کراچی: بعض موضوعات ایسے ہوتے ہیں کہ بہ یک وقت بحث وتمحیص،تنازُع (تنازِعہ غلط) اور تحقیق ورَدّ تحقیق کا باعث ہوتے ہیں۔اردو کا پنجابی سے تعلق اور پنجاب میں اردو کی ابتداء کے موضوع پر ہمارے فضلائے لسان (یعنی زبان کے بڑے بڑے عالم فاضل) بالتحقیق لکھ لکھ کر گویا ’قلم توڑچکے ہیں‘، مگر یہ خاکسار جب ایسے کسی موضوع پر خامہ فرسائی کرتا ہے توپیش نظر یہ ہوتا ہے کہ عام قارئین ہو ں یا ادبی قارئین، حتیٰ کہ اہل قلم (بلا امتیاز مقام وشہرت)، عموماً ایسی کسی بھی تحقیق پر مبنی کوئی کتاب پڑھے بغیر ہی سنی سنائی اور اندازے پر مبنی باتوں سے کوئی نظریہ اختیار کرلیتے ہیں اور اکثر ایسا کوئی نظریہ، متشدد لسانی تعصب پر مبنی ہوتا ہے۔
شدت پسندی ہمارے معاشرے کا ناسور ہے جو لسانی تحقیق اور لسانی مباحث میں بھی کارفرما ہے، اس پر مستزاد ہمارے شاعر،ادیب، صحافی،محققین کا رَوےّہ کہ ”بس! مستند ہے میرا فرمایا ہوا“۔اردو کی ابتداء کب،کہاں اور کیسے کے موضوع پر اولین تحقیق، ”دکن میں اردو“ کے نام سے پروفیسر نصیر الدین ہاشمی کے قلم سے 1922ء میں منصہ شہود پر آئی، اس کے متعدد ایڈیشن شایع ہوئے اور مرحوم کی وفات (1964)سے ایک سال قبل تک اس میں توسیع ہوتی رہی۔
کہا جاتا ہے کہ علامہ اقبال نے اس کتاب کے مؤلف کی مساعی کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ پنجاب میں بھی کچھ پرانا مصالحہ موجود ہے، نیز علامہ نے اس کی تحقیق کا عمومی مشورہ بھی محققین کو دیا تھا، جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے،”پنجاب میں اردو‘‘ کے نام سے1928ء میں منظر عام پر آئی، جس کے محقق ومؤلف پروفیسر حافظ محمود شیرانی (1880ء تا 1946ء) تھے، اور پھر اس موضوع کی پرتیں کھُلتی گئیں تو حیدرآبادسمیت پورے دکن(بشمول کرناٹک،مدراس)،گجرات وملحق علاقہ جات مثلاً جوناگڑھ و متصل ریاستیں،یوپی، مراٹھی کے دیس مہاراشٹر، بِہار، بنگال،(نیزکسی حدتک آسام و اُڑیسہ)،مدھیہ پردیش (سابق سی پی)،راجستھان،جموں و کشمیر،سندھ،سرحد (موجودہ خیبر پختون خوا)اور بلوچستان میں اردو کی جڑیں تلاش کی گئیں۔
اس ضمن میں زبانوں کی فرداً فرداً بات کی جائے تو ابھی تک اردو کی تشکیل کے ضمن میں بطور معاون وشریک کئی زبانوں اور بولیوں کے کردار کے متعلق تحقیق ہنوز باقی ہے۔علاقوں اور مابعد خطے کے آزاد ملک بننے والے مقامات کی بات کریں تو برما (موجودہ میاں مار)،سیلون یا سیلان (قدیم سراندیپ، موجودہ سری لنکا) اور ہندوستان کے بعض کم معروف دورافتادہ مقامات،نیز لداخ و تبت، گلگت،،بلتستان، چترال، وادی سوات، کاغان ودیگر قریبی علاقہ جات سمیت ابھی کئی مقامات ِ تحقیق باقی ہیں۔
ڈاکٹر سہیل بخاری، عین الحق فرید کوٹی اور ڈاکٹر وزیر آغا سمیت (جمہور کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے)، اردو کو دراوڑی خاندان کی زبان قرار دینے والے اہل علم نے اس کا رشتہ براہوئی اور تَمل سے دریافت کیا،ورنہ آج بھی اکثریت اسے آریہ /آریا گھرانے سے وابستہ سمجھتی ہے اور یہ خاکسار اپنی ناقص رائے کا بہت پہلے ہی اظہار کرچکا ہے کہ یہ منفرد عالمی زبان بہ یک وقت، آریہ بھی ہے اور دراوڑ بھی، مگر اپنی اصل میں خالص ہندوستانی ہے۔
اس حقیقت کے پیش نظر کہ دیگر زبانوں کی طرح پنجابی اور اہل پنجاب کا اردو کی تشکیل میں بنیادی یا کلیدی کرداراداکرنے کا دعویٰ بھی بہ آسانی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور یہ کہ بقول سلیم یزدانی مرحوم، پنجابی کی سب سے بڑی خوبی سادگی وبے ساختگی ہے کیونکہ یہ سادہ لوح اور سادہ مزاج عوام کی زبان تھی۔
تو ظاہر ہے کہ ایسی کسی زبان کا دوسری ترقی پذیر زبان سے میل ملاپ فطری امر ہے۔ تاریخی مباحث بہرحال اپنی جگہ ہیں کہ زبان کا ابتدائی ارتقائی عمل کب اور کس عہد میں ہونا اصحح (زیادہ صحیح) مانا جائے۔ یہ بات گِرہ میں باندھ لی جائے تو بہتر ہے کہ بطور زبان، پنجابی، اردو سے قدرے بزرگ ہے اور ہم اسے ’بڑی بہن‘ کا درجہ دیتے ہیں، مگر دونوں زبانوں کے بولی سے زبان بننے کے عمل میں ان کے دھارے تقریباً ساتھ ساتھ بہے ہیں۔
قارئین کرام! یاد رکھیں کہ بطور ِ خاص اردو زبان کی اس خطے میں پیدائش،ارتقاء اور فروغ میں صوفیہ کرام، تُجّار بشمول اہلِ صنعت وحِرفَت اور عوام النّاس کا کلیدی کردار بہت زیادہ نمایاں اور مستحسن ہے، پھر باری آتی ہے مختلف علاقوں کے شاہوں، راجوں، مہاراجوں،نوابین اور رؤساء کی، جنھو ں نے اس زبان کی اہمیت کے پیش نظر اس کی سرپرستی کی۔
اسی پس منظر میں اگر انگریز یا دیگر غیرملکیوں کا اردو سے التفات اور اس پر نوازشات کا باب دیکھا جائے تو اِسے ہرگز کسی لسانی تعصب کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ یہ بات پھر دُہراتا ہوں کہ اردو ہی نہیں، متعدد مقامی زبانوں کے فروغ میں انگریز سرکارکا حصہ رہا، اس لیے تاریخ سے ناواقف لوگوں کا اردو کو طعنہ دینا بالکل جائز نہیں!
پرفیسرحافظ محمود شیرانی نے مختلف تاریخی ولسانی شہادتوں کی روشنی میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ اردو کی جنم بھومی پنجاب ہے۔ انھوں نے لکھا : ”اردو اپنی صرف و نحو میں پنجابی و ملتانی کے بہت قریب ہے۔ دونوں میں اسماء و افعال کے خاتمے میں الف آتا ہے اور دونوں میں جمع کا طریقہ مشترک ہے یہاں تک کہ دونوں میں جمع کے جملوں میں نہ صرف جملوں کے اہم اجزاء بلکہ ان کے توابعات و ملحقات پر بھی ایک باقاعدہ جاری ہے۔
دنوں زبانیں تذکیر و تانیث کے قواعد، افعال مرکبہ و توبع میں متحد ہیں پنجابی اور اردو میں ساٹھ فی صدی سے زیادہ الفاظ مشترک ہیں۔“ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ انھوں نے پنجابی کے ساتھ ملتانی کہا، یعنی وہ ملتانی/سرائیکی کو جدا زبان سمجھتے تھے۔ اب اگرشیرانی مرحوم کی تحقیق کا جائزہ لیں تو بقول شخصے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ واقعی اردو اپنی ہیئت ساخت اور صرف و نحو کی خصوصیات کی بنا پر پنجابی سے قریب تر ہے، ان تکنیکی بنیادوں پر:
1۔ اردو اور پنجابی میں تذکیر و تانیث کے قواعد یکساں ہیں۔ مثلاً اکثر الفاظ جو الف پر ختم ہوں اگر ان کی تانیث کرنی مقصود ہو تو ”الف“کو ”ی“ میں بدل دیا جاتا ہے۔ مثلاً بکرا، بکری۔ گھوڑا، گھوڑی۔ کالا، کالی وغیرہ
2۔ مصدر کا قاعدہ بھی دونوں زبانوں میں یکساں ہے۔ یعنی فعل امر کے آخر میں ”نا“ کے اضافے سے مصدر بنایا جاتا ہے۔
3۔ فعل تذکیر و تانیث دونوں میں اپنے فاعل کی حالت کے مطابق آتا ہے۔ مثلاً گھوڑی آئی (اردو) کوڑی آئی (پنجابی) لڑکا آیا (اردو) منڈا آیا (پنجابی)
4۔ فعل لازم سے فعل متعدی بنانے کے قاعدے بھی دونوں زبانوں میں یکساں ہیں جیسے سیکھنا سے سکھانا (اردو)، سکھنا سے سکھانا (پنجابی) بیٹھنا سے بٹھانا (اردو) اور بہنا سے بہانا (پنجابی) اس کے علاوہ ماضی مطلق، ماضی احتمالی شکیّہ، مضارع، مستقبل کے اصول، مضارع، امر کے قاعدے، معروف و مجہول، دعائیہ، ندائیہ کے اصول و ضوابط دونوں زبانوں میں یکساں ہیں۔
پنجاب میں اردو کی ابتداء کے نقوش تلاش کرتے ہوئے کوئی بھی محقق صوفیہ کرام علی الخصوص بابا فرید الدین مسعود گنج شکر/شکر گنج(4 اپریل 1173 ء تا 7 مئی1266ء) کے حیرت انگیز، متنوع لسانی کردار کو نظر انداز نہیں کرسکتا جو بہ یک وقت اردو،پنجابی،سرائیکی اور بقول کسے، ہندکو کے بھی اولین شاعر تھے، فارسی وعربی میں شعرگوئی اس پر مستزاد۔”
پنجابی شاعری میں مکررالوقوع نمونے“ کے مصنف جناب نجم الحسن سید نے باباصاحب کو پنجابی کا پہلا شاعر اور پنجابی شاعری کا سرَخَیل قرار دیا تو یہ رائے نقل کرتے ہوئے محترم سلیم یزدانی نے ’فکرِ فرید‘ میں برملا کہا کہ”بابافرید،اپنے بعد میں آنے والے پنجابی صوفی شعراء کے پیش رَوتھے اور اگر وہ یہ شعری ورثہ نہ چھوڑتے تو پنجابی زبان کی صوفیانہ شاعری اتنی وقیع نہ ہوتی جتنی آج تصورکی جاتی ہے“۔
نجم الحسن سید نے اُن کی شاعری کا مختصر،جامع تجزیہ کرتے ہوئے اسے سادہ، رواں اور ڈرامائی طور پر ’کفایت ِ لفظی‘ پرمبنی قراردیا۔ ان کے نزدیک بابا فرید کے کلام میں عصری وہمہ جہتی موضوعات کا تنوع موجود ہے۔ یہ بابا فرید کی زندہ کرامت ہی تو ہے کہ اَن پڑھ دیہی عوام کو بھی اُن کے کلام کا بڑا حصہ زبانی اَزبر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک اضافی خوبی یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہ کلام سکھوں میں بہت مقبول ہے۔
میں یہاں قصداً اس بحث سے گریز کررہا ہوں کہ گرنتھ صاحب میں شامل اشلوک اور دوہے، محض بابا فرید ہی کے ہیں یا اُن کے کلام میں بابا فرید ثانی کے کلام کی آمیزش ہے۔ چونکہ بیسویں صدی کے چھٹے دَہے سے قبل، ملتانی یا ریاستی کو سرائیکی کے نام سے الگ زبان کا درجہ دینے کی بات،تحقیق کی بنیاد پر نہیں ہوئی اور غالباً اس سے قبل، ہندکو کی جداگانہ حیثیت کی آواز بھی نہیں اٹھائی گئی اور پھر ماضی قریب میں پوٹھوہاری کی جداگانہ حیثیت کا پرچم بلند ہوا تواُس وقت تک یہ تمام زبانیں پرانی کتب کے مصنفین ومؤلفین ومرتبین کے نزدیک پنجابی ہی تھیں۔
یہاں ذرا توقف کیجئے گا، اردو کے ضمن میں ابھی تک معاملہ قطعی نہیں کہ مسعود سعد سلمان لاہوری (1046 ء تا 1121ء) کے بعد اور امیر خسرو (1253ء تا 1325 ء) سے پہلے، سب سے پہلے کس نے قدیم اردو میں شعر کہے، (ویسے تو بابا فرید اُن سے بہت بڑے تھے، لہٰذا ابتدائے سخن میں وہی خسروؔ کے پیش رو ہوئے،پھر شیخ شرف الدین یحیٰ مَنیری (1263ء تا 1370ء) تو بابا فرید سے بھی بڑے اور پہلے ہوئے، جبکہ شیخ حمیدالدین ناگوری (1193ء تا 1274ء)، شیخ بُوعلی قلندر (وفات: 1323ء) اور اِن تمام بزرگوں سے بھی پہلے خواجہ معین الدین چشتی اجمیری (1143ء تا1236ء) ہوگزرے ہیں)،کیونکہ خاکسار نے ”اردو اور راجستھان‘‘ کے موضوع پر زباں فہمی لکھتے ہوئے بھی ایک انکشاف کیا تھا، مگر ممکن ہے کہ زمانی ومکانی بُعد پر مزید تحقیق کریں تو کوئی اور نام بھی دریافت ہوجائے۔
یہاں ہم ایک اور حوالے سے بھی بات کریں گے۔ پیش نظر مواد، اس احمقانہ خیال یا قیاس کی تردید کرتا ہے کہ اردو شاید کوئی ایسی زبان ہے جو مہاجرین اپنے ساتھ خطہ ہند کے اس خطے میں لے کر آئے جسے پاکستان کہا جاتا ہے۔ ابھی اس موضوع کی کسی دوسری جہت کی طرف رجوع کرنے سے پہلے حمد ونعت و منقبت پر مبنی، عقیدت سے لبریز شاعری کی بات کرتے ہیں توجدید اردو کی ابتداء (متقدمین یعنی خان آرزوؔ اور میرؔ ودیگرکے عہد) میں ہمیں پورے پنجاب میں اور یہاں بطور ِ خاص منقول، جلال پور جٹّاں میں ایسے ایسے شاعر نظر آتے ہیں جنھیں اردو اور پنجابی کے باہمی تعلق اور ایک دوسرے سے استفادہ کرنے کے ضمن میں یقینا وقعت حاصل ہوئی۔
ہمیں دردؔ اور میرؔ کے ہم عصرشاعر،جان محمد (وفات: 1200ھ مطابق 1785ء تخمیناً) نامی شاعر کا ذکر ملتا ہے جن کی مناجات کا ایک شعر ہے:
رحیما، کریما بہرِ رسول (ﷺ)
مِرے عیب گُنہ کا نہیں انت مول
(ان کا اور خواجہ میردردؔ کا سن وفات بھی ایک ہے)۔ میرے خیال میں اس قسم کے کلام میں عروضی اسقام کی موجودگی عین ممکن ہے، مگر اِس کی
اہمیت قدیم ہونے کی وجہ سے مسَلّم ہے کہ اُس دورمیں جب یو۔پی اور دکن میں گیسوئے اردو بکھر بکھر کر ایک عالَم کو متأثر کررہے تھے، تواُن کے گرہ گیر، اہل پنجاب بھی تھے۔ یہ بات بہرحال یاد رکھنے کی ہے کہ دِلّی بھی پنجاب کی توسیع کا ایک حصہ تھا، جس کی یادگار ’دہلی پنجابی سوداگران‘ جیسی برادری آج بھی زندہ ہے۔
کم وبیش اُسی دور میں احمد یار مرالے والے (1767ء تا 1845ء)جیسا اہم شاعر ہو گزرا ہے جس نے ”معجزہ ئ فاختہ“ نامی کتاب یادگار چھوڑی اور پنجابی، فارسی، اردو اور ہندی میں کلام۔اُن کے خُرد معاصر خواجہ ثناء اللہ (1809ء تا 1880ء)فارسی، عربی، ترکی، اردو،پنجابی اور کشمیری کے سخنور تھے،ایک سو دو(102)کتب کے مصنف، ”پیرِ خرابات“ کے لقب سے ملقب تھے۔اُن کا نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیں:
مِری طاق دل اوپر جس صنم کا ماہِ تاباں ہے
اوسی (اُسی)کے نور سے ہر ذرّہ میرا پرتوِ اَفشاں ہے
یہا ں آپ کو بہ یک وقت دِلّی اور دکن کے قدیم شعراء یاد آسکتے ہیں، اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردو،قدیم سے جدید ہورہی تھی، بولی ٹھولی سے زبان بننے کے عمل سے گزررہی تھی تو پنجاب میں، (بلکہ سندھ، سرحد اور بلوچستان میں بھی) شاعر یکساں یا مماثل الفا ظ یا اُن کا تلفظ برت رہے تھے۔
تیرہویں صدی ہجری کے نصف اول میں (یعنی کم وبیش دوسوبرس پہلے)پنجابی،اردواورفارسی کے شاعر غلام قادر جلال پوریہ بھی ممتاز ہوئے،پھر چتر داس صوری مہنت کا نام اس لحاظ سے منفرد ہے کہ انھوں نے پنجابی کے ساتھ ساتھ اردو میں شاعری کی، قصہ پورن بھگت کو ”پورن بھنڈار“کے نام سے منظوم کرکے پیش کیا۔
چتر داس کا شعر ہے:
اگر تُو ذاتِ واحد کو جُدا جانے گا اپنے سے
تو بڑھتا جائے گا یہ اُلٹا معاملہ تیرا
کہیے کیا دلّی ودکن سے قریب تر نہیں؟
اسی فہرست میں ایک نام پیرظہورشاہ قادری (1882ء تا 1954ء) کا ہے جنھوں نے پنجابی کے ساتھ ساتھ اردو سخن میں نام کمایا اور نسیم ؔ اور عاجزؔ تخلص کیا۔اُن کا شعر دیکھیے:
تھی عاجزؔ کی بخشش بہت غیرممکن
مگر تُو نے بخشالیا کملی والے
یہاں ’بخشانا‘ پر غورفرمائیں، ہمارے یہاں تو رائج ہے، مگر شاید بہت سے’اردو گو‘ گھرانوں میں اب متروک ہے۔ہم تو گفتگو میں سنتے ہیں کہ ”آپ تو گویا بخشے بخشائے ہیں نا؟؟“ (طنز)
(بحوالہ ’نعت رسول مقبول اور شعرائے جلال پور جٹّاں از شاکر کنڈان، مطبوعہ کتابی سلسلہ نعت رنگ، شمارہ نمبر ہشتم بابت ستمبر 1999ء)
(جاری)
The post زباں فہمی 180؛ اردوکا پنجابی سے تعلق (پہلا حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.