ابھی ایک برس پورا ہوا کہ ہم نے اپنی آزادی کی ڈائمنڈجوبلی منائی تھی اور اب ہم اپنی آزادی کی 100 ویں سالگر ہ یعنی پلاٹینیم جوبلی کی جانب بڑھ رہے ہیں میں پاکستان کی اُس نسل کا فرد ہو ں جو پہلی پاکستانی نسل کہلاتی ہے یعنی پاکستان بننے کے بعد پہلی دہائی میں پاکستان ہی میں پیدا ہوئی۔
واضح رہے کہ جب پاکستان آزاد ہوا تو اُس وقت کے مغربی پاکستان اور آج کے پاکستان سے 45 لاکھ ہندوںاور سکھوں نے بھارت ہجرت کی اور اس کے مقابلے بھارت سے65 لاکھ مسلمان ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔1951 ء میں پہلی مردم شماری میں آج کے پاکستان کی آبادی 3 کروڑ40 لاکھ تھی۔ اسی سال پاکستان سٹیزن ایکٹ نافذالعمل ہوا جس کے تحت پاکستان کے باشندوں کو ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ جاری ہو تا ہے۔
اس سیٹیزن ایکٹ کے بعد بھارت سے پاکستان آنے والوں کا داخلہ بند ہو گیا، مگر اس سے قبل ہی ایک جانب تو کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان پہلی جنگ ہو ئی جس میں پاکستان نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کو آزاد کرا لیا۔ یہ جنگ جاری تھی کہ قائد اعظم کی بیماری بہت بڑھ گئی اور اس بیماری میں آرام اور علاج کی غرض سے قائد اعظم جولائی 1948 ء میں بلو چستان کے صحت افزامقام زیارت آگئے۔
قائداعظم بطور قومی رہنما علامہ اقبال کے اس شعر پر پور اترتے تھے کہ ( نگاہ بلند سخن دلنوز جاں پُر سوز ۔۔یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لیے) وہ یہ جانتے تھے کہ کشمیر پر کسی طرح بھی پنڈت جواہر لال نہرو کی کسی بات پر یقین نہیں کر نا چاہیے مگر دوسری جانب قائد اعظم کے بعد کی قیادت اُن کے جیسی بلند نگاہی سے تو محروم تھی، ہاں یہ ضرور تھا کہ وہ بھی قائد کی طرح قوم کے لیے پُر سوز جان رکھتے تھے۔
بعد کی قیادت مستقبل کا درست اندازہ لگانے کی صلاحت سے محروم نظر آئی۔ اس لیے پاکستان نے نہرو کے اقوام متحدہ جانے پر جنگ بندی کو قبول کر لیا۔ نہرو نے زبانی کشمیر پر کشمیریوں کے حق خود مختاری کو تسلیم کیا تو پاکستانی قیادت اس اعتبار کر بیٹھی۔
کانگریس نے آخری انگریز گورنر جنرل ہی کو بھارت کا پہلا گورنر جنرل بنا لیا تھا اوریوں لارڈماونٹ بیٹن کے ساتھ سازش کر تے ہو ئے جب ریڈ کلفٹ کمیشن سے ہندو ںنے مسلم اکثریت کے علاقوں پر مشتمل پنجاب کی تقسیم کروائی گئی تو مشرقی پنجاب میں ضلع گروداسپور، فیروز پور اور زیرا کے مسلم اکثریتی علاقے بھارت کو دیے دئے تھے اور یہاں ہندوستان کے وزیر داخلہ سردار ولب بھائی پاٹیل نے ماسٹر تارا سنگھ سے مل کر ایسے خونرز ہندو مسلم فسادات کر وائے تھے جن کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
دوسری طرف بنگال میں ہند و آبادی 30% تھی لیکن ’نوا کھلی‘ کے ایک واقعہ کے بعد موہن داس گاندھی نے مشترکہ بنگال کے آخری وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کے سامنے ’مرن برت‘ رکھ لیا یعنی تادم مرگ بھوک ہڑتال کر کے اتنا دبائو پیدا کیا کہ انتظامیہ نے بنگال میں ہندو مسلم فسادات نہ ہونے دئیے۔ قائد اعظم جانتے تھے کہ اِس وقت اہم ترین مسئلہ کشمیر ہے۔ انہوں نے اُس وقت انڈو نیشیا کی آزادی کے حق میں اور فلسطین میں اسرائیل کے قیام کے خلاف واشگاف انداز میں بیانات دئیے تھے۔
