Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

زباں فہمی نمبر 182؛ اردو کا پنجابی سے تعلق (تیسرا اور آخری حصہ)

$
0
0

 کراچی: ہرچند پنجابی کی قدامت پر مجھ سمیت متعدد اہل قلم نے کچھ نہ کچھ لکھا، مگر انتہائی دل چسپ بات یہ ہے کہ اس زبان کا یہ نام زیادہ قدیم نہیں۔

امیر خسروؔ کے عہد میں جب اردوئے قدیم کا نام ”ہِندوی“ قرار پایا تھا، تب پنجابی کا نام شاید ’لاہوری‘ ہواکرتا تھا۔ یہی سلسلہ بعد کی صدیوں میں جاری رہا اور مغل تاجداراکبرؔ کے عہد حکومت میں بھی پنجابی نام کا رِواج نظر نہیں آتا۔ یہ نام کب اور کیسے پڑا، اس بابت پنجابی محققین کو دعوت ِ فکر دیتا ہوں۔ میں اپنی سی کوشش کرتاہوں۔

پہلے تو عوام الناس کو معلوم ہوناچاہیے کہ پنجاب، ابتداء میں پنج ند نہیں، بلکہ پنچ ند (یعنی پانچ ندیوں یا دریاؤں کی سرزمین)تھا۔پنچ ہندی الاصل لفظ ہے جس کی جڑ ظاہر ہے کہ سنسکرت میں ملے گی اور اُس کی ہم رشتہ زبان، پہلوی کے توسط سے اُس کی بیٹی،فارسی میں جاکر ”پنج“ ہوگیا تو ہمارے دورتک آتے آتے، پنج ند ہی لکھنے پڑھنے اور بولنے میں رائج ہوگیا۔

یہ نام ہندوؤں کی قدیم مذہبی کتاب رامائن میں مذکور ہے اور اس سے قبل، اس سرزمین کا نام ”سپت سندھو“ یعنی سات دریاؤں کی سرزمین تھا (جس میں دریائے سندھ/سندھو/ سَتُدرِی، ستلج /سَرَسوَتی، پُورسُنی یعنی راوی، اَسکینی یعنی چناب، وِتَستا یعنی جہلم اور سوسوما یعنی سوان شامل تھے۔اس فہرست میں معاون دریا وِپاس یعنی بیاس /ویاس، دریشدوَتی، چِٹانگ اور اَپایا کے نام بھی بڑھائے جاسکتے ہیں)۔اس خطے میں ایرانی فاتحین کے دَرآنے کے بعد، یہ جگہ ”پنج آب“ اور پھر پنجاب ہوگئی۔مقامی طور پر ’پنجاب‘ نام سب سے پہلے مشہور صوفی بزرگ شاہ نعمت اللہ ولی کے اشعار میں شامل پیش گوئی میں نظرآتا ہے جو 1152ء کے لگ بھگ کی گئی:

از قلب ِ پنج آبے خارج شَوَند ناری
قبضہ کنند مسلم، بر ملک غاصبانہ
پنجاب، شہر لاہور، ہم دیرہ جات بنّوں
کشمیر،ملک منصور گِیرَند غائبانہ

1193ء میں سلطان شِہاب الدین غوری کے مکتوب بنام راجگانِ ہند میں پنجاب بشمول سرہندو ملتان موجودہے جو درحقیقت صلح نامہ ہے۔ اس کے بعد ہمیں لفظ پنجاب، سلطان سکندرلودی (لودھی غلط)(17جولائی 1458ء تا 21نومبر 1517ء) اور سلطان شیر شاہ سُوری(المتوفیٰ 1545ء) کے یہاں بھی مستعمل نظرآتا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لفظ پنجابی، اس زبان کے نام کے طور پر پہلے پہل، کب اور کس نے استعمال کیا۔یہاں دو مختلف اور متضاد روایات پیش کرتا ہوں۔

ایک تو یہ کہ حافظ صدیق لالی (1673ء تا 1766ء) (جن کے نام سے شہر لالیا ں موسوم ہوا)وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے ابتداء میں اپنی زبان کو،(دیگر کی تقلید میں) ہندی کہا، پھر اپنی کتاب ”چہل حدیث“ میں اسے پنجابی کا نام دیا۔حافظ صاحب خود عربی وفارسی سمیت متعدد زبانوں پر حاوی اور اُن کا گھرانہ علمی گھرانہ تھا۔(لہکتی ڈال از خیرالدین انصاری)۔اس سے بھی پہلے ہمیں دوسری روایت میں حضرت نوشہ شاہ گنج (21اگست1552ء تا 1654ء بعہد شاہجہاں) کا نام ملتا ہے جوفارسی، پنجابی اور اردو کے شاعر و نثر نگار تھے۔انھوں نے لکھا:
پنجابی وِچ کیوں پڑھو، پڑھو عربی وِچ
تور کلمہ عرب ہے، پڑھے نہ ہووے زِچ

اس سے معلوم ہواکہ پنجابی بطور زبان حضرت نوشہ سے بھی پہلے مستعمل تھا۔ایک تحقیق کے مطابق، اردو (ہندوی سے اردو بننے کے بعد) زبان کے اولین صاحب ِ دیوان شاعر، قلی قطب شاہ سے بھی چودہ سال پہلے پیدا (اور چوالیس سال بعد فوت) ہونے والے، شاعر نوشہ نے اس سے بھی پہلے اپنا اردو دیوان مرتب کیا جس میں پوراکلام کسی نہ کسی راگ میں لکھا ہوا اور اس سہولت کا حامل تھا کہ کسی دَرویش کے اِکتارے پر گایا جاسکتا تھا، اس میں ستائیس اوزان استعمال ہوئے تھے(گجرات میں اردو شاعری از پروفیسر کلیم احسان بٹ)۔نمونہ کلام:
آگ پانی دویوں (دونوں) ناں ملیں، ملیں تو ایک نہ ہوئے
تیسے جس من حق بسے، تہاں غیر نہ کوئے
پاؤں گہے درویش کے پایا سکھ آرام
نوشہ جس کا خیر ہے پاک اللہ کا نام

قابل ذکر بات یہ ہے کہ خورشید احمد خان نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا کہ کسی صاحب نے اس مثنوی کے چند اشعار ”گنج الاسرار“ کے نام سے چھا پ کر حضرت حاجی نوشہ گنج بخش سے منسوب کردیے تھے۔ایک تیسری روایت یہ تھی کہ لفظ پنجابی سب سے پہلے حافظ برخوردارنے 1658ء میں ”مِفتاح الفِقہ“ میں استعمال کیا۔ حافظ صدیق لالی کا نمونہ کلام:

خشک حلال بھلا مونہہ لقمہ، چرب حرام دے نالوں
بکرا خشک بھلا درمعنے موٹے کُتّے نالوں
کس قدر قریب ہے اردو سے!

گاندھی جی کے بیان کی رُو سے کبیر کی ”گرنتھا ولی“، محررہ 1504ء (قلمی)میں بہت زیادہ پنجابی اثر ہے۔ پنجابی کااردو سے تعلق مختلف ماہرین نے طرح طرح بیا ن کیا ہے۔ایک قول یہ بھی ہے کہ ” قدیم زبانوں میں جو اُلٹ پھیر ہواہے، اس سے بھی یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ پنجابی لفظ کا تلفظ، اردومیں بدل گیا ہے۔اردو نے تو پنجابی کی یہاں تک تقلید کی ہے کہ عربی،فارسی الفاظ کا جو تلفظ، پنجابی بول چال میں رائج ہوگیا تھا، اس کو برسوں اپنائے رکھا“۔(ڈاکٹر ظفر خان:پنجابی اور اردو کے لسانی روابط، قسط اول،سہ ماہی صحیفہ، لاہور بابت جنوری تا مارچ 1986ء)۔

