جاں بہ لب ماں کو بچوں کی زندگی کی فکر!
کولمبیا میں یکم مئی 2023ء کو ایک چھوٹا مسافر طیارہ حادثے کا شکار ہوا، جس میں ایک مسافر خاتون Magdalena Mucutuy کی ہلاکت ہوئی اور ان کے چار بچے ایمیزون کے جنگلات میں لاپتا ہو گئے۔ جنھیں چھے ہفتوں بعد زندہ سلامت ڈھونڈا جا سکا۔
ان بچوں نے بتایا کہ ان کی ماں نے انھیں اپنی جان بچانے کے لیے خود کو چھوڑ دینے کے لیے کہا، تاکہ وہ بچے کسی طرح وہاں سے باہر محفوظ مقام پر نکل سکیں، وہ حادثے کے بعد چار دن تک زندہ رہی۔
ماہرین کے مطابق اس عرصے میں بچوں کی ثابت قدمی حیران کر دینے والی ہے۔ طیارے کے حادثے کے بعد بچوں کا 40 دن کے بعد زندہ بچنا ایک معجزہ قرار دیا جا رہا ہے۔ بچے کہتے ہیں کہ جاں بہ لب ماں نے ان سے کہا کہ ’’تم یہاں سے دور جا کر اپنے والد کو تلاش کرو، وہ بھی میری طرح تم سے بہت پیار کرنے والے ہیں۔‘‘
ان بچوں کی عمریں بالترتیب تیرہ، نو اور چار سال اور گیارہ مہینے ہے، جو بدقسمت طیارے کا انجن فیل ہونے کے باعث حادثے کا شکار ہو گئے تھے۔
یہ وہاں کے مقامی ہیٹوٹو (Huitoto) قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، انھوں نے تمام وقت جنگل میں گزارا، جہاں مچھر اور دیگر حشرات الارض کے ساتھ سانپ اور اس جیسے دیگر موذی جانور بھی موجود تھے۔ حکام نے گھنے جنگلات میں انھیں سراغ رساں فوجی کتوں کی مدد سے ڈھونڈا۔ حکام کہتے ہیں کہ انھیں توقع تھی کہ یہ بچے دو ہفتے سے زیادہ نہیں بچ پائیں گے۔
بتایا گیا کہ ان بچوں نے جنگل کے پھل اور دیگر مختلف اجناس کے ذریعے اپنی بھوک مٹائی اور اس کے لیے اپنی معلومات کو بروئے کار لائے۔ ان میں سب سے چھوٹا بچہ بھی کسی حد تک یہ اجناس کھانے کے قابل رہا کیوں کہ خوش قسمتی سے جنگل میں پھل پکے ہوئے تھے۔
تاہم وہ ابھی کافی زیادہ کمزور ہے، یوں کہا جا سکتا ہے کہ جنگل میں وہ صرف سانس لینے ہی کے لائق بچ سکا۔ چھوٹے بچے کی اس حالت کی وجہ یہ بھی ہے کہ اسے بہن بھائیوں نے جنگلی جانوروں سے محفوظ رکھنے کے لیے چھپا کر بھی رکھا ہوگا۔ جنگل سے نکالے جانے کے بعد وہ بچے بہت سے حشرات کا نشانہ اور پانی کی کمی کا شکار تھے، انھیں ایک فوجی اسپتال میں طبی امداد دی گئی۔
یکم مئی 2023ء کو تباہ ہونے والے اس چھوٹے طیارے کا ملبا تو 16 مئی کو جنگل سے ڈھونڈ لیا گیا، لیکن یہ بچے لاپتا تھے، جن کا سراغ بہت جدوجہد کے بعد لگایا جا سکا۔
یہاں تک کہ اس مہم میں کولمبیا کے 150 فوجی اہل کار بھی شامل ہو گئے۔ اس دوران بچوں کی غذائی ضرورت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کھانے کے مختلف ڈبے بھی جنگلوں میں پھینکے گئے کہ شاید ان کی مدد سے وہ بچے اپنی بھوک سے نبرد آزما ہو سکیں۔
اس کے ساتھ ساتھ انھیں مختلف ذریعے سے پیغامات دینے کی کوشش بھی کی گئی ، تاکہ ان سے رابطہ ہو سکے۔ بچوں کو متوجہ کرنے کے لیے مختلف دھماکے، روشنی کے چھناکے کیے گئے، یہاں تک کہ لاؤڈ اسپیکر پر ان کی نانی کے پیغامات ریکارڈ کر کے چلائے گئے، جس میں انھیں ایک جگہ ٹھیرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
