شعبہ صحافت، جامعہ پنجاب لاہور
صحافت میں حقائق کی جانچ پڑتال
حلیمہ جاوید
٭حقائق کی جانچ پڑتال یا فیکٹ چیک ایک تھکا دینے والا کام ہے، جس میں بہت زیادہ ذمہ داری اور وقت درکار ہوتا ہے۔ اسی سے ہی کسی صحافی یا ادارے کی ساکھ قائم ہوتی ہے۔
انٹرنیشنل فیکٹ چیکنگ نیٹ ورک (IFCN) نے اصولوں کا ایک جامع ضابطہ متعارف کرایا ہے جس کے تحت میڈیا اداروں کو فیک نیوز سے بچنے کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ عالمی معیار کا ایک اہم پہلو غیر جانبداری اور انصاف پسندی ہے۔
ایک انفرادی حقائق کی جانچ کرنے والے کے ذاتی یا سیاسی تعصبات اس بات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں کہ وہ کس چیز کی تصدیق کرتے ہیں، اور کس معلومات کو سب سے پہلے جانچنے کے لائق سمجھتے ہیں۔
حقائق کی جانچ کرنے والا اپنی جانچ کو کسی ایک طرف مرکوز نہیں کرتا۔ وہ حقائق کی جانچ پڑتال کرنے والے مسائل کی وکالت یا پالیسی پوزیشن نہیں لیتے۔حقائق کی جانچ کرنے والے گروپوں کو اس طریقہ کار کی وضاحت کرنے کی بھی ضرورت ہے جو وہ اپنے حقائق کی جانچ پڑتال، تحقیق، تحریر، ترمیم، اشاعت اور درست کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ حقائق کی جانچ کے عالمی معیار میں، وہ افراد جو کسی بھی پارٹی، سیاست دان، یا کسی بھی پالیسی پوزیشن کے حق میں یا اس کے مخالف ہوتے ہیں، وہ اس کردار کے اہل نہیں ہیں۔
پریس کا کام حکومت کی بری کارکردگی کی نشاندھی کرنا ہے، جس کے جواب میں میڈیا کو بدنام کرنے کے لیے حکومتی ترجمان ’پروپیگنڈے‘ کا الزام عائد کرتے ہیں۔
وہ اپنے خود ساختہ ’اعداد و شمار‘ کی مدد سے میڈیا کو جھوٹا کہتے ہیں، جس سے میڈیا کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ اس کا موثر جواب یہی ہے کہ میڈیا ادارے ’فیکٹ چیک‘ کی مدد سے اپنے موقف پر قائم رہیں، اس سے ان کی ساکھ بنے گی اور حکومت کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔
اگر کوئی حقیقی طور پر جعلی خبروں سے نمٹنے میں دلچسپی رکھتا ہے، تو اسے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ حقائق کی جانچ کے بارے میں عوام تک کس طرح اور کس کو بہترین طریقے سے آگاہ کرنا چاہیے۔ لیکن صحافت کی ساکھ بہتر کرنے کے لیے انصاف پسند اور غیرجانب دار صحافیوں کو سامنے آنا پڑے گا، بصورت دیگر مختلف تعصبات کے حامل صحافیوں کی وجہ سے صحافت کے کردار پر سوال اٹھائے جاتے رہیں گے۔
حقائق کی جانچ اس وقت پروان چڑھتی ہے جب تمام شعبوں کے اندر احتساب کا نظام ہو، بشمول میڈیا کے، جو خود خامیوں کے بغیر نہیں۔ پیشہ ور صحافتی رہنماؤں کو WhatsApp صحافت وغیرہ کی حوصلہ شکنی کے طریقوں پر غور کرنا چاہیے۔ جمہوریت میں کسی بھی دوسرے ادارے کی طرح میڈیا کو بھی اپنی کارکردگی پر تنقیدی رائے کو خوش دلی سے قبول کرنا چاہیے۔ نیوز روم اور آن لائن فعال پروفائل والے صحافیوں کو رپورٹنگ میں غلطیوں سے نمٹنے کی خاطر احتیاط اور صحافتی اخلاقیات کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ غلطی کی صورت میں اس بات کو یقینی بنائیں کہ تصحیح قارئین تک اچھی طرح سے پہنچائی جائے۔
حال ہی میں، کچھ تنظیموں نے صحافیوں کو حقائق کی جانچ پڑتال کی مہارتوں میں مدد کرنے کے لیے ایک شراکت داری معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ ایک آغاز ہے، ابھی اس ضمن میں بہت کچھ ہونا باقی ہے، یہ سفر اس وقت تک جاری ہے جب تک حقائق کی جانچ میڈیا میں ترجیح نہیں بن جاتی۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ حقائق کی جانچ پڑتال بنیادی طور پر احتساب پر مبنی ہے، حکومت یا اس کے ہمدرد اپنی کارکردگی کے خود منصف نہیں ہو سکتے۔
