غزل
خود سے جب دور بہت دور نکل جاؤں میں
اپنی جانب ہی پلٹنے کو مچل جاؤں میں
رائج الوقت کوئی سکہ نہیں ہوں لیکن
کیا پتہ آپ کے ہاتھ آؤں تو چل جاؤں میں
اپنی مرضی کا بنا لینا اسی وقت مجھے
جب کسی لمحہ ٔ نازک میں پگھل جاؤں میں
لڑکھڑاؤں گا کئی بار رضا سے تیری
ایک بار اپنے ارادے سے سنبھل جاؤں میں
خشک مٹی میں نمی پا کے نمو جاگتی ہے
کیا خبر ہجر کے موسم میں ہی پھل جاؤں میں
بعض اوقات حقیقت بھی فرومایہ لگے
بعض اوقات کھلونوں سے بہل جاؤں میں
کوئی کردار بجز مرکزی کردار نہ لوں
اور اسی ضد میں کہانی سے نکل جاؤں میں
اک خطرناک ارادے سے بڑھوں اپنی طرف
درمیاں آپ جب آ جائیں تو ٹل جاؤں میں
زندگی راہ ِ محبت پہ گزاروں جاذبؔ
اور پھر ہنستا ہوا سوئے اجل جاؤں میں
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدین)
۔۔۔
غزل
کتنے ہی ماہ و سال سے آگے نہیں گیا
یہ دل ترے خیال سے آگے نہیں گیا
دیکھے ہیں شہر میں کئی ہم نے حسیں مگر
کوئی ترے جمال سے آگے نہیں گیا
اک شخص بے قرار ہے تیرے فراق میں
جو ہجرِ پُر ملال سے آگے نہیں گیا
چہرے پہ برہمی لیے وہ تند خو مزاج
ہر وقت کے جلال سے آگے نہیں گیا
اک وہ فضول خرچ ہے شافی کہ الاماں
اک میں ہوں اعتدال سے آگے نہیں گیا
(محسن رضا شافی۔ کبیروالا)
۔۔۔
غزل
یار کو دیکھتے رہنا ہے عبادت میری
کوئی کس طرح لگا سکتا ہے قیمت میری
سارے عالم سے گریزاں ہے طبیعت میری
صرف پُر درد دلوں پر ہے حکومت میری
جاگ اٹھی ہے میرے عجز سے قسمت میری
ڈھل گئی یار کی تصویر میں صورت میری
وحشت و کرب کی جس سطح پہ آ پہنچا ہوں
قیس کر لے گا بہت جلد ہی بیعت میری
عین ممکن ہے ترے رنگ میں ڈھل جاؤں میں
بس ترا قرب بدل سکتا ہے فطرت میری
اُس کی بس دوسری جانب ہی نظر اٹھی تھی
اور فق پڑنے لگی لمحوں میں رنگت میری
زندگانی کے عوض عشق خریدا تیرا
بڑھتی جاتی ہے ہر اک لمحہ یہ دولت میری
(مستحسن جامی۔ خوشاب)
۔۔۔
غزل
بچھڑتے وقت یہی حادثہ عجیب ہوا
میں دور ہونے لگا تھا کہ وہ قریب ہوا
بھرے وہ زخم جو ناسور ہونے والے تھے
کسی کا دستِ مسیحائی جب نصیب ہوا
ترے بدن کی طنابیں تو میں نے کھینچی تھیں
مگر یہ خیمہ کسی اور کو نصیب ہوا
جو میرے سایے پہ پاؤں کبھی نہ دھرتا تھا
اُسی کے ہاتھ سے میں زینتِ صلیب ہوا
وہ ساتھ تھی تو زمانہ رقیب تھا میرا
بچھڑ گئی ہے تو اب آسماں رقیب ہوا
کسی قدیم اداسی نے دل پہ دستک دی
کوئی سکوت خلاؤں پہ جب مہیب ہوا
(علی حیدر علوی۔ شیخو پورہ)
۔۔۔
غزل
دلِ تباہ! حمایت ہو پوری آنکھوں کی
کہ خود بتائیں گے ہم بے قصوری آنکھوں کی
صلوٰۃِ عشق ادا ہو درونِ مسجدِ دل
اور اُس کے بعد تلاوت زبوری آنکھوں کی
فراق کھا گیا رنگِ سفید، چہرے کا
سیاہی چاٹ گئی تجھ سے دوری، آنکھوں کی
زبان ڈرتی ہے ہلنے سے بھی، ترے آگے
کہ رہ نہ جائے کوئی بات ادھوری آنکھوں کی
سکون کے لیے درکار سایہ زلفوں کا
خمار کے لیے بوتل ضروری آنکھوں کی
(زبیر حمزہ۔ قلعہ دیدار سنگھ)
۔۔۔
غزل
وہ جو بچھڑا تو کہیں بھی مری شنوائی نہ تھی
اس کی پھر بعد میں کوئی بھی خبر آئی نہ تھی
اس کا گھر تو تھا مرے گھر سے بلندی پہ بہت
اس کی سوچوں میں مگر کوئی بھی اونچائی نہ تھی
رات ہم راز تھی آتی تھی ہر اک چیز نظر
دن جو روشن ہوا پھر آنکھ میں بینائی نہ تھی
مہرباں ان پہ اگرچہ رہا مہ تاب فلک
روشنی میرے ستاروں کی بھی ہر جائی نہ تھی
عمر بھر چلتے رہے ہاتھ میں ہم ہاتھ لیے
سچ تو یہ ہے کہ ذرا بھر بھی شناسائی نہ تھی
اس کے کلمات بہت سخت تھے یہ مان لیا
اس کی باتوں سے مجھے کوئی بھی رسوائی نہ تھی
گفتگو کرتا تھا جیسے کوئی خوشبو ہو شہابؔ
