میں وارث شاہ کے دربار کے احاطے میں داخل ہوا تو دائیں جانب ایک نلکا تھا۔ ایک گیڑنے والا نلکا، وہ نلکا جو کبھی کسی زمانے میں تقریباً ہر گھر کی زینت ہوا کرتا تھا۔
اگرچہ یہ نلکا ہمارے گھر نہ تھا مگر میں جب جب اپنے کسی ایسے رشتے دار کے ہاں جاتا جن کے گھر کے گیڑنے والا نلکا ہوتا تو میں اسے بڑے شوق سے چلاتا۔ نلکا گیڑنا بھی ایک فن ہے۔ آپ نلکے کے منہ کے آگے ہاتھ رکھتے ہیں، اسے دو تین بار گیڑتے ہیں۔ ایسا کرنے سے پانی نلکے کے اندر ہی جمع ہوجاتا ہے۔ ہاتھ پیچھے کرنے پر پانی زیادہ مقدار میں باہر نکلتا ہے۔
اب ایسے نلکے میرے کسی رشتے دار کے ہاں نہیں مگر اکثر دیہات میں اب بھی یہ نلکے کام کر رہے ہیں، جب کہ بہت سارے خشک ہوچکے ہیں۔ وارث شاہ کے احاطے میں ویسا ہی ایک نلکا تھا۔ ایک گیڑنے والا نلکا۔ قریب ہی بجلی والی موٹر لگی تھی اور اس کے ساتھ ٹوٹیاں بھی تھیں۔ یہ نظام تو میرے گھر میں بھی تھا۔
میں نے اسی لیے نلکا گیڑا اور ہاتھ منہ دھونے لگا۔ سوچا ذرا صاف ستھرا ہو کر، ایک بیبا بچہ بن کر وارث شاہ سے ملنے جاتا ہوں۔ میں نلکے سے ابھی ہٹا ہی تھا کہ میرے سامنے ایک تقریباً سفید بالوں اور داڑھی والا آدمی کھڑا ہوگیا۔
وہ میرے سامنے نہیں آیا تھا۔ اس نے تو مجھے دیکھا بھی نہ تھا۔ وہ مجھے بھلا کیوں دیکھتا۔ مجھے اس کی طلب تھی، اسے تو نہ تھی۔ اور سچ مانیں تو میں صرف اسی کی طلب میں سیالکوٹ سے اٹھ کر جنڈیالہ شیرخان میں موجود صوفی شاعر وارث شاہ کے سرہانے کھڑا تھا۔ میں نے اسے الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا ہر جگہ دیکھا ہوا مگر جب وہ اچانک میرے روبرو پہلی بار آیا تو میں سنبھل ہی نہ سکا۔
وارث شاہ کے پاس جانے سے پہلے میں نے بہت ساروں سے پوچھا تھا کہ کیا میریان سے ملاقات ہو سکے گی، ہر کسی نے دوسرے سے مختلف رائے دی۔ زیادہ تر کا یہی خیال تھا کہ میری ان سے ملاقات ممکن نہیں۔ اس لیے میں نے ان کے بارے سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ آج اچانک ان کے سامنے آنے پر، میرے دماغ کام کرنا چھوڑ دیا۔ میں نے ہمت کر کے ان کا نام پوچھا تو بولے:
’’بودی سائیں‘‘ میں وارث شاہ کو بھول گیا، بودی سائیں کا ہاتھ پکڑا اور انھیں لے کر وہیں بیٹھ گیا جیسے وہ ابھی کہیں بھاگ جائیں گے۔
معلوم نہیں ہیر رانجھا ایک سچی کہانی ہے یا فقط حکایات کا مجموعہ۔ اکثر لوگ کہتے ہیں اور شاید سچ بھی یہی ہے کہ ’’ہیر‘‘ بنیادی طور پر بہت سے شعراء نے نہ صرف لکھی بلکہ اسے برصغیر کی مختلف زبانوں میں نقل کیا گیا، جس طرح انار کلی ڈراما اردو ادب کے بہت سے ڈراما نگاروں نے لکھا مگر جو شہرت امتیاز علی تاج کے ڈرامے کو حاصل ہوئی، وہ اور کسی ڈرامے کو نہ مل سکی۔ یہاں تک کہ اب اسی کہانی کو سچ مانا جاتا ہے۔
حالاںکہ انار کلی نامی کوئی بھی کردار مغلیہ تاریخ میں کبھی آیا ہی نہیں۔ ٹھیک اسی طرح بہت سے لوگوں نے ہیر اور رانجھے کے قصے اپنی اپنی زبان میں مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے۔
جنڈیالہ شیر خاں کے وارث شاہ کے 1180ھ میں ملکہ ہانس کی تین سبز میناروں والی مسجد کے حجرے میں لکھے ہوئے ہیر رانجھا کے قصے کو پنجاب میں جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور کتاب کو نہیں ملی۔ اس خطے میں قرآن مجید کے بعد کوئی اور کتاب اتنی نہیں چھپی۔ اس قصے کو کئی اور شعراء نے بھی منظوم کیا۔
وارث شاہ سے بہت پہلے جھنگ سیال کے ایک دکان دار دمودرداس اروڑہ اور سعید سعیدی نے بھی یہ کیا تھا۔ دونوں کا کہنا تھا کہ ہیررانجھے کا معاملہ ان کے سامنے کی بات ہے۔ فارسی میں کولابی نے یہ قصہ منظوم کیا۔ ہندی میں بھی لکھا گیا، پنجابی میں ہیررانجھا کے کئی درجن قصے لکھے گئے۔ لیکن جو مقبولیت ہیر وارث شاہ کو ملی وہ کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔ رام بابو سکسینہ نے اپنی مشہور کتاب تاریخ ادبِ اردو میں لکھا تھا،’’افسوس اردو زبان میں کوئی وارث شاہ پیدا نہیں ہوا۔‘‘
وارث شاہ پنجابی کی ہیر وارث شاہ مشہور زمانہ تصنیف ’’ہیر‘‘ کے خالق اور پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر ہیں۔ آپ 23 جنوری 1722 کو جنڈیالہ شیرخان میں پیدا ہوئے اور 76 سال کی عمر میں آپ نے 24 جون 1798 میں جنڈیالہ شیر خان میں ہی وفات پائی۔
ہیررانجھا کی داستان کچھ اس طرح ہے کہ ہیر ضلع جھنگ میں آباد سیال قبیلے سے تعلق رکھنے والی لڑکی ہے۔ وہ انتہائی خوب صورت ہے اور علاقہ بھر میں اس جیسی حسین لڑکی نہیں۔ رانجھا، جٹ اور دریائے چناب کے کنارے آباد ایک گاؤں تخت ہزارہ کا ہی باسی ہے۔
اس کے تین بھائی کھیتی باڑی کرتے تھے مگر باپ کا چہیتا ہونے کے ناتے وہ جنگلوں میں پھرتا اور ونجھلی (بانسری) بجاتا رہتا۔ اس نے اپنی زندگی میں کم ہی دکھ دیکھے تھے۔ جب رانجھے کا باپ مرگیا تو اس کا دور ابتلا شروع ہوا۔ پہلے زمین کے معاملات پر اس کا بھائیوں سے جھگڑا ہوا اور پھر بھابھیوں نے اسے کھانا دینے سے انکار کر دیا۔
نتیجتاً رانجھا نے اپنا پنڈ (گاؤں) چھوڑا اور آوارہ گردی کرنے لگا۔ پھرتے پھراتے وہ ہیر کے گاؤں جا پہنچا اور اسے دیکھتے ہی اپنا دل دے بیٹھا۔ ہیر نے جب اسے بے روزگار پایا، تو رانجھے کو اپنے باپ کے مویشی چرانے کا کام سونپ دیا۔ رفتہ رفتہ رانجھے کی ونجھلی نے ہیر کا دل موہ لیا اور اس اجنبی سے محبت کرنے لگی۔ آہستہ آہستہ ان کے لیے ایک دوسرے کے بغیر وقت کاٹنا مشکل ہوگیا اور وہ راتوں کو چھپ کر ملنے لگے۔
یہ سلسلہ طویل عرصہ جاری رہا۔ ایک دن ہیر کے چچاکیدو نے انہیں پکڑ لیا۔ اب ہیر کے ماں باپ (چوچک اور مالکی) نے زبردستی اس کی شادی سیدے کھیڑے سے کردی۔ محبت کی ناکامی سے رانجھے کا دل ٹوٹ گیا اور وہ دوبارہ آوارہ گردی کرنے لگا۔ ایک دن اس کی ملاقات بابا گورکھ ناتھ سے ہوئی جو جوگیوں کے ایک فرقے، کن پھٹا کا بانی تھا۔
اس کے بعد رانجھا بھی جوگی بن گیا۔ اس نے اپنے کان چھدوائے اور دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔ وہ گاؤں گاؤں، نگر نگر پھرتا آخر کار اس دیہہ میں پہنچ گیا جہاں ہیر بیاہی گئی تھی۔ اب رانجھا اور ہیر واپس اپنے گاؤں پہنچ گے۔ بحث مباحثے کے بعد آخر ہیر کے والدین دونوں کی شادی پر رضا مند ہوگئے مگر حاسد کیدو نے عین شادی کے دن زہریلے لڈو کھلا کر ہیر کا کام تمام کر دیا۔ جب رانجھے کو یہ بات معلوم ہوئی، تو وہ روتا پیٹتا اپنی محبوبہ کے پاس بھاگا آیا۔ جب ہیر کو مردہ دیکھا تو زہریلا لڈو کھا کر خودکشی کرلی۔
پنجاب میں تین صدیوں سے اس داستان کو شادی بیاہ، میلوں، اور دیگر مواقع پر گایا اور سنا جاتا رہا ہے۔ اس کو پاک و ہند کے متعدد گلوکاروں نے گایا ہے۔ آج بھی پنجاب کے دیہات میں بزرگ شخصیات اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
سائیں بودی ہیر الاپ رہا تھا اور میں اس کے سامنے بیٹھا تھا۔ ایسا گمان ہو رہا تھا جیسے ’’ہیر‘‘ اسی پر اتر رہی ہو اور میں وہ پہلا شخص ہوں جسے وہ ہیر سنا رہا تھا۔ مگر ایسا نہیں تھا۔ نہ جانے کتنوں کو بودی سائیں ہیر سنا چکا تھا مگر مجھے کم از کم اس حوالے سے تو ان سب پر برتری حاصل تھی کہ جس وقت بودی سائیں اپنے مخصوص انداز میں ہیر الاپ رہا تھا تو وہ فقط میرے لیے ہی الاپ رہا تھا۔
میں کتنا خوش قسمت تھا، میری بات کی کتنی اہمیت تھی، یہ مجھے اس وقت اندازہ ہوا تھا۔ میں نے بودی سائیں کا ہاتھ پکڑ کر صرف اتنا کہا تھا کہ ’’سائیں! میں دوسرے شہر سے فقط آپ سے ہیر سننے کے واسطے آیا ہوں۔‘‘ اور بودی سائیں بھی کوئی عام سائیں تو نہ تھا۔ وہ چالیس سال سے وارث شاہ کے مزار پر ہی تھا۔ اس نے طرح طرح کے لوگ دیکھے تھے۔ بودی سائیں کچھ نہ بولا۔ میں نے اپنی عرضی بودی سائیں کے حضور پیش کی۔
بودی سائیں نے صرف یہ شرط رکھی کہ میں پہلے وارث شاہ کو سلام کر کے آؤں۔ میرے لیے یہ کوئی گھاٹے کا سودا تو نہ تھا۔ مجھے تو سلام کا مطلب ہی نہ معلوم تھا اور میں جاننا بھی نہ چاہتا تھا۔ میں بودی سائیں کے پاس سے اٹھا، مزار کا ایک چکر لگایا پھر واپس جوتا اتار کر بودی سائیں کے سامنے اپنے موبائل کا کیمرا آن کرکے بیٹھ گیا۔
بودی سائیں صرف میرے لیے ہیر الاپ رہا تھا۔ میں کتنا خوش قسمت تھا۔ سائیں بودی کے ہیر کے الاپ کے دکھ اور محبت کی ناکامی کی کسک لرزتے تھے اور جب کبھی سائیں بودی ہاتھ بلند کرکے لہرا کر اٹھتا تھا اور اس کی بودی اس کے ناتواں شانوں پر ایک پونی ٹیل کی مانند گرتی ایک مر چکے سانپ کی مانند مردہ ہوتی تھی تو اس کے دکھ درد میں ڈوبی ہیر کی فریاد اور بھی درد بھری بن جاتی۔
بودی سائیں، ہندو پروہتوں اور فقیروں کی مانند اپنے سر کے بالوں میں سے ایک لَٹ کو شاید سروں کے تیل سے پالتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ ایک بودی ہوگئی تھی۔
بودی سائیں ایک عجب فن کار تھا۔ وہ ہیر الاپتا تھا، یقیناً چرس کے سُٹّے بھی لگاتا ہوگا، آواز میں وہ تڑپ، وہ اونچے سُر ایسے ہی تو نہیں آ جاتے۔ ان سب سُروں کی اسے اس کی صحت اجازت نہ دیتی تھی۔ ’’ہیر‘‘ کے وہ اونچے سُر صرف انھی سُٹوں کی بدولت ممکن تھے جو بودی سائیں اپنے کچھ فقیر دوستوں کے ساتھ مل کر لگاتا ہوگا۔
بودی سائیں کون تھا، اس کا اصل نام کیا تھا، وہ کیا کرتا تھا، گزر بسر کیسے ہو رہا تھا؟ یہ سب وہ سوال تھے جو میں بودی سائیں سے پوچھنا چاہتا تھا مگر مجھے بودی سائیں کو کریدنے کا کوئی حق تو نہ تھا۔
میں نے فقط اتنا پوچھا کہ وہ کہاں رہتا ہے، اس کا گھر کہاں ہے؟ جواب میں بودی سائیں نے صرف اتنا بتایا کہ اس کا گھر یہیں قریب ہی ہے اور اس کے پاس مالک کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔ میں مزید کوئی سوال نہ سکا۔ میں اس چند لمحوں کی ملاقات میں فضول سوالات میں نہ الجھنا چاہتا تھا۔ بودی سائیں نے ہیر الاپنا شروع کردی اور میں صرف بودی سائیں کو تکتا رہا۔
ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں
مینوں لے چلّے بابلا لے چلّے وے
مینوں رکھ لئیں بابلا ہیر آکھے
ڈولی ڈک لے بابلا مینوں لے چلّے وے
میرا آکھیا کدی نہ موڑنا سیں
اوہ سمے بابل کِتھے رہ چلے وے
تیری چھتر چھاویں بابل رُکھ وانگوں
گھڑی وانگ مسافراں بہہ چلے وے
اگر یہ پوچھا جائے کہ یہ اشعار کس کے ہیں تو اکثر لوگوں کا جواب وارث شاہ ہوگا
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ وارث شاہ کے نہیں۔ یہ بہت سے اشعار میں سے ہیں جو مختلف شاعروں نے لکھ کر ہیر وارث شاہ میں شامل کیے، کیوںکہ ہیر وارث شاہ سے پہلے جتنی بھی پہلے ہیر لکھی گئی تھی یا جتنی بھی اس کے بعد لوگوں نے لکھی، وہ سب وارث شاہ کی ہیر کے نیچے دب کر رہ گئیں۔ دوسرے شاعروں کے مشہور اشعار کو بھی ہیر وارث شاہ میں ہی شامل کردیا گیا۔
یہ اشعار شعراء اکرام کی طرف سے ہیر وارث شاہ میں شامل نہیں کیے گئے تھے بلکہ اصل اور بڑی ہیر دکھانے کے چکر میں مختلف ناشروں نے ایسا کیا۔
کیا ہیر وارث شاہ کوئی عام کتاب ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ بلاشبہہ برصغیر کی بہت سی زبانوں میں ہیر رانجھا کے قصے کو مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے مگر جو عزت وارث شاہ کے حصے میں آئی، وہ کسی دوسرے کو نہ مل سکی۔ وارث شاہ نے بھی ایک ایک شعر پر کمال محنت کی۔ عورت کے حُسن کو شاید ہی دنیا بھر میں ایسی خوب صورتی سے کسی نے بیان کیا ہو جیسے وارث شاہ نے کیا ہے۔ وارث شاہ کہتا ہے:
کِی ہیر دی کرے تعریف شاعر متھے چمکدا حُسن مہتاب دا جی
نین نرگسی مرگ ممولڑے
بھواں وانگ کمان لاہور دِسن
ہوٹھ سرخ یاقوت جیوں لعل چمکن
دند چنبے دی لڑی کہ ہنس موتی
لکھی چین کشمیر جٹی
قد سرو بہشت گلزار و چوں
گردن کونج دی، انگلیاں روانہہ پھلیاں
شاہ پری دی بھین پنج پھول رانی
سیاں نال لٹکدی مان متی جیویں ہرنیاً ترٹھیاں بار وچوں
پتلی پیکنے دی، نقش روم والے