حقائق کی جانچ پڑتال کا نقطہ نظر محض لیبل لگانے یا بدنام کرنے والی مہم چلانے سے بہت آگے ہے۔ سوشل میڈیا کے بارے میں لکھنے والے مصنف ڈیوڈ پیٹریکاراکوس کے الفاظ میں، ’’آپ تمام معلومات کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں جتنا زیادہ شک پیدا کریں گے، اتنا ہی آپ ان کی سچائی کو پہچاننے کی صلاحیت کو کمزور کریں گے۔‘‘ چنانچہ معلومات کی چھان بین کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ اپنی ساکھ قائم کرتے ہوئے لوگوں تک سچائی پہنچائی جائے۔
۔۔۔
میڈیا میں خواتین کو درپیش چیلنجز
حلیمہ جاوید
٭ہمارے معاشرے میں مختلف شعبوں میں صنفی تقسیم عام ہے۔ یہ تفریق ہمارے سماجی رویوں کی تشکیل کرتی ہے، جس کی بنیاد پر مختلف شعبوں میں کام کرنے والی خواتین سے متعلق ہمارے رویے ظاہر ہوتے ہیں۔ تنخواہ میں فرق، صنفی تعصب، اور مختلف جنسوں کے ملازمین کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک جیسے مسائل کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
کچھ اسی طرح کے مسائل پاکستان کی خواتین صحافیوں کو بھی دریپیش ہیں۔ خواتین نے پاکستانی میڈیا میں اہم کردار ادا کیا ہے اور قومی میڈیا کا منظرنامہ تشکیل دینے میں ان کا قابل قدر حصہ ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرے میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔ وقت کے ساتھ، چیزیں بدل رہی ہیں، لیکن راتوں رات کوئی تبدیلی نہیں لائی جاتی، اور یہ کبھی بھی آسان نہیں ہوتا۔ تبدیلی ہمیشہ مزاحمت کے ساتھ ملتی ہے۔
میڈیا میں خواتین نے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے۔ اینکر پرسن کے علاوہ، فیلڈ رپورٹنگ، تجزیہ نگاری اور کالم نویسی میں بھی ان کی خدمات کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ خواتین کا لکھنا اور معاشرے کے کمزور طبقات کے لیے آواز اٹھانا، خواتین کی ترقی کی علامت ہے۔
اس اہم تبدیلی کے باوجود، مجموعی طور پر خواتین کے لیے ابھی برابری کے مواقع میسر نہیں اور انہیں چند مخصوص ذمہ داریوں کا اہل سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ اس صنفی تفریق کی وجہ سے خواتین کی صلاحیتوں سے مکمل استفادہ نہیں کیا جا رہا۔ کم مواقع ملنے کی وجہ ان پر بہترین کام کی توقعات کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔
فریڈم نیٹ ورک کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، پاکستان میں صحافت کی صنعت میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اندازے کے مطابق 20 ہزار پاکستانی صحافیوں میں سے پانچ فیصد سے بھی کم خواتین ہیں۔ حالیہ مباحثوں نے کام کی جگہ پر خواتین کی حفاظت کے بارے میں اہم بات چیت کو جنم دیا ہے۔ خواتین کا تخفظ اور سازگار ماحول فراہم کیے بغیر ان کی افرادی قوت اور پیداواری صلاحیت کے متعلق درست تجزیہ نہیں کیا جا سکتا۔
خواتین کے لیے انٹرنیٹ پر آن لائن پلیٹ فارم بھی محفوظ نہیں۔ ان کی ٹرولنگ کو بھی خواتین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر بار بار زیر بحث لایا جاتا رہا ہے۔
