حال ہی میں ٹیکنالوجی پر تحقیق کرنے والی کمپنی اوپن اے آئی نے اپنے متن تیار کرنے والے مصنوعی ذہانت کے پروگرام کا تازہ ترین ورژن جاری کیا ہے، جسے جی پی ٹی 4 کہا جاتا ہے۔
اس نئے ورژن میں اس لینگوئج ماڈل کی کچھ نئی صلاحیتوں کا مظاہرہ موجود ہے جو اس سے قبل اس میں نہیں تھیں۔ نئے ماڈل کا تعارف، اس کی خوبیاں اور خامیاں بتانے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم اپنے قارئین کو اس بات سے متعارف کروائیں کہ آخر چیٹ جی پی ٹی، جس کے متعلق آج کل خاصی بحث ہو رہی ہے، دراصل ہے کیا چیز۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ سادہ اور آسان زبان میں اس کا تعارف اور اس کے کچھ اہم فنکشن آپ کے سامنے پیش کر سکیں۔
جب ہم نے یہی سوال چیٹ جی پی ٹی سے پوچھا کہ اپنا تعارف کروائیں تو اس کا جواب کچھ یوں تھا: ’’چیٹ جی پی ٹی ایک بڑا لینگوئج ماڈل ہے جس کو اوپن اے آئی نے تیار کیا ہے۔‘‘ اس طرح کے لینگوئج ماڈلز کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ان کو بڑے پیمانے پر ارب ہا الفاظ سکھا دیے جاتے ہیں یا ان میں محفوظ کر دیے جاتے ہیں۔ پھر یہ اس جمع شدہ ڈیٹا کی بنیاد پر آپ کے سوالات کا جواب دیتے ہیں۔ لینگوئج ماڈل کے ان جوابات کو انسانی طرز کا بنانے کے لیے ایک بڑی ٹیم کی معاونت سے پروگرام کی تشکیل اس طرح کی جاتی ہے کہ اس کے جوابات مشینی نہ لگیں۔
چیٹ جی پی ٹی چند سیکنڈز میں آپ کے لیے کسی بھی موضوع پر مضمون لکھ سکتا ہے، آپ کے دیے گئے ٹیکسٹ کو الفاظ کے رد و بدل کے ساتھ (rephrasing) پیش کر سکتا ہے، لکھے گئے متن کے لیے بہترین عنوان تجویز کر سکتا ہے۔ اس کی سب سے خاص بات یہ کہ آپ اس سے ایک ہی سوال اگر سو بار کریں گے تو ہر بار آپ کو مختلف الفاظ میں جواب دے گا، جس کا مطلب یہ کہ کاپی رائٹ کا خدشہ بھی نہیں رہتا۔
ماہرین کی جانب سے یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مستقبل قریب میں چیٹ جی پی ٹی گوگل کو مات دے سکتا ہے۔ اپنی ریلیز کے فوراً بعد چیٹ جی پی ٹی نے دنیا بھر میں دھوم مچا دی تھی اور محض پانچ دنوں میں اس کے صارفین کی تعداد 10 لاکھ تک پہنچ گئی۔ اسی خدشے کو سامنے رکھتے ہوئے گوگل نے اپنا لینگوئج ماڈل ’بارڈ‘ لانچ کیا اور فیس بک کی مالک کمپنی ’میٹا‘ بھی اس پر تیزی سے کام کر رہی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کو تیار کرنے والی کمپنی اوپن اے آئی میں مائیکروسافٹ بھی اہم شراکت دار ہے، جس کے باعث گوگل اور مائیکروسافٹ میں پرانی مقابلہ بازی پھر سے منظر عام پر آ گئی ہے۔ مائیکروسافٹ نے تو اس کو اپنے سرچ انجن ’بنگ‘ کے ساتھ لنک کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی کی افادیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ امریکہ میں اس نے ابتدائی دنوں میں ہی طب اور قانون کے امتحان بھی پاس کیے۔
اپنی ریلیز کے فورا بعد سے ہی اس کے استعمال پر کچھ اخلاقی اعتراضات کیے جا رہے ہیں کہ اس کو تحقیق اور تعلیمی سرگرمیوں میں بطور شارٹ کٹ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بہت سے ریسرچ پیپرز میں چیٹ جی پی ٹی کو بطور شریک مصنف کے لیا گیا ہے جو کہ اس کی افادیت اور اثر کو ظاہر کرتا ہے۔
چیٹ جی پی ٹی کے منفی پہلو
