14 اگست 1947 ء تک پاکستان بنگلہ دیش اور بھارت تینوں ممالک برصغیر کہلاتے تھے۔ اس سے بھی پہلے سری لنکا ، اور دوسری جانب افغانستان تک ہندوستان کی سلطنت تھی۔
ہند وستان میں اگرچہ ہندو اکثریت تھی مگر تقریباً ایک ہزار سال تک بر صغیر پر مسلمانوں کی حکومت رہی۔ یہاں پہلا مسلمان حکمران 17 سالہ محمد بن قا سم تھا، جس نے جنوبی ہندوستان کے علاقوں سندھ، پنجاب اور بلو چستان کے علاقے لسبیلہ پر 712 ء میں حکو مت قائم کی تھی مگر یہ حکومت صرف تین سال تک قائم رہی۔ محمد بن قاسم نے یہاں ہند وراجہ داہر کو شکست دی جس کی یہاں ہندو حکومت تھی اور یہاں جو دوسری اکثریت تھی وہ بدھ مت کے ماننے والے تھے جو راجہ داہر کے ظلم و ستم کے شکار تھے۔
اس دور میں جب یہاں سے محمد بن قاسم کے جانے کے کچھ عرصے بعد دوبارہ ہندو حکومت قائم ہو گئی تھی تو سنٹرل ایشیا ، ایران اور افغانستان میں اسلام آچکا تھا اور ایران میں آتش پرست اور افغانستان اور ایران سے ملحقہ علاقے جوآج کے پاکستانی علاقوں ہیں اِن میں ہندو اور بدھ آبادی بعد کے آنے والے دنوں میں جب غزنوی اور غوری دور کا آغاز ہوا تو ہندو اور بدھ مت مذاہب کے ماننے والے مسلمان ہو نے لگے اور بہت سے مرکزی ہند وستان اور دوسرے علاقوں میں منتقل ہو نے لگے۔
ہند وستان کے قدیم معاشرے کا یہ المیہ رہا کہ یہاں ہندو مت جو ابتدا میں معاشرے میں اشتراک کار کے لحاظ سے چار طبقات ، برہمن ، کشتری ، ویش اور شودر میں بانٹا گیا تھا وہ ذات پات کے ظالمانہ نظام میں تبدیل ہوگیا۔
اِ س وقت بھارت کی کل آبادی 1 ارب40 کروڑ سے زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش کی کل آبادی تقریباً 17 کروڑ ہے اور اس آبادی میں مسلم آبادی کا تناسب 91.04% ہے ہندو آبادی کا تناسب 7.95% بدھ مت آبادی کا تناسب 0.61% جب کہ عیسائی آبادی 0.30% ہے۔
پاکستان کی کل آبادی 23 کروڑ کے قریب ہے جس میں مسلم آبادی کی تناسب 96.47% ہے ہندو آبادی کا تناسب 2.14% اور عیسائی آبادی کا تناسب 1.27 فیصد ہے یوں اِس وقت برصغیر یا جنوبی ایشیا یعنی پاکستان ،بنگلہ دیش اور بھارت کی مجموعی آبادی ایک ارب 80 کروڑ سے زیادہ ہے۔
اس میں کل مسلم آبادی 55 کروڑ سے زیادہ ہے یوں مسلم آبادی کا تناسب اس وقت جنوبی ایشیا یعنی پا کستان ، بھارت اور بنگلہ دیش میں 30% ہے اس وقت دنیا کی کل آبادی ساڑھے سات ارب سے کچھ زیادہ ہے 2020 ء کے اعداد وشمار کے مطابق اس آبادی میں مذہبی اعتبار سے عیسائی آبادی 2.38 ارب ہے دوسرے نمبرپر مسلم آبادی1.91 ارب ہے تیسرے نمبر پر ہندو ہیں جن کی مجموعی آبادی 1.16 ارب ہے اور چوتھے نمبر پر بدھ مت کے ماننے والے ہیں۔
جن کی کل آبادی 50 کروڑ70 لاکھ ہے یہاں جنوبی ایشیا اور عالمی سطح پر آبادی کے اعداد و شمار پیش کر نے کی ایک وجہ یہ ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ ہندو ستان میں ہندو مت کے مقابلے میں بدھ مت اور جین مت جیسے مذاہب ترقی نہ کر سکے بلکہ یہاں سے اِن مذاہب کا تقریباً خاتمہ کردیا گیا مگر دینِ اسلام نے یہاں گہرے اثرات مرتب کئے ہیں اور گذشتہ ایک ہزار برس کے دوران جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی نہ صرف تعداد میں اضافہ ہوا بلکہ برصغیر کے معاشرے پر گہرے تہذیبی ، سماجی ، ثقافتی ، ادبی ، سیاسی اثرات مرتب کئے ہیں۔