ان اختلافات اور مسائل کے منظر عام پر آنے کے باوجود، برابری کی جدوجہد ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔ ان تمام چیلنجز کے درمیان خواتین صحافیوں اور ان کی مسلسل جدوجہد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ علاقائی میڈیا اور اس کی رپورٹنگ کو اکثر مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ سے زیادہ بہادر دیکھا گیا ہے۔ یہ خاص طور پر پسماندہ اور دیہی پس منظر سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ملازمت دیتا ہے، جو انہیں بااختیار بنانے کی طرف ایک قدم ہے۔
۔۔۔
گورنمنٹ پلیڈرکی ذمہ داریاں اورحل طلب مسائل
اے عالم
گورنمنٹ پلیڈر یا ڈسٹرکٹ اٹارنی سے مراد وہ شخص ہے جو ضلعی عدالتوں میں حکومت کی طرف سے سول کیسز کی پیروی کرتا ہو۔ سول پروسیجر کوڈ یا ضابطہ دیوانی کے سیکشن 2/7 میں گورنمنٹ پلیڈر کی تعریف کی گئی ہے، اس تعریف کے مطابق کوئی بھی اہل شخص جسے حکومت گورنمنٹ پلیڈر تعینات کرتی ہے۔
وہ تمام فرائض سرانجام دیتا ہے جو ضابطہ دیوانی یا سول پروسیجر کوڈکے تحت اس پر عائد ہوتے ہیں، اس کے علاوہ آرڈر XXVII کے رولB 8 میں بھی گورنمنٹ پلیڈر کی تعریف کی گئی ہے۔
آرڈر XXVII رول 4 سی پی سی کے تحت گورنمنٹ پلیڈر وہ اہم ایجنٹ قرار دیا گیا ہے جو عدالتوں میں حکومت کے مقدمات میں ہر قدم پر پیروی کرتا ہے الغرض گورنمنٹ پلیڈر یا ڈسٹرکٹ اٹارنی سے مراد وہ سرکاری وکیل ہے جو ضلعی عدالتوں میں سرکاری کیسز کا دفاع کرتا ہے۔
گورنمنٹ پلیڈر کی تقرری کیسے ہوتی ہے، کوئی بھی وکیل جو ایل ایل بی کے بعد پانچ سال وکالت کا تجربہ ترجیحی سول سائیڈ پر رکھتا ہو، وہ پبلک سروس کمیشن میں گورنمنٹ پلیڈر کی ملازمت کے تحریری امتحان میں بیٹھ سکتا ہے۔ تحریری امتحان پاس کرنے کے بعد جب وہ انٹریو بھی کوالیفائی کرے تو پبلک سروس کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں حکومت اس کی باقائدہ تقرری کرتی ہے۔
پبلک سروس کمیشن کی سفارشات کے بعد صوبائی محکمہ قانون اس کو باقاعدہ 17 گریڈ میں تعینات کرتا ہے۔ گورنمنٹ پلیڈر یا ڈسٹرکٹ اٹارنی بتدریج گریڈ 17 سے لے کر گریڈ 19 تک اپنے کیرئیر میں سفرکرتا ہے۔
ابتدا میں گریڈ 17میں وہ ایڈیشنل گورنمنٹ پلیڈر /ایڈیشنل اسسٹنٹ اٹارنی کہلاتا ہے، بعد میں پانچ سال سروس کے بعد وہ گورنمنٹ پلیڈر/ڈپٹی ڈسٹرکٹ اٹارنی پوسٹ پر ترقی پاتا ہے جب کہ 12 سال نوکری کے بعد وہ بحیشیت سینئر گورنمنٹ پلیڈر یا ڈسٹرکٹ اٹارنی ترقی پاتا ہے۔
ماضی میں اسی سول سرکاری وکیل کو گورنمنٹ پلیڈر کا درجہ حاصل تھا جب کہ سول پروسیجر کوڈ میں بھی لفظ گورنمنٹ پلیڈرکا ذکر ہے لیکن حال ہی میں خیبرپختونخوا کے صوبائی محکمہ قانون نے گورنمنٹ پلیڈر کے نام تبدیل کرکے اسے ڈسٹرکٹ اٹارنی کا نام دیا ہے۔ ڈسٹرکٹ اٹارنی محکمہ قانون کا سرکاری ملازم ہوتا ہے جو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کے تحت اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے۔
ڈسٹرکٹ اٹارنی سیکرٹری محکمہ قانون و پارلیمانی امور کے ماتحت کام کرتاہے، ڈسٹرکٹ اٹارنی تقریباً 60 سے اوپر صوبائی محکموں کے کیسزکی پیروی ضلعی عدالتوں میں کرتا ہے جس میں سی اینڈ ڈبلیو، ایریگیشن، پولیس، ہیلتھ، تعلیم، معدنیات، ایکسائز، ریونیو، سپورٹس و دیگر محکمہ جات شامل ہیں۔
