پاکستان دنیا بھر میں ٹی بی کی تشخیص اور اموات کی صف میں پانچویں نمبر پر آنے والا ملک ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں ٹی بی کی شرح کافی بلند ہے۔
اسی وجہ سے پاکستان کو 2001ء میں ٹی بی ایمرجنسی اسٹیٹ ڈکلئیر کیا گیا اور حکومت کو ہدف دیا گیا کہ 2035ء تک یہ اپنے ملک کو ٹی بی فری بنائے۔ حکومت نے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام (قومی پروگرام برائے انسدادِ ٹی بی) شروع کر رکھا ہے۔
اس پروگرام کے 2021ء کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ ہر ایک لاکھ کی آبادی میں سے 259 لوگ ٹی بی کے مرض کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں سے بیس لوگ ٹی بی اور اس سے متعلقہ پیچیدگیوں کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
اس بیماری کے متعلق آگاہی پھیلانے کی نیت سے پوری دنیا میں ٹی بی کا دن منایا جا رہا ہے۔ تو آئیے ہم بھی آپ کو اس بیماری کے بارے میں چیدہ چیدہ معلومات دیتے چلیں۔
تعارف
دوستو، کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے جسم میں 100 ٹریلین سے زائد جراثیم بیک وقت موجود ہوتے ہیں۔ قدرت نے ان 100 ٹریلین سے زائد جراثوموں کو آپ کے جسمانی اعضاء اور آپ کی قدرتی صحت کی حفاظت کے لیے لگا رکھا ہے۔
ان صحت کے مددگار جراثوموں کی افادیت بالآخر سائنسدان بھی سمجھنے لگے ہیں، اسی لئے آپ کو آج کل اینٹی بائیوٹکس (اینٹی یعنی برعکس، بائیوٹک یعنی زندگی) یعنی برے جراثوموں کی زندگی ختم کر دینے کی ادویات کے بجائے پروبائیوٹکس (پرو یعنی زندگی کی ہمنوا) یعنی قدرتی جراثوموں کی زندگی بچانے والی ادویات کا نام عام ہوتا جا رہا ہے۔
یہ پروبائیوٹک عناصر عام گھریلو اشیاء جیسا کہ دہی، لسی، کچھ خاص قسم کی پنیر، سرکہ سے تیار شدہ سبزیوں کے اچار اور اصل چاکلیٹ میں قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں۔ اور یہ آپ کے مدافعتی نظام کو خوب تگڑا رکھتے ہیں۔
بالخصوص جن کا ذکر ہم نے کیا، یہ غذائیں آپ کے معدہ میں موجود حفاظتی جرثوموں کے دوست ہوتے ہیں اور آج آدھی سے زیادہ بیماریاں معدہ سے ہی جنم لے رہی ہیں۔
تو کوشش کیجئے کہ ان اجزا میں سے کچھ کی تھوڑی مقدار اپنے روزمرہ کھانوں میں ضرور شامل کر لیا کیجئے۔ تو خیر بات ہو رہی تھی ٹی بی کی تو یہ بات کیوں بیچ میں آگئی؟ وہ اس لیے کہ عام لوگ انفیکشن یا سوزش یا ورم اور علامتی بیماری یعنی مرض کا فرق نہیں سمجھتے۔ جبکہ اکثر بیماریاں بشمول ٹی بی کا مرض ان دونوں phases (مراحل) ،ان دونوں صورتوں میں رونما ہوتا ہے۔
ٹی بی کے مراحل
لیٹنٹ: انفیکشن وہ مرحلہ ہے جس میں جراثیم جسم میں داخل تو ہو گئے ہیں مگر بیماری کی علامتیں ابھی ظاہر نہیں ہوئیں کیونکہ مدافعتی نظام ان کے خلاف سرگرمِ عمل ہو گیا ہے اور اس مرحلے میں وہ جرثوموں پر بھاری ہے۔
