Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

’’ووٹ کا احترام ہی مجھے بچا سکتا ہے‘‘

$
0
0

عجیب منظر تھا۔۔۔۔جسے میں خواب اور حقیقت کے درمیان کہیں معلق حیران پریشان دیکھے جارہا تھا۔

’’کیا میری ذہنی حالت ٹھیک ہے‘‘ میں نے سوچا، ابھی چند گھنٹے پہلے جب دوست ڈرائنگ روم سے اٹھ کر گئے تھے اور میں نے طویل بحث سے تھکنے کے بعد خود کو نیند کے حوالے کیا تھا تو میری ذہنی حالت سو فی صد درست اور یادداشت پوری طرح کام کر رہی تھی، تبھی تو میں تاریخ سے حوالے لالاکر بڑے منطقی انداز میں پاکستان کو ایک ناکام ریاست ثابت کررہا تھا۔ محفل میرے ٹھوس دلائل، برجستہ فقروں اور برمحل حوالوں سے گرم تھی۔

محفل برخواست ہوئی تو میں سب کو لاجواب کرچکا تھا، فتح کی خوشی سے سرشار بستر پر ڈھیر ہوا تو جانے کہاں سے مہدی حسن کی دردِ دل سی صدا رنگ میں بھنگ ڈالنے آپہنچی۔۔۔’’دیکھنا گنوانا مت دولت یقیں لوگو۔۔۔یہ وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو‘‘ یہ صدا ہاتھ پکڑ کر مجھے میرے بچپن میں لے گئی۔

جہاں میں نے ایک بچے کو چودہ اگست پر جذبے کی پوری شدت کے ساتھ گھر سجاتے، قومی پرچم لہراتے اور ’’نیلام گھر‘‘ کے اختتام پر طارق عزیز کے گرجتے نعرے ’’پاکستان‘‘ پر اسی شدت سے جواب میں ’’زندہ باد‘‘ کہتے دیکھا۔۔۔اور نم آنکھوں کے ساتھ سوگیا۔

میری آنکھیں شاید اب بھی بھیگی ہوئی تھیں، اسی لیے تو یہ عجیب منظر دھندلایا ہوا لگ رہا تھا۔ مجھے لگا اندھیرے کے سمندر میں ایک روشن جزیرہ ہے۔۔۔غورکیا تو پتا چلا جزیرہ نہیں ایک نقشہ ہے، جس پر کہیں فصلیں لہرا رہی ہیں، کہیں ہربھرے درخت گھنیری چھاؤں پھیلائے ہوئے ہیں، کہیں پہاڑوں کے سلسلے ہیں، برف سے ڈھکے اور دھوپ میں سلگتے، ایک طرف سمندر لہریں مار رہا ہے تو دوسری طرف دریا منزلوں کی سمت رواں ہیں۔

ایک سمت ہریالے میدان آنکھوں کو ٹھنڈا کر رہے ہیں تو دوسری سمت جھلستے صحراؤں سے بگولے اٹھ رہے ہیں، نہریں بل کھارہی ہیں، جھرنے شور مچاتے گر رہے ہیں اور جھیلیں دھوپ سے دمک رہی ہیں، ’’یہ سب کیا ہے؟‘‘ میں نے خودکلامی کی ’’پاکستان‘‘ ایک مہکے ہوئے جھونکے کی سرگوشی نے مجھے چونکا دیا۔

’’ک ک ک کون‘‘

’’میں پاکستان ہوں‘‘

ایک شاخ نے لہرا کر جواب دیا۔

دُھند چھٹنے لگی، اب مجھ پر کُھلا کہ رنگارنگ مناظر سے بھرا یہ متحرک خاکہ پاکستان کا نقشہ تھا۔

’’کیسے ہو پاکستان‘‘ میرے حلق نے بڑی مشکل سے الفاظ اُگلے۔

’’کیسا کیا۔۔۔۔میرے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس کے بعد میں اب تک ’ہوں‘ یہی کافی ہے۔‘‘ پہاڑ کی چوٹی سے جواب آیا۔

