تقسیم سے قبل 2تا 3 لاکھ کے شہر کی آبادی 1947 کے بعد اس سرعت اور تیزی سے بڑھی جو غالباً عالمی ریکارڈ ہے۔
تقسیم کے بعد اگست 1947 میں ناگپور (مدھیہ پردیش، بھارت)، جسے بابائے اردو مولوی عبدالحق نے جاگ پور کا نام دیا تھا، سے ہجرت کرکے میں اپنے والدین کے ساتھ مشرقی پاکستان چلاگیا۔ وہاں ڈھاکا میں بانیٔ پاکستان قائداعظم کو پلٹن میدان میں مارچ 1948 میں تقریر کرتے سنا۔
میں تقریباً 10 سال کا تھا اور پھر 8 اگست 1948 کو میرا خاندان کراچی آگیا اور کراچی میں ستمبر 1948 میں تاریخ ساز عہد کے خالق کی میت کو موجودہ مزارقائد کی چند گز زمین میں دفن ہوتے دیکھا۔ ہمارا خاندان اگست 1948 میں پاکستان چوک کے ایک بڑے مکان میں مقیم ہوا، جس میں تقریباً 4 مزید خاندان رہائش پذیر ہوئے۔ اس طرح ڈیڑھ کمرہ فی خاندان سکونت اختیار کی۔
پاکستان چوک کا علاقہ روزانہ دھویا جاتا تھا اور یہ عمل موجودہ صدر کے علاقے تک ہوتا تھا۔ یہ علاقہ ابتدا سے کراچی کا مرکزی علاقہ کہلاتا تھا۔ صدر سے بولٹن مارکیٹ تک ٹرام چلتی تھی، جس کے پاس بنتے تھے۔ دن میں کئی سفر صدر تا بولٹن مارکیٹ کرسکتے تھے۔ ٹرام پٹا صدر ایمپریس مارکیٹ سے بندر روڈ بولٹن مارکیٹ تک تھا۔ آمدورفت بہت آسان تھی۔ بڑا ہی سکون اور محبت بھرا منظر ہوتا تھا۔ عیدگاہ، جہاں پر قائداعظم محمد علی جناح نے 1947 اور 1948 میں عیدین کی نماز پڑھی، اسی علاقے میں ہے۔ ان دنوں نغمہ ’’بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی‘‘ زبان زد عام تھا۔
ہندوؤں نے کراچی سے کوچ کیا تو بہت سے مسلمانوں نے متروکہ املاک پر قانونی وغیرقانونی قبضہ کرلیا۔ پاکستان چوک پر پرنس گورنمنٹ اسکول قائم ہوا۔ یہ اسکول غالباً 1947 کے اختتام یا 1948 کے ابتدا میں قائم کیا گیا تھا۔ کوتوال بلڈنگ اسکول اور جیکب لائن گورنمنٹ اسکول 1949 میں قائم ہوگئے تھے۔ میں نے گورنمنٹ پرنس اور گورنمنٹ جیکب لائن میں تعلیم حاصل کی۔ ان اسکولوں میں علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل اساتذہ تھے۔
اس طرح کراچی کے ابتدائی طلباء کو تحریک پاکستان کی عظیم درس گاہ علی گڑھ کے اساتذہ ملے تو تقسیم کے بعد کی اولین نسل علمی اعتبار سے توانا و مستحکم بنیاد پر تیار ہوئی۔ ابتدائی سالوں میں ہندو مسلم فساد بھی ہوا، لیکن اس پر جلد قابو پالیا گیا۔ کراچی میں پر تحریک پاکستان کی اولین قیادت موجود تھی۔
سی پی (حالیہ مدھیہ پردیش) کے بڑے بڑے قائدین، نواب صدیق علی خان، ابراہیم خان فنا، عبدالستار صدیقی (عرف ستار سیٹھ) عبدالسلام فاروقی (جو بعد میں سپریم کورٹ کے جج بھی رہے) تاج الدین مالک الائز بکس کارپوریشن، محبوب خان (آل انڈیا ہاکی فیڈریشن کے کونسل ممبر اور پاکستان ہاکی فیڈریشن کے رکن 1949 تا 1951) اور ہاکی کے کئی مشہور کھلاڑی ہندوستان کے دیگر علاقوں سے ہجرت کرکے کراچی میں آباد ہوئے، کراچی میں تقسیم کے بعد ہاکی نے بہت فروغ پایا اور بلندقامت کھلاڑیوں لطیف الرحمن، حبیب الرحمن، حبیب کڈی، عبدالوحید خان، انوار احمد خاں، جمشید ، طیب، اصغر خاں، قمر علی خاں نے یہاں اس کھیل میں نام کمایا جن میں سے اکثر نے پاکستان کی نمائندگی کی۔ کراچی کی معروف ہاکی ٹیموں کے نام CPجیمخانہ، پاک انڈیپینڈنٹ، کراچی کسٹم، کراچی پولیس، کراچی وانڈرز تھے۔ مجھے فخر ہے کہ میں 1956تا 1962 پاکستان کے معروف ہاکی کھلاڑیوں کے ساتھ پریکٹس کرتا تھا۔
اس دور میں کراچی میں مایہ نازادیبوں اورشعرا کرام نے بھی قدم رکھا اور مجھے بہت قریب سے انہیں دیکھنے کا موقع ملا۔ ان میں ذوالفقار علی بخاری، مسٹر دہلوی، راز اکبرآبادی، مولانا ضیاء القادری (مشہورنعت گوشاعر)، مشہور نثر نگار ملا واحدی، مبارک مشتاق (حبیب جالب کے بڑے بھائی)، حضرت بہزاد لکھنوی، اور ماہرالقادری سرفہرست ہیں۔ اس دور میں مجھے حضرت بہزاد لکھنوی کی زیرصدارت ہونے والے ایک مشاعرے میں غزل سنانے کا موقع ملا۔ یہ مشاعرہ جٹ لائن میں غالباً 1957 یا 1958 میں ہوا تھا۔
میں اسکول میں دوران تعلیم اسکاؤٹ تھا۔ اس وقت گورنر جنرل غلام محمد مرحوم تھے، اس طرح ابتدائے عمر میں گورنر ہاؤس کی یاترا کی۔ وہ بڑا یادگار لمحہ تھا۔ اسکاؤٹس نے سلامی دی تھی۔ یہ گورنر جنرل ہاؤس قائد اعظم کی سرکاری رہائش گاہ بھی رہا تھا۔
میں نے Y.M.CAگراؤنڈ،KCA گراؤنڈ اور پولو گراؤنڈ میں کھیلوں کے مقابلے دیکھے۔ KPI گراؤنڈ میں کرکٹر حنیف محمد کو اپنے دور کا عالمی ریکارڈ 499 رنز بناتے دیکھا۔ اسی کراچی کا ایک ایسا سپوت، جو بہت زیادہ مشہور تو نہیں لیکن ہاکی کا اچھا کھلاڑی تھا اور بعد میں ادب میں مظہر بھوپالی بن کر ایک مجموعہ ’’قنقس‘‘ کے نام سے سامنے لایا، وہ ملٹری ورکشاپ جٹ لائن اور اے بی سینیا لائن کے 502 ورکشاپ کے گراؤنڈ میں ہاکی کھیلتا تھا۔ جیکب لائن اسکول سے مشہور ایتھیلیٹ محمد طالب حسین نمودار ہوا، جو بعد میں بہترین ایتھیلیٹ کوچ بھی ہوا اور پاکستان کا کلر ہولڈر بھی رہا۔
پاکستان چوک سے منتقل ہوکر ہمارا خاندان بزرٹالائن اور گورا قبرستان کے قریب، جہاں اب عائشہ باوانی اسکول اور کالج ہے، منتقل ہوگیا۔ وہاں چوبیس فٹ لمبا اور 16فٹ چوڑے سائز کے 3بڑے کمرے ملے۔ والد صاحب ملٹری اکاؤنٹس میں تھے، ان سمیت 2دیگر سرکاری ملازمین کو وہ کمرے الاٹ ہوئے۔ وہاں ہم لوگ ایک سال رہائش پذیر رہے۔ پھر مشہور ’’المونیم کوارٹرز‘‘ جہاں آج ایف ٹی سی بلڈنگ ہے، میں منتقل ہوگئے۔ جب المونیم کوارٹرز میں رہائش پذیر سرکاری ملازمین وہاں سے مہاجرت اختیار کرکے بی ہائنڈ جیکب لائن کے سرکاری کوارٹرز منتقل ہوئے۔ محلے داروں کی ہجرت کا سلسلہ نہیں رکا۔ وہاں سے جٹ لائن کے قریب واقع گورنمنٹ ملازمین کی رہائش کے لیے مختص بیرکس میں منتقل ہوگئے۔
یہ علاقہ کسی وقت مثالی اور بہت صاف ستھرا ہوتا تھا۔ اسی جٹ لائن کی جامع مسجد میں شیخ الحدیث مولانا مصطفیٰ ازہری امامت کرتے تھے جو بعد میں سعود آباد، ملیر کے علاقے سے جمعیت علمائے پاکستان کے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ یہیں پر اپنے دور کے معروف اور مقبول سیاست داں ظہور الحسن بھوپالی مرحوم سے مراسم ہوئے۔ سابق صوبائی وزیر اور رکن قومی اسمبلی دوست محمد فیضی کا لڑکپن بھی دیکھا اور پھر اسی دور مشہور سماجی و متحرک سیاسی شخصیت چوہدری غلام محمد مرحوم کو بھی قریب سے دیکھا۔ میرے والد مجھے ’’سیلانی‘‘ کہتے تھے، کیوں کہ میں ادبی، سماجی، مذہبی و سیاسی سرگرمیوں اور مختلف کھیلوں میں بھرپور حصہ لیتا تھا۔
عروس البلاد کراچی کا 1948 کے بعد سے ہنوز کوئی ایسا سیاست دان نہ ہوگا جس سے میں نے ملاقات نہ کی ہو۔ میں نے ایک ایک مرتبہ عبدالغفار خاں، مولانا مودودی، ڈاکٹر خان، عبدالولی خان، غوث بخش بزنجو، عطا اﷲ مینگل، شوکت حیات خاں، پروفیسر غلام اعظم، پروفیسر عبدالغفور، محمود اعظم فاروقی اور عظیم طارق کو بہت قریب سے دیکھا۔ کمال اظفر اور معین الدین حیدر جب صوبہ سندھ کے گورنر تھے، تو گورنر ہاؤس میں مشاعروں میں بھی شرکت کی۔ جٹ لائن میں دونوں شاعر بھائیوں مشتاق مبارک اور حبیب جالب کو لڑکپن میں دیکھا اور ان عظیم شعرا کے والد سے بھی کئی مرتبہ 1951 تا 1954 ملاقات ہوئی۔ حبیب جالب کے ایک بھائی حمید میرے ہم جماعت اور سعید پرویز مجھ سے چھوٹا تھا۔ غرض یہ کہ جٹ لائن کھیلوں و ادبی گہماگہمی کا گہوارہ رہا ہے۔
میں جیکب لائن گورنمنٹ اسکول میں پڑھتا تھا تو وہاں طلبہ کی سیاسی تربیت کے لیے پارلیمنٹ کی بنائی گئی۔ اس طرح شروع میں کراچی میں درس گاہیں، ادبی وسیاسی تربیت گاہیں بھی تھیں، جو مستقبل کے معماروں کو سنوارنے کا کام بھی انجام دیتی تھیں۔ قائد اعظم کا مزار بننے سے قبل اس زمین پر ہزارہا جھگیاں تھیں، جن میں بھارت کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے مہاجرین وطن کی خاطر سورج کی تمازت، ہوا کے جھکڑ اور دھول میں زندگی کا کٹھن دور گزار رہے تھے۔
اس دور میں سرحد پار سے آنے والوں کو پرانے سندھیوں نے سایہ فراہم کیا۔ پیرالٰہی بخش کالونی سندھ کے بزرگ و مدبر سیاست داں پیر الٰہی بخش نے آباد کی۔ انصار مہاجر کا ایک ایسا گل دستہ بنا جس نے قرون اولیٰ کے دور کو تازہ کردیا۔ عبدالعزیز حامد مدنی اور دیگر معروف شعراء وادیب اس علاقے کے ماتھے کا جھومر تھے۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق اور میجر آفتاب حسن کی کاوشوں سے اردو کالج رنچھوڑ لائن میں قائم کیا گیا، جو آج اسی پرانی جگہ پر اردو یونیورسٹی کا ایک حصہ ہے۔ 1956 تا 1962 مجھے اردو کالج میں طالب علمی کا دور گزارنے پر فخر ہے۔ اسی کراچی میں سرسید ثانی اے ایم قریشی بانی اسلامیہ کالج کی کاوشوں سے ہزاروں مہاجر نوجوان تعلیم حاصل کرکے اپنے اپنے کیریر کی بلندیوں پر پہنچے اور سال ہا سال ملک کے دیگر علاقوں سے نوجوان اس عظیم درس گاہ میں آئے اور علم کی روشنی پاکستان کے کونے کونے میں پھیلائی۔
پھر بابائے کراچی عبدالستار افغانی، ایک جوتے کی دکان کا سیلز مین میئر کراچی بنا، فاروق ستار بھی میئر بنا اور ایک بوڑھا فرد بھی ناظم کراچی بنا۔ اس نے 88 کالج اپنے دور میں کراچی میں قائم کیے یا انھیں نئی زندگی دی، جس کا نام نعمت اﷲ خان ایڈووکیٹ ہے، جس نے ابتدائی زندگی کراچی میں جھونپڑی میں گزاری، پھر مصطفی کمال ایک نوجوان بھی ناظم کراچی ہوا اور نعمت اﷲ کے کام کو خوب سے خوب تر بنایا۔ عبدالستار افغانی کے دور میں بلدیہ کراچی کی سرکاری زبان اردو قرار دی گئی۔
کراچی نے گدڑی کے لال پیدا کیے۔ کراچی ہی میں ایک عظیم الشان سلسلہ ’’ساکنان شہر قائد‘‘ کے عنوان سے مشاعروں کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا، جس کی شروعات میں اظہرعباس ہاشمی، مسعود تقوی مرحوم، پیر زادہ قاسم اور کچھ کچھ حصہ میرا ہے۔ یہ دنیا کا انوکھا ادارہ ہے جو تقریباً 150 تا 200 افراد پر مشتمل لیکن نہ کوئی صدر نہ سیکریٹری ہر شخص اپنی جگہ ایک نگینہ ہے۔کراچی میں تقریباً چھوٹی بڑی پانچ ہزار مساجد ہیں، گرجا گھر بھی ہیں، مندر بھی ہیں، ایک یہودی معبد بھی اور پارسیوں کی عبادت گاہ بھی ہے۔ اس اس شہر میں 2کروڑ سے زاید لوگ آباد ہیں اور UNO کی رپورٹ کے مطابق 1993 میں کراچی ہی میں 25 لاکھ افراد ایسے ہیں جن کو صرف ایک وقت کا کھانا ملتا ہے۔ جہاں ارب پتی افراد بھی بستے ہیں وہاں دن میں ایک لقمہ کو بھی ترسنے والے لاکھوں ہیں۔
اس شہر کو یہ طرۂ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں 21، 22، 23، 24 جنوری 1951 بمطابق 12، 13، 14، 15 ربیع الثانی 1370 ہجری کو علامہ سید سلیمان ندوی کی صدارت میں پاکستان کا دستوری خاکہ ( 22نکات پر مشتمل) اسلامی روح کے مطابق مرتب ہوا، اس نمائندہ اجتماع میں:
سید سلیمان ندوی، محمد ظفر احمد انصاری، مولانا عبدالحامد بدایونی
مفتی محمد صاحبداد، پیر صاحب محمد ہاشم مجددی، مولانا شمس الحق افغانی، مولانا داؤد غزنوی، قاضی عبدالصمد سربازی، مولانا محمد اسماعیل، مولانا محمد صادق، مولانا احمد علی لاہوری، مفتی کفایت حسین (مجتہد)، مفتی جعفر حسین (مجتہد)، مولانا حبیب اﷲ، مولانا راغب احسن، مولانا حبیب الرحمن، مولانا ابو جعفر محمد صالح، مولانا شمس الحق فرید پوری، مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا محمد بدر عالم، مولانا محمد یوسف بنوری،
مفتی محمد شفیع، مولانا محمد ادریس کاندھیلوی، حاجی خادمالاسلام محمد امین خلیفہ حاجی ترنگ زئی، مولانا خیر محمد جالندھری، مولانا مفتی محمد حسن امرتسری، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی (امیر جماعت اسلامی پاکستان)، پروفیسر عبدالخالق، مولانا اظہر علی، پیر صاحب محمد امین الحسنات مانکی شریف، مولانا محمد علی جالندھری، مولانا ابراہیم سیالکوٹی اور مولانا دین محمد نے شرکت کی۔
بولٹن مارکیٹ سے پاکستان چوک اور وہاں سے صدر تک کا علاقہ، جہاں سینٹ جوزف اسکول اور کالج ہیں، نہایت صاف و شفاف ہوتا تھا اور غالباً 1953 تک عمدہ ترین صفائی کا مرقع تھا۔ بولٹن مارکیٹ کے پیچھے کی جانب کھارادر، میٹھا در، اور چتلی قبر کے علاقے بہت گنجان اور ہجرت کرکے آنے والے لوگ کثیر تعداد میں آباد ہوئے، بعض عمارتیں بہت خستہ لیکن پرانے پتھروں کی تھیں اور اب بھی کچھ قدیم طرز کی بلڈنگیں ہیں۔ ان کا سیوریج نظام بہت ہی بد تر تھا۔ تمام سکونت پذیر افراد کو دائیں بائیں، آگے پیچھے فضلے کی نہر سے بھی گزرنا پڑتا تھا۔ کہاں ایک طرف پانی کے فوارے سے غسل اور دوسری طرف اندرون محلہ تنگ گلیوں میں نسل آدم کی کارستانیوں سے سامنا رہتا تھا۔
ہمارے خالو مرحوم عبدالحفیظ جدی پشتی بیڑی کا کاروبار کرتے تھے۔ وہ 47 کے بعد یہاں آباد ہوئے اور اپنا ذریعہ معاش ’’بیڑی کا کاروبار‘‘ کرنے لگے۔ اسی کے قریب سندھ مدرسۃ الاسلام تھا۔ سرسیدِ سندھ حسن علی آفندی کی قائم کردہ اس درس گاہ میں ہر قومیت کے طلبہ جوق در جوق داخلے لیتے۔ قدیم محلوں کھارادر، میٹھا در اور چتلی قبر کے علاقوں کی بعض راہیں ایک دوسرے سے اس طرح ایک جان دو قالب ہوجاتیں کہ ایک آدمی کا بھی راستے سے نکلنا محال ہوتا۔ واہ رے قدیم کراچی تو نے آنے والی نسل کے ہر فرد کو اپنی آغوش میں لیا۔
کراچی جسے کولاچی بھی کہا گیا اپنی آغوش میں کتنے ہی رنگ ونسل اور مذہب کے لوگوں کو لیے ہوئے ہے۔
اے شہر کراچی! تیری فراوانی کو سلام، تیری زخموں پر مرہم رکھنے کی اداؤں کو سلام۔ اے کراچی! تو نے چہار سمت سے چلنے والی آندھیوں میں بھی زندگی کو زندہ رہنے کا سلیقہ عطا کیا۔