خاکسار، محترم شاکر کنڈان کی اس بات سے اتفاق کرتاہے کہ جب ہم اردو کے بعض متروکات، پنجابی میں استعمال کرتے ہیں تو قدیم اردو کی یادآجاتی ہے۔کچھ مثالیں:
جگ (جہان، دنیا)، نِت (ہمیشہ)، مُکھ(منھ، چہرہ)، تسبی (تسبیح)، سہی (صحیح)، انجھو (آنسو)، بھواں (بھنویں)، پلکاں (پلکیں)
اسی طرح قدیم اردو شاعری میں پنجابی سے مستعار الفاظ کی اچھی خاصی تعداد نظر آتی ہے جس کا سلسلہ بابافرید، امیرخسروودیگر سے لے کر، دکن کے قطب شاہی دورِ قُدَماء تک پہنچتا ہے۔بہمنی دور کے اولین دکنی شاعر فیروزشاہ بہمنی (م 1422ء) کا نمونہ کلام:
تجھ مُکھ چندا جوت دِسے سارا جیوں
تجھ کان پر موتی جھمکے تارا جیوں
(تیرے رُخ کی چاندنی سے سب کچھ عیاں ہوجائے اور تیرے کان کے موتی چمکتے ہیں تاروں کے مانند)
اس کے بعد مشتاقؔ، اشرفؔ، لطفیؔ،حسن شوقیؔ،علی عادل شاہ ثانی شاہیؔاور نصرتی ؔ سے ہوتے ہوئے احمد ؔگجراتی تک پہنچیں تو یہ کلام توجہ طلب دکھائی دیتا ہے:
عجب کل رات دھن سو ں میں نوا(نواں: نیا)اِک معجزہ دیکھا
کہ سارے چاند دو نِرمَل، سو ےَک چولی بھیتر نکلے
ولیؔ گجراتی دکنی (م1709ء)کے کلام میں ایسے الفاظ کی بہتا ت ہے جو پنجابی سے مستعار،مگراَب اردو میں متروک ہیں۔محض ایک شعر:
اے جانِ ولیؔ وعدہ ئ دیدار کوں (کو)اپنے
ڈرتا ہوں مَبادا کہ فراموش کرے توں (تو)
ان کے بعد خواجہ میر دردؔ کے یہاں بھی ایسے ہی الفاظ کا استعمال نظرآتا ہے:
منع صہبا نہ کر مجھے اے شیخ!
مَے پرستوں کے حق میں دارُو ہے
میرؔ کے یہاں بھی یہی سلسلہ جاری رہا۔ایک شعر ملاحظہ ہو:
ٹھِیکری کو قدر ہے اُس کو نہیں
ٹوٹے جب کاسہ سرِ مغفورکا

ڈاکٹرابواللیث صدیقی کی مرتبہ لغت ِبنیادی اُردو میں تقریباً اسّی فیصد الفاظ پنجابی ہیں۔ابتدائی چند حروف سے بننے والے الفاظ کی مثالیں دیکھیں:
آ، آپ، (پنجابی میں آپ کے علاوہ تسیں)، آپس، آٹا، آج(اَج)، پا(پا، لبھ)، پاجامہ(پجامہ)، پاخانہ (پخانہ، ٹٹی)، پارا، جا، جاری(جاری، چالو)، جاڑا(ٹھنڈ، سیال)، جاگ، جال، داب (دب)، دال، دانت (دند)، دانہ (دانہ، کنکا)، دبلا ( لِسّا، ماڑا)، ساتھ (نال)، سادہ، سارنگی(سرنگی)، سارس (کُلنگ)، سازش۔(اردو اور پنجابی کے لسانی روابط اَز شاکر کنڈان: مطبوعہ سہ ماہی نزول،گوجرہ، پاکستان)،شمارہ 3/4، بابت دسمبر 2010ء تا مئی2011ء ،نیز، اصل قلمی مسودہ مع اضافہ،بشکریہ مصنف)

راقم بوجوہ اُن تکنیکی عوامل کے ذکر سے گریز کررہا ہے جو ماہرین نے اردو اور پنجابی کے قریبی تعلق کے ضمن میں بیان کیے ہیں۔ایک جہت یہ بھی ہے کہ قدیم شعرائے اردواور قدیم شعرائے پنجابی کے یہاں زبان اکثر مقامات پر یکساں یا مماثل محسوس ہوتی ہے۔عہد اکبری میں لاہور کے صوفی شاعر، شاہ حسین(1539ء تا 1599ء) کی شاعری میں یہ رنگ بہت نمایاں ہے:
جگ میں جیون تھوڑا، کون کرے جنجال
کیں دے گھوڑے،ہستی مندر، کیں داہے دھن مال

عہد شاہجہا ں (1628ء تا 1658ء) کے مشہور فارسی و اردو شاعر پنڈت چندر بھان برہمن لاہوری کی غزل کا مطلع مشہور ہے:
خدا نے کس شہر اَندر ہمن کو لائے ڈالا ہے
نہ دلبر ہے نہ ساقی ہے نہ شیشہ ہے نہ پیالہ ہے