’’ناراض لگتے ہو۔۔۔معاف کرنا میں تمھیں بہت بُرا بھلا۔۔۔۔‘‘

’’ناراض میں نہیں تم ہو۔۔۔۔اور مجھے تم جیسے روٹھنے والوں کے روٹھنے سے بھی پیار ہے، ارے پگلے جس سے محبت ہو اسی سے تو ناراضی ہوتی ہے‘‘

اس بار نہر کا شفیق لہجہ میری سماعت سے ٹکرایا تھا۔

’’کیسے صحافی ہو، میرا انٹرویو نہیں کرو گے؟‘‘

یہ سمندر میں اٹھتی موج تھی۔

’’ہاں ہاں کیوں نہیں، اچھا یہ بتاؤ کبھی تم نے خود سوچا کہ تم غلط بنائے گئے یا صحیح‘‘

’’کئی بار‘‘ صحرا سے اٹھتے بگولے کی بھرائی ہوئی آواز ابھری۔

’’جب بھی اپنے سینے پر تعصب، نفرت، ظلم اور استحصال دیکھا، اپنے آپ سے پوچھا، اس سب سے بچنے ہی کے لیے تو تم بنائے گئے تھے، پھر تمھارے ہونے کا کیا فائدہ۔ لیکن جب سے پڑوس میں مودی کی حکومت دیکھی ہے اپنے وجود پر فخر محسوس کر رہا ہوں۔‘‘

اتنا کہہ کر بگولا آگے بڑھ گیا۔

’’سب سے زیادہ تکلیف کب ہوئی؟‘‘

’’شدید ترین تکلیف تو جسم کا کوئی حصہ کاٹے جانے پر ہی ہوتی ہے، مجھے تو عین درمیان سے کاٹ ڈالا گیا۔ مجھ پر چوبیس سال تک دھیرے دھیرے آری چلائی جاتی رہے اور پھر ایک جھٹکے سے میرا وجود بانٹ دیا گیا، میں تو کاٹے جانے سے پہلے ہی اپنے بیٹوں بیٹیوں کے خون سے اتنا لتھڑ چکا تھا کہ اپنے کٹے جسم کا لُہو دیکھ ہی نہ پایا۔‘‘

بولتے ہوئے پہاڑ کی آواز میں لرزش تھی۔

’’تمھارے ان بیٹوں بیٹیوں کو تمھیں بچانے ہی کے لیے تو مارا گیا تھا، اور بڑی مسرت سے اعلان کیا گیا تھا۔۔۔پاکستان بچ گیا۔‘‘

’’جھوٹ بولا گیا تھا‘‘

سمندر میں بھونچال اٹھا اور گرجا۔

’’میں ووٹ کے احترام کے نتیجے میں قائم ہوا، اور ووٹ کا احترام ہی مجھے بچا سکتا ہے، دھونس دھاندلی، قتل وغارت گری اور آپریشن نہیں‘‘

’’چلو یہ بتاؤ تمھارے لیے سب سے پُرمسرت موقع کون سا تھا‘‘

’’وہ دن جب مجھے آئین کا تحفہ ملا۔۔۔۔یوں لگا جیسے میرے بے ردا وجود کو چادر سے ڈھانپ دیا گیا ہو۔ مزید خوشی اس بات کی تھی کہ میرے آپس میں لڑتے بھڑتے بیٹے مجھے یہ چادر اڑھانے کے لیے ایک ہوگئے تھے۔

خوشی کے اور بھی مواقع آئے۔ جب 1965 میں مجھے جنگ میں جھونکا گیا تو میرے بچوں کے جذبوں نے مجھے سرشار کردیا، جب میری ایک پہاڑی جوہری تاب کاری سے سنہری ہوئی تو کہیں ایسے نوجوان کے چہرے پر خوشی پھوٹ پڑی جو ایک دن پہلے تک ’’پاکستان نہ کھپے‘‘ کا نعرہ لگاتا تھا اور کہیں اُس لڑکے کی شادمانی آنکھوں سے بہہ نکلی جو کراچی کو مجھ سے الگ کرنے کی بات کرتا تھا۔

