Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

قومی وسائل ایک عمرانی جائزہ

$
0
0

پاکستان توبن گیا لیکن آج 75 سال بھی تحریک پاکستان کے اہداف اور برصغیر میں مسلمانوں کے قومی وطن کے مقاصد پورے نہ ہوسکے۔

مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

تحریک پاکستان کے مقاصد میں جہاں مسلمانوں کے قومی وطن میں شعائر اسلامی کا نفاذ اولین اہمیت کا حامل تھا وہاں نوزائید ہ مملکت کے شہریوں کی اقتصادی خوش حالی اور معاشی آسودگی بھی پیشِ نظر تھی۔

درحقیقت برصغیر ہند کے مسلمانوں میں عمومی غربت ان عوامل میں شامل تھی جو مسلمانوں کے علیحدہ وطن کی جدوجہد کا سبب بنی۔ قیامِ پاکستان کے اولین چند سال میں جب قائداعظم، لیاقت علی خان اور دیگر مشاہیر کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور رہی تو قائداعظم کی بصیرت اور برصغیر کے مسلمانوں کی امنگوں سے قریب تر مذکورہ اہداف کی جانب پیش قدمی ہوتی نظر آتی ہے۔

جہاں ایک طرف مارچ 1949ئ؁ کی قرارداد مقاصد کے ذریعے بنیادی آئینی ڈھانچے کے ذریعے ریاست کی سمت کا تعین کیا گیا اور اسی طرح ملک کو اقتصادی طور پر مستحکم کرنے کے لیے پبلک و پرائیویٹ سیکٹرز میں نمایاں پیش رفت ہوئی جس نے ریاست کو مستحکم بنیادوں پر استوار کردیا اور بھارتی قیادت کے عزائم ناکام ہوگئے کہ پاکستان ان کی نظر میں 6ماہ سے زیادہ قائم نہ رہ سکے گا۔

بھارتی قیادت کی پیش گوئی اس وقت تو پوری نہ ہوسکی کیوںکہ مشرقی بازو پاکستان کا حصہ تھا، لیکن جب دسمبر 1971 ء کے اواخر میں میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہوگیا تو مغربی بازو بھارتی قیادت کے گمان کے سامنے نہ ٹھہر سکا اور آہستہ آہستہ آج بہ مشکل آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ قرضے اور دوست ممالک خصوصاً چین کی مدد سے ڈیفالٹ ہونے سے بچ سکا ہے۔

قیام پاکستان کے وقت ان کا خیال تھا کہ پاکستان میں تجارت، صنعت اور بینکاری سمیت سرکاری ملازمتوں میں ہندو اور سکھ چوںکہ بڑی تعداد میں قابض تھے اور وہ ترک سکونت کے بعد ہندوستان منتقل ہورہے تھے، پاکستان کی آبادی اس خلا کو پُر نہ کرسکے گی، لیکن ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمان مذکورہ شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں اور وہ خلا کی احسن انداز میں پُر کرنے کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں۔

لہٰذا خلا بہ آسانی پُر ہوگیا۔ نوزائیدہ ریاست کے استحکام میں جہاں سیاست داں، سیاسی کارکنان، مختلف شعبہ جات کے ماہرین تاجر، بینکار، صنعت کار اور عام شہریوں نے جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہوکر اپنا تاریخی کردار ادا کیا وہیں سول بیورو کریسی نے بھی اپنی صلاحیتوں کا اعلیٰ ترین مظاہرہ کرکے حق ادا کیا۔

27 رمضان المبارک 14اگست کو پاکستان معرضِ وجود میں آگیا اور اسی کے ساتھ ساتھ ملک میں عمرانی مسائل بھی سامنے آنے لگے۔ ملک کی اولین قیادت کے تدبر، دیانت داری، اخلاص اور عوام کے جذبۂ ایثار کے باعث وقتی طور پر ان مسائل سے پیدا ہونے والے اثرات نمودار نہ ہوئے۔

مشرقی پاکستان میں مغربی بنگال کے مسلمانوں کی ہجرت کسی عمرانی مسئلہ کا سبب نہ بنی کیوںکہ زبان اور ثقافت یکساں تھی جب کہ آسام سے نہ صرف مسلمانوں نے مشرقی پاکستان (مغربی بنگال) کی جانب ہجرت کی بلکہ سلہٹ کی صورت میں ایک خطہ اراضی کو بھی اپنے ساتھ پاکستان میں ضم کیا جس کی وجہ سے مقامی اور ہجرت کرکے آنے والی آبادی جلد ہی ایک دوسرے میں مدغم ہوگئی۔

دوسری طرف مشرقی پاکستان میں بنگال سے متصل صوبہ بہار کے لوگوں نے بھی ہجرت کرکے مشرقی پاکستان کو اپنا مسکن بنایا۔ بدقسمتی سے یہ آبادی بنگال کے معاشرے میں زبان کے تفاوت کی وجہ سے مقامی آبادی میں ضم نہ ہوسکی اور اپنے منفرد کلچر کو بہت حد تک برقرار رکھا۔ یہ آبادی آج بھی بنگلادیش میں اجنبیت کے مراحل سے گزر رہی ہے۔

اس نے بنگلادیش کو پاکستان کی جانب سے تقسیم کرنے سے قبل پاکستانی ہونے کے ناتے 16 دسمبر کے بعد معرض وجود میں آنے والے پاکستان منتقل ہونے کے لیے باقاعدہ بین الاقوامی قانون کے تحت ریڈ کر اس کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ ان محصور پاکستانیوں کی منتقلی نصف صدی گزرنے کے بعد بھی ممکن نہ ہوسکی۔

پاکستان کے مغربی بازو میں سب سے پہلے غیرمنقسم ہند کے صوبہ پنجاب جو آج ہندوستان میں 3 صوبوں پنجاب، ہماچل پردیش اور ہریانہ پر مشتمل ہے، سے مسلمانوں کی بھاری اکثریت نے ریاستی جبر اور سکھ آبادی کے بہیمانہ تشدد کی وجہ سے مجبوراً پاکستان ہجرت کی، ان کی بہت بڑی اکثریت نے پنجاب جو اس زمانے میں مغربی پنجاب کہلاتا تھا، رہائش اختیار کی۔

پنجاب کی مقامی آبادی نے خندہ پیشانی کے ساتھ نئے آنے والوں کو خوش آمدید کہا۔ مشرقی پنجاب سے ہجرت کرنے والی یہ آبادی بھی جب تک مقامی آبادی میں مدغم نہ ہوئی تھی، مہاجر کہلائے لیکن جلد ہی مشترک زبان اور ثقافت کے باعث دو سے تین عشروں میں مقامی آبادی کا حصہ ہوگئے او ر متروکہ املاک کے معمولی معاملات کے علاوہ کوئی بڑا عمرانی مسئلہ پیدا نہ ہوا۔ البتہ آج کے صوبہ پنجاب میں جنوبی، شمالی اور وسطی علاقوں میں زبان اور ثقافت کے فرق کی وجہ سے عمرانی مسائل موجود ہیں جن کا اظہارسیاسی اصطلاح میں ہوتا ہے۔

جنوبی پنجاب اور ریاست بہاولپور کو صوبے کا درجہ دینے کی بازگشت سنائی دیتی ہے جو عام انتخابات کے وقت زور پکڑ جاتی ہے۔ اس مضمون میں ہندوستان اور پاکستان کے مابین بین الاقوامی معاہدوں کے نتیجے میں تبادلہ آبادی کے سبب پاکستان کے مغربی بازو میں سکونت اختیار کرنے والوں کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جن عمرانی مسائل کا سامنا ہوا ان کا بطور خاص جائزہ لیا گیا ہے۔

اصطلاحاً مشرقی پنجاب سے ہجرت کرنے والوں کے علاوہ موجود ہ ہندوستان کے علاقوں جن میں یوپی، بہار، سی پی، گجرات، راجھستان ، بمبئی، پونا، کرناٹک، مدراس، اُڑیسا وغیرہ شامل ہیں، کی آباد کاری نے بھی بعض عمرانی مسائل کو جنم دیا، لیکن موجود ہ صوبہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں مذکورہ علاقہ جات کے مہاجر عوام نے بہت کم تعداد میں ہجرت کی اور قابلِ ذکر عمرانی مسائل سامنے نہ آئے۔

البتہ صوبہ سند ھ میں غیرمنقسم ہندوستان کے مذکورہ بالا علاقوں سے کثیر تعداد میں مہاجر صوبہ کے مختلف اضلاع میں ہجرت کے بعد آباد ہوئے اور صوبہ سندھ سے ترک ِ سکونت کرنے والی ہندوآبادی کی ہر شعبے میں جگہ لی۔ اس صوبے میں مستقل سکونت اختیار کرنے والی مہاجر آبادی تعلیم، تجارت، صنعت، بینکاری اور سرکاری ملازمتوں میں بہتر استعداد رکھنے کی وجہ سے صوبہ کے شہروں میں آباد ہوگئی اور مذکورہ شعبوں میں نمایاں نظر آنے لگی۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں سے پاکستان منتقل ہونے والی آباد ی میں دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد بہت کم تھے۔ چناںچہ زراعت کے شعبے میں جزوی طور پر کلمیز کے ذریعے اراضی حاصل کرنے کے باوجود زراعت میں بدستور صوبہ کی مقامی آبادی ہی نمایاں رہی اور حکومتی اقدامات کی وجہ سے آہستہ آہستہ مہاجر کے نام سے پہچانی جانے والی تہذیبی اکائی متروکہ جائیداد کی ملکیت میں اپنے حق سے محروم ہوگئی۔

سندھ میں مہاجر آبادی جسے اردو بولنے والوں کا بھی نام دیا گیا۔ ان تمام جائیداد کی ملکیت کی قانونی طور پر حق دار ہے جو ہندو یہاں پر چھوڑ کرگئے تھے۔ انگریزی زبان کی اصطلاحات Migrant،Imigrant یا Refugee ہو یا تارک وطن، اپنے مفہوم کے تناظر میں عربی لغت کی اصطلاح “مہاجر” کے مماثل نہیں ہے۔

مہاجر کی اصطلاح خالصتاً اسلامی معاشرے کی اصطلاح ہے۔ ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے افراد انگریزی اصطلاحات کے زمرے میں نہیں آتے بلکہ تقسیم ہند کے نتیجے میں پاک بھارت دو طرف ایک اور بین الاقوامی معاہدات کی رو سے “تبادلہ آبادی” قرار پاتے ہیں اور ان معاہدات کے مطابق تبادلہ آبادی کرنے والے مہاجر اس تمام پر شہری و دیہی، صنعتی، تجارتی جائیداد کے براہ راست اور واحد مالک قرار پاتے ہیں جو اس تبادلے کے نتیجے میں پاکستان سے ترکِ سکونت کرکے ہندوستان جانے والے ہندوئوں اور سکھوں نے چھوڑی تھی لہٰذا پاکستان بشمول سندھ میں آباد مہاجر بے زمین نہیں بلکہ متروکہ املاک کے اصل مالک ہیں۔

اب آئیے اس امر کا جائزہ لیں کہ غیرمنقسم ہندوستان کے اقلیتی صوبوں کے عوام نے سکونت کے لیے وادی سندھ کو کیوں منتخب کیا؟ ان کی اس پسند کی پہلی وجہ اقلیتی صوبوں کے مسلمان اور سندھ کے مسلمانوں میں گہری نظریاتی یکسانیت تھی۔

جہاں اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان ان کے علاقوں پر مشتمل نہ ہوگا مطالبہ پاکستان کے حق میں اپنا حق خودارادیت بذریعہ ووٹ استعمال کرکے قیام پاکستان میں فیصلہ کن کردار ادا کیا وہیں پر سندھ کے مسلمانوں نے 1940 ء کی قراردادلاہور سے دو سال قبل 1938 میں سندھ مسلم لیگ کے اجلاس میں منظور کردہ قرارداد کے ذریعے مسلمانوں کے علیحدہ قومی وطن کا مطالبہ کیا تھا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 1943 میں پاکستان کے مغربی بازو میں واقع صوبہ سندھ کی اسمبلی ہی نے مطالبہ پاکستان کی تائید میں قرارداد منظور کی تھی۔ دوسری وجہ سندھ سے ہندوؤں کی آبادی کی ترک ِ سکونت کے باعث صوبے میں آبادی کا خلا پیدا ہوگیا تھا جس کو قدرتی طور پر اس مہاجر آبادی نے پُر کیا۔

سندھ اسمبلی نے قائداعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ کے فرمان پر کراچی جیسے ساحلی شہر، جس کو قائداعظم کی جائے پیدائش ہونے کا اعزاز حاصل تھا، مرکزی دارالحکومت کے طور پر قبول کیا اور اس طرح غیرمنقسم ہندوستان کے دہلی سول سیکریٹریٹ میں مرکزی ملازمین اپنی ملازمت حکومت پاکستان کے سپرد کرنے کی وجہ سے دارالحکومت کراچی منتقل ہوئے اور سول سیکریٹریٹ میں خدمات انجام دینا شروع کیں۔

ان ملازمین کی اکثریت کا تعلق پنجاب بشمول مشرق پنجاب اور دہلی سے تھا۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے 25 اگست 1947 ء کو بلدیہ اعلیٰ کراچی کے استقبالیے میں تقریر کرتے ہوئے کراچی کی تعمیر کی ذمے داری ہندوستان سے منتقل ہونے والے مہاجر اور اس وقت پاکستان کی مقامی آبادی پر عائد کی تھی جس کے نتیجے میں کراچی کی تعمیروترقی میں مہاجر آبادی نے اہم ترین کردار انجام دیا اور تعمیراتی شعبے میں امدادِ باہمی کی انجمنوں کے ذریعے بستیاں آباد کرکے حکومت کا بوجھ کم کیا۔

اسی طرح دیگر شعبوں کی نشوونما میں بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ آج بھی اگر کراچی کو اہمیت اور ملک میں اس کا جائز مقام دیا جائے تو ملک کو قرضوں کے حصول کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کی ضرورت نہ پڑے۔

1965 ء کے صدارتی انتخابات میں کراچی کے شہریوں نے محترمہ فاطمہ جناح کو کام یابی سے ہم کنار کیا اور سرکاری امیدوار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اس صورت حال کے بعد کراچی کی متحرک سیاسی آباد ی کو غیرفعال کرنے کی کوششوں نے زور پکڑا اور شہرقائد کے مکینوں کے لیے مشکلات کے دور کا آغاز ہوگیا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حیدرآباد شہر میں مقیم مہاجر آبادی نے بھی مادرملت کو ووٹ دیاتھا جس کی وجہ سے حیدرآباد میں محترمہ فاطمہ جناح اور فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد مساوی تھی۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد محض حلقوں کا خیال ہے کہ 1972 ء سے سند ھ کی مہاجر آبادی کو سیاسی ومعاشی طور پر کم زور کرنے کا عمل تیز ہوگیا۔

قبل ازیں 1970 میں آمرانہ دور میں سندھ کی ملازمتوں کے لیے کوٹا سسٹم کا غیر منصفانہ فارمولا وضع کیا گیا، جس کے نتیجے میں کراچی، حیدرآباد، سکھر کے شہری علاقوں کے لیے 40 فی صد اور سندھ کے بقیہ اضلاع کے لیے 60 فی صد نشستیں مختص کی گئیں، جس پر گہرے تحفظات کے باوجود مکمل طور پر عمل درآمد نہ ہوسکا اور ناانصافی کا یہ کھیل آج تک جاری ہے۔

اس صورت حال کے باعث سندھ میں دیہی اور شہری آبادی کے مابین مثبت اشتراک عمل فروغ نہ پاسکا حالاںکہ 1970 ء میں کراچی کی سندھ میں شمولیت کی عوامی سطح پر پذیرائی کے بعد مہاجر سول سوسائٹی نے شہرقائد میں خالقدینا ہال سمیت متعدد مقامات پر سندھی زبان سکھانے کا اہتمام کیا تھا۔ یہ عمل بتدریج آگے بڑھتا تو سندھ کی آبادی میں بہتر رشتے تشکیل پاتے۔

یہ امر یقیناً خوش آئند ہے کہ اندرون سندھ چھوٹے شہروں، دیہی علاقوں کے نوجوانوں نے حصول علم کی جانب توجہ مرکوز کی اور حکومت کی جانب سے سہولیات کی فراہمی سے مستفیض ہوتے ہوئے سندھی نوجوانوں نے سرکاری وغیرسرکاری ملازمتوں سمیت زندگی کے دیگر شعبوں میں شمولیت اختیار کی اور ملازمتوں سمیت دیگر جگہوں جن پر 70 کی دہائی کے آخر تک مہاجر ہی نظر آتے تھے اب بتدریج سندھی نوجوان آگے بڑھنے لگے جو کوئی مصنوعی عمل نہیں بلکہ فطری تقاضا ہے۔

بدقسمتی سے صوبہ میں اقتدار کے خواہش مند بعض سیاسی طبقات نے اس متوقع مثبت پیش رفت کو اپنی ذاتی منفعت کے لیے استعمال کیا اور حالات کو تعصب کی نذر کردیا۔ سندھ میں آباد دوسری بڑی لسانی اکائی، مہاجر، سماجی وسیاسی محرومیوں کا شکار ہوتی گئی جس کے نتیجے میں 80 کے عشرے کے اوائل میں آمرانہ اقتدار میں مہاجر کی اس محرومی کے ردعمل کو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کرتے ہوئے غیرتعمیری سمت پر ڈال دیا گیا۔

