ہم لوگ تجارت و زراعت وغیرہ مختلف ذرائع سے روپیا پیسا کمانے میں جتنی محنت اور کوشش کرکے اس کو جمع کرتے ہیں وہ سب اسی لیے ہوتا ہے کہ آنے والے وقت کے لیے کچھ ذخیرہ اپنے پاس محفوظ رہے تاکہ ضرورت کے وقت کام میں لایا جاسکے۔
لیکن جو اصل ضرورت کا وقت ہے اور اُس کا پیش آنا بھی ضروری ہے اور اُس میں اپنی سخت احتیاج بھی ضروری ہے اور یہ بھی یقینی ہے کہ اُس وقت صرف وہی کام آئے گا جو اپنی زندگی میں خدائی بینک میں جمع کردیا گیا ہو کہ وہ تو جمع شدہ ذخیرہ بھی پُورا پُورا ملے گا اور اُس میں اﷲ جل شانہ کی طرف سے اضافہ بھی ہوتا رہے گا، اُس کی طرف ہم لوگ بہت ہی کم التفات کرتے ہیں۔ حالاں کہ دُنیا کی یہ زندگی چاہے کتنی ہی زیادہ ہوجائے بہ ہر حال ایک نہ ایک دن ختم ہوجانے والی ہے اور آخرت کی زندگی کبھی بھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔
دُنیا کی زندگی میں اگر اپنے پاس سرمایہ نہ رہے تو اِس وقت محنت مزدوری بھی کی جاسکتی ہے، کسی سے مانگ کر بھی زندگی کے دن پورے کیے جاسکتے ہیں، لیکن آخرت کی زندگی میں کوئی صورت کمائی کی نہیں ہے، وہاں صرف وہی کام آئے گا جو ذخیرہ کے طور پر آگے بھیج دیا گیا۔
حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’ قیامت کے دن آدمی ایسا (ذلیل و ضعیف) لایا جائے گا جیسا کہ بھیڑ کا بچہ ہوتا ہے اور اﷲ جل شانہ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا۔ ارشاد باری تعالی ہوگا: ’’میں نے تجھے مال عطا کیا، حشم و خدم دیے، تجھ پر اپنی نعمتیں برسائیں، تونے اِن سب انعامات میں کیا کار گزاری کی۔‘‘
وہ عرض کرے گا: ’’میں نے خوب مال جمع کیا، اُس کو ( اپنی کوشش سے) بہت بڑھایا اور جتنا شروع میں میرے پاس تھا اُس سے بہت زیادہ کرکے چھوڑ آیا، آپ مجھے دُنیا میں واپس کردیں، میں وہ سب آپ کی خدمت میں حاضر کردوں۔‘‘ ارشاد ہوگا: ’’مجھے تُو وہ بتا جو تونے زندگی میں ( ذخیرہ کے طور پر آخرت کے لیے) آگے بھیجا۔‘‘ وہ پھر اپنا پہلا کلام دہرائے گا: ’’میرے پروردگار! میں نے خوب مال جمع کیا اُس کو (اپنی کوشش سے) بہت بڑھایا اور جتنا شروع میں میرے پاس تھا اُس سے بہت زیادہ کرکے چھوڑ آیا، آپ مجھے دُنیا میں واپس کردیں، میں وہ سب لے کر حاضر ہوں۔‘‘ (یعنی خوب صدقہ کروں تاکہ وہ سب یہاں میرے پاس آجائے) چوں کہ اُس کے پاس کوئی ذخیرہ ایسا نہ نکلے گا جو اُس نے اپنے لیے آگے بھیج دیا ہو، اس لیے اُس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘ (ترمذی)
ایک اور حدیث میں حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد وارد ہے، مفہوم: ’’ مَیں جنت میں داخل ہُوا تو میں نے اُس کی دونوں جانب تین سطریں سونے کے پانی سے لکھی ہوئی دیکھیں، پہلی سطر میں: ’’ لاالٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ لکھا تھا۔
دوسری سطر میں: ’’جو ہم نے آگے بھیج دیا وہ پالیا اور جو دُنیا میں کھایا وہ نفع میں رہا اور جو کچھ چھوڑ آئے وہ نقصان میں رہا‘‘ اور تیسری سطر میں لکھا تھا: ’’امت گناہ گار اور رب بخشنے والا ہے۔‘‘(برکاتِ ذکر)
ایک اور حدیث کا مفہوم ہے: ’’جب آدمی مرجاتا ہے تو فرشتے پوچھتے ہیں: ’’کیا ذخیرہ اپنے حساب میں جمع کرایا ؟ کیا چیز کل کے لیے بھیجی؟ اور آدمی یہ پوچھتے ہیں : ’’کیا مال چھوڑا ؟۔‘‘ (مشکوٰۃ)
حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، مفہوم: ’’ تم میں کون شخص ایسا ہے جس کو اپنے وارث کا مال اپنے سے زیادہ محبوب ہو ؟ ‘‘ صحابہ رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا: ’’یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ! ہم میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کو اپنا مال اپنے وارث سے زیادہ محبوب نہ ہو ۔‘‘ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ آدمی کا اپنا مال وہ ہے جو اُس نے آگے بھیج دیا اور جو چھوڑ گیا وہ اُس کا مال نہیں بل کہ یہ اُس کے وارث کا مال ہے ۔‘‘ (صحیح بخاری )
حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’آدمی کہتا ہے: ’’میرا مال ، میرا مال ۔‘‘ اُس کے مال میں سے اُس کے لیے صرف تین چیزیں ہیں: ’’جو کھا کر ختم کردیا۔ یا پہن کر پرانا کردیا۔ یا اﷲ کے یہاں اپنے حساب میں جمع کرا دیا۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ اُس کا مال نہیں ( بل کہ وہ سب کچھ دوسرے ) لوگوں کے لیے چھوڑ جائے گا۔‘‘ (مشکوٰۃ)
ہمارے روز بھر کے مشاہدہ میں یہ ایک عجیب بات اکثر و بیشتر آتی رہتی ہے کہ آدمی اکثر ایسے لوگوں کے لیے جمع کرتا ہے، مشقت اُٹھاتا ہے، مصیبتیں جھیلتا ہے، تنگی برداشت کرتا ہے، جن کو وہ اپنی خواہش سے ایک پیسہ دینے کا بھی روادار نہیں ہوتا، لیکن جمع کرکے آخر کار اُن ہی کے لیے چھوڑ جاتا ہے اور مقدرات اُنہی کو سارے کا وارث بنا دیتے ہیں جن کو وہ ذرا سا بھی دینا نہ چاہتا تھا۔
حضرت ارباط بن سہیہؒ کا جب انتقال ہونے لگا تو انہوں نے چند اشعار پڑھے جن کا مفہوم ہے: ’’آدمی کہتا ہے کہ میں نے مال بہت جمع کیا، لیکن اکثر کمانے والا دوسروں (یعنی وارثوں) کے لیے جمع کرتا ہے وہ خود تو اپنی زندگی میں اپنا بھی حساب لیتا رہتا ہے کہ کتنا مال کہاں خرچ ہوا ؟ کتنا کہاں خرچ ہوا ؟ لیکن بعد میں ایسے لوگوں کی لُوٹ کے لیے چھوڑ جاتا ہے۔
جن سے حساب بھی نہیں لے سکتا کہ سارے کا سارا کہاں اُڑا دیا ؟ پس آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں کھا لے اور دوسروں کو کھلا دے اور اپنے بخیل وارث سے چھین لے۔ آدمی خود تو مرنے کے بعد نامراد رہتا ہے (یعنی کوئی اِس کو اُس مال میں یاد نہیں رکھتا) لیکن دوسرے لوگ اُس کے مال کو کھاتے اُڑاتے پھرتے ہیں۔ آدمی خود تو اُس مال سے محروم ہو جاتا ہے اور دوسرے لوگ اِس سے اپنی خواہشات پوری کرلیتے ہیں۔‘‘
(اتحاف سادۃ المتقین)
ایک بزرگ فرماتے ہیں: ’’میں سب سے پہلے اپنے نفس کو نصیحت کرتا ہوں، اس کے بعد اپنے دوستوں کو کہ ساتھ جانے والا مال صرف وہی ہے جس کو اﷲ کے خزانے میں جمع کرادیا، اور جس کو جمع کرکے اور خوب بڑھاکر چھوڑ دیا وہ اپنے کام نہیں آتا، بعد میں نہ کوئی ماں باپ یاد رکھتا ہے اور نہ ہی بیوی بچے پوچھتے ہیں۔
الا ماشاء اﷲ۔ بل کہ اپنا ہی کیا کام آتا ہے۔ ان سب کی محبتوں کا خلاصہ دو چار دن ہائے ہائے کرنے اور پانچ سات دن مفت کے آنسو بہانے کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ بل کہ اگر اِن آنسوؤں میں بھی پیسے خرچ کرنا پڑیں تو یہ آنسو بھی نہ رہیں۔
یہ خیال کہ اولاد کی خیر خواہی کی وجہ سے مال کو جمع کرکے چھوڑنا ہے نفس کا محض دھوکا ہے، صرف مال جمع کرکے اُن کے لیے چھوڑ جانا اُن کے ساتھ خیر خواہی نہیں ہے بل کہ شاید بد خواہی بن جائے۔ اگر واقعی اولاد کی خیر خواہی مقصود ہے، اگر واقعی یہ دل چاہتا ہے کہ وہ اپنے مرنے کے بعد پریشان حال، ذلیل و خوار نہ پھریں تو اُن کو مال دار چھوڑنے سے زیادہ ضروری اُن کو دین دار چھوڑنا ہے کہ بد دینی کے ساتھ مال بھی اوّلاً اُن کے پاس باقی نہ رہے گا بل کہ چند یوم کی شہوات و لذات میں اُڑ جائے گا اور اگر رہا بھی تو اپنے کسی کام کا نہیں ہے۔
اور دین داری کے ساتھ اگر مال نہ بھی ہو تو اُن کی دین داری اُن کے لیے بھی کام آنے والی چیز ہے اور اپنے لیے بھی کام آنے والی چیز ہے اور مال میں سے تو اپنے کام آنے والا صرف وہی ہے جو ساتھ لے گیا اور بس!
The post سخی کے لیے خُوش خبری appeared first on ایکسپریس اردو.