یہ جاننا کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ زندگی کے گورکھ دھندوں میں پھنسے انسان کی سب سے بڑی خواہش ’’خوشی‘‘ کا حصول ہے۔
کوئی دولت، عزت، شہرت، اولاد یا وسیع و عریض جائیدادیں بنانے کا خواہش مند ہے تو اس کے پیچھے بھی درحقیقت بنیادی مقصد ’’خوشی‘‘ کا حصول ہی ہے۔ اگرچہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 20 مارچ کو ’’خوشی‘‘ کا عالمی دن منایا جاتا ہے لیکن یہ انسان کی وہ بنیادی ضرورت ہے، جس کا وہ ہر وقت طالب ہے، کیوں کہ یہ وہ چیز ہے، جو انسان کے ظاہر ہی نہیں بلکہ باطن پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ خوش مزاج لوگ رشتوں کو بہتر اور کامیاب انداز سے نبھاتے ہیں اور وہ تخلیقی اور تعمیری صلاحیتوں کے بھی مالک ہوتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق خوش باش افراد طویل عمر پاتے ہیں۔ تاہم،آج کل کے دور میں، جب ہرطرف مسائل کا انبار اور پریشانیاں موجود ہوں تو ایسے میں خوش رہنے کے مواقع ڈھونڈنا مشکل ہوجاتا ہے۔
خوشی کا مطلب مختلف لوگوں کے لئے متنوع ہو سکتا ہے۔ ایک فرد کو اگر زیادہ نیند لینے سے خوشی حاصل ہوتی ہے تو دوسرے کے لئے یہ صرف وقت کا ضیاع اور جہالت ہے۔ کوئی کھیل سے خوشی حاصل کرتا ہے تو کوئی کھانے کا شوقین ہے۔
کھانے سے یاد آیا کہ آج کل اے بی سی ڈی کے ساتھ وٹامن ’’P‘‘ کا بہت تذکرہ کیا جاتا ہے، ’’P‘‘ یعنی Pleasure۔ اور آج کا ہمارا موضوع بھی ’’خوشی‘‘ کا حصول ہے، جو ایک انسان مختلف ذرائع سے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تاہم یہاں ہم کھانے کے ذریعے ’وٹامن پی‘ کے حصول کا ذکر کرنے جا رہے ہیں کیوں کہ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ لذیذ کھانے کا مقصد صرف بھوک مٹانا نہیں بلکہ یہ خوشی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔
ہم میں سے تقریباً ہر ایک کے پاس اس سوال کا جواب ہے کہ ’’آپ کا پسندیدہ کھانا کیا ہے؟‘‘ اور یہ پسندیدگی دراصل خوشی کا حصول ہے۔
کھانے کے اوقات کو پرلُطف بنانے کے لئے کھانے سے لذت کا حصول درحققیت اپنے اندر متعدد طبی فوائد سموئے ہوئے ہے، جیسے کھانے کا ذائقہ ہاضمے کو سہارا دیتا ہے، کھانے کے ساتھ آپ کے تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتا ہے، کھانے کی خرابی پر قابو پانے میں مدد کر سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ کھانے سے لذت یا خوشی کا حصول اتنا ہی اہم ہے، جتنا کہ کھانے کی ضرورت۔ آئے جانتے ہیں کہ کھانے کے لیے لذت یا خوشی کیوں اہمیت رکھتی ہے؟
خوشی کے حصول کے لئے کھانے کی نفسیات
برسوں سے، محققین خوشی کے لیے کھانے کی نفسیات کا مطالعہ کر رہے ہیں، جن کے نتائج نہایت دلچسپ اور بڑی حد تک حوصلہ افزا ہیں۔ جسمانی طور پر لوگ کھانے سے جو لذت حاصل کرتے ہیں وہ ہمارے منہ اور دماغ دونوں میں ہوتی ہے۔
ایلیٹا سٹورچ، امریکی ادارے وائز ہارٹ نیوٹریشن اینڈ ویلنس کی تھراپسٹ، اینٹی ڈائیٹ ڈائیٹشین، اور سرٹیفائیڈ باڈی ٹرسٹ پرووائیڈر ہیں۔
ماہر غذائیات ایلیٹا سٹورچ بتاتی ہیں کہ ’’کھانے سے لذت سمیت کسی بھی قسم کی خوشی دماغ میں ڈوپامائن(ہارمون) کے اخراج کا باعث بنتی ہے۔ ڈوپامائن کو عمومی طور پر ایک اچھا ہارمون کہا جاتا ہے کیوںکہ یہ دماغ میں ایسے نظام کو متحرک کرتا ہے، جو خوشی، سکون، حوصلہ افزائی اور توجہ کو فروغ دینے میں مدد کرتا ہے۔‘‘ درحقیقت، 2011 کی کچھ پرانی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ موٹاپے کے شکار لوگوں میں ڈوپامائن کی حساسیت میں خلل پڑ سکتا ہے، جس کی وجہ سے وہ کھانے سے مناسب لذت حاصل کرنے کے لیے ضرورت سے زیادہ کھاتے ہیں لیکن جب دماغ کی کیمسٹری ٹھیک سے کام کر رہی ہو تو ہمارا کھانے سے لطف اندوز ہونا جسمانی فوائد کا باعث بنتا ہے۔
سٹورچ کا کہنا ہے کہ ’’جب ہم اس کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو ہم کھا رہے ہیں اور ڈوپامائن کو متحرک کرتے ہیں، تو ہم حقیقت میں اسے زیادہ مؤثر طریقے سے ہضم اور میٹابولائز کرتے ہیں۔ جب ہم خوشگوار کھانے کے تجربے کے جواب میں پر سکون ہوتے ہیں، تو ہمارا اعصابی نظام آرام اور ہضم کے موڈ میں چلا جاتا ہے، جو ہمیں مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ اور ان غذائی اجزاء کو استعمال کرنے دیتا ہے جو ہم کھاتے ہیں۔‘‘
خوشی کے لیے کھانا صحت مند کھانے کو بھی فروغ دیتا ہے۔ امریکن نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی 2020ء کی ایک تحقیق میں کھانے سے لطف اندوز ہونے اور صحت مند غذا کے درمیان تعلق کے بارے میں 119 مطالعات کا جائزہ لیا گیا، جس میں 57 فیصد تک کھانے کی خوشی اور غذائی نتائج کے درمیان سازگار تعلق پایا گیا۔
مثال کے طور پر ایک مطالعہ اعلی غذائیت کی حیثیت کے ساتھ زیادہ کھانے کی خوشی کو منسلک کرتا ہے جبکہ ایک دوسری تحقیق میںصحت افزا اور متوازن غذا کو فروغ دینے کے لیے صحت مند کھانوں سے لطف اندوز ہونے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔
مستند امریکی غذائی ماہر سارہ گولڈ اینزلوور کے مطابق ’’ ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ صحت مند کھانے کا ذائقہ زیادہ تر اچھا نہیں ہوتا، لیکن یہ بات بالکل بھی درست نہیں ہے کیوں کہ جب ہم وہ کھانا کھاتے ہیں جس سے ہم لطف اندوز ہوتے ہیں تو اطمینان بڑھ جاتا ہے اور خوشی حاصل ہوتی جو درحقیقت غذا کے معیار کو بہتر بنا سکتا ہے اور زیادہ کھانے یا زیادہ کھانے کے امکانات کو کم کر سکتا ہے۔
کھانے کی جذباتی اہمیت
اگر کھانا صرف ایندھن ہوتا تو کھانے کے اوقات کافی بورنگ ہوتے۔ ہمیں اپنے پیاروں کے ساتھ اپنے ثقافتی ورثے سے جوڑنے تک، کھانا انسانی زندگی میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ مختصر یہ کہ کھانا جسمانی کے ساتھ جذباتی پرورش بھی کرتا ہے۔
یہاں ہم لذیذ کھانے سے لطف اندوز ہونے کے چند فوائد کا تذکرہ کرتے ہیں۔
i۔ سماجی تعلقات کی مضبوطی
کسی پارٹی یا خاندانی اجتماع میں اگر کھانے پینے کا اہتمام نہ ہو تو یہ نشست خالی خالی سی محسوس ہوتی ہے۔ تھائی سوشل کمیونٹی کی 2015ء میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق جب لوگ دوسروں کے ساتھ کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں، تو یہ زیادہ تر خوشی کے احساس میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
ii۔ جسمانی اور جذباتی سکون
جب آپ بیمار ہوتے ہیں تو گرم چکن سوپ یا پسندیدہ میٹھا کھانے کو دل چاہتا ہے، یہ چاہنا دراصل آپ کی خوشی کے لئے ہے۔
اس طرح کے کھانے ہماری جذباتی تسکین اور جسم کو سکون بخشنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر اینزلوور کہتے ہیں کہ بعض اوقات کھانا ایک مشکل دن کے اختتام پر بھی سکون فراہم کرتا ہے، جب ہم خود کو کھانے کے ساتھ جڑنے اور اس سے لطف اندوز ہونے دیتے ہیں، تو اس سے متعدد فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
iii۔ غیرضروری ڈائٹنگ کی گرفت سے آزادی
اگرچہ جب آپ اپنا پسندیدہ کھانا کھاتے ہیں تو اس میں کیلوریز یا چکنائی کا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا لیکن آپ جو کھاتے ہیں اس سے ذہنی طور پر لطف اندوز ہونے کا انتخاب اس نقصان دہ ذہنیت کو توڑنے میں مدد کرتا ہے۔
سٹورچ کہتی ہیں کہ جب ہم کھانے کو بلاوجہ کی پابندیوں سے آزاد کرتے ہوئے پسندیدگی کی بنیاد پر کھاتے ہیں تو جسم اس بات پر بھروسہ کرنا سیکھتا ہے کہ اسے اپنی ضرورت کی چیز ملے گی، جس سے جسم کی نشوونما پر منفی اثرات میں کمی واقع ہوتی ہے۔
iv۔ ثقافتی ورثے سے جوڑنا
کئی دہائیوں سے، تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ تعلق کا احساس دماغی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ اپنے خاندان یا ثقافتی ورثے سے تعلق رکھنے کے لیے اس سے زیادہ خوبصورت امر اور کیا ہے؟ یہ وہ عمل ہے جہاں کھانے سے لطف اندوز ہونا ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
سٹورچ کہتی ہیں کہ روابط کو فروغ دینے والے کھانے پر پابندی یا انکار کرنا علیحدگی اور تنہائی کا باعث بن سکتا ہے۔ ثقافتی کھانوں کو چھوڑ کر ہم اپنی شناخت پر بھی سوالات اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ تاہم دوسری طرف ان کھانوں کو اپنانے سے بالآخر آزادی اور تعلق کا احساس پیدا ہو سکتا ہے جو آپ کی ذہنی صحت کو بہتر بناتا ہے۔
خوشی کے لیے کھانا یا جذباتی کھانا
تناؤ، غصہ، یا اداسی جیسے مشکل جذبات سے نمٹنے کے لیے کھانے کی طرف رجوع کرنے کا نتیجہ اکثر بے فکری کی صورت میں نکلتا ہے، جس سے کھانے کے ساتھ آپ کا تعلق کمزور ہوتا ہے۔
ماہرین غذا کہتے ہیں کہ جذباتی کھانا تب ہوتا ہے جب لوگ کھانے کو مثبت یا منفی دونوں جذبات سے نمٹنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، جبکہ خوشی کے لیے کھانا کھانے کا انتخاب خاص طور پر اس کے ذائقے، ساخت اور تجربے سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہے، جیسے کہ جب آپ گرمیوں میں آئس کریم کون کے لیے باہر جاتے ہیں یا سیب کے باغ میں سیدھا درخت سے سیب کھاتے ہیں۔
ان دو رویوں کے درمیان ایک اور بڑا فرق وہ تعلق ہے جو آپ اپنے کھانے سے محسوس کرتے ہیں۔اکثر جب لوگ جذباتی طور پر کھاتے ہیں تو کھانے کے ساتھ تعلق یا علیحدگی کی کمی واقع ہوتی ہے،لیکن جب خوشی کے لیے کھاتے ہیں، تو عام طور پر ایک حقیقی تعلق پیدا ہوتا ہے۔
خوشی کے ساتھ کھانے کی جسمانی نشوونما
روزمرہ زندگی میں من پسند چیزیں کھانے سے خوشی ملتی ہیں۔ جو کھانا ہم کھاتے ہیں وہ ہمارے جسم کو پرورش دیتا ہے، ہماری جذباتی تسکین کا باعث بنتا ہے اور ہمارے ذائقے کی حس کی تشفی کرتا ہے۔
اس ضمن میں سٹوریج تجویز کرتی ہیں کہ جب آپ کھانا یا ناشتہ بناتے ہیں، تو دیکھیں کہ کیا کوئی ایسی چیز ہے جس سے آپ اسے 10 فیصد زیادہ پُرلطف بنانے کے لیے کر سکتے ہیں، اس عمل سے کھانے سے خوشی کا حصول بڑھے گا اور نتیجتاً آپ کی درست خطوط پر جسمانی نشوونما بھی ہو گی۔ لہذا کھانا کھانے کے بعد اس امر پر ضرور غور کریں کہ اس کھانے سے آپ کو کتنی خوشی حاصل ہوئی اور اس میں جو کمی تھی، اسے آئندہ کیسے پورا کیا جا سکتا ہے۔
The post کھانا کھانے میں خوشی کی اہمیت! appeared first on ایکسپریس اردو.