ضلعی عدالتوں کے علاوہ صوبائی سروس ٹریبونل لیبر کورٹ اور کنزیومر کورٹ میں بھی ڈسٹرکٹ اٹارنی اپنے فرائض سرانجام دیتاہے، جب کہ کچھ ڈسٹرکٹ اٹارنی صوبائی سیکرٹریٹ کے اندر اور باہر مختلف انتظامی عہدوں پر بھی اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں، جس میں سولیسٹر، ڈپٹی سولیسٹر سیکشن آفیسر، لیٹیگیشن آفیسر، ڈپٹی ڈائریکٹر وغیرہ شامل ہیں۔
ڈسٹرکٹ اٹارنی کی بنیادی ذمہ داری ضلعی عدالتوں میں سرکاری کیسز کا اچھے طریقے سے دفاع کرنا ہے، جس میں حاضری سے لے کر ڈرافٹنگ، جواب دعوٰی، شہادتیں، کمیشن اور اپیل شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ضلعی انتظامیہ اور حکومت کو قانونی رائے اور مشاورت بھی دیتا ہے، یاد رہے کہ کرمنل کیسز کا دفاع سرکارکی طرف سے پبلک پراسیکوٹر کرتے ہیں جوکہ محکمہ داخلہ کے تحت آتے ہیں۔
سال 2005 تک گورنمنٹ پلیڈر /پبلک پراسیکوٹر ایک ہی محکمہ تھا اور محکمہ داخلہ کے تحت کام کرتے تھا تاہم سال 2005ء میں خیبر پختونخوا میں اس وقت کی ایم ایم اے حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ سول اور کرمنلز کیسز دونوں سپیشلائیزڈ فیلڈز ہیں لہذا ان دونوں کو علیحدہ کیا گیا۔
محکمہ قانون و پارلیمانی امور میں ڈسٹرکٹ اٹارنیز کی کل تعداد تقریباً 77 ہے جو صوبے کے کل 27 اضلاع میں تعینات ہیں، تمام اضلاع میں سول کیسز کی کل تعداد سات ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جب کہ صوبائی سروس ٹریبونل میں کیسز کی تعداد آٹھ ہزار سے اوپر ہو چکی ہے۔ اسی طرح لیبر کورٹ میں بھی ہزاروں کیسز زیر التوا ہیں۔ لہذا ان 15 ہزار سے زائد کیسز کی پیروی کے لیے اٹارنیز کی تعداد انتہائی کم ہے۔
اس کے علاوہ بھی اٹارنیز کو مختلف قسم کے مسائل کا سامنا ہے جس میں بنیادی مسائل سروس سٹرکچر کا نہ ہونا، کیڈر نہ ہونا، لائبریریوں کا نہ ہونا اور تنخواہ کا پے اسکیل کم ہونا شامل ہیں۔
ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے اٹارنیز نے سال 2015ء میں ایک ایسوسی ایشن ’کے پی لوا آفیسر ویلفیر ایسوسی ایشن‘ (KPLOWA) کے نام سے بنائی تھی، کے پی لوا جو کہ سالانہ الیکشن کی بنیاد پر اپنے صدراور کابینہ کا انتحاب کرتی ہے۔
امسال نور زمان خان خٹک بحیثیت صدر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ڈسٹرکٹ اٹارنیز صوبائی حکومت کے افسران کے گروپس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور پی ایم ایس اور پی اینڈ ڈی آفیسر کے ہمراہ صوبے کی ترقی میں اپنا کردار احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں۔ تاحال ڈسٹرکٹ اٹارنیز نے مختلف اضلاع میں لاکھوں ایکڑ سرکاری زمین عدالتی کاروائی اور فیصلوں کے نتیجے میں قبضہ مافیہ سے واگزار کی ہے، اس کے علاوہ بھی صوبائی حکومت کو ریونیو کی مد میں کروڑوں روپے کا سالانہ فائدہ پہنچایا جا رہا ہے۔
اٹارنیز اگر ایک طرف صوبائی حکومت کی نمائندگی بطور آفیسر کر رہے ہیں تو دوسری طرف عدلیہ میں بھی ان کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور عوام کو انصاف کی فراہمی میں جوڈیشری کے ہمراہ کوششوں میں مصروف ہیں۔ ڈسٹرکٹ اٹارنیز موجودہ حکومت سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اٹارنیز کے مسائل کو بہتر طریقے سے حل کرنے میں مدد دے گی، نیز وقت کا تقاضا ہے کہ صوبائی محکمہ قانون اٹارنیز کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق بہتر تربیت دے اور ان کے کیرئیر کو جدید خطوط پر استوار کرے۔
The post نقطۂ نظر appeared first on ایکسپریس اردو.