اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ جانوروں پر بھی شفقت اور رحم کرنا اور ظلم سے باز رہنا چاہیے۔ اسلام کے جامع مذہب ہونے کی دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے جانوروں کے حقوق بھی بیان کردیے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اﷲ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو سراپا رحمت بناکر بھیجا ہے۔
اﷲ تعالی کا فرمان ہے: ’’اور ہم نے آپؐ کو سارے عالم کے لیے رحمت بناکر بھیجا۔‘‘ نبی کریمؐ نے جانوروں کے حقوق بھی بیان فرمائے۔ بہت سی احادیث اور نصوص سے ثابت ہے کہ جانوروں پر احسان اور ان کے ساتھ شفقت و رحمت عبادت ہے، جو اجر و ثواب کے اعلی درجات اور اسبابِ مغفرت کے سبب تک پہنچاتی ہے۔
صحابہؓ نے دریافت کیا کہ یارسول اﷲ ﷺ! کیا جانوروں (کی تکلیف دور کرنے) میں بھی ہمارے لیے اجر و ثواب ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! ہر زندہ اور تر جگر رکھنے والے جانور (کی تکلیف دور کرنے) میں ثواب ہے۔ (بخاری)
نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ایک زانیہ نے سخت گرمی کے دن ایک کتے کو دیکھا جو ایک کنویں کے گرد چکر لگا رہا تھا اور پیاس کی شدت کی وجہ سے اپنی زبان نکالے ہوئے تھا، تو اس نے اپنے چمڑے کے خف سے کنویں سے پانی نکالا اور اس کتے کو پلایا، اﷲ تعالی نے اس کے اس عمل کی وجہ سے اس کی مغفرت فرما دی۔‘‘ (مسلم)
ایک صحابی ؓنے عرض کیا: یا رسول اﷲ ﷺ! میں اپنے اونٹ کو پانی پلانے کے لیے حوض میں پانی بھرتا ہوں اور دوسرے کا اونٹ آکر اس میں سے پانی پی لیتا ہے تو کیا مجھے اس پر ثواب ملے گا ؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں اور سنو! ہر زندہ اور تر جگر رکھنے والے جانور کو کھلانا پلانا لائق اجر ہے۔‘‘ (ابن ماجہ، مسند احمد)
نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے، یا کھیتی کرتا ہے اور اس درخت یا کھیتی میں سے کوئی چڑیا، یا آدمی، یا جانور کھاتا ہے تو اس لگانے والے یا بونے والے کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔‘‘ (بخاری، مسلم)
حیوانات کو تکلیف دینا گناہ ہے: شریعت نے جہاں حیوانات کے ساتھ نرمی کرنے اور حسن سلوک کو عبادت کہا ہے وہیں ان کے ساتھ بُرا سلوک، بلاوجہ اس کو تکلیف و عذاب دینے اور پریشان کرنے کو گناہ گردانا ہے۔
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا، جس کو اس نے باندھ کر رکھا تھا، یہاں تک کہ بھوکی پیاسی مرگئی۔ اس لیے وہ عورت جہنم میں داخل ہوئی، نہ اس نے خود اسے کھلایا پلایا، اس کو قید کیا اور نہ ہی اس نے اس کو آزاد کیا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑوں کو کھاکر اپنی جان بچاتی۔ (بخاری، مسلم)
جانوروں کو عذاب دینا حرام ہے: اسلام نے جانور اور حیوان کو عذاب دینا حرام قرار دیا ہے۔ مختلف احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کا گزر ایک مرتبہ ایک گدھے کے پاس سے ہوا جس کے چہرے کو لوہا گرم کرکے داغا گیا تھا، تو آپؐ نے فرمایا: کیا تم لوگوں کو یہ بات نہیں پہنچی کہ میں نے لعنت بھیجی ہے اس آدمی پر جو چوپایے کے چہرے کو داغے یا اس کے چہرے پر مارے۔ پس آپؐ نے اس سے منع فرمایا۔ (ابوداؤد) نبی کریم ﷺ نے جانور کے چہرے کو داغنے اور مارنے سے منع فرمایا۔ (ترمذی) نبی کریم ﷺ نے لعنت بھیجی ہے اس آدمی پر جو جانور کو مثلہ کرے۔ یعنی زندہ جانور کے اعضا (ہاتھ، پیر، ناک، کان، دم وغیرہ) کاٹے۔ (بخاری، باب ما یکرہ من المثلۃ)
جانوروں پر تیر چلانا: اسلام نے جانور کو قید کرکے اسے نشانہ بنانے سے منع فرمایا، جیسے کسی پرندے کو یا بکری کو باندھ دیا جائے اور اس کو تیر یا گولی سے نشانہ بنایا جائے اور مارا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائے۔
اس لیے کہ یہ اس حیوان کو عذاب دینا اور تکلیف پہنچانا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم ایسی چیز کو نشانہ مت بناؤ جس میں روح اور جان ہو۔ (مسلم، ترمذی) رسول اﷲ ﷺ نے لعنت بھیجی ہے اس آدمی پر جو جان دار کو نشانہ بنائے۔
جانوروں کو آپس میں لڑانے کی ممانعت: ہر وہ عمل جس سے جانور کو تکلیف اور ایذا پہنچے شریعت مطہرہ میں ممنوع ہے، جیسے دو بیلوں یا سانڈوں کو آپس میں لڑانا، یا مرغا، یا مینڈھا کو آپس میں لڑانا، یا پرندوں کو بلافائدہ قید کرکے رکھنا، یا عمل دشوار کے ذریعے جانور کو ذبح کرنا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے جانوروں اور چوپایوں کو آپس میں لڑانے سے منع فرمایا۔ (ابوداؤد، ترمذی)
رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص نے چڑیا یا اس سے بڑے کسی جانور کو ناحق قتل کیا، اﷲ تعالی قیامت کے دن اس سے اس کے بارے میں سوال کرے گا اور پوچھے گا۔ کسی نے دریافت کیا: یا رسول اﷲ ﷺ! اس کا حق کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اس کا حق یہ ہے کہ تم اس کو ذبح کرکے کھاؤ، نہ یہ کہ اس کا سر کاٹ کر اس کو پھینک دو۔ (نسائی)
ایک اور حدیث میں ہے کہ وہ جانور خود قیامت کے دن اﷲ کی بارگاہ میں دعوی کرے گا۔
رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جس نے کسی چڑیا کو عبث بلافائدہ قتل کیا وہ قیامت کے دن اﷲ تبارک و تعالی سے فریاد کرے گی کہ اے اﷲ! اس نے مجھے بے کار قتل کیا اور مجھے منفعت اور فائدے کے لیے قتل نہیں کیا۔‘‘
(نسائی، مسند احمد)
بلاوجہ پرندے کو قید کرکے رکھنا گناہ ہے: صحابہؓ فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں تھے، حضور ﷺ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے، اسی اثنا میں ہم نے ایک حمرہ پرندہ دیکھا، جس کے ساتھ دو چوزے تھے، تو ہم نے اس کے بچوں کو پکڑ لیا، پس وہ پرندہ آیا اور اپنے بچوں پر اپنے پروں پر پھیلانے لگا، اتنے میں نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا: کس نے اس کو اس کے بچوں کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا کردیا ہے۔۔۔ ؟ اسے اس کے بچے لوٹا دو۔
جانوروں کو ذبح کرنے میں بھی احتیاط کا حکم: رسول کریمؐ نے ذبح کے تین آداب بیان فرمائے ہیں: اچھی طرح ذبح کرے۔ ذبح سے پہلے چھری تیز کرلے۔ ذبح کے جانور کو ٹھنڈا ہونے دے، اس کے بعد کھال اتارے۔ جانور کو مقام ذبح تک نرمی کے ساتھ لے جائے، اس کو بے دردی اور سختی کے ساتھ نہ گھسیٹے۔ ایک جانور کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح نہ کرے کہ اس سے اس کو تکلیف ہوگی۔ ذبح کرنے والا جانور کے سامنے چھری تیز نہ کرے۔
ذبح کے لیے جانور کو بے دردی سے نہ گرائے۔ ذبح کرنے میں بھی رحمت و شفقت کا پہلو ملحوظ رہے۔ ایک صحابیؓ نے عرض کیا: مجھے بکری کو ذبح کرنے پر رحم آتا ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اگر تم اس پر رحم کروگے تو اﷲ تم پر رحم کرے گا۔
(رواہ الحاکم)
جانور کو چارہ کھلانا اور پانی پلانا اس کا حق ہے: جانور پر سواری اور باربرداری انسان کا حق ہے، لیکن اس بارے میں بھی شریعت میں واضح ہدایات موجود ہیں اور جانور کے حق کی رعایت ضروری ہے جیسے جانور کو چارہ کھلا کر سواری کرنا، جانور کی قدرت و طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ نہ لادنا، بلاضرورت اس کو مار پیٹ نہ کرنا، یہ وہ احکامات ہیں جن کی رعایت ضروری ہے۔
رسول اﷲ ﷺ ایک انصاری کے باغ میں داخل ہوئے، وہاں ایک اونٹ تھا، جب اس نے نبی کریمؐ کو دیکھا تو زور سے آواز نکالی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
نبی کریمؐ اس کے پاس تشریف لائے، اس کی گردن پر ہاتھ پھیرا، پھر فرمایا: اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ تو انصار کا ایک جوان آیا اور اس نے کہا: یہ میرا ہے یارسول اﷲ ﷺ! آپؐ نے فرمایا: کیا تم ان چوپایوں اور جانوروں کے بارے میں اﷲ سے نہیں ڈرتے جن کا اﷲ نے تم کو مالک بنایا ہے، اس لیے کہ اس (اونٹ) نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور اس سے مسلسل کام لیتے ہو اور اس کو تھکاتے ہو۔ (ابوداؤد)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ ایک اونٹ کے پاس سے گزرے، جس کی پیٹھ پیٹ سے لگ گئی تھی (بھوک کی وجہ سے) تو رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ان بے زبان چوپایوں کے بارے میں اﷲ سے ڈرو! پس ان پر اچھی حالت میں سواری کرو اور ان کو اچھی طرح کھلاؤ اور چارہ دو۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ان کو کھلا کر موٹا کرو اور ان پر صحیح طریقے سے سواری کرو۔
(ابوداؤد، مسند احمد، المعجم الکبیر للطبرانی)
حضرت معاذ ؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ ایک قوم کے پاس سے گزرے، اس حال میں کہ وہ اپنی سواریوں پر کجاوؤں میں بیٹھے ہوئے تھے اور سواریاں کھڑی تھیں، تو رسول اﷲ ﷺ نے ان سے فرمایا: چوپایوں پر سواری کرو، دراں حالے کہ وہ صحیح سلامت ہوں اور سواری کرکے ان کو چھوڑو، دراں حالے کہ وہ صحیح سلامت ہوں اور ان کو اپنی باتوں کے لیے راستوں اور بازاروں میں نشست مت بناؤ (ان کو کھڑی کرکے ان کی پیٹھ پر بیٹھ کر لمبی باتیں نہ کرو، جس طرح تم کرسیوں پر بیٹھ کر گپ شپ مارتے ہو، اس لیے کہ اس سے جانور کو بلاضرورت تکلیف دینا ہے بلکہ اگر باتیں کرنا ہو تو ان کی پشت سے اتر کر باتیں کرو) اس لیے کہ بہت سا مرکوب (سواری کا جانور) اس کے راکب یعنی سواری کرنے والے سے بہتر ہوتا ہے اور راکب سے زیادہ اﷲ تعالی کا ذکر کرنے والا ہوتا ہے۔ (مسند احمد)
قدرت و طاقت سے زیادہ جانور پر بوجھ لادنا جائز نہیں: جانور پر اتنا بوجھ لادنا جس کی وہ قدرت و طاقت نہ رکھتا ہو جائز نہیں ہے، اسی لیے صحابہ کرامؓ یہ جانتے تھے کہ جو آدمی جانور پر اس کی قدرت سے زیادہ بوجھ لادے گا روزِ قیامت اس سے حساب لیا جائے گا۔
حضرت ابودردائؓ کے بارے میں مروی ہے کہ ان کا ایک اونٹ تھا جس کا نام دمون تھا، وہ اس اونٹ کو مخاطب کرکے کہتے تھے: اے دمون! قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے مجھ سے مخاصمت مت کرنا، اس لیے کہ میں نے تجھ پر تیری قدرت و طاقت سے زیادہ بوجھ کبھی نہیں لادا۔ (تفسیر قرطبی، سورئہ نحل)
مسیب بن آدم نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمرؓ کو دیکھا کہ انہوں نے ایک اونٹ بان کو مارا اور فرمایا: تو اپنے اونٹ پر اتنا بوجھ لادتا ہے جس کی وہ قدرت نہیں رکھتا۔ (حوالہ بالا)
جو جانور سواری کے لیے نہیں ہے ان پر سوار ہونا جائز نہیں۔ جن جانوروں کو اﷲ تعالی نے سواری کے لیے پیدا نہیں کیا ہے جیسے گائے، بیل، بکری وغیرہ ان پر سواری کرنا جائز نہیں ہے۔
قاضی ابوبکر ابن العربی تحریر فرماتے ہیں کہ اس بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ گائے پر بیٹھنا اور سواری کرنا جائز نہیں ہے اور اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ گائے پر سواری کرنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ وہ سوار کرنے کی طاقت نہیں رکھتی، اس سے وہی کام لیا جائے گا جس کی وہ قدرت رکھتی ہو جیسے کھیت کی جوتائی وغیرہ۔
موذی جانور کو قتل کرنے کا ضابطہ: اسلام نے موذی جانور کو مارنے اور قتل کرنے کی اجازت دی ہے لیکن اس میں بھی احسان اور نرمی کا درس دیا ہے۔ حدیث نبویؐ ہے: اﷲ تعالی نے ہر چیز پر خوش اسلوبی کو واجب قرار دیا ہے، پس جب تم کسی چیز کو قتل کرو تو اس کے لیے اچھا طریقہ اپناؤ۔ (ترمذی) (ضروری وضاحت: لغت عرب میں لفظ قتل غیرماکول اللحم جانور کے لیے اور لفظ ذبح ماکول اللحم جانور کے لیے استعمال ہوتا ہے۔)
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اﷲ ﷺ کے ہم راہ ایک سفر میں تھے، رسول اﷲ ﷺ نے چیونٹیوں کے ایک بل کو دیکھا جسے ہم نے جلا دیا تھا، تو آپؐ نے فرمایا: کس نے اس کو جلایا ؟ ہم نے کہا: ہم لوگوں نے، آپؐ نے فرمایا: آگ کے ذریعہ عذاب دینا صرف اﷲ کے لیے سزاوار ہے۔ (ابوداؤد)
چیونٹی اور جوں کو مارنے کے بارے میں فقہ حنفی کی مشہور کتاب فتاوی بزازیہ میں لکھا ہے: مختار مذہب یہ ہے کہ چیونٹی اگر ابتداء کاٹے اور تکلیف پہنچائے تو اس کو مارنا جائز ہے ورنہ مکروہ ہے۔ جوں کو مارنا مکروہ نہیں ہے، جوں اور بچھو کو آگ میں جلانا مکروہ ہے۔ (البزازیہ بہامش الہندیہ)
جانوروں اور چوپایوں کے حقوق سے متعلق یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ اسلام نے ان کے حقوق بھی کتنی اہمیت کے ساتھ بیان کیے ہیں اور یہ کہ اسلام کی لازوال تعلیمات کا کوئی بھی مذہب ہم سری اور مقابلہ نہیں کرسکتا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اسلام تاقیامت رہنے والا ہمہ گیر و بے نظیر مذہب ہے جس نے پیامِ انسانیت کا درس صرف انسان ہی نہیں بل کہ جن اور تمام مخلوقات کے حق میں پیش کیا ہے۔
اﷲ تعالی ہر قسم کے حقوق ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ (آمین)
The post حقوق حیوانات appeared first on ایکسپریس اردو.