Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

سُنہرے لوگ ؛ ڈاکٹر عنایت اللہ

$
0
0

مجھے نہیں معلوم کہ اسلام آباد کے رہنے والے اپنے شہر کے بارے میں کس طرح سوچتے ہیں، لیکن ملک کے دوسرے حصوں سے اس شہر کو دیکھیں تو اس کے بارے میں بڑی مختلف باتیں سننے میں آتی ہیں۔

ایک زمانے میں اس کو گریڈوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کو اسلام آباد کی مٹی سے پٹ سن کی خوش بو آتی تھی۔ اخباروں میں چھپنے والے اشتہاروں پر جائیں تویہ پراپرٹی ڈیلروں کا شہر نظر آتا ہے۔ ٹی وی چینلوں پر دیکھیں تو اسلام آباد چوکیوں، ناکوں، بنکروں، لوہے کی باڑھوں اور ریڈزون اور نہ جانے اور کن کن چیزوں کا شہر بن چکا ہے۔ اب اس شہر کو پچاس سال بھی ہو رہے ہیں، مگر جب اس کو صرف پانچ سال ہوئے تھے تو 1965ء کے صدارتی انتخاب کے تناظر میں فیض صاحب نے جو اُس وقت کراچی میں رہتے تھے، اپنی مشہور نظم کہی تھی ؎

یہاں سے شہر کو دیکھو تو حلقہ در حلقہ
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سَمت فصیل
ہر ایک راہ گذر گردشِ اسیراں ہے
نہ سنگ میل، نہ منزل، نہ مخلصی کی سبیل
یہاں سے شہر کو دیکھو تو ساری خلقت میں
نہ کوئی صاحب تمکیں، نہ کوئی والیٔ ہوش
ہر ایک مرد جواں مجرمِ رسن بہ گلو
ہر اک حسینۂ رعنا، کنیزِ حلقہ بگوش
جو سائے دور چراغوں کے گرد لرزاں ہیں
نہ جانے محفل غم ہے کہ بزمِ جام و سبو
جو رنگ ہر درو دیوار پر پریشاں ہیں
یہاں سے کچھ نہیں کھلتا یہ پھول ہیں کہ لہو

اسلام آباد کی یہ سب تعبیریں اپنی جگہ، مگر خواتین و حضرات، میرے لیے اسلام آباد ایک بالکل مختلف تجربے کا نام ہے۔ پچھلے دس پندرہ برسوں میں مجھے بار بار اور بعض اوقات تو ہفتے میں دو، دو مرتبہ یہاں آنے کا موقع ملا ہے۔ اس عرصے میں مجھے خوش قسمتی سے بعض بڑے اچھے ٹھکانے مل گئے۔ میں نے یہاں اپنے لیے کئی ایسے سایہ دار درخت ڈھونڈ لیے تھے، جن کے سائے میں بڑی آسودگی ملتی تھی۔ یہ چند بزرگ تھے جن کی صحبت میں علم کی قندیلیں روشن ہوتی تھیں اور عمل کی راہیں کھلتی تھیں۔

ان ملاقاتوں میں زندگی کے نئے معنی کُھلے، ذہن پر نئے افق روشن ہوئے، کچھ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا اور زندگی بامعنی محسوس ہونے لگی۔ میں جب اسلام آباد آتا میرے دن تو کبھی HEC اور کبھی وزارت تعلیم میں، کبھی NIPS کے بورڈ آف گورنرز اور کبھی NIHCR اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی کمیٹیوں میں گزرتے البتہ ہر سہ پہر یا شام میں کسی نہ کسی مہربان بزرگ کے دولت کدے پر سلام کرنے حاضر ہوجاتا۔ ڈاکٹر اقبال احمد سے تعلق بہت کم عرصے رہا اور وہ بھی زیادہ تر جب کبھی ان کا کراچی آنا ہوا تب۔ لیکن جب تک وہ زندہ رہے، میرے لیے وہی اسلام آباد تھے۔

ڈاکٹر رئیس احمد خان ایک بڑے اسکالر تھے۔ عالمی امور کی گتھیاں سلجھاتے انہیں جب بھی دیکھا ان کے علم کا رعب کئی کئی دن قائم رہا۔ ڈاکٹر آفتاب احمد کے پاس جب بھی حاضری دی اپنے آپ کو بڑا ثروت مند محسوس کیا۔ میں اکثر سوچتا کہ ڈاکٹر صاحب سے سنی ہوئی باتیں ریکارڈ ہوجاتیں تو کتنا اچھا ہوتا۔ وہ میرا جی اور ن م راشد پر، حلقہ ٔ ارباب ذوق اور فیض احمد فیض پر، نیویارک اور لندن پر گھنٹوں باتیں کرتے۔ گُھٹنوں کی تکلیف ہر ملاقات میں پچھلی ملاقات سے زیادہ نظر آتی مگر ان کی خرد نوازی اور شفقت میں کبھی کمی نہیں آئی۔ آخری خط جو انہوں نے بھیجا وہ دو روز بعد کراچی پہنچا۔ دفتر سے اٹھتے وقت میں نے ان کا خط کھولا اور سوچا کہ کل اس کا جواب دوں گا۔گلے روز ڈان میں ان کے انتقال کی خبر چھپی تھی۔

اڈاکٹر زوّارحسین زیدی سے 1975ء میں اسکول آف اورینٹل اینڈ ایفریکن اسٹڈیز میں پہلی ملاقات ہوئی۔ تب سے ان کے انتقال تک بارہا انہوں نے اپنی دو بیماریوں کا ذکر کیا۔ ایک انجائینا اور دوسری ’جناح۔‘ قائداعظم کے ذکر پر ان کی آبدیدہ آنکھیں کبھی بھلائی نہیں جاسکتیں۔ تاریخی کاغذات کو آئندہ کے محققین کے لئے محفوظ کرنے کا اُن کو جنون تھا۔ وہ آخر وقت تک اسی سرورِ شوق میں سر شار رہے۔ اور پھر خواجہ مسعود صاحب __ ایک منحنی سا وجود جس میں عزم کا کوہ گراں اور علم کے نہ جانے کتنے ذخیرے پوشیدہ تھے۔ آخری ملاقات میں مَیں نے دادا امیرحیدر کی سوانح Chains to Lose پیش کی جو ہم نے کراچی میں پاکستان اسٹڈی سینٹر سے شائع کی تھی۔ خواجہ صاحب کی خوشی دیدنی تھی، نعرہ زن ہوئے، ہم اس کی تقریب یہاں کریں گے، ہم دادا کے گاؤں جلوس کی شکل میں جائیں گے، چلو جی چلو بس طے ہوگیا۔

خواجہ صاحب آئن اسٹائن سے لے کر غالب تک، برٹرنیڈرسل سے لے کر پنڈی سازش کیس تک، ہر موضوع پر بولتے اور جب بھی بولتے، سننے والے کو اپنے علم کی گہرائی سے ورطۂ حیرت میں ڈالے رکھتے۔ یہ سب لوگ نہیں رہے اور اب آخری جامِ الوداعی ڈاکٹر عنایت اﷲ نے اٹھایا ہے۔2000ء کے نومبر میں کراچی میں دو بڑی تقریبات ہوئیں۔ ایک تو بہت بڑی تھی، یہ سرکاری تقریب دراصل دفاعی سازوسامان، اسلحے اور گولہ بارود کی نمائش تھی جس کا مقصد دوسرے ملکوں کے اسلحے کے خریداروں کو پاکستان کی دفاعی مصنوعات کی طرف متوجہ اور مائل کرنا تھا۔ اس نمائش کا نام Arms for Peace رکھا گیا تھا۔

صرف کسی کا حسن کرشمہ ساز ہی نہیں، بلکہ ریاستیں بھی جنوں کا نام خرد اور خرد کا نام جنوں رکھ سکتی ہیں۔ اتفاق سے انہی دِنوں کراچی میں ملک کے نہتے ادیبوں، دانشوروں اور سول سوسائٹی سے وابستہ لوگوں کی ایک کانفرنس Pen for Peace کے نام سے ہوئی۔ اس کانفرنس کو ہمارے بڑے جیّد دانشوروں نے رونق بخشی۔ پروفیسر حمزہ علوی، ضمیر نیازی، سوبھوگیان چندانی، علی امام، حمید اختر، پروفیسر خواجہ مسعود، ڈاکٹر مبارک علی، ایم بی نقوی، غلام کبریا وغیرہ نے اس کے مختلف اجلاسوں میں شرکت کی اور مقالے پڑھے۔ ڈاکٹر عنایت اﷲ کا مقالہ امن کی ضرورت پر ہی روشنی نہیں ڈالتا تھا، بلکہ اس میں قیام امن کے لیے بڑی قابلِ عمل تجاویز بھی دی گئی تھیں۔

بس اسی کانفرنس سے ان کے ساتھ تعلق قائم ہوا جس میں ان کی بے کنار شفقت کے نتیجے میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ لمحے، منٹوں اور دنوں میں، اور دن مہنیوں اور برسوں میں ڈھلتے رہے اور اب پیچھے مُڑ کر دیکھو تو دس سال کی نیازمندیِ اس طرف اور اسی مدّت کی نوازشات اُس طرف دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس دوران ڈاکٹر صاحب کو بڑے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ان سے گھنٹوں باتیں ہوئیں۔ ایف؍سیون۔۲ میں ان کے گھر کی اسٹڈی میں اور ان کے ٹیرس پر ان کے افکار سننے کا موقع ملتا تو اندازہ ہوتا کہ یہ خیالات صرف کتابوں سے اخذ کردہ نہیں بلکہ تجربات اور مشاہدات کی آنچ پر پختہ ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے بڑی مشقت کی زندگی گزاری تھی۔ حافظ آباد کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے 3جون 1931ء کو شروع ہونے والا ان کا سفر زیست بڑے ناہموار راستوں سے ہوکر گزرا۔ اپنی تقریباً 80 سال کی زندگی میں انہیں مرتبے اور مناصب بھی حاصل ہوئے، خوش حالی بھی ان کی زندگی میں آئی مگر انہوں نے اپنی اصل بنیادوں کو کبھی نہیں بھلایا۔ وہ تقریباً ہر سال اپنے گاؤں جاتے تھے۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے بچپن اور آج کے آپ کے گاؤں میںبڑا فرق ہوچکا ہوگا۔ کہنے لگے کہ بس اُس وقت کا ایک درخت رہ گیا ہے، اُس کی حفاظت کے لیے ایک دو لوگوں کی ذمہ داری لگائی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو ویسے بھی درختوں اور پودوں سے بڑا لگاؤ تھا۔ وہ ان کی آبیاری بڑے انہماک کے ساتھ کرتے تھے۔ یہی نہیں جانوروں سے بھی ان کا بڑا ہمدردی کا رویہّ تھا۔

ایک دن ان کے ٹیرس پر بیٹھے ہوئے جب میں کافی دیر ایک بِھڑ کو اڑانے اور اپنے سے دُور رکھنے میں الجھا رہا تو ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ آپ اس کو نظرانداز کر دیں، یہ بھی آپ کو نظر انداز کر دے گی۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا کہ جانوروں کو تنگ نہ کیا جائے تو وہ بھی آپ کو تنگ نہیں کرتے۔ سوچا جاسکتا ہے کہ جو شخص پودوں، درختوں اور جانوروں کے لیے اتنا دلِ درد مند رکھتا تھا اُس کے نظام فکرواحساس میں انسانوں کا کیا مقام ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب جو پاکستان میں امن کی تحریک کے سر کردہ راہ نما اور مفکّر تھے، زمین پر نسلِ انسانی کی بقا کو لاحق خطرات سے عہدہ برا ہونے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ وہ جنگ اور تشدد سے نفرت کرتے تھے اور ان کا کسی بھی فلسفے، کسی بھی آئیڈیالوجی، کسی بھی ریاستی نظریے یا مابعدالطبیعاتی مسلک کے درست یا نادرست ہونے کا معیار یہ تھا کہ وہ فلسفہ، نظریہ یا مسلک انسانی نسل کی بقا کے حوالے سے کیا رویہّ رکھتا ہے۔

بعض اوقات ڈاکٹر صاحب دنیا میں اسلحے کی دوڑ میں اضافے سے مایوس بھی ہوجاتے تھے اور ان کو انسان کا مستقبل مخدوش نظر آنے لگتا تھا۔ ایک روز کہنے لگے کہ انسانی تہذیب نے کیا ترقی کی ہے؟ بیسویں صدی میں جتنے انسان ہلاک ہوئے ہیں، اتنے تو اس سے پہلے کی سب صدیوں میں ملا کر بھی نہیں مرے تھے۔

میں نے گذارش کی کہ ڈاکٹر صاحب! لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ بیسویں صدی میں امن کی تحریک جتنی آگے گئی ہے، پہلے کبھی اس مقام تک نہیں پہنچی تھی۔ یہ میں نے کوئی اپنی طرف سے نہیں کہا تھا بلکہ ماضی میں وہ خود بھی کچھ اسی انداز کے تجزیے کرتے رہے تھے۔ کہنے لگے کہ ہاں یہ تو ہے اور اب ہمیں اس تحریک کو، خاص طور سے اپنی سرزمین اور اپنے ملک میں اس کو آگے بڑھانا چاہیے۔ دنیا کے حالات سے ڈاکٹر صاحب میں کبھی کبھار مایوسی پیدا ہوتی تھی مگر پھر عقل سلیم ناامیدی کے تأثر پر غالب آجاتی تھی۔

امن کی جدوجہد کے علاوہ ڈاکٹر عنایت اﷲ کا دوسرا بڑا Passion پاکستان میں سماجی علوم کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا اور ان علوم کو معاشرے میں ان کا صحیح مقام دلانا تھا۔ Council of Social Sciences اسی غرض سے بنائی گئی تھی۔ COSS کے لیے انہوں نے پیرانہ سالی کے باوجود دن رات کام کیا۔ اس کی رکنیت سازی کے لیے سیکڑوں خطوط لکھے۔ فنڈز کے حصول کے لیے در در کی ٹھوکریں کھائیں۔ اس ساری محنت کا نتیجہ بھی نکلا اور COSS کی ایک شکل بن گئی، اس کا دفتر قائم ہوگیا، نیوز لیٹر بھی ’بلیٹن‘ کے نام سے باقاعدگی کے ساتھ آنے لگا، کئی کتابیں شائع ہوئیں اور ایک عرصے کے بعد پاکستان میں سماجی علوم، تعلیم کے قومی دھارے میں موضوع گفتگو بننے لگے۔

ڈاکٹر عنایت اﷲ کی پیشہ وارانہ زندگی بھی قابلِ ذکر خدمات اور قابلِ لحاظ کامرانیوں سے عبارت تھی۔ 1956ء میں پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات اور امریکا کی مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی سے سوشیالوجی اور بعدازاں امریکا ہی کی انڈیانایونیورسٹی سے سیاسیات میں پی۔ ایچ۔ ڈی کرنے کے بعد انہوں نے تحقیق و تدریس کے شعبوں میں اپنی ایک نمایاں پہچان قائم کروائی۔ وہ پندرہ سال تک اقوام متحدہ کے تحقیقی اداروں میں کام کرتے رہے اور اِس حیثیت میں انہوں نے نیویارک، جنیوا، کوالالمپور میں قیام کیا۔ وہ پشاور میں پاکستان اکیڈمی فار رورل ڈیولپمنٹ سے بھی وابستہ رہے۔ اسلام آباد میں قائداعظم یونیورسٹی کے قیام پر وہ اِس کے شعبۂ بین الاقوامی تعلقات کے بانی چیئرمین مقرر ہوئے۔

1983ء میں اقوام متحدہ سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ واپس پاکستان آگئے اور یہاں انہوں نے علمی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے خود کو وقف کیے رکھا۔ وہ سول سوسائٹی کے بہت فعال رکن تھے۔ انہوں نے جو مختلف ادارے بنائے یا جن کے بنانے میں اُن کا قابل ذکر حصہ تھا، اُن میں سوسائٹی فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ، اسلام آباد کلچرل فورم اور پاکستان انڈیا پیپلز فورم فارپیس اینڈ ڈیموکریسی شامل تھے۔ 1988ء میں انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی کی فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے ساتھ مل کر سماجی علوم کے ماہرین کی ایک اہم قومی کانفرنس منعقد کی۔ 1990ء میں انہوں نے اسلام آباد سوشل سائنس فورم قائم کیا، جس میں اُن کے ساتھ دوسرے سماجی سائنس داں بھی پیش پیش تھے۔

ڈاکٹر عنایت اﷲ کی تصانیف کی فہرست بھی خاصی طویل ہے۔ انہوں نے نہ صرف ریاست اور جمہوریت، بین الاقوامی امور اور طرزِ حکم رانی کے موضوعات پر بنیادی نوعیت کا تحقیقی کام کیا، بل کہ آٹھ کتابیں بھی تحریر کیں اور ان کے کم ازکم 30 مقالے قومی اور بین الاقوامی جرائد میں شائع ہوئے۔ انہوں نے بہت سی کتابیں مرتب بھی کیں۔ ڈاکٹر صاحب نے 1990ء کو انتخابات کے بعد ایک اہم دستاویز اسلامی جمہوری اتحاد کی انتخابی ’کام یابی‘ کے بارے میں تحریر کی جو روزنامہ ’دی مسلم‘ میں’I.J.I Electroral ‘Victory’ Dissected’ کے نام سے چھ قسطوں میں شائع ہوئی۔ بعدازاں یہ اُن کی کتاب State and Democracy in Pakistan میں شائع ہوئی۔ اُن کی اِس رپورٹ کو اُس زمانے کی حزب اختلاف نے بڑے پیمانے پر مشتہر کیا۔ ڈاکٹر صاحب کے دیگر علمی کاموں میں بے شمار اخباری مضامین بھی شامل ہیں جو پاکستان کے گونا گوں سیاسی مسائل کے معروضی تجزیوں پر مشتمل ہوتے تھے۔

شاید بہت زیادہ لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ ڈاکٹر عنایت اﷲ شاعر بھی بہت اچھے تھے۔ ان کے شعری مجموعے ’یقیں ریزہ ریزہ‘ کو کراچی سے شائع کرنے کا اعزاز مجھے حاصل ہوا۔ اس کے چھپنے کے بعد جب میں اس کی چند کاپیاں لے کر ان کے گھر پہنچا تو یہ ان کی بیماری کے عروج کا زمانہ تھا۔ وہ سہارے سے چلتے تھے۔ اپنا مجموعہ دیکھ کر بے حد خوش ہوئے اور دل چسپ بات یہ ہے کہ اگلے روز اپنے مجموعے کی ایک کاپی Gift Wrap Paper میں لپیٹ کر خود مجھے تحفے میں دی۔ ڈاکٹر عنایت اﷲ کو بہت جان لینے کے باوجود سچی بات یہ ہے کہ اگر میں نے آخری زمانے میں ان کا شعری مجموعہ نہ پڑھا ہوتا تو ان سے میری واقفیت بالکل نا مکمل رہتی۔ یہ مجموعہ ان کی داخلی دنیا کے اضطراب، ان کی کلفتوں اور المیوں پر سے پردہ اٹھاتا ہے۔ ان کی شاعری ایک دلدوز زندگی کی کتھا ہے۔

ڈاکٹر عنایت اﷲ نے اپنی ذاتی زندگی کی پریشانیوں اور اپنے داخلی المیوں کے باوجود ایک بھرپور معاشرتی زندگی گزاری اُن کی زندگی بجائے خود ایک قابل تقلید مثال تھی۔ اُن کی زندگی کے معمولات ہی بہت کچھ سکھا دیتے تھے۔ اُن کا سونا جاگنا، کھانا پینا، سب میں ایک ترتیب تھی، ایک ڈسپلن تھا۔ بہت سی باتیں وہ دوستانہ انداز میں گوش گزار کرتے تھے۔ کچھ باتیں ایسی تھیں کہ جن میں وہ اپنی خواہش کا رخ تو واضح کردیتے تھے مگر دوسرے ہیں گے۔

کو اس بات کو ماننے پر مجبور نہیں کرتے تھے ۔ نصیحت کرنا ان کے نزدیک دوسرے کو اپنے سے کمتر اور خود ایک اونچے مقام پر فائز تصور کیے بغیر ممکن نہیں تھا۔ وہ بہت صاف ستھرے انسان ہونے کے باوجود اپنے رویوں میں کسی قسم کے گھمنڈ یا احساس تکبّر کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ صوفیوں کی طرح وہ خود کو خاک نشینوں کے ساتھ رکھ کر اُن کے غموں کا مداوا ڈھونڈتے تھے۔ سو اُن کا طریق امیری نہیں غریبی تھا۔ انہوں نے اجتماعی بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ وہ اپنے ہم عصروں کے لیے ایک قابل فخر ساتھی تھے، جب کہ اپنے سے چھوٹوں کے لیے وہ ایک مثال تھے۔ وہ ایک استاد تھے اور ایک راہ نما بھی۔ ذاتی طور پر میں ہمیشہ ان کا ممنون رہوں گا کہ انہوں نے مجھے اپنی شفقت کے لائق سمجھا۔ مجھے ان سے بہت کچھ حاصل ہوا، ان سے بہت کچھ سیکھا ؎

عاجزی سیکھی، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے، دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے، رخِ زرد کے معنی سیکھے
ڈاکٹر عنایت اﷲ کی یادیں زندہ رہیں گی۔ ان کا کام بھی ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اُن کی کمی ضرور محسوس ہوگی مگر ہم اُن کی زندگی کو Celebrate کریں گے، اور کرتے رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(پروفیسر ڈاکٹر سید جعفر احمد، پاکستان اسٹڈی سینٹر، جامعہ کراچی، کے ڈائریکٹر ہیں۔ یہ مضمون قائداعظم یونیورسٹی (اسلام آباد) میں ڈاکٹر عنایت اﷲ مرحوم کی یاد میں منعقد ہونے والے ریفرنس میں پڑھا گیا۔ مضمون کی سرخی میں درج مصرع ڈاکٹر صاحب مرحوم ہی کی ایک نظم سے لیا گیا ہے جو انہوں نے مشہور اسکالر ڈاکٹر افضل اقبال کے سانحۂ ارتحال پر لکھی تھی)


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>