1857 ء کی جنگ آزادی جو اُ س وقت غدر کہلا یا یہ ایک ایسا موڑ تھا جہاں مسلمانوں کی سلطنت کا باقاعدہ خاتمہ ہو گیا ، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ہم یہاں مسلمانوں کی سلطنت کے آغاز کا جائزہ لیں۔ اگرچہ برصغیر میں پہلے محمد بن قاسم آیا مگر اُس کے اقتدار کا دورانیہ صرف تین سال رہا ہے یعنی یہاں اسلام براہ راست نہیں آیا بلکہ ہندو ستان میں آنے سے پہلے اسلام سنٹرل ایشیا ، افغانستان اور ایران اور اس کے بعد یہاں سے مسلمان فاتحین ہندوستان میں داخل ہوئے۔
جس کی ترتیب یوں ہے کہ 12 ویں صدی عیسوی میں غزنوی اور غوری ہندوستان آئے دہلی کی مملوک سلطنت 1206 ء سے 1290 ء اس کے بعد خلجی سلطنت 1290 ء سے 1320 ء تک رہی پھر تغلق خاندان کا اقتدار1321 ء سے 1414 تک رہا سادات دہلی کا قتدار 1414ء سے1451ء تک رہا اس کے بعد لودھی سلطنت 1451ء سے 1526ء تک رہی جب امیر تیمور کی نسل سے تعلق رکھنے والے ظہیر الدین بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیا د ڈالی جو اکبراعظم کے عہد 1556 ء سے 1605ء تک مالی ، معاشی ، اقتصادی ، سیاسی اور دفاعی لحاظ سے بہت مضبوط رہی مگر نور الدین جہانگیر کے عہد 1605 ء تا 1627 ء سے کمزور ہونے لگی اکبر اعظم اگرچہ اسلامی عقائد کے اعتبار سے بہتر نہیں تھا مگر اُس نے ہندو ستان کو اُس وقت کی دولت مند اور خوشحال سلطنت بنا دیا تھا۔
اکبر کو بعض مورخین کنجوس شہنشاہ بھی کہتے ہیں۔ جانگیر ایک عیاش اور شاہ خرچ بادشاہ تھا جس نے اپنے باپ کے جمع شدہ خزانہ کو نہ صرف دل کھول کر خرچ کیا بلکہ بیماری شہزادی کے انگریز ڈاکٹر سے کامیاب علاج کروانے پر ساحل پر کئی میل طویل علاقے انعام مانگنے پر دے دیا۔ اسی طرح شاہجہان جس کاعہد حکومت 1627ء تا 1657 ء تھا اُس نے بے پناہ دولت عمارتوں کی تعمیر پر خرچ کی۔
صرف تاج محل پر اُس زمانے میں ایک کروڑ روپے خرچ آیا۔ واضح رہے کہ اُس زمانے کے ایک روپے کی قیمت آج کے ایک لاکھ ر وپے کے برابر تھی۔ یہ محل شاہجہان نے اپنی پسندیدہ ملکہ ممتاز محل کی وفات پر اُس کی یاد میں بنوایا تھا جس سے اُس کے چودہ بچے پیدا ہو ئے تھے۔
چودویں بچے کی پیدائش پر ملکہ کا انتقال ہو گیا شاجہان ہی کے عہد میں شہزادوں کے درمیان جنگِ تخت نشی ہو ئی اورنگ زیب نے فتح پائی بھائیوں کو قتل کیا اور باپ کو قید کرلیا اورنگ زیب نے دکن اور دیگر مہمات ،،جنگوں میں بے تحاشہ روپہ خرچ کیا اس کا عہد 1658 ء سے1707 ء تک رہا لیکن اِ س کی وفات کے بعد ہند وستان کی مغلیہ سلطنت کمزور ہو کر بکھر نے لگی اور آہستہ آہستہ آزاد اور خود مختار ریاستیں بھی وجود میں آنے لگیں اورنگ زیب کے بعد بہادر شاہ اوّل ،جہاندرشاہ ،فرخ سیر، رفع الدین پھر محمد شاہ رنگیلے کا پہلا دور1719-20 ء رہا پھر ابر اہیم شاہ کے بعد محمد شاہ رنگیلے کا دوسرادور 1720 ء سے1748 ء تک رہا۔ اسی دور ان ایران کے بادشاہ نادر شاہ افشار نے1838 ء میں ہندوستان پر حملہ کر کے ہندوستان کو برباد کر دیا۔
وہ یہاں سے شاہجہان کا بنا یا ہوا قیمتی تحت طاوس اور دنیا کا مشہور ہیرا کوہ نور سمیت کئی ارب ڈالر کا خزانہ لوٹ کر لے گیا اور ساتھ ہی افغانستان کابل سے ہندوستان کے مغلیہ خاندان کی حکومت ختم ہو گئی اور افغانستان ایران کا حصہ بن گیا۔ 1747 ء میں نادر شاہ کو قتل کردیا گیا تو احمد شاہ ابدالی نے افغانستان میں اپنی حکومت بنا لی احمد شاہ ابدالی نے 1748 ء سے 1761 ء تک ہندوستان پر پانچ حملے کئے اس دوارن دہلی کے تخت پر عالمگیر دوئم ، شاہجہان سوئم شاہ عالم دوئم مغل بادشاہ رہے اگرچہ احمد شاہ ابدالی نے ہندو ستان میں مرہٹوں کا زور توڑ دیا لیکن اس دوران ہندوستان میں مغلیہ حکومت متواتر کمزور ہو تی گئی۔
احمد شاہ ابدالی کے حملوں کے دوران ہی 1757 ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے لارڈ کلائیو نے بنگال میں نواب سراج الدولہ کو اُس کے غدار وزیر میر جعفر کی مدد سے شکست دے کر شہید کر دیا اور بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکو مت قائم ہو گئی۔
شاہ عالم دوئم کا عہد 1759 ء سے 1806 ء تک رہا اس دوران میسور کے حکمران ٹیپو سلطان کے خلاف انگر یر مرہٹوں اور حیدر آباد کے نظام کی مدد سے جنگ کر تے رہے اور آخر کار 1799 ء میں غدار وزیر میر صادق کی مدد سے شیر میسور ٹیپو سلطان کو شہید کر کے انگریز نے یہاں بھی قبضہ کرلیا۔
اس دوران ٹیپو سلطان نے فرانس کے سپہ سالار نپولین بو نا پارٹ سے رابطہ کیا تھا لیکن مصر فتح کر نے کے بعد نپولین کو یہاں برطانوی فوج اور خصوصاً بر ٹش نیوی نے نپولین کی فوجوں کو بہت نقصان پہنچا یا اسی دوران انقلاب فرانس کے مراحل خاصے بحرانی ہو چکے تھے تونپو لین یہاں سے نکلے اور فرانس آکر بادشاہ بن گئے۔
اسی دوران زار روس یعنی روس کے بادشاہ پال اوّل نے بھی نپولین سے رابطہ کیا اور یہ منصوبہ اُس کو بھیجا گیا کہ اگر نپولین برٹش انڈیا پر حملہ کرئے تو روس سنٹرل ایشیا سے ہو تا ہوا بلو چستان کے گرم سمندر کے ساحل کو حاصل کر لے گا۔ شاہ عالم دوئم کی وفات 1806 ء میں ہوئی۔
اِن کے بعد دہلی میں اکبر شاہ دوئم باشاہ بنے جو 1806 ء سے 1837 ء تک تخت نشین رہے۔ ان کے زمانے میں ایسٹ اینڈیا کمپنی کا قبضہ ہندوستان کے وسیع علاقوں تک ہو چکا تھا۔ 1837 ء میں اکبر شاہ دوئم کا انتقال ہوا تو اُن کے دوسرے بیٹے بہادر شاہ ظفر کو اقتدار نصیب ہوا۔
بہادر شاہ طفر کا پورا نام مرزا ابو ظفر سراج الدین محمد تھا۔ 24 اکتوبر 1775 ء کو دہلی میںپیدا ہو ئے اور1862 ء میں رنگون برما ’جس کا آج نام مینمار ہے‘ یہاں جلا وطنی میں وفات پائی۔ اُن کی پانچ بیویا ں 22 بیٹے اور 16 بیٹیاں تھیں۔ بہادر شاہ ٖظفر تیمور نسل سے تعلق رکھنے والے اور ہند وستان میں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کے بعد مغلیہ سلطنت کے20 ویں اور آخری بادشاہ تھے اور آج تاریخی اعتبار سے وہ بھارت ، بنگلہ دیش اور پاکستان کے آخری بادشاہ کہلاتے ہیں۔
اِن کے دورِ حکومت میں وہ برائے نام بادشاہ تھے اور اُن کی حکومت دہلی کے لال قلعہ تک محدود تھی۔ مغل بادشاہ سے کہیں زیادہ آمدنی اور دولت اُس وقت ہندوستان کی تقریباً540 ریاستوں کے نوابیں اور راجاؤں کی تھی۔ یہی راجے مہاراجے اور نوابین کبھی کبھار نذرانے کے طور پر بہادر شاہ ظفر کو رقوم بھجواتے تھے۔
انگریز اب ہند وستان میں مرکزی اور سب سے بڑی طاقت تھے۔ بہادر شاہ ظفر کے دور اقتدار میں انگریزوں نے شمال یعنی افغانستان سے پھر کسی ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے ہند وستان کے حکمرانوں کے مقابلے میں دفاعی جنگ کی بجائے جارہانہ حکمت عملی اپنائی۔ ہند وستان کے بادشاہ اکثر حملہ آوروں کو روکنے کے لیے ہندوستان افغانستان کی سرحدوں سے کئی سو میل دور پانی پت کے میدان میں دفاعی جنگ کر تے تھے۔
انگر یزوں نے 1839 ء میں پہلی اینگلو افغان وار میں راجہ رنجیت سنگھ کی مدد اورمعاونت کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا اور یہاں قبضہ کر لیا۔ اگر چہ چار سال بعد افغانیوں نے1842 ء کے موسم سرما میں انگریزوں کی ساڑھے بارہ ہزار ہندوستانی فوج کوہلاک کر کے افغانستان کو آزادکرا لیا، مگر 1839 ء میں ہی انگریز نے بلوچستان میں خان آف قلات میر محراب خان کو شہید کر کے یہاں قبضے کی کوششیں شروع کردیں۔ 1839ء ہی میں رنجیت سنگھ کا انتقال ہو گیا تو اس کے جا نشین اقتدار حاصل کر نے کی سازشوں میں مبتلا ہو گئے۔
اسی دوران اُنہوں نے انگریزوں سے جنگ کی اور1846 ء میں انگریزوں نے پنجاب ، خیبر پختونخوا کشمیر کے علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ اب آج کے پاکستان یعنی سندھ ، پنجاب ، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور کشمیر میں انگریز داخل ہو چکا تھا۔ اُس وقت جب دنیا میں یورپی نوآبادیاتی نظام مستحکم ہورہا تھا برطانیہ کے مقابل دو قوتیں تھیں جن میں فرانس کا نیپولین اگر چہ برطانیہ کو یورپ میں چیلنج کر چکا تھا تو دوسری طرف روس بھی تھا۔
اب اس تناظر میں دیکھا جائے تو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی کیا حیثیت تھی اس کا ندازہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر ہندوستان کی مغلیہ سلطنت کی ان تمام کمزوریوں میں صرف بہادر شاہ ظفر کا قصور نہیں تھا۔ مغلوں میں سلطنت کی وراثت کا نظام یہ تھا کہ بادشاہ کی وفات کے بعد سلطنت اُس کے بیٹوں میں تقسیم کرد ی جاتی تھی۔ تیمور کی سلطنت اُس کی موت کے بعد اُس کے تین بیٹوں میں تقسیم ہو گئی اور چند نسلوں کے بعد ظہیرالدین بابرکے باپ عمر شیخ مرزا کے پاس چند مربع میل کی فرغانہ کی ریاست رہ گئی تھی۔
بابر نے اس روایت کو بدل دیا اور ہمایوں کو اپنا جانشین بنایا تو بھائیوں کے درمیان دشمنی ہو ئی۔ جہانگیر نے اپنے بیٹے تک کو نہیں بخشا۔ پھر ارونگ زیب اور بھائیوں میں باقاعدہ جنگِ تخت نشنی ہو ئی اور اورنگ زیب عالمگیر نے خود اپنی اولاد کے لیے سلطنت کی وراثت میں تقسیم کو واضح انداز میں چھو ڑ دیا، مگر اس کے باوجود محمد شاہ رنگیلا کے دور تک ایران سنٹرل ایشیا تک ہندوستان کی مغلیہ سلطنت کا رعب و دبدبہ قائم تھا۔
1738 ء سے پہلے تک نادر شاہ نے ’جس کی حکومت سنٹرل ایشیا ، اور ایران کے علاوہ آج کی سلطنت عمان تک تھی اور اُس وقت تک افغانستان یعنی کابل ہندوستان کی مغلیہ سلطنت کا حصہ تھا‘ قبضہ کیا تو اُسے یہ ڈر تھا کہ دہلی سے مغلیہ حکومت فوجیں کابل کے دفاع کے لیے بھیجے گی مگر جب محمد شاہ رنگیلے کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں آیا تو نادر شاہ سمجھ گیا کہ مغلیہ سلطنت کمزور ہو چکی ہے۔
پھر اُس نے ہندوستان پر حملہ کردیا اور اُس کی فوجیں جیسے جیسے آگے بڑھ رہی تھیں اور محمد شاہ رنگیلے کو جا کر کہا جاتا کہ دشمن کی فوجیں آگے بڑھ رہی ہیں تو رنگیلے شاہ کا جواب ہو تا کہ (ہنوز دہلی دور است) ۔یہ صورتحال تسلسل کے ساتھ چلتی اور آگے بڑھتی رہی۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ تقریباً تمام مسلمان ممالک خصوصاً برصغیر یورپی مغربی ممالک کے مقابلے علم تحقیق اور سائنس ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بہت پیچھے رہ گئے تھے۔
پھر خصوصاً جب اسپین میںمسلمانوں کی صدیوں پر محیط سلطنت کو زوال آیا اور آخر 1492 ء میں یہاں نہ صرف مسلمانوں کی صدیوں پر محیط سلطنت کا خاتمہ ہو گیا بلکہ یہاں کے عیسائی بادشاہ فرننڈس اور ملکہ ازیبلا نے یہاں مسلمانوں کا ایسا قتل عام کیا کہ یہاں شاید ہی کوئی مسلمان بچا ہو۔ اسی سال یہاں کی ملکہ ازیبلا کی مالی مدد سے کرسٹوفرکولمبس نے امریکہ دریافت کرلیا اور تھوڑے عرصے بعد ہی واسکوڈی گامانے راس امیدا کا چکر کاٹ کر ہندوستان کا نیا بحری راستہ دریافت کر لیا اور یوں دنیا کی تاریخ میں نو آبادیاتی نظام کا آغاز ہوا۔
یہ ماضی کے فتو حات سے مختلف تھا۔ 1492 ء سے پہلے بھی اگر چہ مختلف ممالک کی جنگیں ہو تی رہیں اور بادشاہ دوسرے ملکوں کو فتح کرتے رہے تھے مگر یہ نظام نو آبادیا تی نظام نہیں تھا۔ اس کی مثال برصغیر سے اس وقت اس لیے دی جا رہی ہے کہ یہ مضمون برصغیر کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر سے متعلق ہے۔
یہاں بابر اور بابر سے پہلے کے فاتحین جن کا تعلق سنٹرل ایشیا یا افغانستان سے تھا یہ فاتحین جب سنٹرل ایشیا یا افغانستان سے چلتے تو ایک تو بادشاہ کی اپنی ایک با قاعدہ فوج ہو تی لیکن اس سے کہیں زیادہ تعداد میں اُس لشکر میں وہاں کے مقام قبائل ہوا کر تے تھے اور جب بادشاہ ہندوستان فتح کر لیتا تو ہر قبیلے کے لشکر کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہو ئے وہ ہندوستان جیسے وسیع رقبے کے ملک میں اِن سرداروں کو جاگیریں عطاکرتا۔ اب یہ سردار اپنے قبیلے کے لشکر کو فوج کے طور پر علاقی سطح پر استعما ل کرتا وہاں امن و امان برقرار رکھتا اور یہاں کی پیداوار پر لوگوں سے ٹیکس لگان وصول کرتا جس کا ایک حصہ مقامی طور پر عوام کی سہولتوں اور فلاحی رفاعی کاموں پر خرچ کیا جاتا تھا، ایک حصہ بادشاہ کے حضور پیش کیا جا تا اور ایک حصہ جاگیردار خود پر خرچ کرتا تھا۔ ہندوستان چونکہ بہت ذرخیز اور امیر ملک تھا۔ یوں جاگیرداروں کو ملنے والا آمدنی کا تیسر احصہ بھی بہت بڑا ہو تا تھا۔
مغلوں کے پورے عہد میں جاگیر دارانہ نظام اس طرح تھا کہ جاگیر دار کی موت کے بعد جاگیردار کا بڑا بیٹا جاگیردار یعنی نواب یا راجہ مہاراجہ بن جاتا تھا مگر یہ بھی قانون تھا کہ مغلیہ سلطنت جب تک مضبو ط اور طاقتور رہی اُس وقت تک جاگیر دار (نواب اور راجہ)کی جاگیر (ریاست) اُس کی ملکیت نہیں تھی بلکہ مرکزی حکومت کی ملکیت ہوا کر تی تھی۔ یعنی باشاہ اگر چاہتا تو کسی بھی وقت جاگیر دار کو ریاست سے محروم کر سکتا تھا۔
یہ عموماً اُس وقت ہو تا جب جاگیر دار نواب یا راجہ مالی معاملات میں بے ایمانی کر تا یابادشاہ کے خلاف سازش کا حصہ بنتا۔ صوبائی سطح کی انتظا میہ یعنی گورنر بادشاہ کے خاندان کا فرد ہوتا تھا۔ اب چونکہ جاگیردارانہ نظام میں نواب یا راجے یہ جانتے تھے کہ کسی بھی وقت اُن کو ریاست سے بے دخل کیا جا سکتا ہے اس لیے وہ جو دولت جمع کر تا تھا وہ سونے ، سونے کی اشرفیاں دیگوں میں رکھ کر کسی جگہ دفن کردیا کردیا کرتے تھے کہ جب بادشاہ کا غذاب نازل ہو تو وہ جان بچا کر فرار ہو جائیں اور اچھے وقت پر آکر وہ خزانہ حاصل کر سکیں یا یوں بھی ہوتا کہ کو ئی بیرونی حملہ آور ہندوستان کو فتح کر لیتا تو ایسے میں بھی راجاؤںکو شکست کے وقت فرار ہونا پڑ جاتا۔ پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش میںجو دفینے اب بھی لوگوں کو قسمت سے مل جا تے ہیں وہ اُسی جاگیردارنہ نظام کی وجہ سے ہیں لیکن مغلیہ دور تک فاتحین جب ملک پر قبضہ کرلیتے تو یہاں کا سرمایہ یہیں رہتا تھا۔
اگر چہ انگریز نے بھی اسی جاگیردارانہ نظام کو اپنایا اور وائسرائے اور گورنرجنرل لارڈ ہو تے جو برطانوی شاہی خاندان کے افراد ہو تے تھے لیکن نو آبادتی نظام میں یہ ہو اکہ فاتحین یورپ سے تجارت کی بنیاد پر آئے تھے اور یہاں سے دولت اپنے ملک بر طانیہ لے جاتے تھے۔
اُن کی برتری اس لیے تھی کہ اُنہوں نے برصغیر کے مقابلے میں سا ئنس اورٹیکنالوجی میں ترقی کرلی تھی۔ یورپ میں معیشت اورسیاست، جمہوریت سے ہم آغوش ہو کر متوازن انداز میں معاشرتی استحکام کو فروغ دے رہی تھی۔ ہم مغلیہ سلطنت 1526 سے 1857 ء تک کو مدنظر رکھیں اوراُس زمانے کا سائنس اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے برطانیہ بشمول یورپ کا موزانہ برصغیر سے کریں تو بہت واضح فرق دکھائی دیتا ہے ،برطانیہ میں آئزک نیوٹن 1642 ۔1727 ء کا دور تھا۔ عضویاتی ارتقا کا نظریہ پیش کر نے والا چارلس ڈارون 1809 ۔1882 ء جدید برقیات کا بانی مائیکل فرائی ڈے 1791 ئ۔ 1867 ء طبیعیات دان جیمیزکلاک میکس ویل 1831 ئ۔ 1879 ء ایٹمی مفروضے کا بانی جان ڈائن جدید سرجری کا بانی ولیم ٹی جی مورٹن1819 ء تا1868 طبعیات دان ولیم ہاروے 1578 ء تا 1678 ء علم الاآبادیات کا ماہر تھامس مالتھیس 1766 ء تا1834 ء یہ تمام بر طانوی سائنس دان تھے۔
