(حصہ دُوَم)
زیربحث موضوع کا بنیادی حصہ خود بلوچی زبان کی ابتدا اور ارتقاء سے متعلق ہے۔
یہ مسئلہ بہت سے ماہرین لسانیات بشمول اہل زبان کو پریشان کرتا رہا ہے کہ بلوچ قوم کا نام کہاں سے آیا، ان کا قدیم وطن کہاں ہے اورپھر جب یہ طے ہو تو بلوچی زبان کے ابتدائی دور کے مختلف موضوعات بھی ایک ایک کرکے زیرِغور آتے ہیں۔
(ضمنی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں بہت سے لوگ اس قوم کو بھی سہواً بلوچی کہہ دیتے ہیں، جو اُن کی زبان کا نام ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے افغانستان کی کرنسی افغانی کو بطور قومیت غلط استعمال کیا جارہا ہے)۔
نامور بلوچ محقق، محسن بلوچی زبان اور اردو شاعر سید ظہور شاہ ہاشمی (21اپریل 1926ء بمقام گُوادر۔تا۔3مارچ 1978ء بمقام کراچی) کی تحقیق کہتی ہے کہ (قیاساً) یہ ماننے میں ہرج نہیں کہ اس قوم کے جدامجد کا نام بلو‘چ (اور زیادہ تحقیق کریں تو ابتدائی تلفظ کے مطابق ابلو‘چ) تھا۔ انھوں نے دیگر متعدد لسانی قیاسات کو یکسر مسترد کیا جن کے ماننے والے آج بھی یہ پرچار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ شاید بلوچ عرب یا قدیم عراقی تھے۔
(یہ الگ بات ہے کہ موجودہ بلوچستان سمیت پورے خطے کے باشندوں کا Mesopotamiaا یعنی قدیم عراق سے ارتباط ثابت ہوچکا ہے۔ یہ لسانی قیاس بھی بہت مشہور ہوا تھا کہ سومرو، درحقیقت، سومیری یا سُمیری ہیں، مگر یہ بات بعید اَزامکان ہے: س ا ص) ۔ ہاشمی صاحب نے یہ بات بالکل درست کہی کہ عرب ممالک میں مقیم بلوچ، بلوص (نیز بلوشی) کہلاتے ہیں تو یہ درحقیقت ’بلوچ‘ کی تعریب ہے یعنی اسے عربالیا گیا ہے جیسے کراچی کا کراتشی۔ (ہاشمی صاحب نے محض تیرہ برس کی عمر میں اردو زبان میں شعر کہنے کی ابتداء کی اور پھر عربی وفارسی پر دسترس کے ساتھ، فارسی میں شاعری کی اور جوانی میں انگریزی پر گرفت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ، اپنی مادری وپدری زبان، بلوچی میں شعرگوئی کا آغاز کیا۔
یہ 1950ء کی بات ہے۔ اس سے خاکسار کی ماقبل کہی ہوئی بات کی تصدیق ہوگئی کہ اکثر بلوچ اہل قلم کی ادبی نگارشات کی ابتداء اردو ہی سے ہوئی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اردو کسی بھی غیراہل زبان کے لیے، کسی دیگر زبان کی نسبت آسان ہے)۔ بلوچی آریہ/آریا۔یا۔آریائی زبانوں کے ہندآریہ گروہ میں ہنداِیرانی شاخ سے تعلق رکھتی ہے۔
یہ حقیقت یوں بھی عیاں ہے کہ محقق موصوف نے بلوچی کو پہلوی (فارسی کی ماں) کی ہم رشتہ زبان قراردیا جو مشہور ایرانی مصلح جناب زرتشت /زردشت (پیدائش 1080ق م بقول یونانی مؤرخ خانتوس) کی کتاب ’اَوِستا‘ کی زبان ’اَوِستائی‘ سے نکلی ہے۔
