سیالکوٹ شہر کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہاں اردو ادب کی دو قد آور ادبی شخصیات نے اپنی زندگی کی پہلی سانس لیتے ہوئے دنیا میں عملی طور پر شریک ہونے کا اعلامیہ جاری کیا۔
ان میں سر فہرست اردو اور فارسی کے عہد آفریں شاعر و مفکر، شاعر مشرق حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال (1877ء) اور معروف شاعر فیض احمد فیض کا نام آتا ہے، جو 1911ء میں پیدا ہوئے۔ آج جب کہ فیض کو سو برس گزرچکے ہیں۔ اقبال کے بعد ہر جہت میں فیض ہی فیض نظر آتے ہیں، میر تقی میر، غالب اور اقبال کے بعد فیض شناسی کا دائرہ تیزی سے وسیع ہوا ہے۔ اگر افتخار عارف یہ کہتے ہیں کہ ’’بیسوی صدی میں اردو کی ادبی دنیا میں اقبال کے بعد فیض دوسری شخصیت ہیں، جن کے بارے میں بہت لکھا گیا تو یہ بات سو فی صد درست ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ بڑے بڑے ناقدوں نے فیض کی شخصیت و فن کے مختلف گوشوں پر مسلسل لکھا ہے کہ اس انبوہ کا حساب لگانا بھی تحقیق کے ایک نئے مضمون کا سبب بن سکتا ہے۔ خاص کر حکومت پاکستان کی جانب سے 2011ء کو ’’فیض صدی‘‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا تو فیض پر کئی رخ اور زاویوں سے تحقیقی کتابیں، رسالوں کے فیض نمبر گوشوں کا ایک سلسلہ شروع گیا۔ ملکی سطح پر اور بیرون ملک جگہ جگہ فیض کے حوالے سے تقاریب و سیمینار کا انعقاد کیا جاتا رہا۔
فیض صدی کے پس منظر میں کینیڈا کے ڈاکٹر تقی عابدی کی ’’فیض فہمی‘‘ اور ڈاکٹر نثار ترابی (راولپنڈی) کی ترتیب کردہ کتاب ’’فکرفیض‘‘ مجھے فیض پر تحریر کردہ کتابوں میں اہم اور معتبر اضافہ دکھائی دیا۔ تاہم جب زیر تبصرہ کتاب ’’ذکر فیض‘‘ جو بڑے سائز کے 1084 صفحات پر مشتمل ہے اور جسے معروف ترقی پسند مصنف سید مظہر جمیل نے مرتب کیا اور محکمۂ ثقافت ، سیاحت اور نوادرات حکومت سندھ کے تعاون سے شائع کراکر منظر عام پر لائے، نظر سے گزری تو اتنا ضخیم کام دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ کتاب فیض کے حوالے سے ایک مکمل دستاویز ہے، جس میں فیض کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر تفصیلی کام کیا گیا ہے۔
مظہر جمیل ’’ذکر فیض‘‘ سے قبل بھی اہم ادبی کتابیں مثلاً گفتگو، آشوب سندھ اور اردو فکشن، جدید سندھی ادب، میلانات رجحانات امکانات، انگارے سے پگھلا نیلم تک (سجاد ظہیر کے حوالے سے) سوبھوگیان چندانی شخصیت و فن، سندھی زبان و ادب کی مختصر تاریخ اور ایک صدی کی آواز محمد ابراہیم جویو، تحریر کرچکے ہیں۔ ان کا نام اردو ادب کا ایک معتبر نام ہے۔ تمغۂ امتیاز حاصل کرنے والے مظہر جمیل نے فیض احمد فیض کی سوانح لکھنے کا کب سوچا اور جب عملی طور پر میدان میں اترے تو کہاں کہاں سے مواد حاصل کیا؟ کتنی صعوبتیں برداشت کیں؟ اس کا اندازہ تو مظہر جمیل ہی کو ہوگا۔ تاہم یہ ایک محنت طلب کام تھا جو مظہر جمیل ہی مکمل کرسکتے تھے۔