شہر میں اس کی مہک کی بھی پزیرائی نہ تھی
(شہاب اللہ شہاب۔منڈا، دیر لوئر، خیبر پختونخوا)
۔۔۔
غزل
یہ کس کا صبح کے منظر سے دل دکھا ہوا ہے
یہ کون سلسلۂ شام سے جڑا ہوا ہے
ابھی فضا بھی بہت گرد سے اٹی ہوئی ہے
ہماری رو میں بھی تھوڑا خلل پڑا ہوا ہے
سمے کی ڈور کو گرہیں لگاتا سوچتا ہوں
کہ میرے لمحۂ موجود کو یہ کیا ہوا ہے؟
یہ لو نہیں ہے پھریرا ہے لہلہاتا ہوا
یہ بس چراغ نہیں ہے علم لگا ہوا ہے
ہماری آنکھ کے نم سے نمو پکڑتا ہوا
کسی کا ہجر میرے سامنے بڑا ہوا ہے
میں اس کی رفت کا اندازہ کر نہیں پایا
مجھے لگا کہ یہ منظر یہیں رکا ہوا ہے
مجھے نکالا گیا ہے بھرے مدینے سے
غریبِ ربذہ ہوں صحرا کو گھر کیا ہوا ہے
(حسین فرید۔ تلمبہ)
۔۔۔
غزل
اُس کی نظروں میں ابھی زیر و زَبر ہونا ہے
صحبتِ غیر کا جب اس پہ اثر ہونا ہے
اب محبت کے چراغوں کی ضیا کم کم ہے
یوں ہی اک روز یہ ویران نگر ہونا ہے
یوں نہیں جسم کو ہم قبر بنائے رکھتے
ہم پہ اُس شخص کی چاہت کا اثر ہونا ہے
وہ بھی آنکھوں میں وفا لے کے پلٹ آئے گا
اُس نے اک روز تو پھل دار شجر ہونا ہے
رات ایسی بھی تو آئے گی کبھی آنگن میں
لمحہ ٔ زیست نے جب زیرِ سحر ہونا ہے
زندگی! لا شۂ قسمت پہ گنوا دو خود کو
غم کے عالم میں تجھے ایسے بسر ہونا ہے
(شناس جعفری۔ لیہ)
۔۔۔
غزل
اک نئی زندگی کی دعوت ہے
خاک ہونا ہزار نعمت ہے
پڑھ چکا ہوں میں اپنی نظروں سے
تیرے چہرے پہ سب وضاحت ہے
جس نے مجھ کو جدا کیا تجھ سے
اس حقیقت کا نام قسمت ہے
یاد آتی ہے وقت پڑنے پر
یہ ضرورت بھی کیا مصیبت ہے
کیا پتہ پھر نصیب ہو کہ نہ ہو
تیرا دیدار بیش قیمت ہے
کتنی رنگیں ہے خواب کی دنیا
مجھ کو تعبیر کی ضرورت ہے
عکس جس کا نہ ہو نگاہوں میں
وہ فقط نام کی محبت ہے
آستیں میں بجائے سانپوں کے
دوست پلنے لگے ہیں حیرت ہے
عشق اب ہے زمانہ ساز احمدؔ
اس کی ہر دَور پر حکومت ہے
(احمد معاذکہوٹہ۔راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
عشق ہم نے مزید کرنا ہے
کچھ غموں کو شدید کرنا ہے
بادشاہی کو چھوڑ دیں گے ہم
حسن کو بس مرید کرنا ہے
خود سے میں جنگ ہار جاتا ہوں
رگِ جاں کو حدید کرنا ہے
ہر روایت کو مار دیتا ہوں
بس غزل کو جدید کرنا ہے
ہم سے تنسیخِ حق نہیں ہونا
تو نے ہم کو شہید کرنا ہے
اک جھلک پیار کی ضرور ہوگی
ایک دو پل کشید کرنا ہے
(سیف علی عدیل۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
کسی کی مد بھری آنکھوں کو بے وفا لکھ دے
ہجومِ یار میں اے دل مجھے تنہا لکھ دے
یونہی تنہائی میں رو رو کے دل بہل سا گیا
کہ جیسے موت کسی بیمار کو شفا لکھ دے
تمھارے بعد محبت میں جل رہا ہے بدن
مرے حبیب مرے حق میں اک دعا لکھ دے
مجھے تلاش میں ہیروں کی سب ملے پتھر
سو اب نصیب میں اک یارِ باوفا لکھ دے
ہمارے سینے سے زیادہ جو زخم پیٹھ پہ ہیں
اصولِ یار میں شامل ہوئی دغا لکھ دے
ملا ہے تجھ کو جو چندہ کسی کمینے سے
اب اگلے پل میں اسے شیخ پارسا لکھ دے
کسی حسیں نے درِ عشق پہ دستک دی ہے
تو میرے دل کا دریچہ بھی اس پہ وا لکھ دے
(عامرمُعان۔ کوئٹہ)
۔۔۔
غزل
اپنے قد سے بڑا نہ ہو جائے
آدمی ہے خدا نہ ہو جائے
یوں عقیدت سے پیش مت آؤ
دیکھ پتھر خدا نہ ہو جائے
یار اتنا نہ پیار کر اس کو
دیکھنا بے وفا نہ ہو جائے
جال زلفوں کا کس کے رکھنا تم
قید سے وہ رِہا نہ ہو جائے
بس کے اتنا ہی سوچ کر دینا
درد حد سے سوا نہ ہو جائے
میں کرم اس لیے پریشاں ہوں
یار مجھ سے جدا نہ ہو جائے
(کرم حسین بزدار۔ گھوٹکی)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.