البتہ اگلے مرحلے میں جب مدافعتی قوتوں کی جراثیم کے ساتھ لڑائی مزید شدت اختیار کرتی ہے تو اس سے ہونے والے خلیاتی نقصان یا کیمیکل خرابیاں بیماری کی علامات بن کر سامنے آتی ہیں۔
ٹی بی کی علامات اور منتقلی
ٹی بی کی علامات مخصوص بھی ہو سکتی ہیں اور عام بھی۔ مثلاً ٹی بی جسم کے کسی بھی حصے میں ہو سکتی ہے جیسا کہ دماغ، گردے، ریڑھ کی ہڈی اور رحم تک کو یہ جرثومہ بیماری لگا سکتا ہے اور بغیر علاج کے مریض جان سے ہاتھ تک دھو بیٹھتا ہے دماغ کی ٹی بی گردن توڑ بخار جیسی لگتی ہے، ریڑھ کی ہڈی کی ٹی بی کمردرد، رحم کی ٹی بی بانجھ پن یا ماہواری کے مسائل پیدا کرتی ہے، گردوں یا آنتوں کی ٹی بی سے پیٹ درد اور متاثرہ حصے کے مسائل بنتے ہیں مگر پھیپھڑوں کی ٹی بی سب سے عام ہے۔
اور پھیپھڑے متاثر ہونے کی صورت میں تین ہفتے تک مسلسل کھانسی اور بلغم کے ساتھ خون آنا تپ دق کی خاص علامتیں ہیں۔ وزن کم ہونا، راتوں کو پسینے آنا، کم حرارت کا لگاتار بخار رہنا، جسمانی تھکاوٹ، خود کو بیمار محسوس کرتے رہنا سب جسم میں ٹی بی کے جراثیم کی موجودگی کی عام علامات ہیں۔
ٹی بی ایک شحص سے دوسرے شحص کو منتقل ہو جانے والی یعنی متعدی (communicable) بیماری ہے۔ لہذا پھیپھڑوں کی ٹی بی سے متاثرہ شخص کے تھوکنے، کھانسنے، چھینکنے، بولنے، حتی کہ گانا گانے سے بھی جراثیم دوسرے لوگوں تک پھیل سکتا ہے اور یہ جرثومہ ہوا میں بھی کافی حد تک زندہ رہ سکتا ہے تو اگر کوئی شخص اس آلودہ ہوا میں سانس لے تو اسے بھی ٹی بی کا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔
البتہ اگر یہ جرثومہ کمزور ہو کر جسم میں داخل ہو تو سست قسم کی تپ دق کی سوزش ہوتی ہے۔ اس میں ٹی بی کے جراثیم جسم میں داخل تو ہو چکے ہیں مگر مدافعتی جنگ کی جیت ہوئی جس کی وجہ سے نہ تو علامت ظاہر ہوئی، نہ ہی یہ لوگ دوسروں کو جراثیم منتقل کر سکتے ہیں۔
البتہ جسم میں تواتر سے جاری اس جنگ کی کیفیت میں کسی دن ایسا نہ ہو کہ جراثیم کی فتح ہو اور بیماری ظاہر ہو جائے، اس لیے احتیاطی طور پر سست انفیکشن والے ان مریضوں کو بھی ٹی بی کی صرف ایک قسم کی دوا پورے چھے ماہ یا دو قسم کی ادویات کل تین ماہ تسلسل کے ساتھ دی جاتی ہیں۔ تاکہ جراثیم کو مکمل ختم کرنے میں مدافعتی نظام کی مدد ہو اور مستقبل میں ہونے والی بیماری کے مضر اثرات سے بچا جا سکے۔
تاہم جن لوگوں کو ٹی بی لاحق ہو جاتی ہے، ان میں چونکہ یہ جراثیم بہت تیزی سے بڑھ رہے ہوتے ہیں تو تعداد میں اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ سانس کی نالی کے راستے ہوا میں شامل ہو کے دوسرے لوگوں کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔
لہذا ان مریضوں کا فوری آئسولیشن یعنی الگ کر دینا اور علاج کرانا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ بصورتِ دیگر پورا گھرانہ ایک گروہ کی صورت بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے اور علاج نہ ہونے کی صورت میں اموات بھی ہوسکتی ہیں ۔
ٹی بی کے مریض کی طرف رویہ
اس بات کا ذکر کرنا انتہائی ضروری ہے کہ اگر ٹی بی کے مریض کے متعلق غم، خوف یا نفرت کا اظہار کیا جائے تو لوگ تشخیص کا ٹھپہ لگنے سے گھبرانے لگتے ہیں اور علامتیں ہوتے ہوئے بھی علاج تو دور کی بات ڈاکٹر کے پاس جانے سے بھی کترانے لگتے ہیں، یوں تشخیص اور علاج شروع ہونے تک مرض سنگین ہو چکا ہوتا ہے۔ بدنامی ڈاکٹر یا ادویات کے حصے میں آتی ہے۔
بعض صورتوں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ محلے کا محلہ اس کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ تو گزارش ہے کہ رحم دلی اور صبر کا مظاہرہ کیجیے۔ مشکوک شخص کو اچھے سے سمجھائیے۔ بیمار شخص کو گھر کی حدود کے باہر سے ہی سہی، مگر کچھ نہ کچھ انسانی تعلق اور حوصلہ افزائی یا امداد بھی ضرور پہنچائیے۔
ایسا کرنے سے ہی ایک صحت مند معاشرتی رجحان قائم ہوگا جس میں لوگ احتیاط کو علاج سے قبل اور جلد تشخیص کو بلاوجہ اموات پر ترجیح دیں گے۔ یہ بات بھی بتاتے چلیں کہ گھٹن زدہ کمرے میں قریباً بیس منٹ متاثرہ شخص کے قریب بیٹھا رہنا آپ کے اندر جراثومے کے داخلے کی شرح کو بڑھاتا ہے۔
اس لیے رسمی تعلق کو ایسے مریض اور ان کے خاندان کے لیے مشکل ہرگز نہ بنائیں بلکہ ان کے لیے آسانی کا ذریعہ بنیں۔
ٹی بی سے بچاؤ
ٹی بی کے خلاف مدافعتی ویکسین کا نام BCG ہے۔ گو کہ ترقی یافتہ ممالک میں اس کا استعمال ترک کردیا گیا ہے پھر بھی جن ملکوں میں ابھی بھی ٹی بی کے مریضوں کی خاطر خواہ شرح موجود ہے، وہاں اس کا استعمال بنیادی صحت کے حقوق کے طور پر حکومتی اداروں کی طرف سے کیا جاتا ہے۔
لہٰذا ہر نوزائیدہ بچے کو پیدائش کے 72 گھنٹے کے اندر ٹی بی کی ویکسین بازو کے اوپر والے حصے پر ضرور لگوائی جانی چاہیے۔ گو کہ یہ سو فیصد بیماری سے بچاؤ نہیں دیتی مگر جہاں تک ہو سکے اس سے بیماری میں کمی ضرور واقع ہوتی ہے۔ خاص کر شدید نوعیت کی بیماری بننے سے قریباً 80 فیصد بچاؤ واقع ہوا ہے۔
یہ ویکسین بیرون ممالک میں 35 سال سے کم عمر افراد کو صرف حسبِ ضرورت ہی دی جاتی ہے یعنی کہ اگر کوئی ٹی بی سے متاثرہ علاقے کی جانب سفر کر رہا ہے یا اس کا کوئی رشتے دار ان علاقوں سے ملنے آیا ہو تو ہی بچوں اور بڑوں کو بھی ویکسین لگوائی جائے گی۔ ایسی صورت میں آپ ان کو قبل از وقت آگاہ کر دیں تو اچھا رہے گا۔