تب میں نے اپنے اوپر حکومت کرنے والوں سے کہا تھا، دیکھو! یہ سب مجھ سے کتنی محبت کرتے ہیں اور تم انھیں غدار کہتے نہیں تھکتے۔۔۔مگر میری کسی نے نہیں سُنی۔

جھیل بلاتکان بولے جارہی تھی اور اس میں تیرتا آسمان مسکرا رہا تھا۔

’’محبت کس سے ہے؟۔۔۔میرا خیال ہے ان سے ہوگی جو کہتے ہیں پاکستان ہے تو ہم ہیں یا سب سے پہلے پاکستان‘‘

’’ہاہاہا‘‘

پہاڑی سے گرتا جھرنا کھکھلا کر ہنسا۔

’’تم مجھے خودغرض سمجھتے ہو۔۔۔ارے بابا میں تو دھرتی پر بسنے والوں کے دم سے ہوں، ان کی خوشی، سُکھ، اطمینان، تحفظ ہی میرے وجود کا جواز ہے، میرے لیے سب سے پہلے یہ عام پاکستانی ہے۔

رہی محبت کی بات تو مجھے ہر اس پاکستانی سے محبت ہے جو اپنے فرائض پوری دیانت داری سے ادا کرتا ہے، چاہے وہ سرحد پر پہرہ دیتا ہو یا گٹر کی غلاظت میں اتر کر صفائی کرتا ہو، اسکولوں کی خستہ حال عمارتوں میں موسموں کی شدت سہہ کر پوری ذمے داری سے بچوںکو پڑھاتا ہو، فصلیں اُگاتا اور ہل چلاتا ہو یا فیکٹریوں میں آٹھ آٹھ گھنٹے اپنا پسینہ بہاتا ہو۔

’’اور نفرت‘‘

’’ماں باپ کے لیے سب سے قابل نفرت وہی ہوتا ہے جو ان کی اولاد کے منہ سے نوالہ چھین لے۔ مجھے بھی ان لوگوں سے نفرت ہے جو اعلیٰ مناصب پر رہ کر میرے وسائل لوٹتے ہیں اور میرے بچوں کا حق مار کر دور دیسوں میں محلات بناتے، کاروبار جماتے اور وہیں جابستے ہیں۔ میں ان لوگوں سے بھی متنفر ہوں جو میری فضا میں مذہب، زبان اور علاقے کے نام پر زہر گھولتے اور نفرتیں پھیلاتے ہیں۔‘‘

دریا کی آواز لہرائی۔

’’بھارت سے تو بیر ہوگا؟‘‘

’’ہرگز نہیں، ارے میں نفرت کے خلاف وجود میں آیا تھا نفرت کے لیے نہیں۔ میں نے تو بھارت سے ہَوا، پنچھی اور خوشبو کو آنے سے روکا نہ جانے سے۔ جب میرے کسی جھونپڑا ہوٹل میں لتا کا گیت بجتا ہے تو میں جھوم اٹھتا ہوں، میرے کسی گھر کے ڈرائنگ روم میں امیتابھ، شاہ رخ اور عامر خان کی فلم چلتی ہے تو میں پوری محویت سے دیکھتا ہوں، البتہ جب ان کی کسی فلم میں کہا جاتا ہے’اندر گھس کر ماریں گے‘ تو میں اپنے کسی گبروجوان سپاہی کے شانے پر ہاتھ کر سیما پار دیکھ کر ہنستے ہوئے کہتا ہوں،’’کبھی آؤ نہ مارے دیس۔‘‘

کھیت میں لہراتی گندم کی بالیاں جھوم جھوم کر بولتی رہیں اور آخر میں کھلکھلا اُٹھیں۔