اِن کے علاوہ اسی دور میں فرانس کے لوئیس پاسچر ، لوئیس ڈیگیوری انتوی لائرنٹ، پولینڈ کے نیکولسکو پرنیکس، سکاٹ لینڈ کے ماہر معیشت آدم سمتھ اور جیمیز واٹ ،اپنے شعبوں میں انقلابی تبدیلیوں کا سبب بنے۔ یہ درج بالا سائنس دان اور ماہر ین انسانی تاریخ کے آج تک کے 50 عظیم ترین سائنس دانوں میں شامل ہیں یوں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ برصغیر کے حکمران اُس وقت کی دنیا کی سائنس اور ٹیکنا لوجی سے کس قدر بے خبر تھے۔ 1526ء سے1857 ء یعنی مغلیہ دور میں ہندوستان میںتاج محل سمیت درجنوں تاریخی اور خوبصورت عمارات بنیں مگر ایک بھی یو نیورسٹی بھی نہیں بنائی گئی۔
جب کہ اسی عرصے میں برطانیہ کی آکسفورڈ اورکیمرج یونیورسیٹوں سمیت یورپ میں100 سے زیادہ یو نیورسٹاں قائم ہو چکی تھیں۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اگر 1857 ء کی جنگ، آزادی میں بہتر منصوبہ بندی ہو تی اور اکثر جاگیردار نوابیں اور راجے ا نگریز کا ساتھ نہ دیتے تو جنگ ِ آزادی کامیاب ہو جا تی ۔ جنگ آزادی کا آغاز میرٹ چھاونی سے 10 مئی1857 ء سے اُس وقت ہوا جب اتوار کے دن انگریز فوجی افسران اپنی عبادت کے لیے چھٹی پر تھے۔ بغاوت کی فوری وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے اپنی ہندوستانی فوج کی بندوقوں کے لیے نئے انداز کے کارتوس متعارف کروائے جن کو استعمال کر نے سے پہلے اس کے سرے کو دانتوں سے کاٹا جا تا تھا۔
فوجیوں میں یہ مشہور ہو گیا کہ اس میں سور اور گائے کی چربی استعمال کی گئی ہے۔ گائے ہندوں کے لیے معتبر و مقدس اورسور مسلمانوں کے لیے حرام ہے اس لیے یہ فو جی اِن کارتوسوں کو استعمال نہیں کرنا چاہتے تھے اوریہی وجہ فوری جنگ یا بغاوت کا سبب بنی۔ یہ باغی فوجی انگریز فوجی افسران کو قتل کرکے دہلی کی طرف آئے، بہادر شاہ ظفر کو ہندوستان کا با اختیاربادشاہ تسلیم کر لیا اور ملک کی آزادی کا اعلان کر دیا گیا۔ اسی دوران جھانسی کی رانی لکشمی بائی ،نانا صاحب ، حضرت محل اور جنرل بخت خان اس جنگِ آزادی میں شامل تھے۔
انگر یز کے ساتھ ریاست پٹیالہ ، کپور تھالہ، رامپور، جود پور اورسلطنت نیپال اورانگریز فوجوں کے علاوہ آئر لینڈ کمپنی کی فوجیں بھی اس جنگ آزادی کو ناکام کرنے کے لیے دہلی اور دیگر علاقوں میں پہنچیں۔ یہ جنگ 10 مئی 1857 ء سے یکم نومبر 1858ء تک جاری رہی۔ اس جنگ میں 6000 برطانوی فوجی اور سویلین ہلاک ہو ئے جب کہ 1871 ء کی مردم شماری کے مطابق دوسری جانب جنگ آزادی اور وبائی مرض سے 8 لاکھ سے زیادہ ہندوستانی جاں بحق ہو ئے، جن میں سے95% مسلمان تھے۔
جنگ آزادی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ انگریز سرکاری نے یہ اعلان کردیا تھاکہ اب ہندستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت ختم ہو جائے گئی اور ہندوستان پر براہ راست تاج برطانیہ کی حکومت ہوگی، اس لیے بہادرشاہ ظفر کے بعد ہندوستان کی مقامی مغل بادشاہت کا خاتمہ ہو جا ئے گا اور برطانیہ کا بادشاہ ہی ہندوستان کا بادشاہ ہوگا۔ اگر چہ بہادر شاہ ہندوستان کا برائے نام ہی بادشاہ تھا مگر ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے یہ فخر تھا کہ ہندوستان کی بادشاہت اُن کی ہے۔ جب جنگ ِآزادی میں بہادر شاہ ظفراور حریت پسندوں کو شکست ہو گئی تو بہادر شاہ ظفرنے لال قلعہ سے فرار ہو کر ہمایوں کے مقبرے میں پناہ لی جہاں سے انگریز میجر ہڈسن نے بہادر شاہ کو گرفتار کر لیا بعد میں اُس کے سامنے اُس کے دو بیٹوں سر پیش کئے گئے۔
گرفتاری کے بعد پہلے یہ فیصلے ہوا کہ بادشاہ پر کلکتہ میں ’جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹروں کا ہیڈ کواٹر تھا‘ مقدمہ چلایا جا ئے مگر بعد میں یہ طے پایا کہ دہلی کا لال قلعہ جو ہندوستان میں مسلمان باشاہوں کی قوت اور اقتدار کی علامت تھی اسی قلعے میںبرصغیر کے آخری بادشاہ پر غداری کے الزام کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔
82 سالہ بوڑھے بادشاہ پر چار الزمات عائد کئے گئے نمبر1 ۔ باغیوں کی معاونت اور اِن کی تعداد میں اضافہ کرنا۔نمبر2 ۔ باغیوں کی حوصلہ افزائی اور انگریزوں کے خلاف لڑائی نمبر3 ۔ ہندوستان کی آزادی اور خودمختاری کے لیے سربراہی نمبر4 ۔ عیسائیوں کا قتل ۔ مقدمہ اپریل1858 ء سے شروع ہوا یہ مقدمہ 21 دن چلا، 19 سماعتیں ہوئیں، بادشاہ کے خلاف 21 گواہان کی شہادتیں پیش کی گئیں، ثبوت کے لیے 100 سے زیادہ اردو اور فارسی میں تحریر شدہ دستاویزات پیش کی گئیں ، مقدمے کی ابتدا میں بہادر شاہ ظفر کے وزیر حکیم احسان اللہ خان نے بادشاہ کی طرفداری کی مگر بعد میںاُن کے خلاف ہو گئے۔
اسی دوران دہلی اور دوسرے شہروں سے ہزاروں مسلمان تاجروں اور امراء پر مقدمات چلائے گئے اور بیشتر حریت پسند وں کوسر عام پھانسیاں دی گئیں۔ بہادر شاہ ظفر کو 7اکتوبر 1858 ء کواُن کے دو بیٹوں اوربیگمات کے ساتھ لفٹینٹ Ommnay اومانے کی نگرانی میں برما (مینیمار) کے شہر رنگون جلا وطن کر دیا گیا جہاں بہادر شاہ ظفر نے 7 نومبر1862 ء میں قید کے دوران 87 برس کی عمر میں وفات پائی۔
وہیں رنگون ہی میں دفن ہو ئے،بہادر شاہ ظفر ہی کا شعر ہے( کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے ۔۔ دو گز زمین بھی نہ ملی کو ئے یار میں) واضح رہے کہ برصغیر میں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر بھی ترک اور فارسی زبان کے شاعر تھے جن کا ایک مشہور فارسی شعر ہے( بابر با عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست)اور آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر اردو کے ایک بہت اچھے شاعر تھے اردو کے عظیم نثر نگار اور تنقیدی نگار رشید احمد صدیقی نے ایک جگہ لکھا کہ مغلیہ دورنے ہندوستان کو تین چیزیں دیں نمبر1 ۔ اردوزبان نمبر2 ۔تاج محل اور نمبر3 غالب۔ میں نے یہ واضح کیا تھا کہ ہم نے ہندوستان میں یورپ کے مقابلے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں کوئی کام نہیں کیا لیکن رشید احمد صدیقی نے واقعی یہ حقیقت بیان کی ہے۔
اردو زبان اُس وقت ہندوستان میں وجود میں آئی جب شاہجہان نے اپنا دا رالسطنت آگرہ سے دہلی منتقل کیا تو وہ چھاونی میں جو ہزاروں فوجی تھے وہ سب مختلف نسلوں اور قوموں سے تعلق رکھنے والے تھے اور اُن کی مختلف مادری زبانیں تھیں۔ وہ جب آپس میں رابطہ کرتے تو مختلف زبانوں کے الفاظ کا تبادلہ کرتے یوں ایک نئی زبان اردو وجود میں آئی ،،اردوِ،، ترکی زبان کالفظ ہے اس کے معنی لشکر کے ہیں یعنی اردو زبان میں فارسی ، عربی ،ترکی ، ہندی ، سنسکرت اور برصغیر میں بولی جانے والی سینکڑوں زبانوں کے ہزاروں الفاظ شامل ہیں۔ پھر کچھ عرصے بعد ہی اردوکا رسم الخط عربی ہوا۔
یہ ہندوستان جیسے وسیع رقبے کے ملک میں بسنے والی سینکڑوں زبانیں بولنے والے کروڑوں عوام کے درمیان رابطے کی سب سے بڑی زبان بن گئی اور ساتھ ہی چونکہ مغل بادشاہوں اور نوابین کی اکثریت خود شاعر اور بعض اپنی خود نوشت سوانح عمری لکھ کر نثر نگار بھی تھے مغلیہ دور میں اردو شعر و ادب نے بہت ترقی کی اور اردو کے نامور شعرا پیدہ ہو ئے جن میں محمد ولی 1650 ۔1707 ء میرزامظہرجان جانا1690 ء ۔1781 ء ظہور الدین حاتم 1700 ئ۔ 1783 ء محمد رفیع سودا1713 ئ۔ 1780 ء سراج اورنگ آبادی 1715 ء ۔ 1763 ء محمد میر سوز1716 ء ۔ 1798 ء خواجہ میر درد 1720 ئ۔1785 ۔ ء میر تقی میر 1723 ء ۔ 1810 ء نظیر اکبر آبادی1745 ء ۔1830 ء غلام ہمدانی مصحفی1748 ء ۔1824 ء انشا اللہ انشا 1756۔1818 ء امام بخش ناسخ1776 ئ۔1838 ء حیدر علی آتش1778 ئ۔ 1846 ء پھر بہادر شاہ ظفر کے دور میں تو اردو شاعری اپنے عروج پر پہنچی جب بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے پہلے استاد محمد ابراہیم ذوق 1788 ء ۔1854 ء اور اس کے بعد دوسرے استاد مرزا اسد اللہ خان غالب 1797 ء ۔1869 ء ہوئے۔
اسی دور میںمومن خان مومن 1800 ء ۔1851 ء محمد مصطفٰے شیفتہ 1806 ئ۔1869 ء جیسے عظیم اردو شعرا کہکشاں کی صورت اختیار کر گئے تھے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر صاحب دیوان شاعر ہیں اور عظیم اردو شعراکی فہرست میں شامل ہیں۔ آج بھی دنیا کے کروڑوں افراد کو اُن کے شعر یاد ہیں۔ ہمارے شہنشاہ غزل گائیکی مہدی حسن سمیت اکثر بڑے گلوکاروں نے بہادر شاہ ظفر کی غزلیں گائی ہیں جن میں ( بات کر نی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی ۔۔ جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی)اسی طرح یہ غزل (لگتا نہیں ہے جی مرا اُجھڑے دیار میں ۔۔ کسی کی بنی ہے عالم ِ ناپائیدار میں) اور ( یا مجھے افسرِشایاں نہ بنا یا ہوتھا۔ ۔یا میرا تاج گدایانہ بنا یا ہو تا)۔
جب 1857 ء کی جنگِ آزادی پر دلی اجڑی تو برصغیر میںمسلمانوں کی ایک ہزار سالہ سماجی ، سیاسی ، اقتصادی برتری کو شدید بلکہ نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ اس جنگ سے پہلے ہندوستان میں امراء اور صاحب حیثیت افراد میں تناسب کے اعتبار سے مسلمان 45% تھے جب کہ جنگ کے نتیجے میں یہ تناسب 10% سے بھی کم رہ گیا۔ جب بہادرشاہ ظفر کو شکست ہوئی تو اُس کی عمر 82 سال تھی اُس کے 22 بیٹے اور16 بیٹیاں تھیں اور پوتوں پوتیو ںنواسوں نواسیوں پڑ پوتوں اور نواسوں کی مجموعی تعداد سینکڑوں میں تھی۔
مشہور ادیب خواجہ حسن نظامی نے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے کچھ قریبی رشتہ داروں شہزادوں ، شہزادیوں کے بارے میں لکھا جو دہلی سے فرار ہو نے میں کامیاب ہو ئے مگر بعد بہت برے حالات میں زندگی گذاری۔1857 ء میں روپوش ہو نے ہو نے والے شاہی خاندان کے سینکڑوں افراد سزائے موت کے خوف سے ایسے گم نام ہو ئے کہ اب جب کہ اُن کی چوتھی پانچویں نسل جو ہزاروں کی تعداد میں پاکستان ، بھارت یا بنگلہ دیش میں اپنے شجرنسب پیش کرتی ہے تو اکثر یت اُن کا مذاق اڑاتی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ تاریخ میں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو شاید بطور بادشاہ اتنی اہمیت حاصل نہ ہو تی جتنی آج بطور اردو کے ایک معرو ف اور خوبصورت شاعر کے طور پر ہے اور بطور شاعر بہادر شاہ ظفر کو قیامت تک یاد رکھا جا ئے گا۔
The post آخری مغل تاجدار کی زندگی کا اختتام رنگون میں دورانِ اسیری ہوا appeared first on ایکسپریس اردو.