یہ قدیم زبان، سنسکِرِت کی ہم رشتہ تھی۔ (ہاشمی صاحب کی نگارش سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف اَوِستائی سے بھی واقف تھے)۔ یہاں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اردو کا شجرۂ نسب بھی مقامی سطح پر سنسکرت سے جاملتا ہے اور پہلوی کے بعض الفاظ، فارسی کی راہ سے، اردو کے ذخیرہ الفاظ کا بھی حصہ بنے۔ پس ثابت ہوا کہ اردو اور بلوچی کا رشتہ خِلقی یا پیدائشی [By birth] ہے۔
ممتاز بلوچ ادیب، محقق ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے اپنے ایک مضمون میں بہت منفرد پیرائے میں یہ کہہ کر اذہان کو چونکا دیا کہ ’’بلوچی کے بارے میں ایک بہت ہی دلچسپ بحث چلتی رہی۔ مہر گڑھ، پیرک اور نوشہرو کی دریافت سے قبل، ہماری ہر بات کو آریاؤں کے قافلے کے آخری اونٹ کی دُم کے ساتھ باندھ دیا جاتا رہا ہے۔ اب پتہ نہیں سائنس اِس پوری تھیوری کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے؟
کیا شمال سے بڑے پیمانے کی مہاجرتیں (ہجرتیں: س ا ص) ہوئی بھی ہیں؟۔ اور کیا آریا لوگ اتنی تعداد میں آئے بھی ہیں؟
مجھے تو آرکیالوجی میں نئی نئی دریافتوں کے تیور اس بارے میں ٹھیک نہیں لگتے اور یہ بات اچنبھے کی نہ ہوگی کہ ایک دن آثارقدیمہ کی نئی نئی کھدائیاں اعلان کردیں کہ کوئی مہاجرت (ہجرت: س ا ص) ومائیگریشن باہر سے ہوئی ہی نہیں۔ کیسا لگے گا کہ یہ دریافت ہوجائے کہ مائیگریشنیں (ہجرتیں: س ا ص) کسپیئن (بحیرہ خزر، جس کے آس پاس ہی کہیں اس قوم کا اصل وطن بیان کیا گیا: س ا ص) اور حلب (شام: س ا ص) سے بلوچستان کی طر ف نہیں ہوئیں بلکہ الٹا مہر گڑھ سے شمال اور حلب کو ہوئیں؟ واللہ اعلم بالصواب!‘‘ یہاں جسٹس خدا بخش بجارانی کی کتاب ’’بلوچستان: تاریخ کے آئینے میں‘‘ کا ایک اقتباس دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کتابوں میں یہ نظریہ یا مفروضہ موجود ہے کہ حلب اور گردونواح میں مقیم بلوچ، مابعد پہلے کرمان (ایران) اور پھر مکران اور سیِستان آکر آباد ہوئے۔
لفظ ’بلو‘چ ‘ کے تلفظ اور رومن میں اس کے ہجے کی بحث میں حصہ لیتے ہوئے سید ہاشمی صاحب نے فرمایا کہ یہ Baloch/Baluch/Balooch نہیں، بلکہ ch Balo¯ ہے۔ (یوں تو ہم اسے Balouch بھی لکھ سکتے ہیں: س ا ص)، ہرچند کہ یہ تلفظ سریلک حرف او کے ساتھ سمجھانا مشکل ہے، مگر ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ یہ آواز، مضموم یعنی پیش والی آواز اور واؤ مجہول کے بین بین اور ہم اسے لوچ والی یا لوچ دار آواز کہہ سکتے ہیں۔
یہی نکتہ مجھے2001ء میں، کوئٹہ کے دورے میں انگریزی کے ایک بلوچ ادیب نے سُجھایا تھا۔ موصوف کا کہنا تھا کہ یہ املاء ہمارے بڑوں نے انگریز سرکار سے طے کروایا تھا۔ (مگر غیرمتعلق، جملہ معترضہ یہ ہے کہ موصوف نے بڑے تحقیری لہجے میں کہا کہ اردو کوئی بڑی زبان نہیں، اس لیے کہ اس میں کوئی لوک ادب ہی نہیں۔ راقم نے بعداَزآں ’سارک کی لوک کہانیاں‘ جمع کرتے ہوئے اس بابت تحقیق کرکے، ان کا نام لیے بغیر، اس منفی پرچار کی تردید کی تھی۔ میری وہ کتاب اور ایک دوسری کتاب بعنوان ’’اردو کے مشہور اشعار۔ ایک جائزہ: نظر ثانی وتوسیع شدہ اشاعت‘‘ چسپاں حالت میں 2008ء سے غیرمطبوعہ رکھی ہوئی ہے)۔
بلوچی زبان کے مختلف لہجوں کی تفصیل بھی لسانیات میں ایک اہم موضوع ہے جس پر باقاعدہ تحقیق آنسہ زاہدہ رئیس راجی ؔ صاحبہ سمیت بعض محققین کرچکے ہیں، غالباً اس باب میں بھی ہاشمی صاحب، یکے از اولین ہیں۔ (چونکہ بلوچی زبان کے لہجوں کی بہتات اور اس کی شاخوں اور ذیلی شاخوں کا موضوع میں شامل کرنا ہمارے لیے ناگزیر نہیں، سو بہتر ہے کہ ہم اسے اہل زبان کے لیے چھوڑدیں)۔
اُن کی تحقیق میں یہ بات شامل ہے کہ ’’مکرانی‘‘ بذاتہ کوئی قوم یا زبان نہیں، بلکہ اُن کی یہاں آمد کی تاریخ سے قطع نظر، اُن کی بولی درحقیقت بلوچی ہی کی ایک شکل ہے۔ یہ انکشاف شاید بہت سوں کو ناگوار گزرے گا، مگر تکنیکی بنیاد پر درست ہے۔
ایران اور قُرب وجوار کے بلوچوں کی زبان پر فارسی اور کہیں کہیں عربی کے اثرات نمایاں ہیں، مگر سلطنت عُمان [Oman] کے علاقہ باطنہ اور متحدہ عرب امارات میں مقیم بلوچوں کی زبان، بڑی حد تک خالص ہے۔ تعجب ہے کہ ہاشمی صاحب نے افریقہ سے یہاں غلام بناکر لائے جانے والے، کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں یا دیہات میں آباد ہونے والے، مکرانی/شِیدی لوگوں کی بولی ٹھولی میں افریقی عناصر کی نشان دہی پر توجہ نہیں دی، یا دی تو مجھے عجلت میں نظر نہیں آئی۔
یہی صورت ہماری اردو کی بھی ہے کہ مختلف مقامات پر، علاقائی یا مقامی اثرات سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ کراچی ہی کی مثال لیں کہ یہاں بمبئی کے مراٹھی اور راجستھان کی مقامی خصوصاً مارواڑی کی جابجا ایسی چھاپ، بعض طبقات کی بولی ٹھولی میں نظر آتی ہے کہ یوپی، سی پی، بِہار وملحق علاقہ جات سے ہجرت کرکے آنے والے بزرگ حیران پریشان اور معترض ہوتے ہیں۔ یہ معاملہ حیدرآباد، میرپورخاص اور ٹنڈو آدم جیسے شہروں میں مقیم، مہاجر گھرانوں میں بھی کسی حد تک دیکھا جاسکتا ہے۔
بلوچی زبان کی قدامت کے متعلق بہت سے آثاروشواہد ملتے ہیں۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں منقول، کسی مصنف کا یہ خیال کہ بلوچی، فارسی کی مسخ شدہ شکل ہے، حقائق کے منافی ہے۔ بلوچ محققین کی رائے میں یہ زبان فارسی سے زیادہ قدیم ہے۔
اسے نہ صرف پہلوی، بلکہ قدیم باختری زبان، زند سے بھی مماثل قراردیا گیا۔ بعض آثار قدیمہ میں شامل، کتبوں کی عبارت میں بلوچی کے الفاظ کا پایا جانا بھی کوئی معمولی بات نہیں۔ ماہرین لسانیات کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ایران کی قدیم زبانوں میدی، قدیم فارسی، اَوِستا، پہلوی اور پارتھی سبھی سے بلوچی کا تعلق ہے اور گمان غالب یہ ہے کہ بلوچی کی ماں، میدی (Median or Medic) زبان ہے۔
دیگر زبانوں بشمول پشتو وسنسکِرِت سے ہم رشتہ ہونا یا ذخیرہ الفاظ و قواعد میں قربت ایک اور اہم جہت ہے۔ علاوہ اَزیں، بلوچی اور پنجابی میں ایک اچھا خاصا ذخیرہ الفاظ مشترک ہے جس میں اکثر مقام پر اردو سے اشتراک یا مماثلت نظر آتی ہے۔ اس بارے میں ہم آگے چل کر بات کریں گے۔
’’بابائے تاریخ‘‘ یعنی قدیم یونانی مؤرخ وجغرافیہ داںہیرودوتس( Herodotus)نے زمانہ ماقبل مسیح (علیہ السلام) میں بلوچی کو ’’می کوئی‘‘ (Mykoi) اور اُس کے مکرانی یعنی مغربی لہجے کو ’’می کان‘‘ (Mykans) کا نام دیا تھا۔
ہیرودوتس، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے 484 سال قبل پیدا ہوا اور اُن کی ولادت سے 425 سال پہلے فوت ہوا۔ اس کے بعد ہمیں عرب مؤرخین اور سیاحوں (بشمول اصطخری اور شریف الادریسی) کے بیانات سے بھی اس خطے میں مکرانی یعنی بلوچی اور فارسی کے چلن کا پتا چلتا ہے۔ یہاں سید ہاشمی صاحب کی منقولہ ایک روایت کا حوالہ بھی دل چسپی سے خالی نہیں۔ روایت کے مطابق، فتح ایران کے بعد، مسلمان ہونے والوں میں سابق بادشاہ خسرو پرویز، جس نے نامۂ رسالت چا ک کردیا تھا، کی بیٹی بھی شامل تھی۔
کہا جاتا ہے کہ اُس شہزادی نے اپنے باپ کو لعن طعن کرتے ہوئے (بزبان پہلوی) کہا: ’’دیم ئِ خسرو سیاہ بِیت کہ نامہ پیغمبر درِیت‘‘ جو بلوچی میں یوں ہوگا: ’’ دیم خسرو ئِ سیاہ کہ نامہ یِٔ پیغمبرئِ دِرت‘‘; ترجمہ: خسرو کا مُنہ کالا ہوا کہ اُس نے پیغمبر (ﷺ) کا خط پھاڑ ڈالا۔ اس قدر مشابہت واقعی حیرت انگیز ہے۔ اس بناء پر بادشاہ یا اُس کے حرم کی بلوچی سے نسبت بھی کوئی تعجب کی بات نہیں۔
بلوچی زبان میں ادب کی تخلیق کا تحریری ثبوت، چاکر اعظم میر چاکر خان رِند (1468ء تا 1565ئ) کے عہد سے پہلے نہیں ملتا، مگر یہ بات بعیداَز قیاس بھی نہیںکہ تحریری سرمایہ کسی سبب سے محفوظ نہ رہا ہو۔ محققین کا قیاس درست معلوم ہوتا ہے کہ درباری گویّے قسم کے لوگ محض سینہ بہ سینہ ہی کلام یاد کرکے کام نہیں چلاتے ہوں گے، یعنی محض لوک ادب ہی کے طور پر محفوظ نہ رہا ہوگا، بلکہ ممکن ہے کہ کہیں یہ ساری شاعری تحریر میں منضبط بھی کی گئی ہو، مگر پھر اِمتِدادِ زمانہ سے ضایع ہوگئی ہو۔
چاکر کے متعلق یہ روایت بھی قابل ذکر ہے کہ اُس نے سلطان شیرشاہ سُوری کی طرف سے اتحاد کی پیشکش ٹھکراکر، معزول مغل بادشاہ، ہمایوں سے ملنا اور اُس کا دست وبازو بننا پسند کیا جو 1556ء میں آخری سُوری حکمراں سے اپنا تاج وتخت واپس لینے میں کامیاب ہوا۔ ہمایوں نے چاکر سے خوش ہوکر اُسے جاگیر، گھوڑے اور غلام بطور انعام عطا کیے۔
سوال یہ ہے کہ آیا یہ ممکن ہے کہ یہ سارا تاریخی منظر کہیں بھی، بلوچی زبان میں ضبط تحریر میں نہ لایا گیا ہو ؟ جب لوک ادب کا ایک حصہ محفوظ کرلیا گیا تو کیا سبب ہے کہ قدیم بلوچی شاعری کے مدفون خزینے اب تک منظرعام پر نہ لائے جاسکے؟….قدیم بلوچ شعراء میں شئے کلاں، شئے عیسیٰ ، شئے مرید، بیبرگ رِند، نیز مکران کے حکمراں حمل جیندکلمتی، میر قمبر وغیرہ کا نام لیا جاتا ہے۔