اسی طرح بیرون ممالک کے وہ لوگ جو شعبہ صحت سے منسلک ہونے کی وجہ سے ٹی بی زدہ علاقوں میں جاتے ہیں، وہ بھی اگر 35 سال سے کم عمر ہیں تو ویکسین لگوا کر جاتے ہیں۔کیونکہ 35 سال سے زیادہ عمر کے افراد میں اس کی کارکردگی کچھ واضح نہیں۔ پاکستان، چین، روس، افریقہ، فلپین، انڈیا، بنگلہ دیش اور چند دوسرے ممالک میں یہ قومی ویکسین مہم کا حصہ ہیں اور ہر بچے کو ضرور لگوا لینا چاہیے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ویکسین لگانے کے بعد isolation یعنی علیحدگی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
ٹی بی کی جانچ کے ٹیسٹ
اگر آپ نے کسی ٹی بی کے مشکوک مریض کے ساتھ یعنی علامتوں والے مریض کے ساتھ خاطر خواہ وقت گزارا ہے یا آپ خود علامات ظاہر کر رہے ہیں تو دونوں ضرور اپنے ٹیسٹ کروا لیجئے۔
البتہ اگر آپ محض اس کے کسی ایسے رشتے دار سے ملے ہیں جس کو کوئی علامت نہیں تھی یعنی disese latent یا disese no یعنی بیماری نہیں ہے، تو پھر ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی گھر میں کسی ایک شخص کو ٹی بی ہوئی ہے تو ان کو دوسرے لوگوں سے الگ ہوکر اپنے ٹیسٹ اور حسبِ ضرورت علاج بھی کروا لینا چاہیے تاکہ پوری آبادی بیماری میں مبتلا نہ ہو۔
ٹی بی کے جانچ والے ٹیسٹوں کی دو اقسام ہوتی ہیں: جلد یا خون کا ٹیسٹ۔ جلد کا ٹیسٹ (Mantouxt test)کہلاتا ہے۔ اس ٹیسٹ میں ٹی بی کے کچھ کمزور شدہ جراثیم آپ کے بازو کی اندرونی جلد کی اوپری سطح پر انجکشن کے ذریعے داخل کیے جاتے ہیں اور 48 سے 72 گھنٹے کے بعد پیشہ ورانہ مہارت والا عملہ آکر دیکھ لیتا ہے کہ نتیجہ کیا ہے۔ یعنی جلد پر سرخی آئی یا نہیں اور اگر آئی ہے تو کس حد تک پھیلی ہے۔
ممکن ہے انجکشن کی جگہ پر معمولی سا کوئی پھوڑا یا چھوٹی سی پھنسی بھی بن جائے۔ یہ ٹیسٹ حاملہ عورتوں کے لیے ممنوع ہے۔
دوسرا طریقہ خون کا ٹیسٹ ہے جس میں مدافعتی نظام کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے کہ کتنے جراثیم موجود ہیں۔ اور ان کے مدِمقابل سفید خلیوں کی کارکردگی کیسی ہے۔ اگر یہ ٹیسٹ مثبت یعنی مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوں تو پھر آپ کی چھاتی کے ایکسرے اور بلغم کے اندر ٹی بی کے جراثیم کی موجودگی کی کھوج لگائی جاتی ہے۔
کسی ایک ٹیسٹ کے مثبت ہونے پر ٹی بی کی تشخیص ممکن نہیں بلکہ یہ دو سے تین ٹیسٹ کے موزانے اور مریض کے اندر موجود علامتوں کی روشنی میں ہی تشخیص کی جاتی ہے۔ بیماری کی شدید علامات موجود ہونے کی صورت میں Mantouxt test کے بجائے انہی علامتوں اور ایکسرے کی بنیاد پر تشخیص اور علاج کیا جاتا ہے۔
پھیپھڑوں کے علاوہ کسی جگہ کی ٹی بی ہو تو حسبِ ضرورت سی ٹی سکین، ایم آر آئی یا ریڑھ کی ہڈی کے پانی کا ٹیسٹ (Lumbar Puncture)کیا جاتا ہے۔
جسمانی حصوں کی ٹی بی کی تشخیص ہونے کی صورت میں اگر باقی گھر والوں کو علامتیں نہ ہوں تو ڈاکٹر سے مشاورت کر لیں کہ جانچ کے ٹیسٹوں کی ضرورت ہے کہ نہیں۔
ٹی بی کا علاج
ٹی بی قریبا نو ہزار سال پرانا مرض ہے اور 1882 تک خود یورپ اور امریکہ میں ہر سات میں سے ایک شخص ٹی بی کی وجہ سے فوت ہوتا تھا۔ البتہ اینٹی بایوٹک کی وجہ سے ایک انقلاب آیا اور انسانوں کی اوسط عمر میں کئی سال کا اضافہ ہوا۔
آج ٹی بی کے علاج میں تین سے چار قسم کی اینٹی بایوٹک ادویات چھے مہینے سے ایک سال تک کی مدت کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
یہ بات انتہائی قابلِ ذکر ہے کہ اگر دوائی لیتے لیتے اچانک بند کر دی جائے یا نسخے کے مطابق یا وقت کی پابندی کرکے دوا نہ لی جائے تو بیماری ٹھیک ہونے کے بجائے ڈھیٹ یعنی resistant ہو جاتی ہے اور مزید شدید نوعیت اختیار کر لیتی ہے۔
اس resistant TB کا علاج قدرے مشکل اور انتہائی طویل مدت (قریباً نو ماہ سے دو سال تک) کا ہوتا ہے اور علاج کے باوجود بھی جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل جانے یعنی malignant ہونے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔
چونکہ مدافعتی نظام کے مطابق جراثیم اپنی شکل بدل کر اور سخت جان ہو کر سامنے آجاتے ہیں تو ادویات کی مقدار بھی کئی گنا بڑھانا پڑتی ہے۔
نیز یہ بات بھی ذہن میں ہونی چاہیے کہ دوا لینے کے چند دنوں یا چند ہفتوں کے اندر ہی مریض بھلا چنگا محسوس کرنے لگتا ہے لیکن خون سے اور اعضاء کے اندر خلیوں سے جراثیم ختم کرنے میں ڈاکٹر کی تجویز کردہ مدت ہی لگے گی۔
ادویات کے تواتر اور علاج کی سہولت قائم کرنے کے لیے حکومت نے DOTS یعنی ڈائریکٹ آبزرویشن ٹریٹمنٹ سسٹم بھی شروع کر رکھا ہے، جس سے مریض اپنے علاج کرنے والے مرکز سے منسلک رہتا ہے اور اچانک سے اگر غائب ہو جائے تو اس ادارے کے لوگ اس کی تلاش کرتے اور جانچ کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ اور کوشش کرتے ہیں کہ مریض کو دوبارہ سے پروگرام میں ڈال کر اس کا علاج پھر سے جاری کیا جائے اور مکمل علاج کیا جائے۔
پھیپھڑوں کی ٹی بی کے برعکس جسمانی حصوں کی ٹی بی کی منتقلی دوسروں تک نہیں ہوتی۔ تاہم اکثر یہ پھیپھڑوں کی ٹی بی کے بعد ہی بنتی ہیں۔
اس لیے مزید تفصیلات کے لیے آپ کو اپنے ڈاکٹر سے ہی رجوع کرنا ہوگا۔ پھیپھڑوں کا مرض ہو بھی تو بھی ادویات شروع کرنے کے دو سے تین ہفتے کے اندر ہی جراثیم اتنا کمزور پڑ چکا ہوتا ہے کہ مریض پھر سے عام لوگوں میں اٹھ بیٹھ سکتا ہے۔
ٹی بی کے علاج کے مضر اثرات اور ان سے بچاؤ
ٹی بی کی ادویات کھانا ایک حوصلہ مندی کا کام ہے۔ کیونکہ یہ ادویات خاصی تلخ ہوتی ہیں تب ہی اس سخت جان جراثیم tuberculosis mycobacterium کا خاتمہ کر پاتی ہیں۔ البتہ ان کے کھاتے ہوئے اگر کبھی یرقان بنتا ہوا محسوس ہو، نظر دھندلائے، جلد پر کوئی داغ دھبے بننے لگیں، پیشاب کا رنگ شدید گاڑھا ہو، بخار، جسم یا جوڑوں کا درد رہنے لگے، بھوک خراب ہو جائے یا جی متلانے لگے یا کانوں میں بھنبھناہٹ یا پیٹ درد رہنے لگے تو ضرور اپنے ڈاکٹر یا DOTS سنٹر پر رابطہ کریں۔ علاج کے دوران تھوک/بلغم کے ٹیسٹ مقررہ مدت پر کیے جاتے ہیں جن سے علاج کی افادیت سے آگاہ رہنے میں مدد ملتی ہے۔
تاہم گھر پر تھوک یا بلغم والے استعمال شدہ رومال یا کپڑوں کو شاپر میں سختی سے بند کر کے پھینکیں۔ اچھی، متوازن غذا کھائیں جس میں چکنائی کم سے کم ہو۔ پروٹین کے حصول کے لیے ضروری نہیں کہ آپ گوشت ہی کھائیں بلکہ دیسی انڈے کی سفیدیاں، دالیں اور دلیہ، کالے اور سفید چنے اور مونگ پھلی بھی زیادہ پروٹین کی حامل غذائیں ہیں۔
ٹی بی کی ادویات لینے کے دوران مریض کو ان کا لازمی استعمال کرنا چاہیے۔ نیز تمام موسمی تازہ پھل، سبزیاں اور پانی کی مناسب مقدار بشمول اْن غذاؤں کے جن کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں، سب مریض کو جلد صحت یاب ہونے اور ادویات کے مضر اثرات سے بچاکے رکھنے میں خاص کردار ادا کرتے ہیں۔
حفاظتی تدابیر
ایک احتیاط صرف ٹی بی کے خاندان کے لیے نہیں بلکہ سب کے لیے یکساں ضروری ہے کہ گھر چھوٹا بھی ہے تو بھی ہواداری کا انتظام اور اہتمام خوب اچھے سے کریں۔ سردیاں ہوں یا گرمیاں، کھڑکیاں دروازے کھول کر ہوا اور روشنی کو گھر میں آنے کا موقع دیں۔
فالتو چیزوں سے جلد چھٹکارا حاصل کیا کریں۔ گیلاہٹ اور پھپھوندی وغیرہ کا خاتمہ اور سیم زدہ دیواروں پر چونا مل دیا کریں۔ مدافعتی کمزور افراد جن کو ایڈز، شوگر،گردوں کے مسائل یا اعضا کی پیوندکاری اور اس سے متعلقہ مسائل اور سب سے بڑھ کر غربت جس کی وجہ سے تنگ رہائش اور غذائی کمی ٹی بی کی افزائش اور پھیلاؤ کا باعث بنتی ہے۔
نیز منشیات کے عادی افراد بھی اس کا آسانی سے شکار بن جاتے ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو توفیق دیں کہ ہم ٹی بی سے بچاؤ، جلد تشخیص سے علاج اور مریض اور اس کے اہل و عیال سے ہمدردی کے اہم اقدام خود سمجھیں اور دوسروں کو سمجھائیں ۔
(ڈاکٹر سدرہ مبین، پیشے کے اعتبار سے ماہر امراض زچہ بچہ و پوشیدہ امراض ہیں۔ Preventive میڈیسن ان کی دلچسپی کا اہم موضوع ہے جس میں کسی بھی مرض کو بننے سے پہلے ہی روکنے کی حفاظتی تدابیر کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے۔
نیز آپ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) خواتین ونگ کی شعبہ عوامی آگاہی ٹیم کا حصہ ہیں۔)
The post تپ دق کی تشخیص، احتیاط اور علاج appeared first on ایکسپریس اردو.