’’ذکر فیض‘‘ 33ابواب پر مشتمل ہے اور ان تمام ابواب میں فیض کی ذاتی زندگی کے واقعات، خاندانی پس منظر، فیض کی شاعری کی ابتداء، حصول ملازمت سے لے کر قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے تک کے واقعات شادی کے لیے والدین کی کاوشیں اور فیض کا ایلس کو پسند کرکے شادی کرلینا، ترقی پسند تحریک اور دیگر تحریکوں میں فیض کا کردار، بحیثیت مزدور لیڈر مختلف محکموں میں ٹریڈ یونین سرگرمیوں کی حمایت کرنا انھیں بھرپور حوصلہ دینا، دوسری جنگ عظیم، تقسیم برصغیر پاک و ہند اور سانحہ مشرقی پاکستان کے تناظر میں فیض کا کردار، فوج اور پھر صحافت میں قدم جمانا، جیل میں گزارے ایام ، ایفروایشیائی ادیبوں کی تحریک اور کانفرنس، فلسطینیوں کے لیے تحریری و عملی حمایت، بین الاقوامی لینین امن ایوارڈ کا ملنا، روس اور دیگر بیرونی ممالک میں فیض کی مقبولیت، مذاکروں میں شرکت، کراچی میں قیام اور ادبی وتعلیمی خدمات، فیض کی شاعری کے مختلف زبانوں میں ترجمے، فیض احمد فیض کی عملی جدوجہد، لوگوں کے منافقانہ رویوں کا اندازہ لگانا، فیض کے آخری ایام، فیض کی تحریر کردہ مختلف موضوعات پر کتابوں کا جائزہ، خاص کر مشہور ہوجانے والی نظموں، غزلوں کا ذکر، فیض کا موسیقی اور فلم بینی کی طرف متوجہ ہونا، خاندان کا مالی بحران، راولپنڈی سازش کیس میں گرفتاری، خطوط فیض بنام ایلس اور دیگر سیکڑوں موضوعات کو مظہر جمیل نے مختلف عنوانات کے تحت جمع کیا ہے۔
انگریزی اور اردو کی 156کتابوں، 43 ادبی جریدوں وغیرہ کے مطالعے کے نچوڑ سے ’’ذکر فیض‘‘ وجود میں آئی ہے، جو اول تا آخر فیض کے حوالے سے مکمل دستاویز ہے، جس میں فیض کی شخصیت کے سارے رنگوں پر تفصیلاً بات کی گئی ہے اور حوالے بھی دیے گئے ہیں۔ ایم اے اردو کا طالب علم ہو یا فیض پر کسی بھی رخ سے مزید تحقیقی کام کرنے والا، اس کتاب سے بہت سی مدد حاصل کرسکتا ہے۔
’’ذکر فیض‘‘ میں بہت سے دل چسپ واقعات بھی شامل کیے گئے ہیں، جن کو پڑھ کر نہ صرف معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، بل کہ ذہن و دل پر خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آئیے ’’ذکر فیض‘‘ میں شامل مختلف النوع موضوعات سے کشید کردہ اقتباسات اور واقعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
فیض احمد فیض کے آباء واجداد کا تعلق چوںکہ گائوں سے رہا ہے لہٰذا فیض کو دیہات کی عام فضا ہی نہیں بھاتی تھی بلکہ سرسبز کھیتوں سے اٹھنے والی سوندھی سوندھی خوشبو بھی دل پذیر لگتی تھی۔ گائوں کے ایک واقعے کو یوں ’’ذکر فیض‘‘ میں بیان کیا گیا ہے، ’’ فیض بچپن میں ایبٹ آباد کے کھٹملوں کی پہنچائی ہوئی خوف ناک اذیت رسانی کو بھی کبھی نہ بھول سکے جن کی بدولت انھیں کئی دن بستر علالت میں بسر کرنے پڑے تھے۔ وہ اپنے بڑے بھائی طفیل کے ساتھ گرمیوں کی چھٹی گزارنے کے لیے اپنی کسی رشتے کی بہن کے گھر گئے، جو ایبٹ آباد کے علاقے میں بیاہی گئی تھیں۔
وہاں ان کے شوہر کے پیر صاحب ایک دن انھیں ایبٹ آباد کی سیر کو لے گئے اور وہاں کسی کے مہمان خانے پر رات کو قیام کرنا پڑا لیکن مختصر سا سفر ایبٹ آباد کے کھٹملوں کی وجہ سے یادگار بن گیا، کیوں کہ رات بھر کھٹملوں نے دونوں بھائیوں کو اس بری طرح کاٹا کہ دونوں کے جسم پر ان گنت سرخ دھبے پڑگئے۔ فیض اس سے اتنے متاثر ہوئے کہ کئی دنوں تک انھیں شدید بخار میں بستر پر لیٹنا پڑگیا۔ اس واقعے کے بعد وہ ایبٹ آباد کے کھٹملوں کو کبھی نہ بھول سکے۔‘‘ یقیناً یہ واقعہ دل چسپ اور حقیقی ہے تاہم میں یہاں یہ واضح کردوں کہ ایبٹ آباد میں کھٹمل تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اور اگر ہوں بھی تو اس بے دردی سے نہیں کاٹتے۔