وارث شاہ جان نیناں دا داؤ لگے بچے نہ جوئے دی ہار وچوں
ہیر وارث شاہ کی اہمیت کا اندازہ آپ یہاں سے بھی بخوبی طور پر لگا سکتے ہیں کہ فارس میں دیوانِ حافظ کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ آج بھی فارس کے بہت سے علاقوں میں اس کتاب سے فال نکالی جاتی ہے۔
پنجاب کے دیہات میں فال نکالنے کا یہی کام ہیر وارث شاہ سے لیا جاتا تھا۔ ہیر وارث شاہ کتنی بڑی کتاب ہے، اس کا ثبوت ادھم سنگھ سے بڑھ کر اور کسی کے پاس نہیں۔ ادھم سنگھ نے جب برطانیہ میں جنرل ڈائر کو قتل کیا تو ظاہری بات ہے اسے پکڑے ہی جانا تھا۔ جج نے جب اس سے اس کا نام پوچھا تو اس نے اپنا نام ادھم سنگھ کی بجائے رام محمد سنگھ آزاد بتایا کیوںکہ وہ آزادی کا سپاہی تھا اور آزادی کو کسی ایک مذہب سے منسوب نہیں کرنا چاہتا تھا۔
عدالت جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ کسی مذہب کی کتاب پر حلف لے گا تو اس نے ہیر وارث شاہ پر حلف لیا۔ ادھم سنگھ جو جلیانوالہ باغ کے واقعے کو کبھی نہ بھولا، جب پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل مائیکل اوڈائر کے حکم پر مظاہرین کو سیدھی گولیوں سے نشانہ بنایا گیا۔ ادھم سنگھ نے برطانیہ جا کر 13 مارچ 1940ء کو جنرل اوڈائر کو قتل کر کے جلیانوالہ باغ کے واقعے کا بدلہ لیا۔
جو بودی سائیں نے سنایا، میں سنتا چلا گیا۔ ہیر کے کچھ شعر میرے پسندیدہ تھے، ان کی فرمائش کی تو بودی سائیں نے وہ بھی سنا دیے۔ کہتے ہیں بودی سائیں ہیر وارث شاہ کا حافظ ہے۔ اسے ہیر وارث شاہ زبانی یاد ہے۔ آپ جو شعر کہیں گے، جہاں سے کہیں گے، بودی سائیں آپ کو سنا دے گا۔
میں کچھ دیر بودی سائیں کے پاس بیٹھا، پھر اجازت لے کر رخصت ہوا کہ میں ایک لمبا سفر کر کے یہاں تک پہنچا تھا اور ایک لمبا سفر کر کے مجھے ابھی واپس اپنے گھر بھی جانا تھا۔ خیر سفر اتنا لمبا بھی نہ تھا، فقط تین گھنٹے کا تھا مگر گرمیوں کی وجہ سے لمبا محسوس ہورہا تھا۔ صبح سویرے چوںکہ سورج کی تپش کم تھی تو سفر محسوس نہیں ہوا جب کہ واپسی کے سفر پر محسوس ہوا کہ واقعی سفر کر رہا ہوں۔
ایسے میں پیاس تو ظاہر سی بات ہے بہت زیادہ محسوس ہونی تھی، فضول قسم کی کولڈ ڈرنک پینے سے بہتر یہ جانا کہ لیموں پانی پیا جائے یا پھر املی آلو بخارے کا شربت۔ آپ یقین مانیں یہ دونوں چیزیں آپ کے گرمیوں کے سفر کے لیے نہ صرف بہترین ہیں بلکہ ناگزیر بھی ہیں۔
گرمیوں میں بہت سارا سادہ پانی پینے سے بھی اکثر پیٹ خراب ہوجاتا ہے اور سفر پر پیٹ خراب ہونے کا رسک تو کسی صورت بھی نہیں لیا جا سکتا۔ اس لیے سادے پانی سے کہیں بہتر ہے کہ آپ لیموں پانی یا پھر املی آلو بخارے کے شربت کا ہی کثرت سے استعمال کریں۔ جوں ہی پیاس محسوس ہو، پہلی ریڑھی آنے پر ہی رک جائیں۔ اپنے جسم کے درجۂ حرارت کو متوازن کریں اور پھر آگے بڑھیں۔
The post ہیر وارث شاہ appeared first on ایکسپریس اردو.