’’حالیہ بارشیں، موسمیاتی تبدیلی اور حکومتی اقدامات‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میںایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا۔
جس میں حکومتی اداروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
عمران قریشی
(ڈائریکٹر جنرل PDMA )
سیلاب کا موسم 15 جون سے 15 اکتوبر تک ہوتا ہے جس میں پری مون سون، مون سون اور مغربی ہواؤں کا معاملہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے پنجاب اور ملک کے دوسرے صوبوں میں بارش ہوتی ہے۔
اس مرتبہ یہ سپیل وقت سے پہلے شروع ہوگیا، اسی طرح پری مون سون کا آغاز بھی جلد ہوگیا۔ بھارت میں مون سون سے زیادہ بارشیں ہو رہی ہیں۔دریائے چناب، جہلم اور انڈس میں سے چناب اور جہلم پاکستان کے پاس ہیں جہاں منگلا اور تربیلا ڈیم موجود ہیں، ان کے کیچمنٹ ایریاز بھی پاکستان میں ہیں۔ اس طرح سیلاب کی صورت میں ہمارے پاس ردعمل کا وقت انتہائی کم ہوتا ہے۔
مرالہ سیالکوٹ سے چناب، نارووال سے راوی اور قصور سے ستلج پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ دریائے راوی سے 10 کلومیٹر دور بھارتی ڈیم 85 فیصد بھر چکا ہے۔ گزشتہ برس اس وقت وہ 42 فیصد تھا۔ اگر وہاں اور بارشیں ہوتی ہیں تو پانی کا اخراج پاکستان کی طرف ہوسکتا ہے۔
اس سے نچلے علاقے میں بارشیں ہوتی ہیں تو وہ پانی ہمارے ہاں آئے گا۔ اس وقت دریائے راوی میں 35 ہزار کیوسک تک پانی گزر رہا ہے جو گزشتہ دنوں میں 60 ہزار تک بھی گیا ہے۔ دریائے چناب میں 15 دن پہلے 2 لاکھ کیوسک کا ریلا گزرا ہے۔
اگر یہ پانی 3، 4 لاکھ کیوسک سے اوپر جاتا ہے تو نقصان ہوگا۔ پی ڈی ایم اے کے پاس پانچ دریاؤں کا ڈیٹا موجود ہے کہ کتنا پانی آنے سے کون کون سے موزے اور اضلاع متاثر ہونگے۔ اس کی روشنی میں لوگوں کی بروقت منتقلی کے حوالے سے اقدامات کیے جاتے ہیں۔
ہمارے پاس میٹ آفس، ایری گیشن ڈیپارٹمنٹ، سندھ طاس معاہدے کے تحت ہمسایہ ملک و دیگر سے معلومات آتی ہیں۔ ہم خود بھی معاملات دیکھتے ہیں ، ان کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر حالات کی سنگینی کے حوالے سے متعلقہ اضلاع کو اطلاع دیتے ہیں۔
ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ ڈیزازسٹر مینجمنٹ اتھارٹی موجود ہے، ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں تمام محکمے اس میں شامل ہوتے۔ ہر سال ڈسٹرکٹ فلڈ پلان بنایا جاتا ہے جو ہمارے ساتھ بھی شیئر کیا جاتا ہے، اس میں تمام اداروں کی ذمہ داریاں شامل ہوتی ہیں اور یہ بھی منصوبہ بندی کی جاتی ہے کہ سیلاب کی صورت میں کس جگہ کیمپ لگیں گے، لوگوں کی نقل مکانی کیسے ہوگی، علاج معالجہ و دیگر سہولیات کیسے دی جائیں گی، مویشیوں کی منتقلی کیسے ہوگی، لوگوں کی خوراک و دیگر ضروریات کیسے پوری کی جائیں گی۔
ہماری ایڈمنسٹریشن مشکل حالات سے نمٹنے کیلئے ہر سال تیار ہوتی ہے۔ اس مرتبہ صورتحال میں تھوڑا سا فرق ہے۔ دریائے راوی اور ستلج میں سیلاب کی صورتحال کم ہی ہوتی ہے۔ آخری سیلاب 1988ء میں 35 برس قبل آیا۔ ستلج پاکستان میں قصور سے آتا ہے۔
اس سے پہلے ستلج اور بیاس آپس میں ملتے ہیں۔ بیاس پر بھارت میں پونگ ڈیم ہے جو 75 فیصد بھر چکا ہے، گزشتہ برس آج کی تاریخ میں وہ 25 فیصد بھرا تھا۔ دریائے ستلج پر بھارت میں بھاکڑا ڈیم ہے جو 67 فیصد بھر چکا ہے، آج کی تاریخ میں گزشتہ برس یہ 31 فیصد تھا۔ یہ دونوں ڈیمز کا پانی اگر بڑھتا جائے گا تو بھارت کی طرف سے پانی پاکستان کی طرف آئے گا۔ یہ پانی ستلج میں گنڈا سنگھ سے آئے گا جس سے قصور، پاکپتن و دیگر علاقے متاثر ہونگے۔
اس وقت ستلج میں 77 ہزار کیوسک پانی موجود ہے۔ ستلج میں عرصہ دراز سے سیلاب نہیں آیا تو وہاں لوگ بے فکر ہوچکے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اب بھی نہیں آئے گا لہٰذا انہیں سمجھانا اور وہاں سے نکالنا مشکل ہے۔
ستلج میں 1 لاکھ 14 ہزار کیوسک پانی آیا تو قصور کے علاقہ تلوار والا میں 15 گاؤں متاثر ہوئے۔ ان گاؤں سے 11 ہزار افراد کو شہر منتقل کیا گیا۔انہیں یہاں سے نکالنے کیلئے ہمیں پولیس اور رینجرز کی ضرورت پڑی۔ وزیراعلیٰ پنجاب اس میں ذاتی طور پر معاملات دیکھ رہے ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے میں 7 مرتبہ کابینہ کی میٹنگز ہوئی ہیں۔
چیف سیکرٹری سے لے کر سب، اس پر کام کر رہے ہیں ۔ بھارت سے اگر ہمارے ہاں پانی آتا ہے تو ہمارے پاس 4 سے 15 گھنٹے کا رسپانس ٹائم ہوتا ہے جس میں تمام اقدامات کرنا ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے وزیراعلیٰ نے ڈپٹی کمشنرز کو سخت ہدایات جاری کی ہیں کہ ہر حال میں لوگوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
زیادہ بارشوں کی وجہ سے ہمارے دریاؤں میں پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے، راوی اور ستلج کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر ریڈ الرٹ جا ری کر دیا گیا ہے۔ پانی کی صورتحال کی ہر لمحہ مانیٹرنگ کی جا رہی ہے، PDMA تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ رابطے میں ہے، ضلعی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کوامدادی کیمپس و دیگر حفاظتی اقدامات کے لیے فنڈز جاری کر دیے گئے ہیں۔
پاک فوج ہمارے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہیں، پولیس اور رینجرز کی خدمات بھی لی جا رہی ہیں،ہم ہر طرح کے خطرات سے نمٹنے کیلئے پوری تیار ہیں تاہم عوامی رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے، جنہیں نقل مکانی کا کہا جاتا ہے، انہیں بروقت کسی محفوظ مقام پر منتقل ہوجانا چاہیے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب، چیف سیکرٹری نے مختلف اضلاع اور سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، میں نے بھی مختلف اضلاع کے دورے کر کے انتظامات کا جائزہ لیا، ڈسٹرکٹ ایمرجنسی فلڈ پلان موجود ہے، تمام ادارے ہر طرح سے تیار ہیں۔
شاہد عباس
(ڈائریکٹر محکمہ موسمیات پنجاب)
مئی کے وسط سے مون سون کا آغاز ہوچکا ہے جو اگست کے آخر تک رہے گا۔ اس وقت مون سون متحرک ہے یہی وجہ ہے بارشیں زیادہ ہو رہی ہیں۔ بھارت اور خلیج بنگال سے نمی آرہی ہے اور گزشتہ 8 دنوں ہونے والی بارشیں اسی کا نتیجہ ہیں۔
ابھی خلیج بنگال سے بارشوں کا سسٹم نہیں آیا، مغربی ہواؤں کا سلسلہ کافی مضبوط ہے۔ ہوا کی وجہ سے بارش جلد ہو جاتی ہے، اس وجہ سے نمی کا بادل بارش بن کر گر جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مختلف علاقوں میں بارش ہوتی ہے، اگر بادل اونچائی میں جاکر برسیں تو کسی اور علاقے میں بھی جاکر برستے ہیں۔
جولائی میں لاہور میں بارشوں کے تین سپیل آئے، جس میں بارش کی مقدار زیادہ تھی۔ اس سے مقامی ڈرینج کا مسئلہ بھی پیدا ہوا۔ یہ سلسلہ آج ختم ہوجائے گا جس کے بعد اگست کے پہلے 10 دن میں بریک آئے گی۔
ان ایام میں ڈیمز کو’ری سائز‘ کرنے میں مدد ملے گی۔ اگست میں تیز اورزیادہ بارش کا اثر دریاؤں پر ہوگا، اس حوالے سے اقدامات ضروری ہیں۔ چاول و دیگر اجناس کی کاشت کی وجہ سے بھی ہوا میں نمی ہے۔یہ بارشیں گنا اور چاول کیلئے مفید ہیں۔
اس مرتبہ اپر پنجاب میں بارشیں زیادہ ہوئی ہیں، ان بارشوں سے کسان کو فائدہ ہوگا، فصل بہتر ہوگی اور پانی کا خرچ بھی بچے گا۔ ہم مئی کے آغاز میں ہی تمام متعلقہ اداروں کو موسمی تبدیلی کی پیش گوئی کرتے ہیں۔
روزانہ کی بنیاد پر 200 سے زائد اداروں کوموسم کی معلومات فیکس کی جاتی ہیں جس کی روشنی میں متعلقہ ادارے کام کرتے ہیں۔
مارچ میں این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے سمیت تمام متعلقہ اداروں کی پری فلڈ میٹنگز کا آغاز ہوا، سیلاب سے 15 دن پہلے تمام ادارے پوری طرح متحرک ہوجاتے ہیں اور تمام ممکنہ خطرات اور صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار رہتے ہیں تاہم جہاں غیر معمولی صورتحال پیدا ہوجائے وہاں مشکل پیش آتی ہے۔
کئی برسوں سے راوی اور ستلج میں پانی نہیں آیا، اب ستلج میں 70 ہزار کیوسک سے زیادہ پانی آچکا ہے لہٰذا یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے جس کیلئے الگ سے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ادارے آپس میں رابطے میں، بعض جگہ سٹرکچرل مسائل ہیں جنہیں لانگ ٹرم منصوبہ بندی کے ساتھ دور کیا جاسکتا ہے۔
شاہنواز خان
(نمائندہ سول سوسائٹی)
پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہے۔ ان حالات میں اجتماعی سوچ اور کوشش کے ساتھ حکومت، متعلقہ ادارروں اور سول سوسائٹی سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
یہ قابل ذکر ہے کہ ہر مشکل صورتحال میں سب انتہائی محنت کے ساتھ کام کرتے ہیں تاہم جہاں مسائل موجود ہیں انہیں دور کرنا ہوگا۔ یہ باعث افسوس ہے کہ دریاؤں کی زمین پر قبضہ کر لیا جاتا ہے، ہنگامی حالات میں پانی کو منتقل کرنے کیلئے جو سرکاری زمین رکھی جاتی ہے، اس پر سیاستدان و طاقتور افراد قبضہ کر لیتے ہیں۔
2010ء کے سیلاب کے حوالے سے سپریم کورٹ کی رپورٹ موجود ہے کہ کس طرح ڈیرہ دیر پناہ کے قریب بند کو توڑ کر طاقتور کی زمینوں کو بچایا گیا اور لوگوں کی زندگیاں اجاڑ دیں۔ ہمیں قومی سطح پر ناجائز قبضے کے خلاف مہم چلانی چاہیے۔
موسمیاتی تبدیلی کی بات کریں تو حیرت کی بات یہ ہے کہ پنجاب میں کلائمیٹ پروٹیکشن پالیسی ہی موجود نہیں۔ ہمیں انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی نے بتایا کہ یہ پالیسی آخری مراحل میں ہے،وقت کی ضرورت ہے کہ اس پر جلدکام مکمل کیا جائے۔
موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی مسائل سمیت مختلف چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں عوام میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے،نوجوانوں کو اس مقصد کیلئے تیار کرنا ہوگا۔ لاہور میں حالیہ بارشوں سے ناقص سیوریج اور ڈرین سسٹم کا پول کھل گیاجبکہ واسا غائب نظر آیا ہے۔
افسوس ہے کہ شہری اپنی مدد آپ کے تحت پانی نکالتے ہیں جو کئی کئی دن کھڑا رہتا ہے، اگر 2، 3ماہ قبل سیوریج کے نظام کی صفائی کا پلان بنایا جاتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔بدقسمتی سے اس پر توجہ ہی نہیں دی گئی۔
موسمیاتی تبدیلی، بارشوں اور سیلاب کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ پلان بنانا ہوگا۔
اس میں خصوصی افراد کا بھی خیال رکھا جائے۔ منصوبہ بندی میں سول سوسائٹی، میڈیا، ٹریڈ یونینز، بار ایسوسی ایشنز سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا ہوگا اور ان کی مدد سے نہ صرف ضروری اقدامات کیلئے جائیں بلکہ بڑے پیمانے پر آگاہی مہم بھی چلائی جائے۔
The post زیادہ بارشوں سے سیلاب کا خطرہ، ریڈ الرٹ والے علاقوں میں شہری تعاون کریں! appeared first on ایکسپریس اردو.