کراچی، حیدرآباد، سکھر، میرپورخاص وغیرہ کی شہری آبادی کا دیہی معیشت سے براہ راست کوئی تعلق نہیں جس کی وجہ سے اس آبادی کا تمام تر دارومدار سرکاری وغیرسرکاری ملازمتوں پر ہے۔ اس حقیقت کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔

وہ تہذیبی اکائی جسے مہاجر کہتے ہیں، نے پاکستان کے لیے ہجرت کی تھی لیکن ون یونٹ کے قیام اور خصوصاً سقوط ڈھاکا کے بعد جب سیاسی گھٹن کے ماحول کی وجہ سے صوبائی اور علاقائی تعصبات نے جڑیں پکڑیں اور صوبوں کی مقامی آباد ی نے پاکستان کے علاوہ اپنی صوبائی شناخت کو فوقیت دینی شروع کردی، ایسی صورت حال میں مہاجر عوام کے لیے اور بھی مشکل ہوگیا کہ وہ پاکستان کے بجائے اس صوبے کے نام پر اپنی شناخت تلاش کریں۔

آئیے اب ان عمرانی مسائل کے ممکنہ حل کے لیے چند تجاویز پر غور کریں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں کم ازکم دو قابل ذکر بڑی تہذیبی اکائیاں موجود ہیں جن پر مشتمل انتظامی صوبے قائم کیے جاسکتے ہیں۔ ہمارے ملک کے ہر صوبے میں متعدد تحصیلوں کو ضلع اور ضلعوں کو ڈویژن کا درجہ دیا جاچکا ہے، جس کی وجہ سے انتظامی صوبوں کا جواز موجود ہے۔

اس طریقۂ کار پر عمل درآمد سے ملک کے ایوان بالا سینیٹ میں نمائندگی دگنی ہوجائے گی جس سے ملک کا وفاقی ڈھانچا مزید مستحکم ہوگا۔ دوسری طرف کم آبادی کی وجہ سے بلوچستان کی قومی اسمبلی میں نمائندگی کو وینٹیج کے فارمولے کے تحت آبادی سے زائد نشستیں مختص کی جائیں۔ پاکستان میں اسی طرح کی دو مثالیں موجود ہیں۔

پہلی 1956 اور بعد ازآں 1962 کے آئین کے تحت مغربی پاکستان میں ون یونٹ نظام کے تحت جھوٹے صوبوں کو ان کی آبادی سے زاید نمائندگی دی گئی تھی جس کے لیے پنجاب نے عددی اکثریت پر1955 میں سمجھوتا کیا تھا۔

دوسری بڑی مثال 1956 اور 1962 کے آئین میں مشرقی پاکستان نے اپنی عددی اکثریت پر ایک عمرانی معاہدے کے ذریعے قومی اسمبلی میں مغربی پاکستان کے لیے مساوی نشستوں کا اصول طے کیا تھا جس پر 1969 تک عمل درآمد ہوتا رہا۔ مزید برآں ملک میں مقامی حکومتوں کو بااختیار بنائے بغیر قومی اور عوامی مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔

مقامی حکومتوں کے نظام کو صوبوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے سے مثبت نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ لوکل گورنمنٹ کے اداروں کے تناظر میں آئین کی شق 140اے کافی نہیں بلکہ جس طرح وفاق اور صوبوں کے اختیارات کا مکمل نظام آئین میں موجود ہے اسی طرح لوکل گورنمنٹ جو کہ ریاستی ڈھانچے کا تیسرا ستون ہے، کے اختیارات و فرائض کو آئین میں واضح کیا جانا ضروری ہے۔

ابھی حال ہی میں پارلیمان نے اپنے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ 2017 میں اصطلاحات کے نام پر بعض ترامیم منظور کیں لیکن یہ امر مایوس کن ہے کہ ایک طرف قانون کی شق 230کے ذریعے عام انتخابات میں نگراں حکومتوں کے کردار میں اضافہ کیا گیا ہے لیکن دوسری طرف نگراں حکومتوں کی میعاد کار کا تعین نہیں کیا گیا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ انتخابات کے جمہوری عمل کے نتیجے میں منتخب ایوانوں کی میعاد 5 سال مقرر ہے مگر غیرمنتخب اور نام زد نگراں حکومتیں غیرمعینہ مدت کے لیے کام کرسکتی ہیں جو جمہوریت کے نام پر بدنما داغ ہے۔

The post قومی وسائل ایک عمرانی جائزہ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles