موجودہ ملکی معروضی حالات اور مستقبل کا سیاسی منظر نامہ کے موضوع پر ایکسپریس فورم میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی و عسکری تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر امجد مگسی
(سیاسی تجزیہ نگار)
بے یقینی کی صورتحال ، مہنگائی ، سیاسی عدم استحکام اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیںا ٓتا، تب تک معاشی صورتحال بہتر نہیں ہوسکتی ۔
یہی وجہ ہے کہ ایسی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں اور ایسے اقدامات کے جاتے ہیں جن سے معاشرے میں موجود بے یقینی کا خاتمہ ہو، معاشی بدحالی دور ہو اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ اگر موجودہ ملکی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہر لحاظ سے مشکل حالات ہیں جن سے نکلنے کے لیے پہلا قدم بروقت انتخابات ہیں ۔
یہ انتخابات صاف ، شفاف اور غیر جانبدارانہ ہونے چاہئیں کیونکہ اگر انتخابی عمل اور نتائج پر سوال اٹھ جائے تو اس کی افادیت ختم ہوجاتی ہے۔ اس وقت ضرورت یہی ہے کہ بروقت، صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کروائے جائیں۔
فیئر پلے ہونا چاہیے جس میں سب کو انتخاب لڑنے کا موقع میسر ہو، عوام کو ووٹ دینے کی آزادی ہو، وہ جسے منتخب کریں، اسے مینڈیٹ دے کر سیاسی نظام کو آگے بڑھایا جائے۔ یہ خوش آئند ہے کہ ملک اس وقت معاشی طاقتوں کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ چین کے ساتھ سی پیک منصوبہ چل رہا تھا، اب اس کے فیز ٹو کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
اسی طرح سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی بڑے معاہدے کیے جا رہے ہیں۔ ان ممالک کا رخ اور دلچسپی پاکستان میں نظر آرہی ہے۔
یہ سب حوصلہ افزاء ضرور ہے، اس سے معاشی لحاظ سے بھی کچھ بہتری آئے گی لیکن صحیح معنوں میں فائدہ تب ہوگا جب ملک میں سیاسی استحکام ہوگا۔ اگر حالات میں بے چینی رہی تو اندرونی و بیرونی سرمایہ کار ہچکچاہٹ کا شکار رہیں گے جو معیشت کیلئے نقصاندہ ہوگا۔
بدقسمتی سے اس وقت ملک میں سیاسی جمود ہے جسے توڑنے کیلئے سیاسی جماعتوں و تمام سٹیک ہولڈرز کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا، لوگوں میں اعتماد پیدا کرنا ہوگا، انہیں مایوسی سے نکالنے کیلئے امید کی راہ دکھانا ہوگی۔
پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتیں کھینچا تانی کر رہی ہیں، وہ اپنا اپنا رول بڑھانا چاہتی ہیں،اسی لیے فی الحال الیکشن میں سنجیدگی نظر نہیں آرہی، اس کی ایک وجہ پی ڈی ایم حکومت کی گزشتہ ایک سالہ کارکردگی بھی ہے۔
حکومت کو بھی معلوم ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے عوام کی زندگی مشکل ہوچکی ہے لہٰذا ان مشکل حالات کی وجہ سے پی ڈی ایم جماعتیں الیکشن میں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔اگر سیاسی حالات کا جائزہ لیں تو اس وقت پی ڈی ایم کی مخالف جماعت عملی میدان میں نہیں بلکہ ٹوٹ پھوٹ کا شکارہوچکی ہے۔ الیکٹیبلز بھی پی ڈی ایم میں جا رہے ہیں۔
لہٰذا ایسے میں انہیں الیکشن میں خاص مسئلہ نہیں ہوگا۔ پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اپنا منشور لے کر عوام میں جائیں، گزشتہ ایک سالہ کارکردگی اورمشکلات کے بارے میں عوام کو بتائیں اور الیکشن کی طرف بڑھیں۔
سیاسی جماعتیں سیاسی عمل سے وجود میں آتی ہیں اور سیاسی عمل سے ہی جاتی ہیں، اگر وہ اپنی کارگردی کی بنیاد پر سیاسی طریقے سے باہر ہوں تو ٹھیک ہوتا ہے لیکن اگر انہیں زبردستی باہر نکالا جائے تو اس سے سیاسی نظام کو نقصان ہوتا ہے۔
اگر کہیں قانون کی خلاف ورزی ہو، ملک کو نقصان پہنچایا جائے تو قانون کو اپنا راستہ خود بنانا چاہیے لیکن اس میںکسی بھی طور یہ شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ کارروائی شفاف نہیں۔ اس وقت حکومت اور عسکری قیادت مل کر ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے کام کر رہی ہے، گرین ریولوشن سمیت مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے، ایسے حالات میں سیاسی جماعتوں کو انتخابات کی طرف جانا چاہیے تاکہ سیاسی استحکام لا کر معاملات کو مزید بہتر کیا جاسکے۔ میرے نزدیک الیکشن اپنے وقت پر ہوں گے۔
بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی
(عسکری تجزیہ نگار )
پاکستان کے سیاسی حالات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ کبھی جمہوری دور رہا تو کبھی آمریت ۔ سب ادوار کی الگ اگ داستانیں ہیں مگر ملک آگے بڑھتا رہا اور ٹکراؤ کی ایسی فضا کبھی نہیں بنی جو اب نظر آئی۔ جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا، عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
ایک ایسی حکومت بنی جس کی اپوزیشن ہی نہیں ، ایسے میں اس کی کریڈیبلٹی کیا ہوگی؟ پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے کہا کہ وزیراعظم خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں، اسمبلی سے اندھا دھند قانون سازی کی جا رہی ہے، ایک ہی دن میں متعدد بل منظور کرلیے جاتے ہیں۔
میرے نزدیک موجودہ حکومت کی قابلیت و ساکھ بری طرح متاثر ہوچکی ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت ہر چیز آئی ایم ایف پر ڈالتی ہے اور اس کی شرائط مانتی چلی جا رہی ہے۔ حکومت پٹرول کی قیمت میں 20 روپے کا اضافہ کرتی ہے۔
وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ پٹرول کی قیمت میں اضافہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں اضافے کے باعث کیا گیا جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
اس وقت ملک میں ایک عجیب صورتحال ہے، ایسا لگتا ہے کہ کچھ بھی کسی قاعدے قانون کے مطابق نہیں ہورہا۔ عدالت نے کہا 14 مئی کو انتخابات کرائیں، نہیں ہوئے، نگران حکومت90 روز بعد ختم ہوجاتی ہے،لیکن پنجاب اور خیبر پختونخوا کی نگران حکومتیں اپنی مدت ختم ہونے کے بعد بھی چل رہی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن اور نگران حکومتیں اپنے اصل کام کے علاوہ سب کچھ کر رہی ہیں۔
وزیرخارجہ بلاول بھٹو کی موجودگی میں امریکی سٹیٹ سیکرٹری ٹونی بلنکن نے کہا کہ پاکستان میں جمہورت اور قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے اور یہی پاک امریکا تعلقات کا مرکز ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا کیا چاہتی ہے اور ہمیں کس نظر سے دیکھ رہی ہے۔
نئی مردم شماری، نگران حکومتوں کو مزید اختیارات و دیگر معاملات کے باعث ایسا لگتا ہے کہ وقت پر الیکشن نہیں ہونگے۔ میرے نزدیک الیکشن میں تاخیر درست نہیں، لہٰذابروقت اور شفاف انتخابات ہونے چاہئیں، جس میں سب کی شمولیت ہو۔ سیاسی جماعتیں سیاسی میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں، ماضی میں بھی کوئی جماعت کالعدم قرار دینے سے ختم نہیں ہوئی، ہمیں پرانے تجربات سے سیکھنا چاہیے۔
اس وقت پی ڈی ایم کی تین بڑی جماعتیں آنے والے دنوں میں بھی اپنا کردار جاری رکھنے اور زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی دوڑ میں ہیں، وہ نگران سیٹ اپ میں ہی خود کو دیکھ رہی ہیں۔ اگر ہم بیرونی سرمایہ کاری ملک میں لانا چاہتے ہیں، معاشی استحکام کا خواب پورا کرنا چاہتے ہیں تو ملک سے ہیجانی کیفیت ختم کرنا ہوگی اور سیاسی استحکام پیدا کرنا ہوگا جو بروقت، صاف و شفاف انتخابات سے ہی ممکن ہے۔
ڈاکٹر زمرد اعوان
(سیاسی تجزیہ نگار )
سیاسی جماعتیں عوام کی نبض پر چلتی ہیں۔ اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو حالیہ مہنگائی کی وجہ سے سیاسی جماعتیں عوام میں جانے کے قابل نہیں ہیں اور وہ انتخابات سے گھبرا رہی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اب سیاست بدل چکی ہے اور عوام میں شعور آچکا ہے، وہ ووٹ کے حوالے سے بھی اپنی پسند نا پسند رکھتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں یہ بات اب کمزور دکھائی دیتی ہے کہ الیکٹیبلز جس جماعت میں جا رہے ہیں وہ کامیاب ہوگی کیونکہ اب الیکٹیبلز ضروری نہیں رہے۔ عوام سوشل میڈیا پر کھل کر اپنی رائے دیتے ہیں ، ہر طرح سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں، جنہیں روکنے کیلئے قانون سازی کر دی گئی ہے۔ میرے نزدیک عوام کو اظہار رائے کی آزادی ہونی چاہیے۔
اس وقت ملک میں آئینی بحران ہے کیونکہ کچھ بھی آئین کے مطابق نہیں ہو رہا۔ نگران حکومتیں اپنی مدت ختم ہونے کے بعد بھی کام کر رہی ہیں۔ اس وقت سماجی بحران بھی ہے ،مخالف رائے رکھنے والوں کو ڈرایا جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں جہاں خواتین کی بہت عزت کی جاتی ہے، وہاں خواتین 3 ، 3 ماہ سے قید ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں خواتین بااختیار ہوئی اور انتخابی عمل میں ان کی شمولیت میں اضافہ ہوا۔ ہم نے دیکھا کہ عام خواتین مقامی حکومتوں کے نظام میں آگے آئی، ا ب جو صورتحال ہے، سوال یہ ہے کہ اس میں خواتین کس طرح انتخابی عمل میں حصہ لیں گی؟اس وقت سی پیک اور دیگر بڑے منصوبوں کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
اگر عوام سے پوچھیں تو اس کو میگا پراجیکٹس میں دلچسپی نہیں بلکہ ان کا مسئلہ مہنگائی، بے روزگاری اور سہولیات کی عدم دستیابی ہے۔ پٹرول مہنگا، بجلی مہنگی، روٹی عام آدمی کی پہنچ سے باہر، ارباب اختیار کو عوام کی حالت بہتر بنانے پر غور کرنا ہوگا۔
انتخابات میں تاخیری حربے نہ استعمال کیے جائیں۔ نئی مردم شماری کی بات بھی انتخابات سے فرار ہے۔ تاخیر سے ملکی حالات مزید خراب ہونگے۔ میرے نزدیک موجود مسائل کا واحد حل بروقت، صاف و شفاف انتخابات ہیں۔ اس میں سب کی شمولیت یقینی بنائی جائے اور نظام کو جمہوری انداز میں آگے بڑھایا جائے۔
The post بروقت انتخابات سے ہی سیاسی و معاشی استحکام ممکن ہے! appeared first on ایکسپریس اردو.