ہر سال 8 مارچ کو دنیا بھر خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد خواتین کی اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنا، ان کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے موجودہ صورتحال کا جائزہ لینا اور مستقبل کے مسائل و حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنا ہے۔
اس اہم دن کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر عنبرین صلاح الدین
(اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ جینڈر سٹڈیز جامعہ پنجاب)
بدقسمتی سے ہم مثبت کے بجائے منفی سمت میں چلے گئے ہیں، تعلیم اور تربیت الگ الگ ہوگئے، تربیت غائب ہوگئی، ہم نے ہر مسئلے کو حساس بنا دیا، مکالمے کو ختم کر دیا، خواتین کیلئے جگہ تنگ کر دی اور معاشرے کو گھٹن زدہ بنا دیا۔
افسوس ہے کہ سیاسی عمل میں حائل رکاوٹوں کی وجہ سے ہمارا نظام نشونما نہیں پاسکا، ہم معاشرتی تعمیر کی جانب نہیں بڑھ سکے۔ بعض پہلوؤں پر کام ہوا مگر اس کا بھی تسلسل برقرار نہیں رہا جس کے باعث آج حالات سنگین ہوچکے ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے قانون آیا مگر اس پر عملدآمد کے مسائل ہیں۔ افسوس ہے کہ ہم وہ میکنزم ہی نہیں بنا سکے جو مجرم کو سزا دے۔ اس میں ہمارے نظام، سوچ، رویوں اور مجموعی طور پر سماج کا مسئلہ ہے۔ ہمارے گھروں میں لڑکے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، ایسے امتیازی رویے معاشرے میں جھلکتے ہیں جس کی وجہ سے مسائل سنگین ہوتے جا رہے ہیں ۔
یہ رویے سیاسی جماعتوں میں بھی نظر آتے ہیں، انتخابات میں خواتین کو 5 فیصد ٹکٹ دینے کا قانون ہونے کے باوجود مسائل ہیں، انہیں لیڈنگ رول نہیں دیاجاتا۔ افسوس ہے کہ خواتین خود بھی فرسودہ نظام کو فروغ دے رہی ہیں، لڑکے کو زیادہ اہمیت دے کر، لڑکی سے امتیازی سلوک رکھ کر، اس کے حقوق صلب کرکے مسائل کو بڑھاوا دے رہی ہیں، خواتین کو خود اس رویے پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے، انہیں گھر سے تربیت کا انداز بدل کر آنے والی نسلوں کیلئے ملک کو بہتر بنانا چاہیے۔
گھریلو تشدد، صحت اور تعلیم، خواتین کے بڑے مسائل ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ حکومتوں کی اس حوالے سے کیا ترجیحات رہی ہیں۔ اس پر سوائے افسوس کے ہمیں کچھ نظر نہیں آتا۔ خواتین گھر اور باہر، بدترین تشدد کا شکار ہو رہی ہیں، صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
تعلیم کے حصول کیلئے طالبات کو آمد و رفت کے مسائل درپیش ہیں۔ لڑکیوںکو روایتی کورسز میں داخل کروایا جاتا ہے جبکہ STEM، سپیس سائنسز جیسے شعبوں میں طالبات کی تعداد کم ہے، ہمارے رویوں کی وجہ سے خواتین اور لڑکیوں کا استحصال ہو رہا ہے۔
خواتین کو اپنے جن حقوق کا علم ہے،انہیں اس کے حصول میں بھی مسئلہ ہے، سائبر اور ڈیجیٹل دنیا کی بات تو بعد میں آتی ہے۔ ریاست کو اپنا درست کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، اگر خواتین کو صحیح معنوں میں ایمپاور نہ کیا گیا، ان کے حقوق نہ دیے گئے، ان سے امتیازی سلوک رکھا گیا، ان کا استحصال کیا گیا تو ملک ترقی نہیں کر سکے گا۔ ریاست سمیت سب کو اپنے رویے تبدیل کرنا ہونگے۔
بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی)
عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک، تشدد و دیگر مسائل صرف پاکستان میں ہی نہیں ،دنیا کے دیگر ممالک میں بھی خواتین کو یہ چیلنجز درپیش ہیں۔ خواتین کے ساتھ امتیازی رویہ عالمی مسئلہ ہے جس پر بعض ممالک نے قابو پالیا ہے جبکہ بیشتر میں تاحال مسائل سنگین ہیں۔ جن ممالک نے خواتین کے حوالے سے چیلنجز کو دور کر لیا وہ رول ماڈل ہیں، ان سے سیکھنے اور اپنے حالات کے لحاظ سے پالیسیاں بنا کر عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
ہمارے ہاں خواتین کو درپیش مسائل کی تاریخ صدیوں پرانی ہے، ان کے ساتھ ہونے والے امتیازی رویوں کی جڑیں مضبوط ہوچکی ہیں اور ایسے مختلف سٹرکچرز موجود ہیں جنہیں ٹھیک کرنا خود ایک بڑا چیلنج ہے۔
ہمارے ہاں سوشل ایمپاورمنٹ پر جو کام ہو رہا ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے،اگرچہ اس سے کچھ نہ کچھ فرق تو پڑ رہا ہے لیکن اگر مسائل کی شدت دیکھیں تو یہ کام کچھ بھی نہیں ہے۔ میرے نزدیک خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے آئینی، قانونی اور سماجی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں سوچ، نظریات اور رویوں میں ایسی تبدیلی لانی ہے جو اداروں، گھروں اور معاشرے میں نظر آئے، صرف اس صورت میں ہی خواتین کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
خواتین کی جدوجہد کی بات کریں تو امریکا میں فیکٹری ورکرز خود باہر آئی، اپنے حقوق کا مطالبہ کیا، ان کے ساتھ ظلم و ستم ہوا مگر ان کی جدوجہد بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی۔ وہاں مسائل آج بھی ہیں مگر ماضی کی نسبت صورتحال بہت بہتر ہے۔
جن ممالک اور خطوں میں طاقتور حلقے موجود ہیں اور ان میں مرد زیادہ بااختیار ہیں وہاں آج بھی خواتین کے مسائل سنگین ہیں، جب تک امتیازی سلوک والے سٹرکچرز کو جڑ سے نہیں اکھاڑا جائے گا تب تک مسائل رہیں گے۔
خواتین کو گھر میں تشدد کا سامنا ہے، عورت کو کمتر سمجھا جاتا ہے، ملازمت میں خواتین کی کم تنخواہ، ہراسمنٹ و دیگر مسائل ہیں، سماجی رویے بھی امتیازی ہیں، ہم نے عورت کے کردار کو گھر تک محدود کر دیا ہے جو افسوسناک ہے۔
عورت کی حالت کو گھر سے بہتر کرکے، اسے معاشی دھارے میں لانا چاہیے، اچھی زندگی اور اپنی خواہشات کی تکمیل عورت کا حق ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین کو آمد و رفت‘تنخواہ اور دوران زچگی چھٹیوں کا مسئلہ ہے، جینڈر فرینڈلی ماحول کا نہ ہونا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں آج بھی جاگیردارانہ نظام ہے۔ وہی پرانی سوچ ہمارے نظام میں کارفرما ہے۔
اس فرسودہ نظام میں تبدیلی کیلئے ہماری ریاست کو سوچنا ہوگا، وہ ادارے جو قوم کی رائے سازی کرتے ہیں انہیں بڑے پیمانے پر ٹھوس اقدامات کے ذریعے تبدیلی لانے پر کام کرنا چاہیے۔ خواتین کے حقوق کا مسئلہ دائمی ہے، اس کی سنگینی کو سمجھتے اور مضبوط جڑوں کو دیکھتے ہوئے، بڑے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
