Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

ہمیں ’روبوٹک اسپورٹس‘ کے لیے کوئی اسپانسر تک نہیں ملتا۔۔۔!

$
0
0

’’کوئی بھی ایسی مشین جو ہمارے کسی بھی کام میں مدد فراہم کرے، ’خود کار‘ طریقے سے کوئی بھی چیز بنائے، وہ ’روبوٹکس‘ میں شمار ہوگی۔ اس کے ’ہارڈ وئیر‘ اور ’سوفٹ ویئر‘ کو ملانے والا شعبہ ہی دراصل ’روبوٹکس‘ ہے۔ ایک ایسی مشین جسے پروگرام کیا جائے کہ وہ کوئی بھی کام اپنے آپ کر سکے۔ جیسے میں نے ایک دکان دار کو تار کاٹنے اور ایک بوتل بنانے والے کارخانے کو بوتل کے ڈھکنے لگانے کی مشین تیار کر کے دی، یہ بھی روبوٹ ہی کہی جائے گی۔‘‘

یہ گفتگو شاہ فہد سہیل کی ہے، جو پاکستان بھر میں روبوٹکس کے دو درجن مقابلے جیت چکے ہیں، جیتنے والے مقابلوں کی مکمل تعداد تو اب انھیں بھی یاد نہیں۔ انھوں نے 2016ء میں National University of Computer & Emerging Sciences  میں پہلا مقابلہ جیتا، جس کے بعد اس جانب دل چسپی بڑھی، این ای ڈی یونیورسٹی، سرسید یونیورسٹی اور اس کے بعد سکھر، غلام اسحٰق خان انسٹی ٹیوٹ (صوابی) اور پھر اسلام آباد میں بھی مقابلے جیتے۔ 2019ء میں یہ صورت حال تھی کہ ہر دو مہینے کے بعد وہ کہیں نہ کہیں حصہ لے رہے ہوتے تھے۔ کارکردگی اچھی تھی، لیکن چوں کہ یہ ایک کھیل ہے، اس لیے کہیں کہیں ناکامی بھی حصے میں آتی تھی۔

’روبوٹکس‘ مقابلوں کی تعلیمی اہمیت کے حوالے سے شاہ فہد سہیل بتاتے ہیں کہ یہ صرف اسپورٹس نہیں، بلکہ اس سے طالب علم اپنی صلاحیتوں کو مانجھتے ہیں۔ مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے اچھے سے اچھا روبوٹ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز کرتا ہے۔ اس کی بنیاد یہی ہوتی ہے کہ وہ اچھا، پائیدار اور بہترین ’روبوٹ‘ بنائیں۔

یہ ’روبوٹ‘ ایسے ہوتے ہیں کہ جیسے کام یابی سے ایک لکیر پر چلنا ہوتا ہے۔ اسی طرح ’روبوٹ‘ کی لڑائی ہے، جس میں ایک ایسی ’خود کار‘ مشین بنائی جاتی ہے کہ جو زیادہ مضبوط رہے۔ ہماری یونیورسٹیوں میں بچے جو روبوٹس کے ’پروجیکٹ‘ بناتے ہیں، ان کی بس ان کی اتنی کوشش ہوتی ہے کہ یہ بس فلاں تاریخ تک چل جائے، تاکہ ہمیں اس کے نمبر مل سکیں، اس کے بعد بھلے خراب ہو جائے۔

انھیں کوئی پروا نہیں ہوتی، جب کہ اس کے برعکس روبوٹ کے مقابلوں میں آپ کے کام کی خوب جانچ ہوتی ہے، کیوں کہ یہاں تو آپ کو مقابلہ جیتنا ہوتا ہے اور اس کے لیے اچھے سے اچھا اور بہتر سے بہتر روبوٹ بنانا پڑتا ہے۔ اس لحاظ سے یونیورسٹی سے زیادہ ان مقابلوں کے ذریعے ان کی تربیت ہوتی ہے اور ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

روبوٹ تیاری کے حوالے سے شاہ فہد بتاتے ہیں کہ اس کے لیے بیٹری کے سیل اور سرکٹ چین سے آتے ہیں، باقی سب چیزیں یہیں کی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ’روبوٹکس‘ کے میدان میں کام کے فقدان کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے ہاں کہیں بھی اس حوالے سے بات نہیں ہوتی، اسے اخبارات اور چینلوں پر نمایاں کرنا چاہیے۔

بڑی کمپنیاں اس میں سرمایہ کاری کریں۔ باہر ممالک میں ایسے مقابلوں میں بچے اپنی جیب سے روبوٹ نہیں بناتے، بلکہ مختلف صنعتیں اور کمپنیاں اس کے تمام اخراجات اٹھا رہی ہوتی ہیں۔ اس سے نوآموز بچوں کی صلاحیتیں زیادہ اچھی طرح سامنے آتی ہیں اور ساتھ میں کمپنیوں کو بھی اپنے لیے باصلاحیت لوگ مل جاتے ہیں، جب کہ ہمارے ہاں اس کا رجحان ہی نہیں ہے۔

کوئی بھی ادارہ اس کے لیے آگے نہیںآتا، کچھ اسکول اس حوالے سے تعاون کر لیتے ہیں کہ جگہ اور اپنے طلبہ بطور رضا کار دے دیتے ہیں۔ اس سے ان بچوں کو روبوٹکس کی تیکنیک سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اگر پروگرام ’اسپانسر‘ کے لیے کسی کو کہیے، تو وہ جواب بھی نہیں دیتے۔

وہ اس شعبے کو اہم سمجھتے ہی نہیں۔ ہمارے یہاں ابھی تک صرف مخصوص انجینئرنگ میں زیادہ دل چسپی ہے۔ جب ہماری انڈسٹری ’روبوٹکس‘ جانب متوجہ ہوگی، تبھی زیادہ مواقع ملیں گے اور اس حوالے سے ہنر مند بچے سامنے آئیں گے۔

’اسپانسر‘ کے لیے امریکا سے فنڈنگ بھی ملی، اور انھوں نے کہا کہ تھوڑا سا حفاظتی اقدام ملحوظ رکھیے گا۔ ہم نے بتایا کہ ہمارا تو بجٹ ہی اتنا نہیں ہوتا، تو ہم حفاظتی اقدام کیا کریں گے۔ انھیں ساری صورت حال بتائی، تو انھوں نے روبوٹ مقابلوں کے لیے کچھ بنیادی چیزوں کے لیے ہماری معاونت کی۔

’’حفاظتی اقدام کیسے۔۔۔؟‘‘

ہمارے اس سوال پر شاہ فہد گویا ہوئے کہ ’’جیسے دو روبوٹ لڑ رہے ہیں، تو اس میں یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسی ٹوٹ پھوٹ یا شارٹ وغیرہ نہ ہو۔ روبوٹس کی لڑائی کے مخصوص ’حلقے‘ کو ’ریسلینگ رِنگ‘ کی طرح کھلا ہوا نہیں ہونا چاہیے، چوں کہ ہمارے روبوٹ بھی ابھی اتنے زیادہ طاقت وَر نہیں ہوتے کہ ان کے مقابلے اس شدت کے ہوں، جس کے نتیجے میں دیکھنے والوں کو کسی نقصان کا اندیشہ ہو۔ باقی دنیا میں یہ بُلٹ پروف شیشے کے اندر ہوتے ہیں، وہ شیشہ کئی ہزار روپے اسکوائر فٹ ہوتا ہے، یا کم از کم ایسا حصار کہ روبوٹ مقابلوں کے دوران اگر کوئی چیز ٹوٹے تو وہ باہر شائقین کو جا کر نہ لگے۔‘‘

شاہ فہد کو اس حوالے سے کافی شکوہ ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’’آج کسی کو یہ پتا بھی نہیں ہوگا کہ ہمارے ملک میں بھی روبوٹ کے مقابلے ہوتے ہیں، کیوں کہ ہمارے ملک میں ہونے والے ایسے مقابلوں کو کبھی ذرایع اِبلاغ اہمیت نہیں دیتے، اس لیے میں خود ہی ایسی ساری ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر ڈالتا رہتا ہوں۔ جب لوگوں کو کسی پروگرام کا پتا ہی نہیں چلے گا، تو اس کے بغیر ہم کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں، میری ویڈیو دیکھ کر ہی بیرون ملک سے حفاظتی اقدام کے لیے کچھ فنڈ ملے۔

دیگر اسپورٹس کے برعکس ’روبوٹس فائٹ‘ صرف انٹرٹینمنٹ نہیں، بلکہ یہ حقیقی تخلیقیت کو پروان چڑھانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ انجینئرنگ یونیورسٹیوں سے جو طالب علم فارغ ہو رہے ہیں، انھیں ’روبوٹکس اسپورٹس‘ کے مواقع ہر جگہ ملنے چاہئیں، تاکہ ان کی عملی صلاحیتیں سامنے آسکیں۔ اگر ہمیں اسپانسر ملیں، تو اس شعبے میں ہمارے ہاں بھی بہت بڑی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔

روبوٹکس میں 2014ء تک ہندوستان بھی وہیں تھا، جہاں آج ہم ہیں، لیکن اب وہاں امریکا کی سطح کے ’روبوٹ مقابلے‘ ہو رہے ہیں۔ وہ روبوٹکس میں کافی کام کر رہے ہیں، اس لیے ان کی چیزیں بھی جدید ہو رہی ہیں۔ روبوٹکس کے شعبے میں ترقی کا براہ راست تعلق ملک کی صنعتوں سے ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے صنعت کار ’آٹومیشنز‘ کی طرف آنے سے گھبراتے ہیں، کہ جہاں تین کی جگہ ایک فرد کام کر سکتا ہے، اس سے کام کا معیار بلند ہوگا اور اخراجات بھی گھٹیں گے۔ ہندوستان میں صنعت کاروں نے دل چسپی لی، تبھی وہاں روبوٹکس میں ترقی ہوئی۔‘‘

روبوٹ اور ’خودکار‘ نظام پر انحصار بڑھنے سے بے روزگاری کے سوال پر وہ کہتے ہیں کہ نوکریاں ختم نہیں ہوتیں، بلکہ منتقل ہوتی ہیں۔ اگر کہیں مواقع گھٹ رہے ہیں، تو دوسری جگہ نئی ملازمتیں پیدا بھی ہو رہی ہیں، جیسے اب ملازمتیں ’سوفٹ وئیر‘ کی طرف جا رہی ہیں۔ ہمارے یہاں سے سوفٹ وئیر سلوشنز بنا کر باہر دیے جا رہے ہیں، باہر والوں کو بھی یہاں سے بنوانے میں سستے پڑتے ہیں، لیکن یہاں کے لیے وہ پیسے بہت ہوتے ہیں۔

اس لیے ہر کوئی اسی طرف آرہا ہے۔ جیسے کوئی فارم ہاؤس مانیٹر کرنے کے لیے روبوٹ بنانا ہے، تو اس کے لیے یہاں سے سوفٹ وئیر بنا کر دے دیتے ہیں۔ اس میں سینسر ہوتے ہیں، جو تمام پودوں کی کیفیت ریکارڈ کر لیتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت ’سوفٹ وئیر ہاؤس‘ سب سے زیادہ کما رہے ہیں، لیکن مقامی مارکیٹ کا کام نہ ہونے کے برابر ہے، کیوں کہ مقامی آجران اتنے پیسے نہیں دے پاتے، اس لیے سوفٹ وئیر کی نقل استعمال کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ یہ کام مزید منتقل ہونا ہے، ہم نہیں کریں گے تو کوئی اور کرلے گا۔ اب ’آرٹیفیشل انٹیلی جینس‘ یا ’اے آئی‘ آ رہی ہے، لیکن اس کو بنانے اور چلانے والے بھی تو انسان ہی ہیں۔

’’کیا یہ ممکن ہے کہ جتنی اسامیاں ختم ہوں اس ہی تناسب سے ہی مزید ملیں؟‘‘

ہمارے اس منطقی سوال پر شاہ فہد کا کہنا تھا کہ اس سے زیادہ بھی مل سکتی ہیں۔ ہمارے ہاں مشین پہلے ہاتھ سے چلتی تھی، پھر مشین سے اور اب صرف بٹن دبانے سے اور کل کو شاید یہ بٹن دبانے کی ضرورت بھی نہ رہے۔ اس سے جو مشین ٹھیک کرنے چلانے اور بنانے والا ہے، اس کے لیے ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ ہمیں ’اے آئی‘ سے کہنا پڑتا ہے کہ کون سی ویب سائٹ بنانی ہے۔ پھر انسان اسے نوک پلک سنوار کر حتمی شکل دیتا ہے۔ ’اے آئی‘ ذرا وقت بچا لے گا، لیکن یہ چلائے گا انسان ہی۔

ہم نے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جینس) کے انسان سے آگے بڑھ جانے کے روایتی خدشات کے حوالے سے ان کی رائے لینا چاہی، جو کچھ یوں تھی کہ ’فی الحال، بیس، تیس سال تک ایسا کچھ ممکن نہیں ہے۔ ابھی تک یہ سب چیزیں ہمارے قابو میں ہیں۔ قدرتی چیزوں اور فطری چیزوں میں یہی فرق ہے۔ ہم اس کا تار نکال دیں، تو یہ خود نہیں لگا سکتا، کوئی خرابی ہو جائے، تو خود ٹھیک نہیں ہو سکتا، لیکن انسان کے اندر یہ صلاحیت اور خوبی موجود ہے۔ ’آئی اے‘ سے نوکریاں کہیں نہیں جائیں گی۔

بس لوگوں کو اب یہ سب چیزیں پڑھانا پڑیں گی۔ کمپیوٹر سائنس کے علاوہ روبوٹکس، الیکٹریکل انجنیئرنگ اور الیکٹرانک انجینئرنگ وغیرہ بھی بہت اہم ہے۔ نجی جامعات میں کمپیوٹر سائنس کے کئی شعبے قائم ہو رہے ہیں اور انجنیئرنگ کے شعبے بند ہو رہے ہیں، کیوں کہ جب داخلے نہیں ہوں گے تو یہی ہوگا۔ ’الیکٹرانک‘ انجینئرنگ میں بہت ملازمتیں ہیں۔ آج بھی ہمارے ہاں اچھے الیکٹرانک انجینئر نہیں ملتے۔‘‘

سوفٹ وئیر انجنیئر کی موجودہ اہمیت کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ وہ اس وقت ’اے آئی‘ بنا رہا ہے اور یہ ایک ’الیکٹرانک انجنیئر‘ کے سمبندھ ہی سے بنتی ہے۔

’ہم نصابی‘ سرگرمیوں میں شرکت ضروری ہے!

شاہ فہد سہیل ’روبوٹکس اور آٹومیشن‘ کے میدان میں آگے بڑھنے کے خواہاں ہیں۔ انھوں نے 2019ء میں داؤد انجینئرنگ یونیورسٹی کراچی سے ’بی ای‘ الیکٹرونک انجنیئرنگ کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’الیکٹریکل انجنیئرنگ‘ بجلی بننے سے متعلق ہوتا ہے، جب کہ ’الیکٹرانک انجینئرنگ‘ بجلی کے استعمال پر بات کرتی ہے، جیسے یہ کہ کم بجلی استعمال کرنے والا الیکٹرانک بورڈ کیسے بنے گا وغیرہ ۔

شاہ فہد کو مختلف اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں تدریس اور مختلف پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا۔ 2020ء میں حکومت کے ’کام یاب نوجوان‘ پروگرام میں بھی حصہ لیا، اس دوران انجینئرنگ کی تعلیم اور روبوٹکس میں خامیوں کا علم ہوا۔ یوٹیوب پر اس حوالے سے اپنی ویڈیو بھی بناتے ہیں۔ فری لانس گرافک ڈیزائنگ اور ویڈیو ایڈیٹنگ وغیرہ کا سلسلہ بھی رہتا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’روبوٹکس‘ میں کوئی ایسی تخصیصی ڈگری نہیں ہوتی، یہ ’الیکٹرانک انجینئرنگ‘ ہی میں شامل ہوتی ہے۔ انھیں ’روبوٹکس سوسائٹی‘ کا حصہ بن کر بہت اعتماد اور حوصلہ ملا۔ اپنی یونیورسٹی سے زیادہ دوسری یونیورسٹیوں اور پھر روبوٹس کے مقابلوں میں سیکھا۔ دوران تعلیم ہی اس اس شعبے میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ یونیورسٹی سے انجنیئروں کو سال میں تین دفعہ کانفرنس اور نمائشوں میں ضرور شامل ہونا چاہیے۔ گریجویشن کے بعد داؤد یونیورسٹی اور شہر کے دیگر تعلیمی اداروں سے ’روبوٹکس‘ میں دل چسپی لینے والے بچے ان کے پاس آتے ہیں، کیوں کہ اس شعبے میں ابھی بہت کم لوگ ہیں۔

جب سب صرف پیسے کمانے لگیں گے تو کوئی تحقیق نہیں ہوگی!

شاہ فہد سہیل کہتے ہیں کہ ہماری یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہے کہ طالب علم کو ایسی کوئی چیز بنانی ہے اور تحقیق کرنی ہے جو اس سے پہلے نہ بنی ہو، لیکن وہاں بھی بچے بس نمبروں ہی کی تگ ودو میں رہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں بحث چلتی ہے کہ ڈگری حاصل کرنے کا کیا فائدہ؟ یہ کما کر تو دے نہیں رہی! اصل بات تو یہ ہے کہ ڈگری پیسے کمانے کے لیے ہوتی ہی نہیں۔ پیسے ’مہارت‘ ہی سے حاصل ہوتے ہیں۔ چائے کا ہوٹل بھی شاید ایک انجینئر سے زیادہ پیسے کماتا ہو۔

ڈگری کا مطلب یہ ہے کہ پڑھنا اور اس کے بعد اپنی تہذیب میں مزید کچھ شامل کرنا۔ یونیورسٹی کا مطلب تحقیق ہوتا ہے، پیسے کمانا نہیں۔ یونیورسٹی کبھی پیسے کمانے کے لیے بنتی ہی نہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک چیز جو موجود نہیں، وہ دریافت ہو۔ ساری ایجادات یونیورسٹیوں کی ذمہ داری ہیں۔ پیسے بنانا تو صنعتوں کا کام ہے۔ یونیورسٹی میں وہ تمام چیزیں موجود ہیں، وہاں کروڑوں اور اربوں روپے کے آلات دست یاب ہیں، لیکن وہاں انھیں کوئی ٹھیک سے استعمال کرتا ہی نہیں۔ اب یہ سوچ ہے کہ آٹھویں، دسویں کلاس کے بعد کوئی ہنر سیکھیے اور پیسے کمانا شروع کیجیے۔

جب سب یہی کرنے لگیں گے، تو پھر کوئی تحقیق نہیں ہوگی اور اس کا طویل المدتی اثر بہت خراب نکلے گا۔ آج دنیا کی ہر کمپنی کا ’سی ای او‘ ہندوستان سے آرہا ہے، تو وہ محض کوئی ہنر سیکھ کر یا مختصر کورس نہیں، بلکہ باقاعدہ یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کیے ہوئے ہے۔ یہ تعلیم اس بات کا ثبوت ہوتی ہے، کہ اس آدمی میں اٹھارہ، بیس سال ایک نظم وضبط کے تحت کام کرنے کا حوصلہ اور قابلیت موجود ہے۔

یہ اس کی باقاعدگی کا ثبوت ہوتا ہے، جب کہ کورس کرنے والے کو ’شارٹ کٹ‘ والا کہا جاتا ہے۔ اگر کہیں انتخاب کرنا ہو تو صرف مہارت کی بنیاد پر کوئی پوزیشن ملنا مشکل ہوتا ہے۔ مہارت کے ساتھ ڈگری ہی اپنی اصل مہر ثبت کرتی ہے۔

انٹرنیٹ پر ویڈیو کے ذریعے پیسے کمانے کو وہ ایک عارضی اور تفریحی چیز خیال کرتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ انٹرنیٹ پر ویڈیو کا مقصد صرف پیغام پہنچانا ہے، جیسے میں ’یوٹیوب‘ کے ذریعے اپنی بات لوگوں تک پہنچاتا ہوں، جسے دیکھنا ہو، وہ دیکھ لے۔ پیسے بنانے کا طریقہ ویڈیو نہیں۔ مکمل طور پر ’یوٹیوبر‘ بننے سے بہت زیادہ فائدہ نہیں۔

The post ہمیں ’روبوٹک اسپورٹس‘ کے لیے کوئی اسپانسر تک نہیں ملتا۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>