زندگی کی شدید اور تھکا دینے والی مصروفیات میں یہ تہوار ہی ہوتے ہیں جو ہمیں سانس لینے کا موقع دے دیتے ہیں۔ سال کے دونوں تہواروں پر ہم دوست احباب اور ملنے جلنے والوں کو شامل کر کے ہی خوشی کا اصل مفہوم کشید کر سکتے ہیں۔ خوشی بانٹنے سے ہی بڑھتی ہے۔
بقرعید کا موقع ایسا ہوتا ہے کہ قربانی کی توسط سے ہمارے گھروں میں گوشت کی فراوانی ہوتی ہے اور بہت سے لوگ اسی مناسبت سے گیٹ ٹوگیدر رکھتے ہیں، باربی کیو کا اہتمام کر لیتے ہیں۔
ہمارے حلقے اور قرب وجوار میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو ظاہر ہے ہمارے ہاں دعوتوں میں نہیں آسکتے، یا نہیں آتے یا پھر ان کا کوئی ایسا تعلق نہیں بنتا کہ ہمارا گھروں میںآنا جانا ہو۔ ایسے احباب، ہم سائے اور دوست احباب کے لیے بہتر ہوتا ہے کہ آپ ان کے ہاں بہترین گوشت بھجوائیں یا کوئی اچھا پکوان بنائیں تو انھیں بھی اپنے ساتھ شریک کریں۔
یہ ایک ایسا پہلو ہے، جس پر ہم شاید غور نہیں کرتے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی میں اب ایسے لوگوں کا دائرہ بڑھ چکا ہے، جو قربانی نہیں کرتے، اس کے ساتھ ساتھ جو پہلے ہی نہیں کرتے تھے، ان کی صورت حال بھی خراب ہوگئی ہے۔
بہت سے گھرانے ایسے بھی ہیں کہ جن کے ہاں آپ اگر کسی خاص پکوان کے لیے گوشت بھجوائیں تو وہ اس بات کے متحمل نہیں ہوتے کہ اس کے لوازمات کا بندوبست کرسکیں۔ اس بات کو اچھی طرح سے سمجھیے گا اور محسوس کیجیے گا۔ یہ امر ان کے لیے ایک اور طرح کی مشکل کھڑی کردیتا ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ انھیں پکا پکایا سالن یا کھانا بھجوا دیا جائے اور بہت عزت اور سلیقے کو ملحوظ رکھا جائے۔
ایسے لوگ جو کبھی کسی کے در کو نہیں کھٹکھٹاتے۔ انھیں دینا زیادہ ضروری ہے، بہ جائے اُن لوگوں کے جو گھر گھر دستک دے کر گوشت جمع کرتے ہیں۔
یہ حق دار تک حق پہنچانے کی بات ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک یقیناً آپ گوشت کے حصے بخرے کرچکی ہوں گی، لیکن ابھی آپ کے فریزر اور ڈیپ فریزر میں گوشت کی وافر مقدار موجود ہوگی، اس لیے آپ ایسے ’سفید پوش‘ گھرانوں کو یاد کرلیجیے کہ جو کبھی اپنی ضرورت کا اظہار نہیں کرتے، بس اپنی عزت کا بھرم بنائے رکھتے ہیں۔
بقر عید میں ہم سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے، اﷲ کی راہ میں جانوروں کی قربانی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس عید کا مقصد صرف جانوروں کی قربانی کر کے گوشت جمع کرنا ہے، جب کہ اس تہوار کی اصل روح اپنے نفس کا تذکیہ ہے۔ یہ تذکیہ ایسے لوگوں کی مدد سے بھی حاصل ہوسکتا ہے نہ کہ صرف ایسے گھروں سے ’تبادلہ‘ کرکے کہ جہاں سے پہلے ہی دسترخوان بھرپور ہوتا ہے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ اپنے رشتہ داروں کے لیے پروگرام نہ بنائیں، ان کا بھی پروگرام رکھیں، لیکن جتنا بھی ممکن ہو ایسے پاس پڑوس اور محلے داروں کو بھی دیکھیے ۔ اس کے بعد ضرور اس گوشت سے تکے، کباب، نہاری، حلیم وغیرہ بنائیے اور اپنے گھرانوں میں خوب داد سمیٹتی رہیے۔ اس میں برکت بھی ہوگی اور آپ کو اچھا بھی لگے گا۔ خاندان اور رشتے داروں کی دعوتیں وغیرہ ہوتی ہیں، کھانے پینے کے پروگرام بنائے جاتے ہیں، جو کہ ظاہر ہے اس موقع پر بہت اچھا لگتا ہے۔
آج کل ناراضی و نا اتفاقی ہر گھر میں کسی نہ کسی سطح پر ہو ہی جاتی ہے، مگر ہمارا یہ تہوار ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس عید کے توسط سے ہم اپنی ذاتی رنجشوں، ناراضگیوں اور ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظر انداز کر کے کھلے دل سے ایک دوسرے کو گلے لگا لیں۔
عید قرباں اسی مقصد کو پورا کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے، اس موقع پر آپ ایسے گھروں کو بھی یاد کیجیے جہاں کسی وجہ سے رنجش پیدا ہوگئی ہے۔ ممکن ہے آپ کے گھر سے کچھ بھیجا جائے تو یہ بات دل صاف ہونے کا ذریعہ بن جائے۔
پھر یہ تو ہم بتا ہی چکے ہیں کہ ایسے گھرانے جو گوشت کھانے سے محروم ہوتے ہیں یا ان کی مالی حیثیت کمزور ہوتی ہے، وہاں گوشت بھجواکر ہی آپ صحیح معنوں میں حقِ قربانی ادا کر سکتی ہیں۔ اسی طرح اپنے ایسے عزیز و رشتے دار جو غریب ہیں۔
ان کی مدد کرنا اور ان پر خصوصی توجہ دینا بھی آپ کا فرض ہے۔ صرف اپنے ہم پلہ گھرانوں کی دعوتیں کرنا، ان سے میل جول رکھنا اور غریب رشتے داروں کو نظر انداز کرنا اس تہوار کے منافی ہے۔ عید قرباں اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر کی لا محدود خواہشوں کو لگام دیں اور اپنے دل میں دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کریں۔
آج ہم اپنے ارد گرد خاندانی انتشار کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ بہت سے سگے بہن، بھائی تک ایک دوسرے سے ملنے کے روادار نہیں۔ اس کا واحد سبب ہمارے نفس کی سرکشی ہے اور یہ تہوار ہمیں اپنے نفس کو قربان کرنے کا درس دیتا ہے۔
ہمارا معاشرہ آپس میں اختلافات، تعصبات اور ایک دوسرے سے جلن و حسد کے باعث انتہائی افرا تفری اور انتشار کا شکار ہوگیا ہے، اپنے علاوہ ہم کسی دوسرے کی بات تک کو بھی تحمل و برداشت سے سننا نہیں چاہتے، اپنے آپ کو سب سے اعلا اور بہترین جان کر دوسروں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں اور یہ بات قطعاً فراموش کر دیتے ہیں کہ ہمارا دین نہ کسی گورے کو کالے پر اور نہ کالے کو گورے پر ترجیح دیتا ہے۔ اللہ کی نظر میں صرف تقویٰ افضل ہے۔
یہ خوشیوں کے تہوار ہمیں آپس میں پیار و محبت اور اتحاد و یک جہتی کے ساتھ رہنے کا درس دیتا ہے، جہاں سب ایک دوسرے کے حقوق کی پاس داری کریں، ان کی جان و مال کا خیال رکھیں۔ اچھے برے وقت میں کام آئیں، دوسروں کو بھی آپس کے اختلافات اور نفرتوں کو بھلانے کا درس دیں اور ایسا معاشرہ تشکیل دیں، جس کا تقاضا ہمارا دین کرتا ہے۔
آج ایک بار پھر اﷲ تعالیٰ نے ہمیں عیدالضحیٰ کی صورت میں اپنے اس خوب صورت تحفے کو بھرپور انداز سے منانے کا موقع دیا ہے۔
The post کیا آپ کی قربانی ’سفید پوشوں‘ تک پہنچی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.