کراچی: پاکستان کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں جتنی بھی تحریکیں چلی ہیں، وہ بھرپور عوامی پذیرائی کے باوجود ناکامی سے دوچار کی گئیں یا پھر کسی بھی طرح کہیں سے اُچک لی گئیں۔
ماضیٔ قریب میں سب سے بڑی تحریک سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی عہدے پر بحالی کے لیے چلائی جانے والی وکلا تحریک تھی، جس میں سوائے چند ایک کے تمام ہی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے بھرپور طریقے سے شرکت کی تھی، اسی تحریک کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف کا اقتدار غروب ہوا تھا۔
اس وقت تمام ذرایع اِبلاغ سے لے کر انسانی حقوق کے کارکنوں اور دانش وروں کی ایک بہت بڑی تعداد نے اس تحریک کی نہ صرف مکمل حمایت کی تھی، بلکہ اسے اپنے تئیں بڑھاوا دینے میں بھی اپنا پورا کردار ادا کیا تھا۔ چند ایک ہی اہل فکر تھے، جو اس کے مضمرات اور عواقب سے آگاہ تھے، اور وہ ایک مختلف نقطہ نظر پیش کر رہے تھے، جسے مجموعی طور پر کہیں بھی پذیرائی نہیں دی جا رہی تھی۔
خیر، وقت گزرا۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بحال بھی ہوگئے، لیکن اس کے نتیجے میں کراچی شہر میں ایک نئے خوں ریز باب کی ابتدا بھی ہوگئی 12 مئی 2007ءکو سیاسی جماعتوں کے درمیان مسلح تصادم کے نتیجے میں پچاس افراد جان سے گئے، یہی نہیں بلکہ یہاں سے کراچی شہر میں امن وامان کے بگاڑ اور لسانی نفرتوں کا ایک بھیانک سلسلہ شروع ہوگیا، جو بہ تدریج بدترین ہوتا گیااور پھر مختلف موڑ کاٹتے ہوئے وہ سلسلہ آج اگرچہ ساکت ہو چکا ہے، لیکن شہر قائد کی سیاسی و لسانی تاریخ میں اپنے ان مٹ نقوش اور ناقابل تلافی مداوے کے گھاﺅ چھوڑ گیا ہے۔
جولائی 2007ءمیں جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بحال ہوکر دوبارہ ازخود نوٹس وغیرہ کا سلسلہ شروع کر دیا، جس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ءکو ملک بھر میں بنیادی حقوق معطل کرتے ہوئے ہنگامی حالت نافذ کر دی، اور ایک بار پھر ’عبوری آئین‘ (پی سی او) کے تحت حلف برداری کا مرحلہ درپیش ہوا۔
پرویز مشرف کے پچھلے ’پی سی او‘ کے تحت حلف اٹھانے والے جسٹس افتخار چوہدری سمیت بے شمار ججوں نے اس بار حلف اٹھانے سے انکار کیا اور معطل ہوگئے۔ عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی، تو انھوں نے ان ججوں کوبحال کرنے میں تامل سے کام لیا۔ مسلم لیگ (ن) نے جواباً ایک لانگ مارچ کیا اور ایک صبح سویرے سویرے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جسٹس افتخار چوہدری سمیت تمام معطل ججوں کو بحال کرنے کا اعلان کر دیا۔
قصۂ مختصر یہ کہ اسی دور میں 2007ءمیں جسٹس افتخارچوہدری کی بحالی کے لیے مہم کا ایک فعال حصہ رہنے والی پیپلز پارٹی ان کی مخالف ہوگئی، پھر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت لگنے کے بعد گھر جانا پڑا۔ پھر عام انتخابات نواز شریف تیسرے بار وزیراعظم بنے، انھیں بھی عدالتوں کے ذریعے پروانۂ رخصت مل گیا یعنی اب عدلیہ تحریک کی دو بار سرخیل رہنے والی نواز لیگ بھی عدالتوں کی فعالیت پر بہت جز بز تھی، اس سے کچھ ہی وقت پہلے نئی اٹھان پانے والے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی ببانگ دہل عدالتوں سے ایسی ہی شکایات لے کر بیٹھ چکے تھے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ملک کی تمام ہی جماعتیں باری باری عدلیہ سے شکایات کرتی رہی ہیں، شاید ہم سبھی کو ایسی ہی عدالتیں پسند ہیں، جو ہمارے موافقت میں فیصلے کرتی رہیں، بہ صورت دیگر ہمیں اس پر سخت اعتراضات لاحق ہو جاتے ہیں۔
