ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی متحدہ علماء بورڈ پنجاب کے چیئرمین ہیں۔ آپ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان اور وفاقی رویت ہلال کمیٹی کے رکن ہیں اور پاکستان کی ایک بڑی دینی درسگاہ جامعہ نعیمیہ کے پرنسپل بھی ہیں۔
عیدالضحیٰ کی آمد کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میںا ن کے ساتھ فلسفہ قربانی کے حوالے سے خصوصی لیکچر کا اہتمام کیا گیا جس کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی
قربانی کا بنیادی فلسفہ یہی قرار پایا ہے کہ بندہ مومن امن و حالات جہاد،دونوں کیفیات میں ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ر ہے۔ حالات جہاد کی قربانی تو بظاہر ہر ایک کی سمجھ میں آجاتی ہے۔ حالات امن میں کی جانے والی قربانی در حقیقت حالات جہاد کی قربانی کے لیے تیاری ہے۔ انسان کو اپنا مال بہت عزیز ہوتا ہے اور وہ اسے جمع کر کے رکھتا ہے۔
بالترتیب زکوٰۃ اور عیدالاضحی کے موقع پر کی جانے والی قربانی کی ادائیگی بندہ مومن اپنے مال سے کرتا ہے اور ہر سال پچھلے سال سے بڑھ کر ز کوٰۃ اور قربانی ادا کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ تخلیق انسانیت کے آغازہی سے قربانی کا جذبہ کار فرما ہے۔ قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کی قربانی کا واقعہ موجود ہے۔
قربانی سیدنا حضرت ابراہیمؑ کی عظیم ترین سنت ہے۔ یہ عمل اللہ تعالیٰ کواتنا پسند آیا کہ اسے قیامت تک، مسلمانوں کے لیے عظیم سنت قرار دیا گیا۔ قرآن مجید نے بھی حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے واقعہ کوتفصیل سے بیان کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد ہر سال قربانی کے اہم فریضہ کو ادا کیا۔
قرآن و احادیث میں اس کے واضح احکام ومسائل اور تعلیمات موجو د ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا’’نماز پڑھئے اپنے رب کے لئے اور قربانی کیجئے‘‘ (القرآن) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو ایسا شخص ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔
(الحدیث) ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ذوالحج کی 10 تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں ، سینگوں اور کھروں کو لے کر آئے گا (اور یہ چیزیں اجروثواب کا سبب بنیں گی)۔ نیز فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرفِ قبولیت حاصل کرلیتا ہے لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔(الحدیث)
قربانی کاعمل ازمنہ قدیم میں بھی پایا جاتا تھا۔ اس وقت جو قر بانی اللہ کے ہاں مقبول ہوتی اس کا وجود آگ کھالیتی مگر قربان جائیں نبی آخر الزماں محمد مصطفیﷺ پر کہ آپﷺ کی امت اللہ کو ایک طرف اپنی قربانی سے راضی کرتی ہے تو دوسری طرف اسے اپنی ہی پیش کردہ قربانی کے گوشت کو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
اسی لیے یہ امر ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ قربانی، گوشت کے حصول کی نیت سے نہ کی جائے۔ البتہ خوبصورت اور فربہ جانور کوقربانی کے لیے پیش کئے جانے کو پسند کیا گیا ہے۔
قربانی دکھاوے کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔ دکھاوا اور نمائش ہر عمل خیر میں خرابی پیدا کر دیتا ہے۔ آج کل اسی دکھا وے اور نمائش نے قربانی کے عمل کو گہنا دیا ہے۔ لاکھوں روپے کی قربانی اسی لیے خریدی جاتی ہے کہ اس سے اہل علاقہ اور شہر میں چر چا ہو کہ سیٹھ صاحب کی قربانی کا بیل شہر بھر میں سب سے بڑا اور سب سے زیادہ قیمت والا ہے۔
عمومی قربانی کرنے والے افراد احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بچے اپنے والدین سے سوال کرتے ہیں کہ ہم بڑی قربانی کیوں نہیں کر سکتے ؟ قربانی کے عمل میں مطلوب حصول تقویٰ ہے جیسا فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’اس کے ہاں قربانی کا خون و گوشت نہیں پہنچتا مگر اس کے ہاں تقوی پہنچتا ہے‘‘
اور اس کا معنی یہی ہے کہ قربانی خالصتاً تقویٰ کے حصول کے لیے کی جائے نہ کہ گوشت کے لیے یا دکھا وے اور نمائش کے لیے۔ تقوی کا حصول تو ہر عبادت کا لازمی جزو ہے۔ نماز وروزہ کو دیکھ لیں یا حج وزکوۃ کو۔ ہر ایک کا مقصد ، اسے ادا کرنے والے کو متقی بنانا ہے۔ گناہوں سے بچاتے ہوئے راہ حق و ہدایت پر گامزن کرنا ہے۔
تقوی کا یہی حصول بندہ مومن کے درجات میں نہ صرف اضافہ کرتا ہے بلکہ اسے قرب الٰہی بھی بخشتا ہے۔ اور قربانی میں ’’قرب ‘‘بھی پایا جاتا ہے۔ اور اس کا معنی ہے قریب و نزدیک ہونا۔ قربانی کے ذریعے چونکہ قرب الٰہی اور اس کی نزدیکی کا حصول ممکن بنایا جاتا ہے۔
اس لیے اسے قربانی کہتے ہیں۔ یہ نزدیکی اور قرب زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لیے تقوی بھی اتنا ہی زیادہ ہونا چاہیے۔ خلاصہ یہ کہ قربانی اللہ کی رضا کے حصول کی خاطر تقوی کی بنیاد پر کی جائے جو کہ ہر قسم کے دکھا وے، نمائش اور حصول گوشت کی نیت سے پاک ہو۔
قربانی کے ایام
قربانی کا وقت نماز عید الاضحی سے شروع ہوتا ہے اور12ذوالحج کے غروب آفتاب تک رہتا ہے۔ نماز عیدالاضحی سے قبل قربانی کی صورت میں رسول اللہﷺ نے دوسری قربانی کرنے کا حکم دیا ہے۔قربانی کی عبادت صرف تین دن ( یعنی ذوالحج کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخ) کے ساتھ مخصوص ہے، البتہ پہلے دن کو کرنا افضل ہے۔
قربانی کرنے والے کیلئے مستحب عمل
نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جب ذوالحج کا مہینہ شروع ہوجائے اور تم میں سے جو قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ (مسلم) اس حدیث اور دیگر احادیث کی روشنی میں‘ قربانی کرنے والوں کے لئے مستحب ہے کہذوالحج کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک جسم کے کسی حصے کے بال اور ناخن نہ کاٹیں۔
قربانی کی شرائط و ارکان
قربانی کے واجب ہونے کی تین شرائط ہیں : مسلمان ہونا۔ مقیم ہونا۔ قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقہ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض کی رقم اداکرنے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو، یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سے زائد اتنا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔
قربانی واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال ، رقم یا ضرورت سے زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں ہے، ذوالحج کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے اگر نصاب کا مالک ہوجائے تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہے۔
قربانی کے جانور اور ان کی عمر
بکرا، بکری، بھیڑ ایک سال کی ہو، بھیڑ اور دنبہ جو ہو تو چھ ماہ کا لیکن دیکھنے میں ایک سال کا معلوم ہو اور گائے ، بھینس دو سال کی اور اونٹ پانچ سال کا ہو ان سب جانوروں پر قربانی کرنا جائز ہے۔ بکری، بکرا، مینڈھا، بھیڑ، دنبہ، گائے، بھینس، بھینسا، اونٹ، اونٹنی کی قربانی درست ہے ان کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی درست نہیں۔
گائے، بھینس، اونٹ میں اگر سات آدمی شریک ہو کر قربانی کریں تو بھی درست ہے، مگر ضروری ہے کہ کسی کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہ ہو اور یہ شرط ہے کہ سب کی نیت قربانی یا عقیقہ کی ہو، صرف گوشت کھانے کے لیے حصہ رکھنا مقصود نہ ہو، اگر ایک آدمی کی نیت بھی صحیح نہ ہو تو کسی کی بھی قربانی صحیح نہ ہوگی۔بکرا، بکری ایک سال کا پورا ہونا ضروری ہے۔
بھیڑ اور دنبہ اگر اتنا فربہ اور تیار ہو کہ دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہو تو وہ بھی جائز ہے۔ گائے، بیل، بھینس دو سال کی، اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے، ان عمروں سے کم کے جانور قربانی کے لیے کافی نہیں۔ اگر جانوروں کا فروخت کرنے والا عمر پوری بتاتا ہے اور ظاہری حالت میں اس کے بیان کی تکذیب نہیں ہوتی، اس پر اعتماد کرنا جائز ہے۔
جب کسی جانور کی عمر پوری ہونے کا یقین ہوجائے تو اس کی قربانی کرنا درست، ورنہ نہیں، اور اگر جانور دیکھنے میں پوری عمر کا معلوم ہوتا ہے، مگر یقین کے ساتھ معلوم ہے کہ اس کی عمر ابھی پوری نہیں تو اس کی قربانی درست نہیں۔ ( دنبہ اور بھیڑ اس حکم سے مستثنیٰ ہے ان کا حکم اوپر بیان ہوگیا) یاد رہے کہ جانور کی دانتوں کو دیکھ کر فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کرے، عمر کا لحاظ رکھے۔ قربانی کے جانور کا عیوب سے پاک ہونا چاہیے۔ عیب دار جانور (جس کے ایک یا دو سینگ جڑ سے اکھڑ گئے ہوں، اندھا جانور، ایسا کانا جانور جس کا کاناپن واضح ہو، اس قدر لنگڑا جو چل کر قربان گاہ تک نہ پہنچ سکتا ہو، ایسا بیمار جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو، وغیرہ ) کی قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔
ایسا مجنون جانورجو جنون کی وجہ سے چارہ نہ کھاتا ہو۔ایساخارش زدہ جانور جو خارش کی وجہ سے بے حد کمزور ہوگیا ہو۔ایسا جانور جو دیکھ نہ سکتا ہو۔ ایسا جانور جو قربان گاہ کی طرف خود نہ چل سکتا ہو۔ ایسا جانور جس کا ایک تہائی کان یا دم یا بینائی یا چکتی کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ جا چکا ہو۔ ایسا جانور جس کے پیدائشی کان نہ ہوں۔ایسا جانور جس کے تھنوں کا سرا کٹا ہوا ہو۔ایسا جانور جس کے تھن خشک ہوگئے ہوں (گائے کے دو تھن خشک ہوچکے ہوں اور بکری کاایک تھن خشک ہوجائے) تو قربانی درست نہیں ہوگی۔
قربانی کے گوشت کاحکم
قربانی کے گوشت کو آپ خود بھی کھاسکتے ہیں، رشتہ داروں کو بھی کھلاسکتے ہیں اور غرباء ومساکین کو بھی دے سکتے ہیں۔افضل یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کئے جائیں ایک حصہ اپنے گھر کے لیے،ایک حصہ رشتے داروں اور دوست احباب کے لیے اور ایک حصہ فقرا ء ومساکین میں تقسیم کیا جائے، ہاں اگر عیال زیادہ ہوں تو سارا گوشت خودبھی رکھ سکتے ہیں۔ قربانی کا گو شت فروخت کرنا یا اجرت میں دینا جائز نہیں۔
قربانی کامقصد
قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا مقصد خاص اللہ کریم کی رضا اور تعظیم ہو اور عبادت کے خیال سے ذبح کرے، گوشت کھانے کے مقصد سے یا لوگوں دکھانے کی غرض سے نہ کرے۔
قربانی میں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا ہے بلکہ جتنے اخلاص اور اللہ سے محبت کے ساتھ قربانی کی جائے گی اللہ تبارک وتعالیٰ اتنا ہی اجروثواب عطا فرمائے گا اور یہ اصول صرف قربانی کے لئے نہیں بلکہ نماز، روزہ،زکوٰۃ،حج یعنی ہر عمل کے لئے ہے لہٰذا ہمیں ریا، شہرت، دکھاوے سے بچ کر خلوص کے ساتھ اللہ کی رضا کیلئے اعمال صالحہ کرنے چاہئیں۔
The post قربانی کا مقصد قرب الٰہی کا حصول… دکھاوے سے عمل ضائع نہ کیا جائے! appeared first on ایکسپریس اردو.