شاعری کی اصناف میں قدرے مشکل تصور کی جانے والی اصناف میں تضمین و گرہ بندی سرفہرست ہیں، مگر ہر دور میں چند ایسے نام وارن سخن رہے ہیں جن کے دم سے اس صنف کی تابندگی برقرار رہی۔ ایسے ہی کاملانِ فن کے ذکر پر مبنی مضمون کا دوسرا حصہ ادب پسندوں کی ضیافت طبع کے لیے پیش خدمت ہے۔
دلی کے معروف شاعر مرزا قادر بخش صابر دہلویؔ، امام بخش صہبائیؔ کے شاگرد تھے اور قادرالکلام شاعر تھے۔ انہیں ان کے دوست مرزا رحیم الدین ایجادؔ نے ازراہ امتحان درج ذیل مصرعہ دیا:
؎خاک شفاء ملی تو میں بیمار ہوگیا
اور مصرع کو گرہ بند کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مرزا قادر بخش صابر ؔنے دوست کی خواہش کے احترام میں درج ذیل اشعار قلم بند کیے:
؎معلوم یہ ہوا کہ ہے پرسش گناہ کی
عاصی گناہ نہ کردہ گنہگار ہو گیا
اس کی گلی میں آن کے کیا کیا اٹھائے رنج
’’خاک شفاء ملی تو میں بیمار ہوگیا‘‘
ثاقبؔ لکھنوی کو شعروسخن کی ایک محفل میں برق لکھنوی نے ایک مصرعہ دیا:
؎نہ وہ آسماں کی ہیں گردشیں نہ وہ صبح ہے نہ وہ شام ہے
اور مصرع کو شعر میں ڈھالنے کی فرمائش کی۔ ثاقبؔ نے برائے فکرسخن چند ثانیے خاموشی اختیار کی اورپھر درج ذیل اشعار کہے:
رخ و زلف کا ہوں فسانہ خواں، یہی مشغلہ یہی کام ہے
مجھے دن کا چین عذاب جاں مجھے شب کی نیند حرام ہے
کہوں حسرتوں کا ہجوم کیا دِردل تک آکے وہ بے وفا
مجھے یہ سنا کے پلٹ گیا کہ یہاں تو مجمع عام ہے
نہ وہ مہر و ماہ کی تابشیں، نہ وہ اختروں کی نمائشیں
’’نہ وہ آسماں کی ہیں گردشیں نہ وہ صبح ہے نہ وہ شام ہے‘‘
بمبئی سے حکیم عبدالحمید فرخ نے ایک گلدستہ ارمغان فرخ کے نام سے شائع کیا، جس میں ہر ماہ ایک مصرع طرح دیا جاتا تھا اور شعراء کو اس پر طبع آزمائی کی دعوت دی جاتی۔ ایک ماہ جب درج ذیل طرح مصرع دیا گیا:
’’پوچھی زمین کی تو کہی آسمان کی‘‘
تو دیگر نامی گرامی شعراء کے علاوہ اس وقت محض تیرہ برس کے ابوالکلام آزاد ؔنے بھی اپنے فطری ذوق شعرگوئی کے بل بوتے پڑ اسی طرح میں گیارہ اشعار کی ایک شان دار غزل کہی جسے اس گلدستہ میں نمایاں طور پر شائع کیا گیا۔ اور یہی غزل بعد ازآں ان کی باقاعدہ سخن وری کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوئی۔ کہی گی غزل کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
؎نشتر بہ دل ہے آہ کسی سخت جان کی
نکلی صدا تو فصد کھلے گی زبان کی
گنبد ہے گردباد تو ہے شامیانہ گرد
شرمندہ میری قبر نہیں سائبان کی
آزادؔ بے خودی کے نشیب و فراز دیکھ
’’پوچھی زمین کی تو کہی آسمان کی‘‘
معروف استاد شاعر نظم ؔطباطبائی کو ایک مصرع گرہ بندی کے لیے پیش کیا گیا:
؎جھومتی قبلہ سے گھنگھور گھٹا آتی ہے
اس پر مرحوم نے فوری طور پر تو یہ باکمال مصرع تخلیق کیا:
؎لطف جب ہے کہ برسنے لگے میخانے پر
’’جھومتی قبلہ سے گھنگھور گھٹا آتی ہے‘‘
مگر بعد ازآں مزید غوروفکر کے بعد ایک مزید مصرع اس طرح ترتیب دیا:
؎کیا عجب ہے کہ صراحی بھی کرے سجدۂ شکر
’’جھومتی قبلہ سے گھنگھور گھٹا آتی ہے‘‘
ڈپٹی مولوی نذیر احمد دہلوی کا میدان اگرچہ نثر تھا مگر شعرگوئی و شعرفہمی میں بھی کامل ذوق رکھتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ایک پادری نے ان کی اسلام پسندی کی آزمائش کرتے ہوئے درج ذیل مصرعِ پر گرہ لگانے کی فرمائش کی:
دینِ اسلام مٹے، دینِ مسیحا بڑھ جائے
مولوی صاحب نے قدرے تامل کے بعد مصرع ثانی ارشاد فرمایا اور شعر مکمل کردیا:
؎ اگر براقِ نبیؐ سے خرِعیسیؑ بڑھ جائے
’’دین اسلام مٹے، دین ِ مسیحا بڑھ جائے ‘‘
حیدر حسین فضائؔ لکھنوی اپنی کتاب’’لکھنؤ کے اُمّی شعرائ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ لکھنؤ کے علاقے منصورنگر میں طرحی مشاعرے کی محفل تھی۔ مصرح طرح تھا:
؎دم آسماں پہ نکلا تربت بنی زمیں پر
مشاعرہ لکھنؤ کے مقامی شاعرمرزا ہادی حسین نشترؔ کے ہاتھ رہا، جو کاظم جاوید ؔ لکھنوی کے شاگرد تھے۔ انہوں نے درج ذیل مصرع لگا کے طرح کی معنوی خوب صورتی کو دوبالا کردیا:
؎زانو پہ ان کے سر تھا جب موت مجھ کو آئی
دم آسماں پہ نکلا تربت بنی زمیں پر
طالبؔ دہلوی اپنی کتاب ’’یہ تھی دلی‘‘ میں دلی کے قدیم شعراء کی یادیں تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’ایک محفل میں شیرسنگھ نازؔ دہلوی چہرے پر پریشانی کے آثار لیے خاموش بیٹھے تھے۔ ساحر ؔدہلوی ے طبیعت کی بوجھل پن کی وجہ دریافت کی تو بولے: شعر کا مصرع ثانی تو ہوچکا مگر مصرع اولی حسبِ منشاء نہیں ہورہا۔ ساحر ؔنے مصرعہ پوچھا تو ناز بولے:
؎جو سفینہ دل کا تھا درہم ہوا برہم ہوا
اس پر ساحرؔ نے ان کی پیٹھ تھپتھپائی اور کہا مصرع اولٰی اس طرح کر دو
؎ قلزم الفت میں وہ طوفان کا عالم ہوا
نوادرات سخن نامی کتاب میں آرزو ؔلکھنوی کی قادرالکلامی کے بارے بیان کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ ’’ایک مرتبہ آرزوؔلکھنوی کے ایک دوست نے درج ذیل مصرع پڑھا اور فرمائش کی کہ اس پر مصرع لگا دیجیے:
؎اڑ گئی سونے کی چڑیا رہ گئے پر ہاتھ میں
آرزو نے مہلت مانگی اور چند منٹ کی فکرِسُخن کے بعد شعر کو یوں مکمل کیا:
؎دامن اس یوسف کا آیا پرزے ہو کر ہاتھ میں
’’اڑ گئی سونے کی چڑیا رہ گئے پر ہاتھ میں‘‘
ہندوستان کے شہر مراد آباد کی ادبی خدمات کے حوالے سے قمرقدیرامام کی تحریر کردہ کتاب ’’چراغ شہر جگر کے‘‘ میں تحریر ہے کہ ’’مراد آباد شہر میں ِشعروسخن کی ایک محفل میں مصرع طرح دیا گیا:
؎اے برقِ حسن آگ لگا دے نقاب میں
مشاعرے میں دیگر شعراء کے علاوہ جگرؔ مرادآبادی بھی موجود تھے جنہوں نے مصرع طرح پر درج ذیل مصرع لگا کر مشاعرہ لوٹ لیا:
؎آنکھیں ہیں وقفِ کشمکشِ انتظارِدید
’’اے برق حسن آگ لگا دے نقاب میں‘‘
دلی میں رہنے والے اساتذہ سخن میں غافل ؔہریانوی کا بھی شمار کیا جاتا تھا۔ غافل ہریانوی کو ایک بار کسی منچلے نے مصرع دیا اور کہا کہ اس کو شعر میں باندھیں تو آپ کو استاد مانوں:
؎سوئے زمیں پہ آنکھ کھلی آسمان پر
غافلؔ صاحب نے مسکرائے اور کچھ لمحات کی فکر انگیزخاموشی کے بعد بولے’’لو میاں! سنو پھر‘‘:
؎ پہنچے جو رات خواب میں ان کے مکان پر
’’سوئے زمیں پہ آنکھ کھلی آسمان پر‘‘
خطابت کی دنیا کا معروف نام علامہ اظہر حسن زیدی مرحوم نے ایک دفعہ احباب کی محفل میں اپنے قیام حیدرآباردکن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے فرمایا ’’میرے وہاں قیام کے دوران نواب اسماعیل حیدرآبادی کے دولت کدے پر ایک طرحی مشاعرہ منعقد کیا گیا اور طرح مصرع دیا گیا:
توبہ توڑی بھی تو ٹوٹے ہوئے پیمانے سے
شہر کے سبھی معروف شعراء نے اپنی غزلیں پیش کیں، لیکن مشاعرے میں شریک ایک مقامی مزاحیہ شاعر کی لگائی گئی گرہ نے جو لطف دیا اسے باقی شعراء نہ پہنچ سکے۔ گرہ کچھ اس طرح تھی:
؎آخری عمر میں ہرجائی سے شادی کرلی
’’توبہ توڑی بھی تو ٹوٹے ہوئے پیمانے سے‘‘
علی گڑھ کے سخنوران میں ایک مصرع کئی دنوں تک گردش کرتا رہا:
؎ ہم جسے سمجھے تھے صحرا وہ سمندر نکلا
مگر کوئی شاعر بھی اس پر تسلی بخش مصرع نہ ٹانک سکا۔ بالآخر یوپی سے آئے ہوئے نووارد طالب علم وحید اختر کے کانوں میں جب یہ مصرع پڑا تو بے ساختہ بول اٹھے:
؎خشک آنکھوں سے اٹھی موج تو ڈوبی دنیا
’’ہم جسے سمجھے تھا صحرا وہ سمندر نکلا‘‘
ہندوستان سے شائع ہونے والے ادبی ماہ نامے ’’تمثیل نو‘‘ کی جلد ۸ کے شمارہ ۳ میں ایک مضمون ’’سہرا گوئی کی ادبی روایت‘‘ کے عنوان سے عاصم اعجاز لکھتے ہیں ’’شہر دلی کی ایک شادی خانہ آبادی کی تقریبِ سہرا بندی میں شامل شعراء کے لیے درج ذیل طرحی مصرع ترتیب دیا گیا:
؎گل کی پتی ہے کہ پروانے کا سر سہرے میں ہے
تقریب میں مدعو سب شعراء نے حسب حال سہرے کہے لیکن گرہ ماؔہرالقادری کے ہاتھ رہی جو ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے:
؎پرتوِ رخسار سے سہرا منور ہوگیا
روئے زیبا ہے کہ پوشیدہ قمر سہرے میں ہے
کچھ نہ پوچھو مجھ سے ماہرؔ میری محویت کا حال
میرا دل سہرے میں ہے میری نظر سہرے میں
ہر لڑی تار نظر سے شمع محفل بن گئی
’’گل کی پتی ہے کہ پروانے کا سر سہرے میں ہے‘‘
حیا ؔلکھنوی، لکھنؤ کی معروف شاعرہ کہ جن کے زورسخن کا چرچا پورے لکھنؤ میں تھا اور بڑے بڑے اساتذہ جن کی قدرت کلام کے قائل تھے۔ لکھنؤ کے ہی چند شعراء نے انہیں ایک مصرعہ دیا:
؎ آب گہر میں عکس نہاتا ہے یار کا
اور کہا کہ ہم تو تب انہیں سخن ور مانیں جب اس مصرع پر مصرع لگائیں۔ حیا ؔکو جو اپنے امتحان کی خبر پہنچی تو اس طرح مصرعے کو شعر میں ڈھالا کہ لکھنؤ میں مدتوں ان کی قادرالکلامی کا ڈنکا بجتا رہا:
؎ہے موتیوں کے ہار میں پرتو نگار کا
آب گہر میں عکس نہاتا ہے یار کا
دلی کے شعراء میں ایک مرتبہ کئی دنوں تک درج ذیل مصرع برائے طبع آزمائی گردش کرتا رہا:
؎شمع اندھیر بپا کرگئی روشن ہو کر
مگر کوئی مناسب مصرع ثانی تشکیل نہ دیا جا سکا۔ بالآخر استادالشعراء نواب سائل دہلوی نے یہ مشکل آسان کردی اور یوں مصرع ثانی کو موزوں کیا:
؎گل ہوئے سیکڑوں پروانوں کی ہستی کے چراغ
’’شمع اندھیر بپا کر گئی روشن ہو کر‘‘
ایک مرتبہ سرگودھا ڈگری کالج کے سالانہ مشاعرے میں فیض احمد فیضؔ کا درج ذیل مصرع بطور طرح دیا گیا:
؎وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
جج کے فرائض سرانجام دینے کے لیے بذات خود فیض صاحب کو مدعو کیا گیا۔ تمام طرحی غزلوں میں درج ذیل گرہ کو کو اول انعام سے نوازا گیا:
؎وقتِ سحر بجھا کے دیے انتظار کے
’’وہ جا رہا ہے کوئی شب ِ غم گزار کے‘‘
فیضؔ صاحب نے اپنی صدارتی تقریر میں کُھلے دل سے اعتراف کیا کہ درج بالا شعر میرے شعر سے کہیں زیادہ وزنی ہے:
ساحرؔ لدھیانوی اپنی ایک قطعہ بند نظم تحریر کر رہے تھے۔ ایک قطعے کا ایک شعر تو لکھا جا چکا تھا مگر دوسرا شعر نہیں ہو رہا تھا۔ پہلا شعر درج ذیل تھا:
ملیں اسی لیے ریشم کا ڈھیر بنتی ہیں
کہ دخترانِ وطن تار تار کو تر سیں
ساحرؔ فوراً علامہ عطااللہ شاہ بخاری کے پاس پہنچے اور شاہ جی کو اپنی پریشانی سے متعلق بتایا کہ مجھ سے اس قطعے کا دوسرا شعر نہیں ہوپا رہا۔ علامہ نے پہلا شعر سنا اور اسی وقت دوسرا شعر کہا:
؎چمن اسی لیے مالی نے خوں سے سینچا تھا
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
ساحر نے خوب داد دی اور بولے ’’علامہ کیا یہ شعر میرا ہوا؟‘‘ علامہ نے جواباً مسکراتے ہوئے کہا،’’ہاں! آج سے یہ شعر تمہارا ہوا۔‘‘
دبستان کراچی کے معروف بزرگ شاعر اعجازؔ رحمانی کو سخن وری کی ایک نجی محفل میں ایک مصرع پیش کیا گیا:
؎ہاتھ میں پاوں کی زنجیر لیے پھرتے ہیں
اور مصرع پر گرہ لگانے کی فرمائش کی گئی۔ اعجاز رحمانی صاحب نے پہلے تو انکار کیا مگر بعد ازآں احباب کے اصرار پر کچھ دیر کے بعد ایک شعر کے بجائے پوری غزل ارشاد فرمائی:
؎تہمت زلفِ گرہ گیر لیے پھرتے ہیں
’’ہاتھ میں پاؤں کی زنجیر لیے پھرتے ہیں‘‘
گھر نہیں گھر کے تصور سے ہیں آنکھیں روشن
دل میں اک حسرت تعمیر لیے پھرتے ہیں
حید آباد کے ایک مقامی شاعر نے شعراء کے امتحان کے لیے ایک مصرع موزوں کیا:
؎نظام شمسی ہوا ہے ابتر فلک پہ پتھر زمیں پہ تارے
اور ناممکن سمجھ کے شعراء کو فکری زورآمائی کا چیلینج دیا۔ معروف مزاح نگار اور اپنے وقت کے مانے تانے شاعر مرزا فرحت ؔاللہ بیگ نے اس چیلینج کو قبول کرتے ہوئے کچھ یوں اپنا رنگ سخن دکھایا:
؎جو آہ نکلے ہمارے دل سے دونوں عالم کا ہو یہ عالم
فلک زمیں پر، زمیں فلک پر، فلک پہ پتھر زمیں پہ تارے
پہاڑ سوز دروں سے اڑ کر ہوئے زمیں کی کشش سے باہر
’’ نظام شمسی ہوا ہے ابتر فلک پہ پتھر زمیں پہ تارے‘‘
۲۱ اپریل ۱۹۶۱ کو علامہ اقبال کے یوم وفات پر ڈھاکا میں جسٹس رحمٰن کی زیرصدارت ایک طرحی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ طرحی مصرع تھا:
؎کبھی رو پڑا تبسم، کبھی اشک مسکرائے
مشاعرے میں شامل عندلیب ؔشادانی نے بصورت مطلع کچھ اس طرح گرہ لگائی کہ مصرع اپنے نام کرلیا:
؎وہ الم کشوں کا ملنا وہ نشاط غم کے سائے
’’کبھی رو پڑا تبسم،کبھی اشک مسکرائے‘‘
مرتضٰی جیلانی ’’دو آنسو‘‘ فلم کے ڈائریکٹر تھے۔ انتہائی سخن شناس اور سخن فہم تھے۔ ایک دن حبیب جالب ؔسے کہنے لگے کہ دوست ایک مصرع ہے، گرہ لگاؤ۔ جالب ؔنے مصرعہ پوچھا تو مرتضٰی بولے:
؎اک حال میں ہمیشہ رہتا نہیں زمانہ
جالبؔ چند ثانیے کے توقف کے بعد بولے:
؎کیوں ہنس رہی ہے دنیا سن کر میرا فسانہ؟
’’اک حال میں ہمیشہ رہتا نہیں زمانہ‘‘
The post آتے آتے ہنر آتا ہے گرہ بندی کا appeared first on ایکسپریس اردو.