افسوس ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں مردوں کی اجارہ داری ہے۔ وہاں بھی امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے، فیصلہ ساز عہدوں پر خواتین موجود ہی نہیں جس کے باعث ان کی آواز دب جاتی ہے۔ ہمیں عورتوں کو امتیازی رویوں سے بچانے کیلئے بڑے فیصلے کرنا ہونگے۔ رواں برس خواتین کے عالمی دن کا موضوع ڈیجیٹل دنیا میں صنفی برابری کے حوالے سے ہے۔
پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو ڈیجیٹلائزیشن کے دور میں ہمارے وہی پرانے رویے ڈیجیٹل دنیا میں منتقل ہوگئے ہیں جو افسوسناک ہے۔ خواتین کے ساتھ جو کچھ حقیقی دنیا میں کیا جاتا تھا وہی ڈیجیٹل دنیا میں ہو رہا ہے، وہاں خواتین کے ساتھ انتہائی نارروا سلوک کیا جا رہا ہے، کمنٹس میں انہیں ہراساں کیا جاتا ہے، جس طرح سڑکوں، گلیوں میں لڑکیو ں کا پیچھا کیا جاتا تھا، اسی طرح سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر انہیں فالو کیا جا رہا ہے جو افسوسناک ہے۔
ڈیجیٹل ورلڈ میں ہمارے ہاں خواتین کیلئے جگہ بھی کم ہے، ان پر خاندان کی سطح سے ہی مختلف قسم کی پابندیاں لگائی گئی ہیں، اظہار رائے کا حق چھینا جا رہا ہے، ہمیں اپنے نظام کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ افسوس ہے کہ ہم انسان ہوتے ہوئے اپنے برابر حقوق کا مطالبہ نہیں کر پا رہے۔ نامسائد حالات اور مشکلات کے باجود خواتین اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں جس سے دنیا کو یہ پیغام جا رہا ہے کہ پاکستانی عورت خاموش نہیں ہے بلکہ اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانا اور بھرپور جدوجہد کرنا جانتی ہے۔
اس خواتین کے عالمی دن کے موقع پر میں خصوصی طور پر خواتین ورکرز کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں جو مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں، ان کے لیے گھر، کام کی جگہ، پبلک مقامات و دیگر جگہیں محفوظ بنانی چاہیے۔
ریاست کو معلوم ہے کہ کہاں کہاں فیکٹریاں موجود ہیں اور کہاں خواتین کام کر رہی ہیں لہٰذا ان تمام فیکٹریوں کو وویمن فرینڈلی بنایا جائے۔ خواتین کی معاشرے میں دوہری ذمہ داریاں ہیں، گھر بھی اور ملازمت بھی۔ گھر ان کیلئے سکون کی جگہ ہے، خواتین کے گھر ٹوٹنے نہیں چاہیے، ریاست اس میں کردار ادا کرے، گھر کی چار دیواری میں بھی انہیں تحفظ فراہم کرے، خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
زینب درانی
(نمائندہ سول سوسائٹی)
دنیا بھر میں جینڈر کے مسائل ایک بڑا چیلنج ہیں کیونکہ ان کا سامنا روزمرہ زندگی میں ہر موقع پر کرنا پڑتا ہے، اس میں معاشرتی رویوں اور اقدار کا بہت عمل دخل ہوتا ہے، قوانین بھی اس میں اہم ہوتے ہیں اور مجموعی طور پر ریاست کا طرز عمل اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
اب ڈیجیٹل دنیا ہے، سمارٹ فونز کی وجہ سے انٹرنیٹ کا استعمال بڑھ گیا ہے، لوگوں کی زندگی میں انٹرنیٹ نے اہمیت اختیار کر لی ہے اور اب ہر گھر میں تقریباََ ہر فرد کسی نہ کسی طرح انٹرنیٹ سے وابستہ ہوتا ہے، جن کے پاس ذاتی فون نہیں وہ کسی دوسرے کے فون سے یا تو خود انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں یا پھر اسی کے اکاؤنٹس سے ہی شیئرنگ کرتے ہیں۔
ڈیجیٹلائزیشن کے بعد اب ہمارے پاس دو طرح کی دنیا ہے،ایک حقیقی دنیا اور ایک ڈیجیٹل دنیا۔ حقیقی دنیا تو صدیوں سے موجود ہے جس میں خواتین کا بدترین استحصال ہو رہا ہے، ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے، ان کیلئے سپیس کم ہے اور ان کی آواز کو دبایا جاتا ہے۔ بدقستی سے یہی مسائل ڈیجیٹل دنیا میں منتقل ہوگئے جن کے باعث خواتین کو وہاں بھی بدترین مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آن لائن دنیا میں تنگ کرنا حقیقی دنیا کی نسبت آسان ہے۔
انٹرنیٹ پر لوگ اپنی شناخت چھپا کر کسی کو بھی تنگ کرتے ہیں، ہراساں کرتے ہیں، آن لائن سٹالکنگ کرتے ہیں، کمنٹس میں تضحیک کی جاتی ہے۔ یہ وہ افسوسناک رویے ہیں جن کا سامنا خواتین کو ڈیجیٹل دنیا میں ہو رہاہے۔ ہمارے ہاں ہر چھوٹے مسئلے کے لیے بھی قانون موجود ہے مگر عملدرآمد کا مسئلہ ہے جس کے باعث حالات تاحال سازگار نہیں ہوسکے۔ 2016ء میں سائبر کرائم ایکٹ آیا مگر ابھی تک لوگوں کو اس کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس حوالے سے جس وسیع پیمانے پر کام ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں ہوا۔ لوگوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا، انہیں آگاہی نہیں دی گئی ۔ جب کسی کو اپنے حق اور اس سے متعلقہ قانون سازی کے بارے میں علم نہیں ہوگا وہ کس طرح اس سے فائدہ اٹھائے گا۔
جس طرح ترکی کے زلزلہ متاثرین کیلئے ہر فون کال کی ٹیون پر امدادی پیغام چلایا جا رہا ہے اسی طرح کچھ عرصہ کیلئے ہرفون کال پر سائبر کرائم ایکٹ کے بارے میں آگاہی پیغام چلایا جائے،ا س سے یقینا بہتری آئے گی۔
ہمارا ادارہ خواتین کو سائبر کرائم کے حوالے سے آگاہی دے رہا ہے، انہیں قانونی چارہ جوئی کیلئے معاونت بھی فراہم کرتا ہے، ہماری ہیلپ لائن موجود ہے جہاں سائبر ہراسمنٹ و آن لائن مسائل کے حوالے سے لوگوں کو رہنمائی دی جاتی ہے، انہیں ایف آئی اے و دیگر متعلقہ اداروں سے لنک کیا جاتا ہے۔ ہمیں خواتین کی کالز زیادہ موصول ہوتی ہیں، اکثر اوقات مرد بھی کال کرتے ہیں اور اپنی بہن، بیٹی یا عزیز کیلئے رہنمائی لیتے ہیں۔
خواتین کو آن لائن ہراسمنٹ، بلیک میلنگ وغیرہ کے ساتھ ساتھ دماغی صحت کے مسائل کا بھی سامنا ہے، ہم خواتین کو اس میں بھی رہنمائی دیتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ انہیں ڈیجیٹل سکیورٹی کے بارے میں بھی آگاہی دی جاتی ہے تاکہ وہ مسائل سے بچ سکیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ سائبر کرائم میں اضافہ ہو رہا ہے، جرائم کی رپورٹنگ کی صورت میں پولیس، ایف آئی اے و دیگر اداروں میں خواتین کو بعض اوقات امتیازی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے تدارک کیلئے کام کرنا ہوگا۔
The post خواتین کو معاشی و سماجی طور پر بااختیار بنانا ریاست کی ذمہ داری! appeared first on ایکسپریس اردو.