حضرت عمر فاروقؓ مدینہ منورہ میں تشریف فرما تھے کہ زلزلے سے زمین کانپنے لگی، حضرت عمرؓ کا دُرّہ تو مشہور تھا جس نے عدل و انصاف میں اپنے اور بیگانے کا فرق مٹا دیا، دُرّہ زمین پر مارا اور فرمایا: ’’کیوں کانپتی ہے، کیا زمین تجھ پر عمرؓ نے انصاف نہیں کیا۔‘‘ زلزلہ اسی وقت تھم گیا۔ زمین کا تھم جانا اس بات کی گواہی تھا کہ آپؓ نے انصاف کا حق ادا فرمایا ہے۔
دریائے نیل مصر کا مشہور دریا ہے، سال میں ایک بار خشک ہوجاتا تھا چناں چہ مصر کے لوگ ایک خوب صورت لڑکی کا بناؤ سنگھار کرکے اس دریا میں ڈالتے تو پانی حسب معمول جاری ہو جاتا۔ مصر جب فتح ہُوا ، اسلام کی روشنی جب وہاں پہنچی تو حسب روایت دریا خشک ہو نے کے وقت لڑکی کو تیار کر کے اہل مصر پھینکنے لگے تو مصر کے حاکم نے حضرت عمرؓ کو اس رسم بد سے بہ ذریعہ خط آگا ہ فرمایا۔ حضر ت عمرؓ نے فرمایا کہ انسانی جان دریا سے قیمتی ہے، میرا یہ خط دریا میں ڈال دو۔
لوگ حیران تھے نیل ایک دریا ہے انسان تھوڑا ہی ہے کہ وہ خط کا مطلب جان سکے مگر انھیں یہ پتا نہ تھا جو رب العالمین کا حکم مانتا ہے پھر ساری کائنات اس کا حکم مانتی ہے۔ خط کا مضمون پڑھ کر حضرت عمرؓ کے ایمان و یقین کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ہر ایک حرف سے توحید ٹپکتی نظر آتی ہے۔
حضرت عمرؓ نے لکھا: ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم۔ اﷲ تعالی کے بندے عمر بن خطابؓ کی طرف سے نیل مصر کے نام ہے: اگر تُو اپنے اختیار سے جاری رہتا ہے تو ہمیں کوئی ضرورت نہیں اور اگر تُو اﷲ تعالی کے حکم سے جاری ہے تو پھر تجھے جا ری رہنا چاہیے۔‘‘
یہ خط جب دریا میں ڈالا گیا تو نیل میں پانی ایسے چڑھنا شروع ہوا جیسے سیلاب کے دنوں میں تیزی سے چڑھتا ہے اور ایسا جاری ہُوا کہ آج تک جاری ہے اس کی روانی و فیض رسانی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ تاریخ نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ اس واقعہ کو دیکھ کر غیر مسلموں نے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا کہ جس مذہب حق کے ماننے والے کی تحریر کا حکم دریا بھی مانے اس مذہب حق کی برکات کا عالم کیا ہوگا۔
حضرت عمر فاروقؓ ایک روز جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک خلاف معمول دو تین بار فرمایا: یا ساریۃ الجبل! اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے بعد میں دوران خطبہ اس جملہ کے کہنے کی وجہ پوچھی تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ عراق میں نہاوند کے مقام پر حضرت ساریہؓ کی قیا دت میں جو لشکر مصروف جہاد ہے میں نے دیکھا کہ اس کے سامنے سے کفار کا لشکر آرہا ہے جس کی حضرت ساریہؓ کو خبر ہے اور پیچھے سے جو لشکر آرہا ہے پہاڑ سے اس کی خبر نہیں، چناں چہ میں نے یہ الفاظ بے اختیار کہے (اور اس یقین کے ساتھ کہے کہ اﷲ تعالی ان تک پہنچا دیں گے) کچھ دنوں بعد عراق سے جب حضرت ساریہؓ کا قاصد آیا تو اس نے اس کی تصدیق کی کہ ہم لوگوں نے جمعہ کے دن فلاں وقت حضرت عمرؓ کی آواز سنی اور سنبھل گئے اور پہاڑ پر چڑھ کر دشمن سے مدافعت کی اﷲ تعالیٰ نے کام یابی عطا فرمائی۔
حجاز کی گھاٹیوں سے آگ نکلی جس نے سب کچھ خاکستر کر دیا، حضرت عمرؓ نے حضرت تمیم داریؓ کو ساتھ لیا اور آگ بجھانے نکلے، حضرت عمرؓ نے حضرت تمیم داریؓ سے فر مایا کہ آگ کو ہنکانہ شروع کرو انہوں نے آگ کو اپنی چادر سے ہنکانہ شروع کیا اور اسے دھکیلتے دھکیلتے اس گھاٹی سے جہاں سے نکلی اندر فرما دیا اور آج تک دوبارہ وہ آگ نہیں نکلی۔
حضرت عمرؓ کی کرامت میں سے آپ کی وہ دعا بھی ہے جو پروردگار کے حضور مانگا کرتے تھے کہ اے اﷲ! مجھے اپنی راہ میں شہادت کی موت نصیب فرما اور دے بھی شہر مدینہ میں۔ صحابہ کرامؓ اس پر تعجب کا اظہار کرتے کہ شہادت تو میدان میں آتی ہے لیکن اﷲ تعالی نے دعا قبول کی شہادت بھی مدینہ شہر میں آئی، مسجد نبویؐ میں نصیب ہوئی اور تدفین بھی حضور اکرم ﷺ کے پہلو میں نصیب ہوئی۔
اﷲ تعالی حضور نبی کریمؐ اور آپؐ کے آل و اصحابؓ پر ان گنت رحمتوں کا سدا نزول فرمائے اور جنّت میں ہمارا حشر ان کے قدموں میں فرمائے۔ آمین
The post مراد رسولؐ حضرت عمر فاروق ؓ appeared first on ایکسپریس اردو.