جہاں اس لینگوئج ماڈل کو مثبت مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے وہاں اس کے منفی پہلو بھی کافی زیادہ ہیں۔ کیونکہ یہ ایک لینگوئج ماڈل ہے اور اس کے جوابات اس میں محفوظ شدہ ڈیٹا کی بنیاد پر ہی ہوتے ہیں، اس لیے اس کے پاس تازہ ترین معلومات تک رسائی نہیں ہوتی۔ جس کے باعث اس کے جوابات پرانے ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم چیٹ جی پی ٹی کی بات کریں تو اس کا علم ستمبر 2021ء تک محدود ہے۔
جب ہم نے چیٹ جی پی ٹی سے یہ سوال کیا کہ پاکستان کا موجودہ وزیراعظم کون ہے تو اس کا جواب تھا، عمران خان۔ ہم نے اس کو بتایا کہ اب حکومت بدل چکی ہے تو اس کا جواب تھا، ’’جہاں تک میرا علم ہے عمران خان کو 2023ء تک اقتدار میں رہنا تھا لیکن میں 2021ء کے بعد ہونے والی سیاسی تبدیلیوں سے آگاہ نہیں ہوں۔‘‘ اگرچہ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ اس لینگوئج ماڈل کو انٹرنیٹ سے جوڑ دیا جائے تاکہ اس کا علم اپ ڈیٹ ہوتا رہے لیکن ابھی تک کی صورتحال میں ایسا نہیں ہے اور آپ کو پرانی معلومات پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔
اس کا ایک اور منفی پہلو یہ ہے کہ بعض اوقات اس کے جواب غلط ہو سکتے ہیں یا پھر ان میں جانبداری کا عنصر نمایاں ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات اس کے جوابات کو نسل پرستانہ یا کسی خاص گروہ کے متعلق موجود دقیانوسی تصورات کو نمایاں کرتے دیکھا گیا ہے۔ اگرچہ اس ماڈل کو اس طرح تشکیل دیا گیا ہے کہ یہ اپنی رائے کا اظہار نہ کرے لیکن اس کے باوجود بعض اوقات ایسا ہوتا نظر آیا ہے۔
حالیہ دنوں میں ایک اور مسئلہ پرائیویسی کا سامنے آیا، جب کچھ صارفین نے یہ شکایت کی کہ ان کی چیٹ ہسٹری میں کچھ ایسی چیزیں سامنے آئی ہیں جو ان کی طرف سے نہیں پوچھی گئیں۔ اس کا صاف مطلب تھا کہ ان کے اکاوئنٹس تک بلا اجازت رسائی حاصل کی گئی۔ اگرچہ کمپنی کے مطابق اس پر قابو پا لیا گیا ہے لیکن پھر بھی تحفظات تو باقی رہتے ہیں۔
چیٹ جی پی ٹی فور کی نمایاں خصوصیات
گزشتہ ماڈل کے برعکس جی پی ٹی 4 تصاویر کو بھی پروسیس کر سکتا ہے اور ان کا سیاق و سباق مہیا کر سکتا ہے۔ ایک حیران کن فنکشن یہ ہے کہ آپ کسی بھی ویب سائٹ کا سکیچ ایک سادہ کاغذ پر بنائیں اور اس کو اس میں فیڈ کریں۔ اس خاکے کی بنا پر جی پی ٹی 4 آپ کو ایک مکمل ویب سائٹ ڈیزائن کر دے گا۔
’اوپن اے آئی‘ کا دعویٰ ہے کہ ان کا یہ نیا ماڈل 25 ہزار الفاظ تک کی تحریر لکھ اور اس کی تشریح کر سکتا ہے، جب کہ اس سے پہلے کے ماڈلز کے لیے ایک ہزار الفاظ لکھنا یا ان کو پراسیس کرنا کافی مشکل تھا۔ بڑے تعلیمی اداروں نے جی پی ٹی فور کی خدمات حاصل کر لی ہیں جس کے بعد تعلیمی میدان میں بھی ایک انقلاب متوقع ہے۔
جس طرح مصنوعی ذہانت ترقی کرتی جارہی ہے وہ بہت سے ایسے کام کرنے کے قابل ہو گئی ہے جس کے لیے اس سے قبل کافی زیادہ انسان درکار ہوتے تھے۔ مستقبل میں بھی ہمیں اس چیلنج کا سامنا رہے گا۔ اگرچہ یہ تو ممکن نہیں کہ مصنوعی ذہانت مکمل طور پر انسانی دماغ کا متبادل بن جائے لیکن یہ اس کے لیے کافی چیلنجز ضرور کھڑے کرے گی اور ہمیں دن بدن اس کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا پڑے گا، ورنہ ہم آہستہ آہستہ غیر متعلقہ ہوتے جائیں گے۔
The post مصنوعی ذہانت appeared first on ایکسپریس اردو.