یہاں معروف بلوچ محقق جناب پناہ بلوچ کی ایک تحریر سے اقتباس پیش کرتا ہوں تاکہ اس سوال کے جواب میں کچھ بہتر پیش رفت ہوسکے:
’’ ماضی میں بلوچ قبائل زیادہ تر کوہ و بیابان اور بے آب و گیاہ میدانوں میں بھی بودو باش رکھتے رہے تھے، جہاں زرعی معیشت، وسائل نہایت محدود بلکہ تقریباً مفقود تھے۔ اس لیے وہ ریوڑ پالنے، بھیڑو بکریاں چرانے اور گلہ بانی کرنے پر مجبور تھے۔
چنانچہ وہ صدیوں تک اسی پیشہ سے منسلک رہے اور پانی، چراگاہوں اور سبزہ زاروں کی تلاش میں سرگرداں ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ بلوچ قبائل جہاں بھی رہے وہاں جابر سلاطین اور مستبد حکمرانوں نے بلوچوں کی آزاد روی اور حریت پسندانہ جبلت کوشک و شبہ کی نظروں سے دیکھا۔
ان حالات میں بلوچ نہ تو اپنی زبان کی تہذیب و ترقی کی جانب غور کرسکے اور نہ ہی اپنے شعری ادب کو تحریر میں لاسکے۔ زبان کی ترقی اور پیش رفت تو درکنار وہ اپنے ادبی سرمایہ کے تحفظ اور اسے آئندہ نسلوں تک پہنچانے کا بھی سروسامان نہ کر سکے۔
اگرچہ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہخامنشی شاہنشاہوں کی اپنی خاندانی اور درباری زبان بھی بلوچی تھی۔ لیکن ہمارے ہاں ان نبشتوں (نوشتوں) اور کتبوں کے سوا کوئی اور چیز اثبات کے لئے حاضر نہیں۔ البتہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بلوچی ایک زندہ و جاوید زبان ہے‘‘۔ میرا خیال ہے کہ جہاں بلوچی زبان وادب کے دیگر معاملات پر تحقیق جاری ہے، کتبات پر بھی ازسرنو تحقیق ہونی چاہیے ۔
یہ جو کہا گیا کہ کوئٹہ کے قریب کہیں ایسے کتبے ملے ہیں جن پر رُوسی رسم الخط سے ملتے جلتے رسم الخط میں لکھی گئی عبارت میں کچھ بلوچی الفاظ شامل ہیں تو اِس بابت تحقیق بہت ضروری ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ غالباً یونانی رسم الخط کو رَاوی نے رُوسی قراردیا ہوگا۔ بات کی بات ہے کہ اگر بلوچی مغل عہد کے ابتدائی عرصے میں پنپ رہی تھی تو پھر زیرِتشکیل زبان، اردو سے کیسے لاتعلق رہ سکتی تھی۔ ان دونوں زبانوں کے مابین پہلوی اور فارسی کے پُل ابتداء ہی سے موجود تھے ، اس لیے ان کے یہاں استفادہ اور طبع آزمائی کا عمل بھی جاری رہا۔
قیام پاکستان کے ابتدائی عشرے میں ایسے متعدد بلوچ شعراء زندہ وسرگرم عمل تھے جن کی شاعری ارد و اور فارسی میں، نیز کسی کسی کی براہوئی میں ہوا کرتی تھی۔
ان میں سید ہاشمی، محمد حسین عنقائ، عبدالصمد شربازی اور میر گل خان نصیر شامل تھے۔1940 ء کے بعد جدید بلوچی ادب کی ابتداء ہوئی تو میر گل خان نصیر ؔ نے خوب بلوچی شعر کہے جو بعداَزاں، گُلبانگ نامی مجموعہ کلام میں شامل ہوئے۔ ایک طویل سلسلہ چلا جس میں بتدریج بلوچ شعراء اپنی زبان کی طرف ملتفت ہوئے ، مگر اردو نوازی ہنوز جاری ہے۔ ہم اس با بت آیندہ گفتگو کریں گے۔
The post زباں فہمی نمبر188؛ اردو اور بلوچی کا باہمی تعلق appeared first on ایکسپریس اردو.