موجودہ عدالتی بحران بھی ایک بار پھر ایک افسوس ناک رخ اختیار کر رہا ہے، عدلیہ کی ساکھ پر اس طرح باتیں بنائی جانا کسی بھی طور مناسب عمل نہیں ہوتا، اس مسئلے کا کوئی سود مند اور منصفانہ حل نکلنا چاہیے، اور سب سے بڑھ کر ہمارے ملک کی سیاسی قوتوں کو بھی اب اتنا ’سمجھ دار‘ ہو جانا چاہیے کہ وہ اپنے اقتدار سے آگے بھی کچھ دیکھ لیا کریں۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا کہ جب تک ’اداروں‘ میں آپ کی موافقت ہوا چلے تو آپ کو آئین، قانون اور اصول کچھ بھی یاد نہ رہے اور جوں ہی ’ہوا‘ کا رنگ بدلنے لگے، جھٹ آپ دستور اور جمہور کی بالا دستی کا علم لے کر اٹھ کھڑے ہوں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ تقریباً ہماری تمام ہی سیاسی جماعتوں کا یہی وتیرہ ہے۔
نواز لیگ، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (س)، اے این پی اور ’ایم کیو ایم‘ سمیت درجن بھر سیاسی جماعتوں کے اتحاد ’پی ڈی ایم‘ سے لے کر آج کی حزب اختلاف پاکستان تحریک انصاف تک۔ دونوں ہی فریقین نے حالیہ چند برسوں میں ہو بہو اسی کی تصویر پیش کی ہے، جوں ہی انھیں اپنے اقتدار میں رکاوٹیں دکھائی دیتی ہیں، ویسے ہی ان کے لہجے تلوار ہو جاتے ہیں اور پھر یہ اپنے جلسے جلوسوں میں ’اداروں‘ کو براہ راست للکارتے ہیں، یہاں ہم درست اور غلط کی بحث میں نہیں پڑتے، لیکن بدقسمتی سے جب یہی ’غلط لوگ‘ کسی غیر مناسب راستے سے آپ کی سیوا کر رہے ہوتے ہیں، تب آپ ان کے نام کی مالاجپتے ہیں، تب راوی سب چین ہی چین لکھ رہا ہوتا ہے۔
بالکل ایسے ہی جیسے میاں شہباز شریف کی 11 جماعتی اتحاد کی حکومت اب عدلیہ کے اختیارات پر بڑی بے چین دکھائی دے رہی ہے یہاں تک کے اب اسے ’از خود نوٹس‘ سے پریشانی ہو رہی ہے۔ یہی تو وہ پریشانی تھی جو پرویز مشرف حکومت کوبھی لاحق ہوئی تھی اور وزیراعظم شوکت عزیز کی حکومت کے زعما کہتے تھے کہ اس سے ان کے امور مملکت ادا کرنے میں رخنہ پڑتا ہے تب سب درست تھا، اور آج سب غلط۔ کیوں کہ کل اقتدار سے باہر تھے اور آج اقتدار میں ہیں!
کیا اس مرحلے پر سیاسی جماعتوں سے لے کر ’دانش وریہ‘ اور ذرایع اِبلاغ سے لے کر انسانی حقوق کے وہ تمام ارکان افتخار چوہدری کے حوالے سے اپنے کردار پر کوئی معذرت اور اظہار ندامت کریں گے؟ کیا وہ دبے دبے سے الفاظ میں یہی کہہ کر تاریخ درست کرنے کی کوشش کریں گے کہ انھوں نے افتخار چوہدری کے ایک عدالتی معاملے کو سڑکوں پر لا کر غلطی کی تھی؟ اور آج وہ سب کچھ جو دیکھ رہے ہیں، دراصل اس کی شروعات ان کی اسی غلطی سے ہوئی تھی۔
اگرچہ اس وقت ایک باوردی صدر اقتدار میں تھا، لیکن اس کے باجوود انھیں اس حکومت کے خلاف اپنی علاحدہ جدوجہد کرنی چاہیے تھی نہ کہ وہ ایسی تحریک کا سرگرم حصہ بن جاتے، جس تحریک کے بارے میں جسٹس افتخار چوہدری کے حامی تک یہی لکھنے لگے ہیں کہ دراصل افتخار چوہدری کے پیچھے ”کوئی اور“ تھا کیا آج کوئی معذرت ہوگی، کوئی ندامت ہوگی کہیں سے درستی اور اعلیٰ ظرفی کی ابتدا ہوگی فوری اور عارضی اقتدار کی باریوں کے امکانات سے بالاتر ہو کر یہ فیصلہ ہوگا کہ جو غلط ہوگا اسے تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے ہم نوا ہر صورت غلط کہیں گے، چاہے وہ ان کی موافقت میں ہی کیوں نہ ہو چاہے وہ حزب اختلاف ہی میں کیوں نہ ہوں یا تادیر اقتدار سے محروم ہی کیوں نہ رہ جائیں اصول اور قانون سب کے لیے مساوی رہے گا۔ مختلف مسائل پر ردعمل اور موقف یک ساں ہی ہوگا ’اپنے‘ اور ’بے گانے‘ کے فائدے کو دیکھ کر آج کے بعد کوئی رنگ نہیں بدلے گا۔ شاید اس طرح جمہوریت کے نام پر اقتدار کی آنکھ مچولی کے سلسلے میں کچھ بہتری ہو جائے۔
The post خانہ پری؛ کیا ’افتخار چوہدری تحریک‘ کی غلطی پر معذرت ہوگی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.