سراغ رسانی پر مامور سپاہیوں کو اس دوران بچوں کی موجودگی کے آثار ان کے قدموں کے نشان، بچے کی بوتل، خراب کپڑے اور ادھ کھائے پھلوں کی صورت میں ملے۔
جس کے تعاقب میں وہ طیارے حادثے کے مقام سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر بالآخر ان تک پہنچ پائے، کئی مرتبہ انھیں دیکھا گیا، لیکن پھر ان کا پیچھا کرتے ہوئے ان کا سراغ کھو دیا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بچے فوجی وردی سے خوف زدہ رہے، کیوں کہ ان کے والد کو ایسی ہی مسلح فورسز کی جانب سے دھمکیوں کا بھی سامنا رہا تھا۔
بچوں کی بازیابی کے حوالے سے سراغ رساں کتے نے کلیدی کردار ادا کیا، جسے ایسی کسی ضرورت کے لیے ایک برس کی تربیت فراہم کی گئی تھی کہ وہ تیز بارش کے موسم اور خراب حد نگاہ میں بھی اپنا کام کر سکے۔
کولمبیائی صدر نے بھی اس مہم کی کام یابی پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’ان بچوں کو جنگل نے بچایا ہے اور یہ ’جنگل کے بچے‘ ہیں اور پورے کولمبیا کے بچے بھی ہیں۔‘‘ معروف بین الاقوامی گلوکارہ شکیرا نے بھی اپنے وطن کولمبیا کی اس کام یاب مہم پر اپنی خوشی اور جذبات کا اظہار کیا اور اسے معجزہ اور اتحاد کا نتیجہ قرار دیا۔
بنگلا دیش میں خطے کا سب سے بڑا پانی صاف کرنے کا مرکز
The Dasherkandi Sewage Treatment Plant نامی مرکز نہ صرف بنگلا دیش کا سب سے بڑا اور جدید پلانٹ ہے، بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں نکاسی کے پانی کو تلف کرنے کا ایسا کوئی اور پلانٹ موجود نہیں ہے۔
بنگلا دیش میں اسے ماحولیاتی حوالے سے ایک بڑا سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ اس میں 500 ملین لیٹر پانی کو ٹھکانے لگانے کی گنجائش موجود ہے۔ ’ڈھاکا ٹریبیون‘ کے مطابق 13 جولائی کو بنگلا دیشی وزیراعظم حسینہ واجد نے اس کا افتتاح کیا۔
آفتاب نگر شہر کے قریب واقع یہ پلانٹ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے میں کافی مدد دے گا اور وہاں کی نہروں اور دریاؤں کے پانی کو صاف رکھنے کا باعث بنے گا۔ آلودہ پانی کو خشک کرنے کے بعد یہ پلانٹ یومیہ 45 ٹن راکھ یا باقیات جمع کرے گا، جو سیمنٹ فیکٹری کے خام مال کے طور پر بروئے کار لائی جائے گی۔
یہ پلانٹ ڈھاکا کے روزانہ کے دو ہزار ملین گندے پانی کا 25 فی صد تک کے پانی کو تلف کر سکے گا۔
چین کے تعاون سے تعمیر شدہ یہ پلانٹ 62 ایکڑ پر مشتمل ہے اور اس پر کام یکم جولائی 2018ء میں شروع ہوا تھا۔ یہ پلانٹ 2030ء تک ایسے مزید پانچ ٹریٹمنٹ پلانٹ کے منصوبے کا حصہ ہے، جس کے بعد ڈھاکا شہر کے 100 فی صد گندے پانی کو ٹھکانے لگا سکے گا، تاکہ ڈھاکا شہر ماحول دوست ہو سکے۔
روس ڈیم تباہ کر رہا ہے، یوکرین کا الزام
یوکرین کا کہنا ہے کہ روس دفاعی حکمت عملی میں رخنہ ڈالنے کے لیے ڈیموں کو نشانہ بنا رہا ہے، تاکہ پانی کے بہائو کے سبب یوکرینی فوج کی کارروائیاں جاری نہ رہ سکیں، لیکن وہ اس میں ناکام ہوگا۔ یوکرین کے نائب وزیردفاع Hanna Maliar نے دعویٰ کیا کہ اس کے باوجود انھوں نے ایک اور گائوں روسی قبضے سے چھڑا لیا ہے، اور ہم اس طرح یوکرین کی سرزمین کو مکمل آزاد کرائیں گے۔ اپنے دفاع کے حوالے سے یوکرینی حکام عموماً چپ سادھے رہتے ہیں، تاہم اب انھوں نے ایک چھوٹے گائوں کو واگزار کرانے پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔
یوکرینی شہریوں میں پہلے ہی اپنے ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں کی بربادی کی ویڈیو دیکھ کر شکست خوردگی کی کیفیت پھیلی ہوئی ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بیرونی طور پر ’بم باری‘ سے اس ڈیم کے ڈھانچے کو تباہ کرنا لگ بھگ ناممکن ہے، اسے ممکنہ طور پر اندر سے تباہ کیا گیا ہے، جس کے بعد سے اس کا پانی بہنا شروع ہوگیا، جس کے نتیجے میں 72 فی صد پانی ضایع ہو چکا ہے۔
ساتھ ہی ہائیڈرل پاور پلانٹ چلانے کے لیے مشکلات الگ پیدا ہوئی ہیں، یوکرین کے وزیر ماحولیات کا کہنا ہے کہ پاور پلانٹ کی ضرورت کے مطابق پانی موجود ہے اور صورت حال قابو میں ہیں۔
ہندوستان چاند پر پہنچنے والا چوتھا ملک بن سکے گا؟
ہندوستان کی خلائی ایجینسی نے ایک بار پھر 14 جولائی 2023ء کو چاند کے لیے خلائی مشن ’چندریان سوم‘ روانہ کر دیا ہے۔ اس منصوبے کی لاگت 75 ملین ڈالر بتائی گئی ہے۔ واضح رہے اس سے پہلے ہندوستان کے خلائی مشن کام یاب نہیں ہو سکے۔
اگر یہ خلائی مشن کام یابی سے چاند تک پہنچ جاتا ہے، تو روس، امریکا اور چین کے بعد ہندوستان دنیا کا چوتھا ایسا ملک بن جائے گا، جسے یہ اعزاز حاصل ہوگا۔ امریکی تحقیقی ادارے ’ناسا‘ کے مطابق 1958ء سے اب تک دنیا کے کُل چھے ممالک کے 70 کے قریب کام یاب اور جزوی کام یاب مشن چاند کے لیے روانہ کیے گئے ہیں۔
1970ء کی دہائی تک سابقہ سوویت یونین اور امریکا ہی اس میدان میں موجود تھے۔ اس دوران دونوں نے 90 کے قریب مشن بھیجے، جس میں چالیس ناکامی سے دوچار ہوئے۔ 1980ء کی دہائی میں کوئی مشن نہیں بھیجا جا سکا۔
پھر 1990ء میں جاپان نے اس خلائی دوڑ میں شمولیت اختیار کی، جس کے بعد چین، یورپ اور ہندوستان نے بھی اس کے لیے کوششیں کیں۔
2019ء میں ہندوستان کا خلائی مشن ’چندریان دوم‘ ناکامی سے دوچار ہو گیا تھا۔ اب ہندوستان کی یہ تیسری کاوش کام یاب ہوتی ہے یا نہیں اس کے لیے آنے والے کچھ دنوں کا انتظار کرنا ہوگا۔
لندن برج اسٹیشن کے پاس رومی تہذیب کے آثار
لندن برج اسٹیشن کے پاس رومی تہذیب کی نئی باقیات دریافت ہوئی ہیں، جو رومی تہذیب کے حوالے سے گذشتہ 50 سال میں برطانیہ میں ہونے والی اہم ترین دریافت میں شمار کی جا رہی ہے، فروری 2022ء میں کی جانے والی ایک کھدائی میں بھی کچھ ایسے ہی آثار دریافت ہوئے، جس میں فرش اور دیواریں اس فن کا بہترین حالت نمونہ ہیں۔