آج جب ہم 76 واں یوم آزادی منا رہے ہیں تو ساتھ 9 دن پہلے ہم نے 5 ۔اگست 2023 ء کویوم استحصال ِ کشمیر بھی منا یا جو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے خلاف منایا جاتا ہے۔ چار سال پہلے 5 اگست 2019 ء کو بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 اور35A کو ختم کردیا گیا۔ یہ دونوں آرٹیکل پنڈت جواہر لال نہرو نے اُس وقت بھارتی آئین میں شامل کئے تھے جب 1947-48ء میں کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان لڑی جا نے والی پہلی جنگ میں پاکستان نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے بھارت سے آزاد کرا لیے تھے اور پھر اس جنگ کو روکنے کے لیے خود نہرو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کو نسل میں پہنچے تھے اور اس کے ذریعے یہ قرار داد منظور کرائی تھی کہ ابھی ریاست جموں و کشمیر میں جنگ روک دیا جائے اور ریاست کے عوام ووٹ کے ذریعے یہ فیصلہ کر یں کہ وہ پاکستان میں شامل ہو نا چاہتے ہیں یا بھارت میں۔
اب پنڈت نہرو اقوام متحدہ میں متفقہ طور منظور ہو نے والی قرارداد کو خود ہی بے اثر کرنے کے لیے مقبوضہ بھارتی کشمیر کی سیاسی قیادت کو اپنے ساتھ ملا نے کے کام میں لگ گئے۔ وہ چاہتے تھے کہ رائے شماری کو ہر صورت رکوایا جائے۔ پنڈت نہرو نے پہلے تو جموں و کشمیر میں رائے شماری رکوانے کے لیے موسمی حالات کا بہانہ بنا یا۔ پھر مقبوضہ جموں و کشمیر جہاں جموں کے علاقے میں 65% سے زیادہ مسلمان تھے اور وادی کشمیر جہاں 95 فیصد مسلم اکثریت تھی وہاں کے چند سیا ستدانوں کو یقین دلایااورآماد کیا کہ اُن کو آئینی طور پر بھارتی حدود میں رہتے ہو ئے جموں و کشمیر کی اندرونی، آزادی اور خود مختاری کی ضمانت ہوگی یوں بھارت کے آئین میں 370 کے آرٹیکل کے تحت یہ ضمانت دی گئی کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی حکومت بھارتی حدود میں رہتے ہوئے آزاد اور خود مختار ہو گی یعنی اس کی حیثیت بھارتی صوبے کی بجائے ایسی خود مختار ریاست کی ہو گی جو اندرونی طور پر خود مختار ہو گی۔
یوں 370 آرٹیکل کی بنیاد پر ریاست کے وزیر اعلیٰ کی بجائے اس کا منصب مقبوضہ جموں وکشمیر میں وزیر اعظم کا تھا۔ پھر کشمیر میں مسلم شناخت اور آبادی میں مسلم اکثریت کو تحفظ دینے کے لیے 35A آرٹیکل کے ذریعے یہ ضمانت دی گئی کہ مقبو ضہ جموں وکشمیر میں صدیوں سے رہنے والے کشمیری ہی یہاں کے مقامی باشندے تصور ہونگے اور بھارت یا دنیا کے کسی بھی حصے سے کو ئی شخص آکر یہاں زمین یا جا ئیداد نہیں خرید سکتا۔
بھارت میں مودی سرکار نے 5 اگست 2019 ء کی بھارتی آئینی ترمیم کے ذریعے مقبوضہ جموں وکشمیر کے وہ حقوق چھین لیے جن کے لیے ایک طرف تو بھارت نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کو نسل میں متفقہ طور پر قرارداد منظور کر اوئی تھی اور پھر اسی قرار داد پر اقوام متحدہ کو یقین دلانے کے لیے آئینی ضمانت دی تھی اس لیے یہ ایک عہد نامہ تھا جو بھارتی آئین میں ایک جانب اقوام متحدہ کی سیکورٹی کو نسل سے کیا گیا تحریری وعدہ تھا اور دوسری جا نب مقبوضہ جموں و کشمیر کے کشمیریوں سے وعدہ کیا گیا تھا اس لیے بھارت کی پارلیمنٹ اکثریت کی بنیاد پر ایسی آئینی ترمیم کرنے کی مجاز نہیں ہے۔
اگر چہ اس کا مقدمہ بھارت کی سپریم کورٹ میںزیرِسماعت ہے مگر وہاں بھی مذہبی متعصب جما عت بی جے پی اور مودی سرکار کا ایسا دبائو ہے کہ اس کیس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ آج آزادی ِ پاکستان کی 76 ویں سالگر ہ کے موقع پر اِن باتوں کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ واضح کیاجائے کہ کسی بھی ملک کی آزادی کو حاصل کر نے سے کہیں زیادہ اہم اُس ملک کی آزادی کا استحکام ہو تا ہے اور پا کستا ن کے حوالے سے یہاں یہ بالکل واضح ہے کہ پاکستا ن کی آزادی جہاں بہت مشکل ترین مراحل سے گذری ہے وہیں قیام پاکستا ن سے قبل ہی پاکستان کے دشمن پا کستا ن کے استحکام کے خلاف سر گرم ِ عمل ہو گئے تھے، اور ہم استحکام آزادی کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
تحریک ِپا کستان سے آج تعمیر اور استحکام ِپاکستان کے تمام مراحل پر نظر ڈالیں تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان اپنے نظریہ کے اعتبار سے بھی اپنے ہمسایہ ممالک سمیت دنیا بھر کے لیے امن کا سفیر رہا ہے۔
نہرو رپورٹ کے بعد قائد اعظم نے 1929 میں اپنے چودہ نکات پیش کر کے ایک بار پھر میثاق لکھنو کی تجدید پرآل انڈیا کانگریس کو آمادہ کرنے کی کو شش کی لیکن علامہ اقبال ہندو ذہنیت کو سمجھ چکے تھے ،اس لیے جب الہ آباد میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ان کی صدارت میں منعقد ہوا توانہوں نے یہاں پاکستان کا واضح تصور پیش کیا اور کہا کہ مسلم اکثریت پر مشتمل علاقے پنجاب، کشمیر ،سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو ایک ریاست پاکستان بنا دیا جائے۔ اس کے ساتھ انہوں نے اپنی فکر انگیز پُر اثر اور پُر جوش شاعری سے برصغیر کے مسلمانوں کو بیدار کیا اور بتا یا کہ ’خاص ہے ترتیب میں قوم ِ رسولِ ہاشمی‘ اُ نہوں نے تمام شاعر ی مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لیے کی علامہ اقبال نے یقین دلایا کہ، ہر لحظہ مومن کی نئی شان نئی آن ۔۔گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان۔
علامہ اقبال ہم سے 21 اپریل 1938 کو جدا ہوگئے۔ اور اس کے دو برس بعد 23 مارچ 1940 کو پورے برصغیر سے مسلم لیگ کے، رہنما، لاہور میں قائد اعظم کی صدارت میں جمع ہوئے اور قرارداد پاکستان، جو اُس وقت قرار داد لاہورکہلائی منظور کرلی ۔ 75 برسوں سے ماہرین سیاست اور مورخین اس بات پر حیران ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے کیسے 23 مارچ 1940 ء کی قرارداد پاکستان کے بعد صرف سات برس کی مدت میں آزادی حاصل کر لی اور آزادی کے فوراً بعد ہی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے بزور بھارت سے آزاد کرا لیے۔
یہ قائداعظم کی قیادت کا اعجاز تھا کہ ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ اگست 1945 ء میں جب اقوام متحدہ کے قیام کے بعد دنیا سے مرحلہ وار نو آبادیا تی نظام کے خاتمے کا عمل شروع ہوا تو اس کے ساتھ پرانے شکاری نیا جال لے کر آگئے اور نیا اقتصادی نو آبادیاتی نظام متعارف کراتے ہو ئے اپنی نو آبادیات میں سرحدی تنازعات چھوڑے، مالی معاونت اور امداد کے نام پر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کرتے ہوئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ جنگوں میں اُلجھایا اور سیاسی نو آبادیاتی نظام سے آزاد ی حاصل کرنے والے ملکوں کو اپنا اسلحہ فروخت کیا۔ انگریز نے مشرق وسطٰی میں فلسطین کی جگہ اسرائیل قائم کر دیا۔
اس سے قبل25 اکتو بر 1947 ء کو قائد اعظم نے کہا تھا ’’مجھے اُمید ہے کہ فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ رد کر دیا جا ئے گا وگرنہ دوسری صورت میں یہ مسلم دنیا کے لیے بڑی تباہی اور نا قابل ِ مثال تنازعے کا سبب بنے گا ، مسلم دنیا اس فیصلے کے خلا ف ہو گی اور پاکستان کے پاس اس کے سوااور کو ئی دوسرا راستہ نہیں ہو گا کہ وہ اپنی بساط کے مطابق اس فیصلے کو روکنے کے لیے عرب دنیا کا بھر پور ساتھ دے میرے خیال کے مطابق فلسطین کی تقسیم کے خلاف شدید درعمل ہو گا‘‘ اسی طرح 1948 ء میں قائد اعظم نے شمالی افریقہ اور عرب ملکوں کی کُھل کر حمایت کی۔
پھر اُنہوں نے انڈونیشیا پر نیدر لینڈ کے حملے کی بھی شدید مخالفت کی تھی۔ قائد اعظم نے کشمیر پر ایسی جنگی حکمت عملی اپنائی اور ایسی بہادری سے جنگ لڑی کہ چار گنا زیادہ طاقت کے حامل ملک بھارت سے ٓزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے آزاد کرا لیے اور بھارت کو یہاں سے افغانستان اور تاجکستان تک واہ خان کاری ڈور سے جو خشکی کا راستہ میسر تھا وہ چھین لیا۔ اب بھار ت خشکی کے راستے ایران ، افغانستان، سنٹرل ایشیا، یورپ اور مشرق وسطٰی اور عرب ملکوں تک رسائی سے محروم ہے۔ بھارت بحرہند میں طویل سمندری راستے سے انڈونیشیا اور دیگر ملکوں تک جا سکتا ہے جب کہ چین سے اس کی سرحد ہمالیائی بلندیوں پر ہے۔
قائد اعظم بھارت سے اقوام متحدہ کے تحت بھی جنگ بندی پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اُن کا یقین تھا کہ وہ جنگ سے جموں وکشمیر حاصل کر لیں گے۔ اس طرح پا کستا ن آنے والے دنوں میں سارا سال بہتے دریاوں کو بھی محفوظ کر لیتا مگر افسوس قائد اعظم کی وفات کے صرف تین مہینے5 دن بعد، 5 جنوری 1949ء کو پاکستان نے اقوام متحدہ میں پنڈت جواہر لال نہرو کی جانب سے کشمیر پر استصواب رائے کی یقین دہا نی پر جنگ روک دی۔
کہا جا تا ہے کہ کامیابی کا راستہ کبھی سید ھا اور ہموار نہیں ہو تا اس راستے میں بہت سے پیچیدہ موڑ اور نشیب و فراز آتے ہیں جس کو اعلیٰ ظرف ،باکردار، اصول پرست لیڈر بہت استقامت ، صبر، مستقل مزاجی سے طے کرتے ہیں۔ قائد اعظم نے ہندوستان کی مشترکہ آزادی کے لیے ہندو مسلم اتحاد کا ایک ایسا آئینی فار مولا دیا تھا کہ اگر میثاق لکھنو کے تحت آزادی کی تحریک چلتی تو نہ صرف مشترکہ ہندوستان جنگ عظیم اوّل 1914-18 ء کے فوراً بعد آزاد ہو جا تا بلکہ اسی میثاق لکھنو کی بنیاد پر مشترکہ ہندوستا ن کا آئین تحریر پا تا تو ہند و ستان میں ہند و مسلم اتحاد ہمیشہ قائم رہتا۔
قائد اعظم کا موقف تھا کہ انگریز برصغیر میں مرحلہ وار بر طانوی طرز کی پارلیمانی جمہوریت متعارف کرا رہا ہے اس سے مسلمانوں کو شدید نوعیت کے خطرات اور اندیشے لاحق ہیں، کیونکہ اگر Majority is Authority کے اصول کو بر صغیر میں بھی اُسی پارلیمانی طریقے سے اپنا لیا جائے گا تو ہند واپنی دو تہائی اکثریت سے ایسے قوانین نافذ کر دیں گے جن سے برصغیر میں مسلمانوں کی شناخت بھی ختم ہو جا ئے گی اور اُن کے معاشی ، اقتصادی ، مذہبی، سیاسی حقو ق بھی پامال ہو جا ئیں گے۔ اس لیے قائد اعظم نے یہ دلائل دیئے کہ برصغیر میں جداگانہ طرز انتخاب کو رائج کیا جا ئے۔
اسی بنیاد پر قائد اعظم نے یہ کہا کہ جہاں تک مرکزی اسمبلی میں عام قوانین کا تعلق ہے جن سے کوئی ہند و مسلم تنازعہ نہیں اُبھرتا تو وہ مجموعی طو ر پر Majority is Authority کے اصول پر تشکیل پائیں لیکن جہاں مسلم تشخص کی بات ہو، ایسے قوانین اگر تشکیل دیئے جائیں تو وہ Majority is Authority کی بجائے یوں ہو ںکہ جو 30 مسلم ممبران کی تعدا د مرکزی اسمبلی میں موجود ہے اُس کی دوتہائی اکثریت ہی ایسے قوانین کو منظور کر نے کی مجاز ہو۔
مسلمانوں کو 30% کے تناسب سے مرکز اور صوبائی سطح پر ملازمتیں دی جائیں اور اسی طرح ہند و مسلم اتحاد کو زیادہ مضبوط اور پا ئیدار بنانے کے لیے صوبوں میںجہاں مسلم اکثریت ہے وہاں مسلمان اپنے تناسب سے کچھ زیادہ اور جن صوبوں ہندو اکثریت ہے وہاں ہند و اپنے تناسب سے کچھ زیاد ہ نشستیں ایک دوسرے کو دیں۔
1928 ء میں بھارت کے پہلے وزیر اعظم کے والد کانگریس کے اُس وقت کے صدر موتی لال نہرو نے اپنی نہرو رپورٹ میں میثاق لکھنو کویک طرفہ طور پر مسترد کر دیا۔ اس کے بعد جناح کے چودہ نکات کو بھی نظر انداز کر دیا گیا اور اسی کو محسوس کر تے ہو ئے الہ آباد میں 1930 ء میں علامہ اقبال نے پاکستان کا تصور پیش کر دیا۔ آج جب ہم آزادی کی76 ویں سالگرہ منا رہے ہیں تو دنیا میں 5 اگست 2019 ء کوبھارت نے اپنے آئین میں کئے گئے وعدے سمیت بھارتی آئین اور اقوام متحدہ کی قرارداد کی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور بالکل 1916 ء کے میثاق لکھنو کی طرح اس کو مسترد کیا ہے یہ معمولی واقعہ نہیں ہے اور اس کے بعد بھارت نے حوصلہ پا کر بہت کچھ کر نا ہے۔
بلوچستان کے حوالے سے بھی آخری وقت تک کانگریس کی یہ کوشش تھی کہ بلوچستان بھارت میں شامل ہو۔ واضح رہے کہ بھارت نے دل سے قیام پاکستان کو قبول نہیں کیا تھا بلکہ اُس وقت سے وہ استحکام پاکستان کے خلاف پہلے پس پردہ سازشوں میں مصروف تھا اب اعلانیہ وہ پاکستان کے خلاف کام کر ہا ہے اور متواتر ہمیں نقصان پہنچا رہا ہے جبکہ ہمارا قومی اتحاد پارہ پارہ ہے۔ اپنے قومی مقاصد کی تکمیل کی جد وجہد محض کسی حکومت کا نہیں ہر پا کستانی کا فرض اولین ہے۔
The post آزادی کے بعد استحکام آزادی کی منزل حاصل نہیں ہوئی appeared first on ایکسپریس اردو.