دراصل ایبٹ آباد کے گائوں میں بالخصوص ان علاقوں میں جہاں مویشی رکھے ، پالے جاتے ہیں ایک انتہائی باریک کالے رنگ کا کیڑا جسے ’’پسو‘‘ کہا جاتا ہے اور گائوں والے اسے ’’پیوں‘‘ کہتے ہیں پایا جاتا ہے، جب کوئی سونے کے لیے بستر پر لیٹتا ہے تو پسو اسے کاٹنا شروع کردیتا ہے اسے ہاتھ سے مارنا مشکل ہے۔ چوں کہ یہ خود کو سمیٹ لیتا ہے۔اس وضاحت سے مراد یہ ہے کہ وہ پسو یا پیوں تھے جن کو فیض کھٹملوں سمجھتے رہے۔
فیض بنیادی طور پر رومانوی طبیعت کے مالک تھے۔ صفحہ67 پر یہ واقعہ درج ہے کہ انھیں ایک افغانی دوشیزہ سے سولہ سترہ سال کی عمر میں پہلی نظر میں ہونے والا عشق ہوا وہ اسے پا تو نہ سکے مگر اس عشق نے ان کی شاعری کو ضرور دوام بخشا۔ ’’نقش فریادی‘‘ میں اس محبت سے متاثر ہوکر لکھی جانے والی شاعری ملتی ہے۔ اس کے علاوہ صفحہ 57اور 58کی یہ سطور ملاحظہ ہوں،’’سب ہی ہمیں اپنی محبت اور پیار کا نذرانہ پیش کررہے تھے خاص طورپر عورتیں۔ عجیب تجربہ تھا۔‘‘،’’ایک عورت نے فرط محبت سے اتنے زور سے منہ چوما کہ دور تک اس چومنے کی آواز گونجتی تھی ہم تو اس تجربے سے مدہوش سے ہوگئے تھے۔‘‘
یہی فطری جذبات فیض کو ایلس تک بھی لے گئے۔ فیض احمد فیض ایم اے او کالج امرتسر میں زیرتعلیم تھے، جس کے پرنسپل معروف شخصیت ایم ڈی تاثیر تھے، فیض سے ان کی قربت بن چکی تھی کرسٹا بیل، ایم ڈی تاثیر کی بیوی تھیں، جب کہ ایلس کیتھرین جارج، ایم ڈی تاثیر کی سالی تھیں۔ وہ جب امرتسر اپنی بہن کرسٹا بیل سے ملنے آئیں تو ان کی ملاقات فیض سے ہوگئی۔ یہ دوستی محبت اور پھر شادی میں تبدیل ہوگئی۔ فیض کی والدہ بمشکل اس رشتے پر راضی ہوئیں اور سادگی سے شادی ہوگئی۔ شادی کے موقع پر ساری رسمیں مشرقی طریقے سے ادا ہوئیں، جس کا تذکرہ تفصیل سے اس کتاب میں مصنف نے درج کیا ہے۔
28 اکتوبر1941ء کو یہ شادی منعقد ہوئی دوران رسم دلہن (ایلس) کے ہاتھ پرقرآن رکھا گیا اور فیض کی والدہ نے ایلس کو کلمہ پڑھواکر اس کا اسلامی نام ’’کلثوم‘‘ رکھا۔ یہاں تک پہنچنے کے بعد میں سوچتا رہا کہ جب ایلس نے اسلام قبول کرلیا ان کا نام تبدیل کرکے کلثوم رکھا گیا تو پھر کیا وجہ ہے کہ اب تک ہم ایلس فیض ہی لکھتے ہیں۔ کلثوم کیوں معروف نہ ہوسکا اس کا جواب بھی آگے جاکر مظہر جمیل نے صفحہ 444 پر دیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’اس ضمن میں ’’دست صبا‘‘ کے انتساب کا ذکر بھی دل چسپی سے خالی نہیں کتاب کا انتساب ’’کلثوم کے نام‘‘ تھا دراصل ان دنوں فیض قید کی زندگی گزار رہے تھے، چوں کہ ان کی والدہ نے ایلس کا نام کلثوم رکھا، لہٰذا اس نام کو فیض نے بھی جاری رکھنے کی کوشش کی۔
تاہم اس کو یقیناً ایلس نے پسند نہیں کیا ہوگا، جبھی فیض نے ایک خط میں یوں لکھا،’’رہی انتساب کی بات تو اگر تم اپنے آپ کو ایلس کہنا چاہتی ہو تو تمہیں اختیار ہے اس لیے کہ کتاب بھی تمہاری ہے۔ میں نے’’کلثوم‘‘ اس لیے لکھا کہ اول یہ مشرقی نام ہے دوسرے یہ کہ لوگ اس کے بارے میں تم سے سوال کریں گے جو شاید تمہارے لیے تفریح طبع کا ساماں ہو، بہرحال جو تمہارا جی چاہے کرو۔‘‘ یہ بات بھی اس کتاب میں مکمل وضاحت سے ملتی ہے کہ فیض کے دور اسیری میں ایلس نے ایک مشرقی عورت کی طرح تن تنہا حالات کا سامنا کیا۔ سائیکل چلاکر دفتر آنا جانا کیا، اپنی دونوں معصوم بیٹیوں سلیمہ اور منیزہ کو بھی سنبھالے رکھا اور مسلسل فیض کے کیس کی پیروی کرکے آخر انھیں رہا کرایا۔
اس کتاب سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فیض نے اپنے دوست معروف سائنس داں ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی کی محبت میں اپنی بیٹی کا نام ’’سلیمہ‘‘ رکھا۔ فیض کی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں جو اس کتاب کے مطالعے کے بعد کھل کر ہمارے سامنے آتے ہیں، مثلاً فیض کو موسیقی سے دل چسپی تھی۔ خواجہ خورشید انور ان کے دوستوں میں سے تھے۔ وہ کمیونسٹ مینی فیسٹو، سوشلزم کی کتابوں میں دل چسپی رکھنے کے ساتھ ساتھ جدید علوم پر بھی نگاہ و دسترس رکھتے تھے۔
ترقی پسند تحریک، سمیت نئی تحریکوں سے وابستگی، انڈین آرمی میں کرنل کے عہدے تک پہنچ کر اسے چھوڑ کر صحافت کی دنیا میں قدم رکھنا اور پاکستان ٹائمز، امروز ، لیل و نہار سے لے کر الحمرا آرٹس کونسل لاہور، غالب لائبریری کراچی، آرٹس کونسل کراچی، کراچی کی غریب بستی میں اسکول کا نظام سنبھالنا، ماہی گیروں کی سوسائٹی کا قیام، پاکستان ریلوے اور پاکستان پوسٹل سروسز کے مزدوریونین کی راہ نمائی کرنا، ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں دل چسپی لینے کا بھرپور جذبہ، ثقافتی امور میں دل چسپی، کئی بین الاقوامی سطح پر ادبی و سماجی تقاریب میں بھرپور شرکت، فلسطین کے مجاہدین ہوں یا تقسیم، برصغیر کے دوران قتل کیے جانے والے افراد یا پھر سانحۂ مشرقی پاکستان کی زد میں آئے ہوئے مظلوم لوگ سب کے لیے فیض کا دل مچلتا تھا۔
ان کے متعلق درج واقعات اس تحریر میں شامل کرنا ممکن نہیں البتہ ’’ذکر فیض‘‘ میں ان سب کا تفصیلی طور پر ذکر ملتا ہے۔ کچھ دیگر اقتباسات و واقعات بھی قابل توجہ ہیں۔ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں ان کو پڑھ کر آپ کو کئی قسم کے مشاہدات و تجربات کا اور فیض اور اس کے اہل خانہ پر گزرنے والی کیفیت کا اندازہ لگانے میں آسانی ہوگی۔
’’شادی کے تھوڑے ہی عرصے میں ایلس، فیض کے شاعرانہ مزاج، لاابالی پن، خاموشی اور کم گوئی سے خوب اچھی طرح آگاہ ہوچکی تھی اور فیض بھی ایلس کی تلون مزاجی اور سخت گیری سے واقف تھے، لیکن ایک دوسرے کے عیب و ہنر سے مکمل آگہی کے باوجود وہ ایک دوسرے کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ دخیل اور لازم و ملزوم ہوتے چلے گئے تھے۔‘‘ فیض کی اسیری کے دوران نہ صرف ایلس بلکہ ان کی بچیوں کو بھی شدید ذہنی اذیت اٹھانی پڑی۔ سلیمہ اس تناظر میں لکھتی ہیں،’’بخاری صاحب صرف ایک مرتبہ ہمارے ہاں آئے اور ہمیں پانچ سو روپے دیے۔ اس کے بعد وہ کبھی نہ آئے کاش وہ ہمیں پانچ سو روپے کی جگہ ہمارے گھر پانچ سو مرتبہ آتے، کیوں کہ ہم ان سے بہت محبت کرتے تھے۔‘‘
فیض احمد فیض کے جو شعری مجموعے شائع ہوئے ان میں ’’نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہہ سنگ، سر وادی سینا، شام، شہریاراں، مرے دل مرے مسافر، غبار ایام، نسخہ ہائے وفا (کلیات) کے علاوہ میزان (تنقیدی مضامین کا مجموعہ)، مہ و سال آشنائی شامل ہیں، جب کہ لندن سے جو کلیات شائع ہوئی اس کا نام ’’سارے سخن ہمارے‘‘ رکھاگیا۔ فیض کی شاعری کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے۔ روس میں سب سے زیادہ کام ہوا۔ فیض نے پنجابی شاعری بھی کی اور فلم سازی کا تجربہ بھی، بدقسمتی سے وہ فلم سازی کے تجربے میں بری طرح ناکام رہے۔ فیض نے جدید اردو شاعری (185ء سے 1939ء تک) کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے کے لیے درخواست جمع کرائی تاہم اسے آگے بڑھا نہ سکے اور آرمی میں چلے گئے۔
13فروری1911ء کو پیدا ہونے والے فیض کا دل کی شدید تکلیف کے بعد 20نومبر1984ء کو میواسپتال لاہور میں انتقال ہوگیا اور 21نومبر 1984ء کو ماڈل ٹائون قبرستان لاہور میں سپرد خاک کردیا گیا۔
فیض احمد فیض کی سوانح عمری ’’ذکر فیض‘‘ میں سلیمہ ہاشمی، منیزہ ہاشمی، افتخار عارف، ڈاکٹر علی مدیح ہاشمی کے مضامین شامل ہیں۔ مجموعی طور پر یہ ایک انتہائی معلوماتی دستاویز ہے اور اس کی اشاعت صوبائی محکمۂ ثقافت سندھ کے سیکریٹری ثاقب احمد سومرو نے کی ہے، جو یقیناً خوش آئند بات ہے اور اس کے لیے ثاقب سومرو قابل داد ہیں۔ کتاب کی قیمت 1200رکھی گئی ہے جو مناسب ہے۔ اس کتاب میں ایک کمی کا احساس ضرور ہوتا ہے وہ فیض کی شاعری پر مختلف گوشوں سے لکھے جانے والے تنقیدی و توصیفی مضامین ہیں، جن کا خاطر خواہ ذکر نہیں ملتا مگر سوانح کے پس منظر میں مظہر جمیل کی محنت قابل ستائش ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ فیض کے حوالے سے یہ ایک جامع قابل مطالعہ کتاب ہے جس سے بہت کچھ حاصل کرنا ممکن ہے۔
دل چسپ تخلص
دوران اسیری حیدرآباد جیل میں فیض نے پندرہ روزہ مشاعرے کی بنیاد رکھی جس میں وہ اور ان کے اسیر ساتھی شریک ہوئے۔ اس میں جو تخلص مقرر کیے گئے، ان سے ان تمام اسیروں خاص کر فیض کے بلند حوصلہ ہونے کی شہادت ضرور ملتی ہے۔
مصنف مظہر جمیل نے اس بارے میں لکھا ہے، ’’یاران طریقت نے ہر ایک شخصیت کے لیے ایک اچھا سا تخلص بھی رکھ لیا تھا جس سے اس کی شخصیت کا اظہار ہوتا تھا مثلاً جنرل اکبر خان تخلص ’’فتوری‘‘ جنرل نذیر احمد کا ’’سارس‘‘ ایئر کموڈور جنجوعہ کا ’’پٹاخہ‘‘ بریگیڈیر صدیق خان کا ’’مصدق ‘‘ بریگیڈیر لطیف کا ’’خبطی‘‘ لیفٹیننٹ کرنل نیاز محمد ارباب کا ’’خر‘‘ لیفٹیننٹ کرنل ضیاء الدین ’’گڑبڑ‘‘ میجر محمد اسحاق ’’ڈنگا‘‘ میجر حسن خان کا ’’جاہل‘‘ کیپٹن ظفراﷲ پوشنی کا ’’خبیث‘‘ کیپٹن خضر حیات کا ’’پیٹو‘‘ فیض احمد فیض کا ’’کاہل‘‘ سید سجاد ظہیر کا ’’لاغر‘‘ محمد حسین عطا کا ’’گوسفند‘‘ تخلص مخصوص کیے گئے، جنہیں لوگوں نے خوش طبعی کے ساتھ قبول کرلیا، لیکن کسی نے اپنے تخلص کو شاعری میں استعمال نہیں کیا۔‘‘