو کے حال دل رقیبوں کو سنایا ہے

اسی طرح ایک مرتبہ جگن ناتھ آزاد مرتبہ نے شعر بغرض اصلاح علامہ اقبال کے گوش گزار کیا:

؎ اب اٹھ کے تیر کھانے کی ہمت نہیں رہی

وہ کہہ رہے ہیں تجھ میں محبت نہیں رہی

اس پر فرمایا،’’اب اٹھ‘‘ کی بجائے ’’اٹھ اٹھ‘‘ کے کردو تو زبان کے لحاظ سے شعر کا لطف دوبالا ہوجائے گا:

؎ ’’اٹھ اٹھ‘‘ کے تیر کھانے کی ہمت نہیں رہی

وہ کہہ رہے ہیں تجھ میں محبت نہیں رہی

ماؔہرالقادری اپنی کتاب ’’یاد رفتگاں‘‘ کی جلد دوم میں نواب نثار یار جنگ بہادر سے متعلق اپنی یادیں تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں، نواب صاحب نہ صرف شعر فہم تھے بلکہ بذات خود شعر گو بھی تھے اور مزاجؔ تخلص رکھتے تھے۔ ایک بار نواب صاحب کے مکان پر میں نے اپنی ایک غزل نواب صاحب کو سنائی۔ جب میں نے غزل کا یہ شعر پڑھا:

؎اللہ اللہ ترے جلووں کی بہار

ہر جگہ انجمن آرائی ہے

شعر سننے کے بعد پہلے تو دادوتحسین سے نوازا اور پھر بولے، ماہر میاں!! اگر برا نہ مانو تو مصرع ثانی میں لفظ ’’جگہ‘‘ کو لفظ ’’طرف‘‘ سے بدل دو کہ ’’جگہ ‘‘ کا لفظ اپنی ثقالت کے باعث سماعت کی نفاست پر بار محسوس ہوتا ہے۔ اور اب شعر یوں ہو گیا:

؎اللہ اللہ ترے جلووں کی بہار

ہر طرف انجمن آرائی ہے

سید الطاف حسین ثریاؔ، نازک خیال اور کہنہ مشق شاعر تھے۔ ان کو اپنے اس شعر پر بڑا ناز تھا:

؎پڑ رہے ہیں دور سے پھندے، کمندِ حسن کے

خود بخود کچھ دل کھنچا جاتا ہے اپنا سوئے دوست

جو بھی سنتا داد دیتا۔ مگر بعدازآں جب منیرؔ شکوہ آبادی کی شاگردی اختیار کی اور بڑے فخر سے یہ شعر استاد گرامی کے حضور پیش کیا تو استاد نے شعر میں صرف ایک لفظ تبدیل کیا اور شعر کا رنگ ہی بدل دیا:

؎پڑ رہے ہیں دور سے پھندے، کمند ِ حسن کے

خود بخود ’’یا‘‘ دل کھنچا جاتا ہے اپنا سوئے دوست

لفظ ’’کچھ‘‘ کی بجائے ’’یا‘‘ سے شعر میں ایک نئے معنویت پیدا ہوگئی جو اس سے پہلے مفقود تھی۔

امیرؔ مینائی کے شاگرد برہم ؔنے اپنا ایک شعر استاد کی خدمت میں نظرثانی کے لیے پیش کیا:

؎کسی کے حُسن کے پرتو نے کردیا بے تاب

جو آج برق سرِطور تلملاتی ہے

امیر ؔمینائی نے باقی شعر تو جوں کا توں رہنے دیا فقط مصرع اول میں ہلکا سا تصرف کرکے شعر کی معنی آفرینی میں اضافہ کردیا:

؎ ’’یہ کس‘‘ کے حسن کے پرتو نے کردیا بے تاب؟

جو آج برق سرِطور تلملاتی ہے

معروف مرثیہ گو شاعر وحید الحسن ؔہاشمی نے اپنی شاعری کے آغاز میں آرزوؔ لکھنوی کی شاگردی اختیار کی۔ اگرچہ یہ شاگردی صرف ایک شعر کی اصلاح تک محدود رہی مگر وحید ؔصاحب ساری زندگی آرزو ؔصاحب کی اس ایک شعر کی شاگردی پر نازاں رہے۔ وحید الحسن ؔہاشمی نے درج ذیل شعر لکھ کر برائے اصلاح آرزو ؔلکھنوی کی خدمت میں بھیجا:

؎ مبارک مبارک شہید محبت

کہ اس راہ میں موت بھی زندگی ہے

شعر کے مصرع ثانی میں استاد آرزو ؔکی جانب سے صرف ایک لفظ ’’بھی‘‘ کو ’’ہی‘‘ سے تبدیل کیا گیا، جس کی بدولت شعر کی آفاقیت اور معنوی قطعیت میں اضافہ ہوگیا:

؎مبارک مبارک شہید محبت

کہ اس راہ میں موت ’’ہی‘‘ زندگی ہے

حیدرآباد میں نواب بہادر یارجنگ کی حویلی میں محفل مشاعرہ برپا تھی۔ فانیؔ بدایونی کی صدارت میں شاعری کی دنیا کے سبھی معروف نام شریک محفل تھے۔ ماؔہرالقادری اپنا کلام پیش کر رہے تھے۔ انہوں نے شعر پڑھا:

؎سرد ہوگیا شاید سوزِقلبِ پروانہ

آج شام ہی سے کیوں شمع جھلملاتی ہے

شعر کا پڑھنا تھا کہ قریب ہی پشت پر موجود فانی ؔبدایونی نے از خود شعر دہراتے ہوئے مصرع ثانی کو اصلاحی انداز میں اس طرح دہرایا:

؎ سرد ہو گیا شاید سوزِقلبِ پروانہ

آج شام ہی سے کیوں شمع ’’ٹمٹماتی‘‘ ہے

اور اس طرح یک لفظی تبدیلی سے شمع کی صحیح تصویر کھچ گئی۔

مراد آباد کے شاعر اور شاعری میں جگر ؔمرادآبادی کے شاگرد ذوالنورین نے اپنے گھر پر منعقدہ شعروسخن کی ایک نجی محفل میں بڑے احترام سے جگر صاحب کو اپنا درج ذیل شعر سنایا:

؎ملی ان کی نظر یا عشرتِ دل کا پیام آیا

بہارِ بے خزاں کا گلشنِ دل کو سلام آیا

جگر ؔصاحب نے شعر سنا، ذرا توقف کیا، اور بولے نورین میاں! مصرع اول کو اگر اس طرح کردو تو شعر کا لفظی و فکری مفہوم ذرا واضح ہوجائے گا:

؎ملی ان کی نظر یا عشرتِ غم کا پیام آیا

بہارِ بے خزاں کا گلشنِ دل کو سلام آیا

اور یوں’’ عشرت ِدل‘‘ کی بجائے’’عشرتِ غم‘‘ نے شعر کی خوب صورتی کو دو چند کردیا۔

مشفق خواجہ، اپنی کتاب ’’تحقیق نامہ‘‘ میں میر علی ضامن شوقؔ کی شاعری کے حوالے سے اپنے تحریر کردہ ایک مضمون میں رقم طراز ہیں کہ ؔ میر علی ضامن شوقؔ نے اپنے والد میر اوسط علی رشک ؔکے سامنے اپنا شعر پڑھا:

؎ بخت ِتیرہ سے ملا ہے یہ نیا داغ مجھے

روشنی گور پر آئے تو ہوا گل کر دے

رشک ؔنے شعر سنا اور پہلے مصرع میں معمولی تبدیلی سے شعر کی لفظی ترتیب کو اور زیادہ خوب صورت کر دیا۔

؎ بخت تیرہ نے ’’دیا‘‘ہے یہ نیاداغ مجھے

روشنی گور پہ آئے تو ہوا گُل کر دے

نواب داغ ؔ مرحوم کے قابل فخر شاگرد اور اپنے وقت کے استاد شاعر ماؔہرالقادری کے سامنے حضرت علامہ اقبالؔ کا یہ شعر پڑھا گیا:

؎اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد

نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد

شعر سن کے ماؔہرالقادری بولیِ، حضرت اقبال کا مطالبہ کچھ بے جا لگتا ہے۔ اب بھلا فریاد کی داد کون دیتا ہے؟؟ شعر اگر ایک لفظ کے فرق سے اس طرح ہوتا تو زیادہ بامعنی ہوجاتا:

؎اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری ’’روداد‘‘

نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد !!

تعلقہ دار صاحب سندیلہ ضلع ہرنائی کے یہاں سالانہ مشاعرہ منعقد ہوا۔ ہندوستان بھر کے نامی اساتذہ جمع تھے۔ مرزا یاس یگانہؔ چنگیزی نے مطلع پڑھا:

؎ لپٹتی ہے بہت یادوطن جب دامن دل سے

ٹھہر کر اک سلام شوق کرلیتا ہوں منزل سے

قدردانوں کا مجمع تھا، تعریف کا ہمہمہ بلند ہوا۔ ایک نکتہ رس صاحبِ فہم آرزو لکھنوی کے پہلو ہی میں بیٹھے تھے، جب ذرا دادوتحسین کا شور تھما تو تنک کر بولے، حضرت! منزل تو ہے ہی ٹھہرنے کی جگہ، پھر ’ٹھہرکر‘ کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ آرزوؔ صاحب نے تنقید سنی تو یگانہ ؔسے مخاطب ہوکے بولے، کیا خوب فرمایا ہے! حب وطن کا جذبہ کس طرح ظاہر کیا ہے! سبحان اللہ۔ ذرا پھر ارشاد ہو! اور پھر خود ہی شعر کو اس طرح پڑھنے لگے:

؎’’پلٹ کر‘‘ اک سلام شوق کرلیتا ہوں منزل سے۔۔۔ واہ واہ۔۔۔ یگانہؔ فوراً بات کو پہنچے اور اس طرح مطلع دہرایا:

؎ لپٹتی ہے بہت یادوطن جب دامن دل سے

’’پلٹ کر‘‘ اک سلام شوق کرلیتا ہوں منزل سے

عزیز یار جنگ ؔ داغؔ کے شاگرد تھے اور تواتر سے بذریعہ خط و کتابت اپنے کلام پر اصلاح لیتے رہتے تھے۔ درج ذیل شعر انہوں نے استاد کی خدمت میں برائے اصلاح بھیجا:

؎کیا جانیں آبِ تیغ کی لذت جنابِ خضر

نازاں ہیں وہ تو اپنے ہی آبِ حیات پر

اس پر استاد داغ ؔنے جو اصلاح دی اس نے شعر کے حسن بیان میں اور اضافہ کردیا:

؎کیا جانیں آب ِتیغ کی لذت جنابِ خضر

’’مرتے ہیں‘‘ وہ تو چشمۂ آب حیات پر

نوحؔ ناروی کے شاگرد مصطفی خان ناظر ؔ نے اپنا درج ذیل شعر برائے اصلاح بھیجا:

؎ زوال سے مہ کامل کے ہو گیا ظاہر

رہے ہمیشہ کسی کا شباب مشکل ہے

شعر میں نوحؔ ناروی کی جانب سے صرف ایک لفظ کی تبدیلی نے شعر کو چار چاند لگا دیے:

؎  زوال سے مہ کامل کے ہو گیا ’’روشن‘‘

رہے ہمیشہ کسی کا شباب مشکل ہے

میکش اکبرآبادی اپنی تحریرکردہ کتاب ’’آگر ہ اور آگرہ والے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ آگرہ کے ایک مشاعرے میں استاد داغ ؔنے دوران مشاعرہ شعر پڑھا:

؎بڑا مزہ ہو جو محشر میں میں کروں شکوہ

وہ منتوں سے کہیں چپ رہو خدا کے لیے

اس پر مشاعرے میں موجود مرزا رئیس ؔنے انہیں ٹوکا اور کہا، حضور! محشر میں شکوہ شکایت کا موقع کہاں ہو گا؟ کہنا ہے تو یوں کہیے:

؎ بڑا مزہ ہے جو محشر میں میں کروں’’ فریاد‘‘

وہ منتوں سے کہیں چپ رہو خدا کے لیے

خواجہ حیدر علی آتشؔ کا ایک شعر ہے:

؎سودا ہوا ہے مرغ جنوں کے شکار کا

پھندا بنا رہا ہوں گریباں کے تار کا

اس پر سعادت خان ناصرؔ اپنی کتاب تذکرہ زیبا میں لکھتے ہیں کہ ’عالم وحشت میں تو انسان کو کسی چیز کا شعور بھی نہیں رہتا چہ جائے کہ مرغ جنوں، گریبان اور اس کا پھندا بنانا۔ اس شعر کو اگر اس طرح کہا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا:

؎ سودا ہو جس کو مرغ جنوں کے شکار کا

پھندا بنائے میرے گریباں کے تار کا

راجا صاحب محمود آباد نے ایک مرتبہ ریاضؔ خیرآبادی سے کہا، اگر آج آپ کے استاد امیرؔ مینائی زندہ ہوتے تو آپ پر فخر کرتے۔‘‘ حضرت ریاض نے کہا، ایسا نہ کہیے وہ استاد تھے۔ پھر ریاض ؔنے اپنا ایک شعر سنایا:

؎نسیم آئی ہے شمع مزار گُل کر نے

وہ اس کے آنے سے پہلے ہی بجھ گئی ہوگی

اس شعر میں استاد نے نہ کوئی لفظ بدلا نہ کم کیا بلکہ صرف ایک لفظ بڑھا کے شعر کی شان میں اضافہ کر دیا:

؎ نسیم ’’اب‘‘ آئی ہے شمع مزار گل کرنے

وہ اس کے آنے سے پہلے ہی بجھ گئی ہو گی

رفعت ؔسروش کہتے ہیں میں نے ایک محفل میں غزل کا مطلع پڑھا:

؎ پھول اب نہیں لیکن زخم مسکرائے ہیں

پرسشِ محبت کو آج وہ بھی آئے ہیں

محفل میں استاد شاعر بسمل ؔشہیدی بھی موجود تھے۔ مطلع پر داد بھی دی اور بولے رفعت میاؔں یوں کہو:

؎پھول اب ’’کہاں‘‘؟ لیکن زخم مسکرائے ہیں

پرسشِ محبت کو آج وہ بھی آئے ہیں

معروف شاعر نوح ناروی نے ایک عرصے تک استاد ذوق کے شاگرد ظہیر دہلوی کی شاگردی بھی اختیار کیے رکھی۔ نوح ناروی نے اپنا درج ذیل شعر ظہیر دہلوی کی خدمت میں برائے اصلاح پیش کیا:

؎میں عشق میں زچ ہوں صفت بازی شطرنج

چلنے کے لیے چال کوئی گھر نہیں ملتا

اس پر ظہیر نے صرف ایک لفظ کی تبدیلی کرتے ہوئے لفظ ’’بازی‘‘ کو ’’مہرہ‘‘ سے بدل دیا۔ اور توجیہہ یہ پیش کی کہ شطرنج میں بازی نہیں بلکہ مہرہ چلایا جاتا ہے۔ اور شعر کو یوں کردیا:

؎میں عشق میں زچ ہوں صفت ’’مہرہ ِ شطرنج‘‘

چلنے کے لیے چال کوئی گھر نہیں ملتا

ادبی ماہنامے نقوش کے شخصیات نمبر کی جلد دوم میں تمکینؔ کاظمی اپنے ایک مضمون ’’حیدرآباد کی چند شخصیات‘‘ میں رقم طراز ہیں،’’دل شاہجہاں پوری کو ان کے ایک عزیز شاگرد جو ’شبنم‘ تخلص کرتے تھے، نے اپنا ایک شعر اصلاح کی غرض سے بھیجا:

؎جشن ِفطرت میری ہستی پہ ہے نازاں شبنمؔ

گلِ نورس مرے اشکوں سے جواں ہوتا ہے

دل ؔشاہجہاں پوری نے جشن کے لفظ سے جیم اور شین کے نقاط مٹا کر شعر کو آسماں پہ پہنچا دیا:

؎’’حسنِ‘‘ فطرت مری ہستی پہ ہے نازاں شبنمؔ

گلِ نورس مرے اشکوں سے جواں ہوتا ہے

ہندوستان کی پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی ڈاکٹر حمیر خاتون نے مہدی بخش تسلیمؔ کی حیات و شاعری پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کرتے ہوئے ان کے شاگردوں سے متعلق قائم شدہ باب میں بیان کیا ہے کہ ان کے ایک شاگرد مولوی اصغر حسین مائلؔ نے بغرض اصلاح اپنا درج ذیل شعر ان کے گوش گزار کیا:

؎پھولوں پہ محو رقص ہیں پروانے دیکھیے

کس ’’شمع رو‘‘ نے جا کے لگائی چمن میں آگ

مہدی بخش تسلیم ؔنے شعر کے مصرع ثانی میں ایک لفظ کی تبدیلی سے شعر کے دوسرے مصرعہ میں موجود وجہ تشبیہ کو اور زیادہ واضح کردیا:

؎پھولوں پہ محورقص ہیں پروانے دیکھیے

کس ’’شعلہ رو‘‘ نے جا کے لگائی چمن میں آگ

’’اعجازِناسخؔ‘‘ کے عنوان سے تحریر کردہ کتاب میں ڈاکٹر احسن نشاط شیخ امام بخش ناسخ ؔکی حیات و شاعری کا احاطہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں، اپنے شاگردوں کے اشعار کی اصلاح کے حوالے سے استاد ناسخؔؔ کا یہ وطیرہ تھا کہ وہ اشعار میں الفاظ کی معمولی ردوبدل کے قائل تھے جس کا ثبوت ان کی جانب سے مختلف شاگرد شعراء کے کلام پر دی جانے والی اصلاحیں ہیں۔ مثلاً ان کے شاگرد مہدی حسین آبادؔ کا ایک شعر ہے:

؎ ہجر میں وصل کو ہم یاد کیا کرتے ہیں

شاد ’’اپنا‘‘دلِ ناشاد کیا کرتے ہیں

امام بخش ناسخ ؔنے مصرع ثانی میں معمولی سی تبدیلی کرکے شعر کو روزمرہ کی زبان سے ہم کنار کرتے ہوئے مزید پر کشش بنا دیا:

؎ ہجر میں وصل کو ہم یاد کیا کرتے ہیں

شاد ’’یونہی‘‘ دلِ ناشاد کیا کرتے ہیں

ڈاکٹر محمد علی اثر اپنی ’’کتاب نوادراتِ تحقیق‘‘ میں ’’صفی اورنگ آبادی بحیثت استاد سخن‘‘ کے عنوان سے تحریر کردہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ صفی کے شاگرد بہادر علی جوہر نے اپنا درج ذیل شعر برائے اصلاح پیش کیا:

قفس میں دخل جو صیاد کا نہیں ہوتا

یہاں بھی ڈالتے ہم طرح آشیاں کے لیے

اس پر صفی اورنگ آبادی نے شعر کے پہلے مصرعے میں لفظ ’’دخل‘‘ کو ’’خوف‘‘ سے بدلتے ہوئے شعر کے لفظی مفہوم کو مضبوط کردیا۔ اب شعر اس طرح ہوگیا:

قفس میں خوف جو صیاد کا نہیں ہوتا

یہاں بھی ڈالتے ہم طرح آشیاں کے لیے

The post ادب : لفظ تصویرمعنی کو بدل دیتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>