اُسی دورمیں سلطان العارفین سلطان باہو (1629ء تا 1691ء) جیسے صوفی شاعر وادیب کا نام سامنے آتا ہے جو پنجابی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ فارسی دیوان اور تقریباً پونے دوسو کتب کے مصنف ومؤلف تھے۔اُن کی اردو کے متعلق کوئی انکشاف میرے علم میں نہیں، البتہ کلام میں فارسی کے ایسے الفاظ موجودہیں جو اُردو سے مشترک ہیں۔

بُلھے شاہ (1692ء تا ستمبر 1757ء)کا یہ کلام بالکل صاف اردو ہے:
اُس کا سُکھ اِک جوت ہے،گھونکھٹ ہے سنسار
گھونگھٹ میں وہ چھُپ گیا، مُکھ پر آنچل ڈار
اُن کو مُکھ دِکھلائے ہے،جن سے اُن کی پِیت
اُس کو ہی ملتاہے وہ جو اُس کے ہیں مِیت
کہیے یہاں امیر خسروؔ کی یاد تازہ ہوئی کہ نہیں؟

عہد عالمگیرکے صوفی شاعر،حضرت شاہ مراد صدیقی خان پوری (م 1702ء) کے اردو کلام سے ایک اقتباس آپ کو بہت حیران کرسکتا ہے کہ کس قدر صاف زبان ہے:

عجب کیا گودڑی، عارف! محبت سے بنائی ہے
اپر کرنے سے دل پر معرفت کی روشنائی ہے
گلی کوچے خدائی سے صفائی صُوف لگی ہے
لگے اسرار کے دھاگے،پرم سوئی چلائی ہے

وارث شاہ (1721ء تا 1786ء) کی” ہِیر“ مشہورہے، مگر وہ اردو کے باقاعدہ شاعر بھی تھے۔ایک غزل سے اقتباس:

جس دن کو ساجن بچھڑے ہیں، تِس دن کا دل بیمار ہویا
اب کتھن بنا کیا فِکر کروں، گھر بار سبھی بیزار ہویا
دن رات تمام آرام نہیں، اب شام پڑی وہ شام نہیں
وہ ساقی صاحبِ جام نہیں، اب پِینا مَے دشوار ہویا
مجھے پی اپنے کو لیاؤرے یا مجھ سُوں پی پہنچاؤرے
ایہہ اَگن فراق بجھا ؤرے، سب تن من جل انگار ہویا
(”لاہور کا پہلا مکمل اردو شاعر، پیرمرادشاہ لاہوری“: لہور لہورہے اَز آزاد ؔلاہوری)
یہاں ہندی اور پوربی سے مماثل بولی میں طبع آزمائی نظرآتی ہے۔

’ہِیر‘ سلطان بہلول لودھی کے عہد حکومت میں ہوگزری ہے اور اس کا قصہ سب سے پہلے، جھنگ (پنجاب)کے دمودَر (دَمودو دَرس دمودر)نے نظم کیا اور یہ جھوٹا دعویٰ بھی کیا کہ یہ قصہ اُس کا آنکھوں دیکھا ہے، حالانکہ وہ خود مغل بادشاہ اکبر کے عہد میں پیدا ہوا تھا۔(لہکتی ڈال از خیرالدین انصاری)۔
”لاہورکا دبستانِ شاعری“ از ڈاکٹر علی محمد خان کے دعوے کی رُو سے لفظ اُردو بطور ِ زبان، سب سے پہلے لاہور کے اولین ’مکمل‘ اردو شاعر پیر مراد شاہ لاہوری (1770ء تا 1800ء) نے استعمال کیا تھا:
وہ اردو کیاہے،یہ ہندی زباں ہے
کہ جس کا قائل اب سارا جہاں ہے
(لہور لہور اے: آزادؔ لاہوری)

قارئین کرام ایسے موقع پر، جب میں محض ابتدائی نقوش ہی پیش کرتاہوں تو میرے لیے بہت مشکل ہے کہ نثر کا احوال بھی ٹھیک ٹھیک بیان کرسکوں، بہرحال فقط ایک مثال(بہاول پور میں اردو از شہابؔدہلوی سے) پیش کرتاہوں۔ اردو کے بطور سرکاری زبان نفاذ کے انگریزی فرمان کے جاری ہونے کے بعد خاص طور پر،ریاست بہاول پور میں اس پر عمل درآمد بہت سرعت سے ہوا۔اُس دور میں عدالت کی زبان اردو تھی،جس نے فارسی کی جگہ بطریق احسن لے لی تھی،ایک ایسے وقت میں جب بہت سی اصطلاحات کا ترجمہ یا متبادل بھی، وقت پڑے پر، سرکار ہی کو پوچھنا پڑتا تھا اور آج جب تمام ضروری وسائل اور بنیادیں فراہم ہوچکی ہیں تو انگریز سے بڑھ کر انگریز کے وفادار، اُن کے ذہنی غلام اسے دفتری وعدالتی زبان نہیں بننے دیتے۔نواب صاحب بہاول پور کے نام مسٹر جان لارنس کا ایک خط مؤرخہ 30دسمبر 1853ء(فارسی سے شروع ہوکر)، اردومیں تمام احوال بیان کرتا دکھائی دیتا ہے۔

اقتباس:
”………….چنانچہ صاحب اسسٹنٹ بہادر موصوف،کمپاس لگاتے ہوئے ازطرف سندھ تا بہاول پور آویں گے۔آں مشفق براہ ِمہربانی ونظرواِتحاد ویکجہتی، اپنے کارداران کے نام حکم جاری فرمادیں کہ جو کچھ امداد،صاحب بہادر کو…………“
پنجاب میں اردو کا موضوع، خواجہ غلام فرید کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا جنھیں شاعر ہفت زبان ہونے کے ساتھ ساتھ، صاحب ِ دیوان اردو شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔انھوں نے سندھی، ہندی، سنسکرت، پوربی، اردو، فارسی اور سرائیکی میں شاعری کی۔اُن کی کافیاں آج بھی انتہائی مقبول ہیں۔

بقول محترم شہابؔ دہلوی، لفظ کافی، عربی لفظ قوافی (قافیہ کی جمع) کی بگڑی ہوئی شکل ہے جس میں ایک مطلع، ایک شعر یا ایک مصرع، شروع میں اور پھر تین تین چارچارمصرعوں کے بند ہوتے ہیں۔یہ نظم بھی ہم قافیہ اشعار پر مبنی ہوتی ہے۔(خواجہ غلام فرید۔حیات وشاعری از شہابؔ)۔خواجہ صاحب کے کلام کو اردو گو طبقے سے متعارف کروانے میں دو ممتاز اُردو شاعرومحقق حضرات شہاب ؔ دہلوی اور امدادؔ نظامی (مرحومین) نے کسی بھی اہل زبان سرائیکی سے زیادہ حصہ لیا۔

نظامی صاحب نے تو اُن کے ہر کلام کی بنیاد، راگ کو سمجھ کر اُسی میں منظوم ترجمے کیے اورکلام خواجہ کو،انگریزی میں منتقل کرکے انگلستان کی درس گاہوں کے نصاب میں شامل کرنے کا باعث ہوئے۔ (فرید رَنگ، فرید اَنگ۔تذکرہ، تبصرہ اور منظوم تراجم از اِمدادؔ نظامی)۔

اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو پنجاب میں اردو، خطہ پنجاب کی تمام زبانوں کے مواد سے متعلق ہے۔اس اہم موضوع کے اختتام پر بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مواد کی فراوانی کے سبب، اردو کے پنجاب ودیگر خطوں سے لسانی اشتراک کی بابت متعدد مآخذ کی فہرست،خارجِ مضمون کرنی پڑی جو حسبِ ضرورت پیش کی جاسکتی ہے۔بہت سی باتوں کوبوجوہ تَرک کرتے ہوئے ایک لسانی چٹکلہ:
ممتاز محقق، اردو اور پوٹھوہاری شاعر محترم عبدالرحمن واصف کا کہنا ہے کہ ”پنجابی، باوجود سنسکرت، ہندی، ملیالم،دردی وغیرہا سے استفادے کے،اگر زبان ہی رہتی ہے توپہاڑی اور پوٹھوہاری،وہی الفاظ انھی بھاشاؤں سے لے کر، پنجابی کا لہجہ کیسے بن سکتی ہیں؟“

 

The post زباں فہمی نمبر 182؛ اردو کا پنجابی سے تعلق (تیسرا اور آخری حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles