درست کہ بھارت دنیا کی بڑی معاشی طاقت بن چکا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مصدقہ عالمی طاقتوں کے برعکس بھارت اب بھی ایک بہترین اور عمدہ نظام حکومت نہیں رکھتا جسے عرف عام میں ’’سسٹم‘‘ اور ’’گڈ گورنس‘‘ کہا جاتا ہے۔
بھارتی سسٹم کرپشن سے لتھڑا ہے اور نئے مذہب’’ہندتوا‘‘پھیلنے کی وجہ سے اس میں تعصب ونفرت کے جراثیم بھی در آئے ہیں۔اسی لیے بھارتی حکومتی نظام اپنے دو اہم ترین فرائض…قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی کماحقہ انداز میں پورے نہیں کرپا رہا۔خاص طور پہ اقلیتوں کے معاملے میں بھارتی سسٹم ظلم وستم کا استعارہ بن جاتا ہے۔
مسلمان اسفل ترین درجے پر
صحیح کہ دور جدید میں سبھی عالمی طاقتوں نے کہیں نہ کہیں اپنے مفادات پورے کرنے کے لیے اسلام یا مسلمانوں کو ٹارگٹ کر رکھا ہے ، لیکن خصوصاً 2014ء سے بھارتی نظام حکومت مسلمانوں پہ جو مظالم ڈھا رہا ہے، ان کی نظیر فلسطینی مسلمانوں پہ اسرائیلی مظالم کے علاوہ کہیں نہیں ملتی۔
بھارتی سسٹم یا اسٹیبلشمنٹ نے معاشرے میں عام مسلمانوں کو اسفل ترین درجے پر لا کھڑا کیا ہے۔اب تو ہندو اچھوت بھی مسلمانوں کے مقابلے میں معاشی، سیاسی ومعاشرتی طور پہ بلند درجہ رکھتے ہیں۔حتی کہ جو بااثر مسلمان ہیں، وہ بھی کھلے عام اسلامی روایات پہ عمل نہیں کر سکتے بلکہ ہندتویوں کی خوشنودی پانے یا روزی روٹی کی خاطر ہندوانہ رسومات ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایسے مخالفانہ ومعاندانہ ماحول میں کوئی بھارتی مسلمان آمرانہ و ظالمانہ سسٹم کے سامنے کھڑا ہو جائے تو اس کی ہمت ودلیری کی داد دینی چاہیے۔
جدوجہد کی کہانی
47 سالہ نثار احمد کا تعلق ریاست یو پی سے ہے۔گیارہ سال کے تھے کہ والدین کے ہمراہ دہلی چلے آئے تاکہ مناسب روزگار ڈھونڈ سکیں۔غریب گھرانا تھا اور آمدن محدود، لہذا نثار جلد ایک گارمنٹ فیکٹری میں کام کرنے لگے کہ گھر کی آمدنی میں اضافہ ہو سکے۔وہاں انھوں نے ملبوسات تیار کرنے کا کام سیکھا۔کئی سال کام کر کے تجربہ حاصل ہوا تو گارمنٹس کا اپنا کاروبار کرنے لگے۔
محنت ودیانت داری کی بدولت اللہ پاک نے فضل کیا اور کام چل پڑا۔انھوں نے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے مضافاتی علاقے، بھاگیرتھی وہاڑ میں اپنا دو منزلہ مکان تعمیر کر لیا۔اس دوران شادی ہو گئی جس سے تین بچے تولد ہوئے۔ مکان کے نیچے تیارشدہ کپڑے بیچنے کا اسٹور کھول لیا۔
وہ ریڈی میڈ گارمنٹس دہلی کی مختلف دکانوں میں سپلائی بھی کرنے لگے۔یوں زندگی آرام وسکون سے بسر ہونے لگی۔پھر اچانک بھارت میں نفرت و تعصب کی ہوا چلنے لگی اور مسلم دشمن جماعت، بی جے پی الیکشن 2014ء جیت کر اقتدار میں آ گئی جو ہندومت کی انتہا پسندانہ اور جنگجو نئی شکل، ہندتوا کی پیروکار ہے۔
ہندتوی آ گئے
حکومت سنبھال کر ہندتوی لیڈر نریندر مودی کی زیرقیادت مختلف مسلم دشمن اقدامات کرنے لگے: ذبیح گائے پہ پابندی لگا دی ، غریب مسلمانوں کو ہندتوی بنانے کی کوشش ہونے لگی، مسلمانوں کو عوامی مقامات میں اسلامی وضع قطع اپنانے سے زبردستی روکا جانے لگا، شہروں، قصبوںاور مقامات کے مسلم نام بدل دئیے گئے،برقع پہننے پہ پابندی لگانے کی سعی ہوئی۔
اذان لاؤڈاسپیکر پہ نہ دینے کی مہم چل پڑی، ہندتیوں کو کہا گیا کہ وہ اپنے گھر، دکان و دفتر مسلمانوں کو کرائے پہ نہ دیں اور نہ فروخت کریں، مسلمان دکان دار و کاروباری سے کوئی شے نہ خریدیں۔آخر میں سرکاری سرپرستی میں یہ تحریک چل پڑی کہ جس بھارتی مسلمان کے پاس شناختی کاغذات نہیں، وہ بھارت سے نکال دئیے جائیں گے۔
مسلمانوں کا احتجاج
دہلی کے گیارہ اضلاع ہیں ۔ان میں سے ضلع شمال مشرقی دہلی میں مسلمان سب سے زیادہ تعداد میں آباد ہیں۔ضلع کی آبادی تقریباً 23 لاکھ ہے۔اس آبادی میں 34 فیصد آبادی مسلم ہے ، گویا ضلع میں سات لاکھ بیاسی ہزار مسلمان بستے ہیں۔
اسی ضلع کے ایک علاقے، جعفر آباد میں مسلمان خواتین نے ہندتوا حکومت کے مسلم دشمن اقدامات کے خلاف دھرنا دے دیا۔اس دھرنے کا ہندتوی لیڈروں نے بہت بُرا منایا۔وہ سمجھتے تھے کہ مسلمان حکومت پہ اپنی مرضی ٹھونسنا چاہتے ہیں۔
چناں چہ انھوں نے 23 فروری 2020ء کو جعفرآباد ہندتوی غنڈے بھیج دئیے تاکہ وہ دھرنا دینے والوں پہ حملہ کر کے انھیں تتربتر کر دیں۔مسلمانوں نے مگر ہندتوی غنڈوں کا بھرپور مقابلہ کیا۔فریقین کے مابین جلد لڑائی چھڑ گئی۔اب عام ہندو نوجوان ہندتویوں کے ساتھ مسلمانوں سے لڑنے لگے۔
یہ فساد جلد پورے ضلع میں پھیل گیا۔ غیرمسلم تعداد میں بہت زیادہ تھے، اس لیے ان کا پلّہ بھاری رہا۔اہم بات یہ ہوئی کہ پولیس ہندتوی غنڈوں کی ساتھی بن گئی۔اس نے ان کی غنڈہ گردی روکنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔یاد رہے، دہلی پولیس وفاقی حکومت کے تابع ہے۔
مسلمانان ِدہلی پہ گذری قیامت
سرکاری سرپرستی پا کر غیرمسلم بلوائی اور شرپسند بے خوف ہو گئے۔وہ مسلح ہو کر مسلمانوں پہ ٹوٹ پڑے۔ساٹھ سے زائد مسلمان انھوں نے شہید کر ڈالے۔ مسلم محلوں میں کئی گھر اور دکانیں جلا دی گئیں۔مساجد بھی نذر آتش ہوئیں اور قرآن پاک کے اوراق گلیوں میں بکھیر کر کتاب مقدس کی تذلیل کی گئی۔
یوں ہندتوی غنڈوں نے تباہی وفساد کا نیا باب رقم کر دیا۔23 سے 26 فروری تک شمال مشرقی دہلی کے مسلمان ارضی قیامت کا شکار رہے۔متاثرہ مسلمانوں میں نثار احمد بھی شامل تھے۔ان کا علاقہ جعفر آباد کے قریب ہی واقع تھا۔وہ بتاتے ہیں:’’24 فروری کی سہہ پہر تین بجے میں اپنے اسٹور میں بیٹھا تھا۔تبھی گلی سے ڈیرھ دو سو افراد کا ایک جلوس گذرنے لگا۔شرکا ’’جے شری رام‘‘اور ’’جاگ ہندو جاگ‘‘کے نعرے لگا رہے تھے۔
تاہم میں انھیں دیکھ کر زیادہ پریشان نہیں ہوا۔وجہ یہ کہ محلے میں ہندو مسلمان باہم شیروشکر تھے۔ہم ایک دوسرے کے گھروں میں جا کر چائے پیتے، ہنستے بولتے اور رات کو تھڑوں پہ بیٹھ کر گپ شپ لگاتے تھے۔مجھے یقین تھا کہ محلے میں ہندو مسلم فساد نہیں ہو سکتا۔کبھی کوئی مسئلہ ہوتا تو ہمارے بزرگ مل جل کر اسے سلجھا لیتے ۔سیاست دانوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔اہل محلہ ان کی شرانگیز اور مفاداتی فطرت سے آگاہ تھے۔‘‘
استقبالیہ جملہ جنگی نعرے میں تبدیل
جلوس میں شامل بیشتر افراد اجنبی تھے مگر نثار صاحب نے کچھ شناسا چہرے بھی دیکھے۔یہ وہ نوجوان تھے جنھیں ہندتوا مذہب نے متاثر کر دیا تھا۔نثار صاحب بچپن سے انھیں جانتے تھے۔تب انھیں ان کے سامنے منہ کھولنے کی جرات نہ ہوتی ۔مگر اب ہندتوا کے شرانگیز پروپیگنڈے نے انھیں نفرت وتعصب کا سفیر بنا دیا تھا۔وہ مسلمانوں کے خلاف زورشور سے نعرے لگا رہے تھے۔
کل کے بے ضرر نوجوانوں نے ایک خیرمقدمی جملے، جے شری رام کو جنگی نعرے میں بدل ڈالا تھا۔انھیں دیکھ کر ہی نثار صاحب کو کچھ خوف محسوس ہوا۔جب جلوس آگے بڑھ گیا تو انھوں نے اپنی بیٹی اور حاملہ بہو کو چھوٹے بیٹے کے ساتھ قریبی رشتے دار کے ہاں بھجوا دیا۔وہ ایک مسلم اکثریتی محلے، مصطفی آباد میں مقیم تھا۔
حملے کا آغاز
گلی مرکزی سڑک تک پہنچ کر ختم ہوتی تھی جس کے پار گندے پانی کا نالہ تھا۔جلوس وہاں رک گیا۔اب کچھ لوگوں نے وہاں اشتعال انگیز تقریریں کیں اور نوجوانوں کے جذبات ابھار دئیے۔انھیں کہا گیا کہ وہ علاقے سے ’’ملیچھوں‘‘کو نیست ونابود کر دیں۔اندھیرا پھیلتے ہی بھڑکے ہوئے غیرمسلم نوجوان چھوٹی ٹکریوں میں تبدیل ہو گئے اور مسلمانوں کی جان ومال پہ حملے کرنے لگے۔جن راہ گذرتے مردوزن پہ مسلمان ہونے کا گمان ہوتا، انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ڈاڑھی والے مسلمان اور برقع پوش مسلم خواتین دہشت گردوں کا خاص نشانہ بنیں۔
نفرت پھیلانے والے سیاسی ومذہبی ہندتوا نظریات نے نوجوانوں کو زہرآلود بنا دیا تھا۔حتی کہ وہ صحیح اور غلط میں فرق کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے۔انھوں نے جوش میں کئی مسلمان مار ڈالے۔اس کے بعد مسلمانوں کے گھر و دکانیں لوٹنے اور انھیں جلانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
آباد وشاد دنیا لٹ گئی
پو پھٹنے سے قبل بلوائی نثار احمد کے گھر حملہ آور ہوئے۔گر وہ میں محلے کے نوجوان بھی شامل تھے۔سب سے پہلے انھوں نے اسٹور پہ دھاوا بولا، اس کا سامان لوٹا اور اسے آگ لگا دی۔پھر وہ اوپر پہنچے۔اس دوران نثار صاحب بیوی اور دو بیٹوں کو ساتھ لیے چھت سے ہندو پڑوسی کے گھر اتر چکے تھے۔
وہاں چھپنا ممکن نہیں تھا، اس لیے وہ گھروں کی چھتیں پھلانگتے پچھلی گلی میں واقع ایک گھر پہنچے اور نیچے اتر کر مصطفی آباد کا رخ کیا۔اس طرح وہ جانیں بچانے میں کامیاب رہے مگر نثار احمد نے بڑی محنت وجدوجہد سے جو مال واسباب جمع کیا تھا، وہ لٹ گیا یا نذر ِآتش ہوا۔ایک ہفتے بعد حالات پُرسکون ہوئے تو نثار صاحب اور ان کے اہل خانہ کو ہوش آیا۔ان کی آباد وشاد دنیا ہی لٹ گئی تھی۔
سارا جما جمایا کاروبار تباہ ہو گیا۔اب نئے سرے سے ابتدا کی خاطر سرمایہ درکار تھا ورنہ انھیں کہیں ملازمت کرنا پڑتی۔اچھی ملازمت کا حصول بھی بطور مسلمان آسان نہ تھا کہ ہندتوی آجیر انھیں ملازمتیں نہیں دیتے تھے۔ اس اثنا میں حکومت نے اعلان کیا کہ حالیہ فساد میں جن لوگوں کے کاروبار و گھر بار تباہ ہوئے ہیں، انھیں دس لاکھ روپے ہرجانہ ملے گا۔مگر اس کے لیے ضروری تھا کہ پولیس میں ایف آئی آر درج کرائی جائے۔
یہ ایف آئی آر نہیں کٹے گی
فساد میں نثار احمد کو پہنچنے والے نقصان کی مالیت بیس لاکھ روپے تھی۔اگر حکومت سے انھیں دس لاکھ روپے مل جاتے تو نصف مالی سہارا تو ہو جاتا ۔اسی لیے وہ رپورٹ درج کرانے علاقے کے پولیس اسٹیشن پہنچ گئے۔انھوں نے24 فروری کی سہ پہر سے 25 فروری کی صبح تک گذرے تمام واقعات صفحات میں تحریر کیے اور متعلقہ پولیس افسر کے حوالے کیے۔اس میں انھوں نے شناسا بلوائیوں کے نام بھی لکھے جن کی تعداد پانچ تھی۔
ان میں علاقہ کونسلر، کنھیا لعل کا نام بھی شامل تھا۔پولیس افسر نے بتایا کہ ایف آئی آر اسی وقت درج ہو گی جب وہ ملزمان کے نام کاٹ دیں گے۔نثار احمد بہت حیران ہوئے۔انھوں نے اصرار کیا کہ رپورٹ میں ملزموں کے نام درج کیے جائیں۔پولیس افسر نے انکار کر دیا۔یہ معاملہ فریقین کے مابین وجہ تنازع بن گیا۔
نثار صاحب کہتے ہیں:’’پولیس نے مجھ پر بہت دباؤ ڈالا کہ میں رپٹ سے ملزمان کے نام حذف کر دوں۔مگر میں انکاری تھا۔اگر میں نام نہ لکھتا تو اس کے معنی تھے کہ آسمان سے خلائی مخلوق اتری ، خوفناک فساد برپا کیا اور اڑن چھو ہو گئی۔میں ہر حال میں نام لکھنا چاہتا تھا۔میرے ضمیر نے گوارا نہ کیا کہ سچائی چھپا لی جائے۔‘‘
عدالتی جنگ
پولیس نے مگر ان کے حسب منشا ایف آئی آر کاٹنے سے انکار کر دیا۔یوں نثار احمد کا ’’سسٹم‘‘سے ٹکراؤ ہو گیا۔قریبی احباب نے مشورہ دیا کہ بغیر ناموں کے رپورٹ درج کرا دو کیونکہ اس عمل سے خطرہ بھی پوشیدہ تھا۔ملزمان ہندتوا کے زیراثر بڑے جذباتی و تند مزاج ہو گئے تھے۔اگر انھیں علم ہوتا کہ نثار احمد نے ان کے خلاف رپٹ درج کرائی ہے، تو وہ ان کی جان کے بھی درپے ہو سکتے تھے۔
عین ممکن تھا کہ شہید کر ڈالتے۔مگر انھوں نے ظلم، لاقانونیت اور آمریت کے سامنے سرنگوں ہونے سے انکار کر دیا۔انھیں جان دینا منظور تھا لیکن ظالم کے آگے سر جھکانے کو تیار نہ تھے۔نثار احمد نے ڈسٹرکٹ کورٹ سے رجوع کیا تاکہ وہ حسب منشا ایف آئی آر درج کرا سکیں۔مجسٹریٹ راکیش کمار رام پوری نے پولیس کو حکم دیا کہ وہ پانچ دن کے اندر اندر نثار احمد کی رپورٹ درج کر لے۔ہندتوا نظریے کی ماتحت پولیس اس حکم کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں پہنچ گئی۔مگر ہائی کورٹ نے بھی ڈسٹرکٹ کورٹ کا فیصلہ بحال رکھا۔اب پولیس کو ان کی رپورٹ ہو بہو درج کرنا پڑی۔
پولیس کی نئی چال
دہلی پولیس بھی مگر چانکیہ جیسے شاطر کی پیروکار تھی۔اس نے نئی چال یہ چلی کہ نثار صاحب کی ایف آئی آر کو ایک دوسری رپورٹ،78/2020 کے ساتھ نتھی کر دیا۔یہی نہیں، ان کا نام تین ایف آئی آرز میں بطور گواہ ڈال دیا گیا۔مقصد یہ تھا کہ نثار احمد گواہیاں دینے عدالتوں میں دھکے کھاتے پھریں اور انھیں انتہائی پریشانی و مصیبت کا سامنا کرنا پڑے۔ایف آئی آر 78/2020 آس محمد نامی مسلمان نے درج کرائی تھی۔اس میں یہ لکھا تھا کہ نامعلوم افراد اس کی دکان سے اشیا چوری کر کے لے گئے۔
یہ بے ضرر رپورٹ تھی۔جبکہ نثار صاحب نے تو بڑی تفصیل سے فروری 20ء کے فساد کا نقشہ بیان کیا تھا جس میں قتل وغارت گری عروج پر تھی۔بلوائیوں کے نام بھی لکھے تھے۔
پولیس نے دونوں رپورٹوں کو اس لیے نتھی کیا کہ ان کی ایف آئی آر کی شدت واہمیت کم ہو سکے۔دہلی پولیس وہ رپورٹ درج نہیں کرتی تھی جس میں سنگھ پریوار (انتہا پسند ہندو تنظیموں یا ہندتوا)سے متعلق دہشت گردوں کے نام لکھے ہوں۔اگر عدالتیں انھیں درج کرنے پر مجبور کرتیں تو پولیس مختلف رپورٹیں اکھٹا کر دیتی تاکہ معمولی اور سنگین جرائم غلط ملط کر دئیے جائیں۔
بہرحال نثار صاحب کا مقدمہ سیشن کورٹ میں چلنے لگا۔انھوں نے اپنی ایف آئی آر میں لکھوایا تھا کہ وہ شام کو اپنے گھر کی چھت پہ کھڑے تھے۔انھوں نے دیکھا کہ نالے پہ کھڑے بلوائیوں نے تین برقع پوش مسلم خواتین کو پکڑ لیا جو وہاں سے گذر رہی تھیں۔بلوائیوں نے اپنے ہتھیاروں سے خواتین کو شہید کیا اور ان کی لاشیں قریب بہتے نالے میں پھینک دیں۔
پولیس کا استدلال تھا کہ یہ واقعہ ظہور پذیر نہیں ہوا اور نثار احمد کے ذہن کی اختراع ہے۔سیشن جج نے اس پہ لکھا:’’نثار احمد کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی آنکھوں سے تین برقع پوش عورتوں کو قتل ہوتے دیکھا۔جبکہ پولیس کا دعوی ہے کہ یہ واقعہ وقوع پذیر نہیں ہوا۔سوال یہ ہے کہ منظم تفتیش کیے بغیر پولیس اس نتیجے پہ کیسے پہنچی؟‘‘ سیشن جج نے پھر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے لکھا:
’’نثار احمد کی ایف آئی آر بقیہ رپورٹوں سے الگ کی جائے۔تبھی پولیس اس میں درج واقعات کی بخوبی چھان بین کر سکے گی۔‘‘دہلی پولیس نے لیکن نثار صاحب کی ایف آئی آر علیحدہ سے درج کرنے سے انکار کر دیا۔ نثار احمد نے دوبارہ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔تب اعلی عدلیہ کے حکم پر پولیس کو نثار صاحب کی رپورٹ الگ سے لکھنا پڑی۔ یوں وہ دہلی پولیس کے خلاف جاری قانونی جنگ جیت گئے۔
بھارت کا بوگس عدالتی نظام
اس لڑائی سے فراغت ملی تو عدالتوں کے چکر لگنے لگے۔نثار احمد اپنا کاروبار ازسرنو سیٹ کرنے میں مصروف تھے۔کاروبار کو ان کا وقت و توجہ درکار تھی۔کوئی اور ہوتا تو وہ مقدمات و عدالتوں پہ دو حرف بھیجتا اور اپنے کام نمٹانے میں محو ہو جاتا۔مگر نثار صاحب تو بے گناہ مسلمانوں کے قاتلوں کو سزا دلوانا چاہتے ہیں۔اس لیے جب بھی عدالت بلوائے، اپنے کام چھوڑ کر گواہی دینے جاتے ہیں۔
بھارت میں عدلیہ کا نظام بہت سست رفتار ہے…عموماً مقدمے کا فیصلہ ہوتے کئی عشرے بیت جاتے ہیں۔مقدمے پہ بہت سا پیسا اور وقت ضائع ہوتا ہے۔پھر سنگین مقدمات میں شامل گواہوں پر تو موت کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔یہ خطرہ منڈلاتا رہتا ہے کہ کوئی سرپھرا ملزم گواہ کو قتل کرا دے گا۔اسی لیے بھارت ہی نہیں پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں بھی کوئی حادثہ یا واقعہ پیش آئے تو اس جگہ سے عموماً لوگ بھاگ جاتے ہیں۔کوئی بھی گواہ بن کر مصیبت وپریشانی مول نہیں لینا چاہتا۔
تمام تر مشکلات، رکاوٹوں اور مسائل کے باوجود نثار احمد حوصلہ نہیں ہارے اور بھارتی عدالتی نظام کی پیچیدگیوں اور آلکسی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔دوران کیس انھیں حکومت کی جانب سے ڈھائی لاکھ روپے بطور ہرجانہ مل گئے مگر یہ رقم بہت کم تھی۔
کاروبار نئے سرے سے کرنے کے لیے انھیں بیوی کا زیور فروخت کرنا پڑا۔تب کہیں جا کر زندگی کی گاڑی پھر رواں دواں ہوئی۔وہ بھاگیرتھی وہاڑ کا مکان بھی اونے پونے داموں بیچ چکے۔وہ اب ہندتویوں کے محلے میں رہنا نہیں چاہتے جہاں جان ومال جانے کا خوف سر پہ سوار رہتا ہے۔انھوں نے مصطفی آباد میں چھوٹا سا گھر خرید لیا اور وہیں گذران ہو رہی ہے۔
تمھاری خیر نہیں
جب مقدمے چلنے لگے تو بلوائیوں کو علم ہوا، نثار احمد نے ان کے نام ایف آئی آر میں لکھوائے ہیں۔اب وہ ٹیلی فون پر انھیں دہمکیاں دینے لگے۔یا پھر کسی کے ہاتھ نثار صاحب کو پیغام دیا جاتا؛’’میرے خلاف گواہی دی تو تمھاری خیر نہیں، تم اور تمھارا خاندان صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔‘‘قتل کی دہمکیوں سے انھوں نے عدالتوں کو بھی آگاہ کیا۔آخر ایک جج نے ان کے گھر پولیس کا پہرا لگوا دیا۔
آج بھی نثار احمد عدالت جائیں تو سپاہی ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔غرض انھوں نے ایف آئی آر درج کرا کر اپنی جان بڑی مصیبت میں پھنسا لی۔تمام تر مشکلات کے باوجود وہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ان کا کہنا ہے:’’اگر ملزموں کو سزا نہ ملی تو وہ زیادہ بے غیرت ہو جائیں گے۔ تب ممکن ہے، راہ چلتے مسلمانوں کو دق کرنے لگیں۔ ہماری بہو بیٹیوں کو تنگ کریں۔لہٰذا انھیں سزا ملنی بہت ضروری ہے تاکہ وہ اچّھے اور بُرے میں تمیز کرنے کے قابل ہو سکیں۔مسلمان پہ ہاتھ اٹھانے سے قبل یہ ضرور سوچیں کہ انھیں حملے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔‘‘
جان ہتھیلی پر
بھارت میں آج ہندتوا کے پیروکاروں سے ٹکر لینا معمولی بات نہیں ، اس کے لیے نہایت دلیر ہونا لازم ہے۔نثار احمد تو پھر انھیں سزا دلوانا چاہتے ہیں…ایک اور غیرمعمولی عمل جو دور جدید کے بھارت میں انجام پانا بہت مشکل ہو چکاکیونکہ مودی سرکار عدلیہ کو بھی اپنی مٹھی میں لے اور ہندتوا کے جال میں پھانس چکی۔شمالی وجنوبی بھارت کی عدالتیں تو اب ٹھوس ثبوت ہونے کے باوجود مسلمانوں کے قاتلوں کو رہا کر رہی ہیں۔ایسے ہمت شکن ماحول میں عدل وانصاف پانے کی توقع رکھنا عبث ہے مگر نثار صاحب اپنا جہاد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بے شک بھارت دنیا کی پانچ بڑی معاشی طاقتوں میں ایک بن چکا مگر یہ بھی سچ ہے کہ اخلاقی ومعاشرتی طور پہ اس کا حکومتی نظام یا سسٹم کھوکھلا اور کرپٹ ہے۔اس لیے آج بھی وہاں طاقتور کے خلاف کوئی رپورٹ درج نہیں کراتا اور گواہ بننا خطرے کی بات سمجھتا ہے…خصوصاً جو شخص قاتلوں، ڈاکوؤں اور ہندتوا کے پیروکاروں کے خلاف مقدمات میں گواہ بن جائے تو گویا وہ جان ہتھیلی پر لیے پھرتا ہے۔وہ گھر کے اندر ہو یا باہر، کسی بھی سمت سے آتی ایک دو اندھی گولیاں اسے اگلے جہاں پہنچا سکتی ہیں۔
انصاف کا جنازہ دھوم سے نکلے
قابل ذکر بات یہ کہ گواہ کی ساری دلیری وتگ ودو ضائع جا سکتی ہے۔وجہ یہی کہ بھارتی پولیس اور عدلیہ، دونوں میں کرپٹ لوگوں کی کثرت ہے۔لہذا گواہ اگر ملزمان کے خلاف گواہی دے بھی ڈالے تو یہ اس امر کی ضمانت نہیں کہ انھیں سزا ہو جائے گی۔
ملزمان کے وکیل، پولیس اور جج کوئی نہ کوئی قانونی نکتہ ڈھونڈ کر ملزمان کو رہا کرا لیتے ہیں۔جس مملکت میں قانون کے رکھوالے اور عدل وانصاف فراہم کرنے والے ہی ملزمان کے سرپرست بن جائیں تو وہاں انصاف کا جنازہ نکلنا ہی ہے۔بھارت آج اسی قسم کی ریاست بن چکا جہاں خصوصاً مسلمانوں کو کہیں بھی انصاف میّسر نہیں۔بھارتی مسلمان آج غربت، جہالت اور بیماری سے لاچار ہو کر بڑی تباہ حال زندگی بسر کر رہے ہیں۔
یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ عالمی طاقتیں خصوصاً امریکا، برطانیہ، جرمنی، جاپان ، فرانس اور روس مسلمانوں پہ مودی سرکار کے مظالم سے بخوبی آگاہ ہیں۔
مگر وہ اس کے خلاف بیان تو داغ دیتی ہیں، کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھاتیں۔اسی لیے مودی جنتا نے شیر ہو کر مسلسل مسلمانوں کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ مالی و معاشی مفادات کے سبب اب تو بعض عرب ممالک بھی بھارتی و کشمیر مسلمانوں کی حالت ِزار سے بے پروا ہو کے مودی حکومت کے دوست وساتھی بن چکے۔
بھارت کی شریانوں میں زہر
نثار احمد کے سبھی مقدمات ابھی سیشن کورٹ میں چل رہے ہیں۔کچھ پتا نہیں کہ ان کا فیصلہ کب ہو گا۔اب تک تین جج تبدیل ہو چکے۔مقدمے چلنے کی رفتار بہت سست ہے، چیونٹی کی رفتار کے مانند!جبکہ نثار صاحب عدالتی کٹہرے میں کھڑے ہو کر چیخ چیخ کے دنیا والوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ بھارت کس قسم کا ملک بن چکا۔کہتے ہیں:
’’بھارت کی شریانوں میں زہر پھیل چکا۔مجھے پتا بھی نہیں چلا اور ہمارے پڑوس میں ایسی نئی نسل پروان چڑھ گئی جو ہم(مسلمانوں کو )تباہ وبرباد کر دینا چاہتی ہے۔وہ ہمیں قتل کرتے ہوئے نہیں گھبراتی اور نہ اس کا ضمیر ملامت کرتا ہے۔میں جن (ہندوؤں)کا واقف کار اور بیلی تھا، اب وہ بھی بدل چکے۔‘‘
عید پہ ہتھیار جمع
دوست احباب روزانہ نثار صاحب کو وٹس اپ پر مختلف ویڈیو اور میسج بھجواتے ہیں۔بیشتر وڈیوز میں ہندتوی نوجوان کسی نہ کسی بات پر مسلمان کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں۔ایک وڈیو میں دکھایا گیا کہ بھاری مشینری کی مدد سے مسلمانوں کے گھر، دکانیں اور دفاتر ’’غیر قانونی ‘‘قرار دے کر گرائے جا رہے ہیں۔
کہیں ’’لو جہاد‘‘کے نام پر مسلم نوجوان کو پیٹا جا رہا ہے۔یہ وڈیوز آشکارا کرتی ہیں کہ دور جدید کے بھارت میں ہندتویوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔پچھلے ماہ اسے ایک دوست نے خوفناک وڈیو بھجوائی۔اس میں ایک بدمعاش ہندتوی دیگر لوگوں کو تلقین کرتا ہے:’’ہندو بھائیو اور بہنو!عید آنے والی ہے۔
جو بھی ہتھیار دستیاب ہو، جمع کر لو۔تیزاب بھی تیار رکھو۔اس دن ہم اپنا دفاع کریں گے۔‘‘نثار صاحب کہتے ہیں:’’نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ ہندتوی غنڈے جان بوجھ کر کوئی مسئلہ کھڑا کر دیتے ہیں تاکہ مسلمانوں سے لڑائی کر کے اپنے مفادات پورے کر سکیں۔‘‘
عوام مذید بے وقوف نہیں بن سکتے
نثار صاحب بھارتی سیاست دانوں کے لالچ وہوس، خودغرضی، بے حسی اور شقاوت سے بہت نالاں ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ سنگھ پریوار کے سیاسی لیڈر اقتدار ، طاقت، دولت، شہرت اور عزت پانے کی خاطر مذہب کو استعمال کر رہے ہیں۔ انھیں عوام کی فلاح وبہبود سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ صرف اپنے ذاتی مفادات عزیز ہیں کہ کسی بھی طرح وہ پورے ہو جائیں۔ان کا تجزیہ سو فیصد درست ہے۔
سچ یہ ہے کہ پچھلے تین عشروں میں بھارت کی معاشی ترقی سے چند کروڑ بھارتی ہی مستفید ہوئے ہیں۔ یا پھر متوسط طبقے کے حالات کچھ بہتر ہوگئے۔ بقیہ ’’ساٹھ سے ستر کروڑ‘‘بھارتی شہری اب بھی غربت، جہالت اور بیماری کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
مودی سرکار عوام کی حالت زار بدلنے کے لیے کم ہی ٹھوس اقدامات کرتی ہے…بس بے بس مسلمانوں پہ حملے اور ان کے خلاف مذہبی نعرے بلند کر کے بھوکوں ننگوں کو لوری دے دی جاتی ہے کہ اب سو جاؤ۔ ہندتوی لیڈروں کو بہرحال کرناٹک الیکشن میں ہار سے احساس ہوا ہو گا کہ وہ سدا بھارتی عوام کو مذہب کی آڑ لے کر بے وقوف نہیں بنا سکتے :جلد یا بدیر بھارتی عوام صرف انہی کو ووٹ دیں گے جو عوامی مسائل حل کر سکے گا۔پارلیمانی الیکشن 24ء اسی بنیاد پر لڑا جائے گا۔
The post کرپٹ بھارتی ’’سسٹم ‘‘سے نبردآزما دلیر مسلمان appeared first on ایکسپریس اردو.