مستقبل میں اس مزار کو سیاحوں کے لیے کھولے جانے کا منصوبہ بھی ہے، تاکہ ماضی کا یہ شاہ کار سب کے سامنے آسکے۔
ماہرین کے مطابق یہ مزار ممکنہ طور قرون وسطیٰ کے دور سے مکمل طور پر منہدم ہے، یہ ایک مضبوط اور دو منزلہ عمارت رہی ہوگی اور اسے خاندانی مقبرے کے طور پر بنایا گیا ہوگا، لیکن اس میں سے کوئی تابوت وغیرہ دریافت نہیں ہوا، تاہم 100 دھاتی سکے، دھات کے مختلف ٹکڑے، اور ٹائل وغیرہ ضرور برآمد ہوئے ہیں۔
سنیئر آرکیالوجسٹ Antonietta Lerz اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ممکنہ طور پر یہ ایک بڑی دریافت کا ایک چھوٹا سا حصہ ہو سکتا ہے، جو آنے والے وقتوں میں کسی اور بڑی دریافت کا سبب بنے گا۔ رومی تہذیب کے ان فن پرور لوگوں کی یہ خواہش تھی کہ ان کو مرنے کے بعد بھی تادیر یاد رکھا جائے۔
کوشش کی جائے گی آرکیالوجیکل خزانے کو نہ صرف آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ بنایا جائے، بلکہ لوگوں تک رسائی بھی دی جائے۔ لندن میں یہ کھدائی دفاتر، گھر اور دکانوں وغیرہ کی تعمیر کے لیے کی جا رہی تھی۔
اریٹریا 16 برس بعد مشرقی افریقی بلاک میں واپس
افریقی ملک اریٹریا نے 2007ء میں ہم سائے ملک ایتھوپیا کے فوجی دستے تعینات کرنے پر ’افریقی بلاک‘ سے علاحدگی کی تھی، اب وہ اس بلاک میں واپس آگیا ہے۔ واضح رہے کہ ایتھوپیا نے صومالیہ کے ’الشباب‘ سے مقابلے کے دوران یہ دستے لگائے تھے۔
اریٹریا نے جبوتی میں مشرقی افریقیائی تنظیم ’آئی جی اے ڈی‘ (انٹرگورنمنٹل اتھارٹی آن ڈویلپمنٹ) کی چودھویں کانفرنس میں شرکت کی اور براعظم افریقا میں امن اور استحکام لانے کی خاطر اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔
اریٹیریا میں 1993ء میں آزادی کے بعد سے صدر اسیاس افورقی (Isaias Afwerki) برسراقتدار ہیں، جن کی 1998 تا 2000ء ایتھوپیا سے سرحدی جنگ رہی، پھر 2018ء میں اریٹریا اور ایتھیوپیا کے امن معاہدے کے بعد یہ جنگ اختتام پذیر ہوئی، اس کے بعد صومالیہ سے بھی سفارتی تعلقات بحال ہو سکے، جبوتی سے بھی تعلقات معمول پر آئے اور کینیا سے بھی راہ و رسم بہتر ہوئی، لیکن اریٹیریا کے داخلی حالات اچھے نہ ہونے کے سبب یہاں سے ہر سال ہزاروں لوگ دوسرے ممالک میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔
رواں برس کے عالمی شماریات کے مطابق اریٹیریا، موریطانیا اور شمالی کوریا میں انسانی غلامی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اریٹیریا یورپ اور امریکا کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی زد میں ہے، لیکن اریٹیریا کی جانب سے ان تمام الزامات کو مسترد کیا جاتا ہے۔
The post نگری نگری appeared first on ایکسپریس اردو.