’’حکم رانوں، سیاست دانوں، اداروں اور میڈیا کے کردار سے مایوسی نہیں ہوتی‘‘

’’ان سے مایوسی کے سوا ملا کیا ہے‘‘

ہوا کے دوش پر اُڑتی صحرا کی ریت نے سرگوشی کی۔

’’پورے سال مایوسی ہی مایوسی ملتی ہے، لیکن پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ میری ساری یاسیت ساری ناامیدی شکست کھا جاتی ہیں اور میں مسکرا اٹھتا ہوں، یہ جشن آزادی کا دن ہوتا ہے، اس روز جب میں کسی جھونپڑے کی چھت، کچے مکان، چھوٹے سے فلیٹ، گدھا گاڑی، ٹوٹے پھوٹے ڈھابے، زنگ لگی سائیکل، پرانی موٹرسائیکل، رکشے اور ٹھیلے پر اپنا پرچم لہراتا دیکھتا اور تنگ گلیوں اور بدحال بستیوں میں اپنے نغمے سنتا ہوں اور بچوں کی ٹولیاں ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتی گزرتی ہیں، تو میں امید سے بھر جاتا ہوں، شاد ہوجاتا ہوں، یقین سے آباد ہوجاتا ہوں۔

’’پاکستانیوں سے کوئی شکوہ‘‘

’’ہاں، بہت بڑا شکوہ ہے‘‘

گھنے جنگل کی گمبھیر آواز گونجی۔

’’پاکستانی لیڈروں کے لیے نکلتے ہیں، فرقوں اور دوسروں کی سیاست کے لیے نکلتے ہیں، لیکن اپنے اور میرے لیے باہر نہیں آتے۔ میرے سینے پر بچھی سڑکیں منتظر ہی ہیں کہ کب اس ملک کے باسی اپنے حقیقی مسائل کے حل کے لیے نکلیں گے۔

’’تو کیا بہت سے لوگوں کی طرح تم بھی انقلاب کے منتظر ہو‘‘

’’انقلاب!۔۔۔۔کیسا انقلاب!‘‘

سبزے سے لدے میدانوں کے کلام میں حیرت کی آمیزش تھی۔

’’کسی انقلاب کی ضرورت نہیں، نہ امکان ہے، دیکھا نہیں انقلاب کے نام پر میرے بھائیوں لیبیا، مصر، عراق کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا؟ جس طرح مستری، میکینک اور پلمبر کے سر پر کھڑے ہوکر کام کراتے ہو اور وہ مطلوبہ نتائج دیتا ہے۔

اسی طرح عوام اگر ان حکم رانوں، سیاست دانوں اور اداروں کے حکام کو اپنا آقا سمجھنا چھوڑ کر ان کی ہر غلطی ہر لغزش پر اٹھ کھڑے ہوں اور ان سے حساب مانگتے رہیں، تو یہی لوگ خود کو اور اپنی کارکردگی بہتر کرنے پر مجبور ہوجائیں گے اور رفتہ رفتہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘

’’انٹرویو ہوگیا، اب ایسا کرو اپنی ایک تصویر دے دو، جو میں تمھارے انٹرویو کے ساتھ شایع کروں گا، دریا، پہاڑ، سمندر، صحرا، جنگل تمھارے اتنے روپ ہیں، کوئی تو تمھارا اصل چہرہ ہوگا!‘‘

’’تمھیں تصویر مل جائے گی‘‘

شاخوں سے ٹکراتی ہوا نے دھیرج سے کہا۔

اور پھر وہ منظر تحلیل ہوگیا۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا، کہیں کچھ نہیں تھا، لیکن میرے سرہانے ایک تصویر دھری تھی۔ تصویر اٹھا کر دیکھی، میں سمجھا کسی پچھتر سالہ بوڑھے کا عکس ہوگا، لیکن وہ تو ایک بچے کی تصویر تھی، پھٹے کپڑوں میں ملبوس سانولا سلونا یہ بچہ پاکستان کا پرچم تھامے مسکراتا ہوا کسی منزل کی طرف دوڑا چلا جارہا تھا۔

The post ’’ووٹ کا احترام ہی مجھے بچا سکتا ہے‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>