جن فلم بیں حضرات کو پرانی ہندوستانی فلموں سے دل چسپی ہے اور جنھوں نے ہدایت کار محبوب خان کی فلمیں دیکھی ہیں۔
انھیں یہ یاد ہوگا کہ محبوب کی فلم کی کاسٹ پردۂ سیمیں پر دکھانے سے پیش تر ان کے ادارے محبوب پکچرز کا Logo دکھانے کے بعد اداکار مراد کی گونجیلی آواز میں برق لکھنوی کا یہ شعر سنایا جاتا تھا:
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِخدا ہوتا ہے
آج ہم آپ کو انھی ہدایت کار محبوب خان کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں۔ محبوب خان 9 ستمبر 1907 کو رمضان خان کے گھر واقع بیلمورہ گجرات (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ محبوب خان کے گھر والے (آہن گری) لوہار کے پیشے سے منسلک تھے۔
خود وہ اور ان کے والد گھوڑوں کی سموں میں نعل لگایا کرتے تھے، ایسے ماحول میں تعلیم کی جانب کون توجہ دیتا ہے؟ لہٰذا محبوب خان واجبی سا پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ ان کے بیش تر دوست بھی انھی کی طرح ناخواندہ تھے۔
محبوب خان اپنے آبائی پیشے سے مطمئن نہ تھے۔ ان کے ایک دوست نے ایک دن محبوب سے کہا کہ یار! محبوب کیا تم زندگی بھر گھوڑوں کو نعل ہی ٹھونکتے رہو گے؟ جس پر انھوں نے جواب دیا کہ ہم اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟ جس پر محبوب نے کہا کہ کیا بمبئی میں ہمیں اچھے پیسے ملیں گے؟ ان کے دوست نے جواب دیا کہ ایسا ہی ہے۔ یوں دوسرے دن یہ دونوں دوست گھر والوں کو بتائے بغیر ٹرین سے بمبئی روانہ ہوگئے۔
دوسرے دن یہ دونوں دوست بمبئی پہنچ گئے، جہاں ان کا کوئی واقف کار تھا نہ کوئی رشتے دار۔ دو تین راتیں انھوں نے بمبئی کی فٹ پاتھوں پر گزاریں۔ تیسرے دن ان کی ملاقات ایک مہربان شخص سے ہوئی، جو بمبئی کے سنے ٹون فلم اسٹوڈیو میں چوکی دار تھا۔
ان دونوں دوستوں نے اسے اپنے بارے میں بتایا، یہ دونوں دوست لمبے چوڑے اور مضبوط نوجوان تھے، یہ شخص ان دونوں کو سنے ٹون فلم اسٹوڈیو لے گیا اور اسٹوڈیو کے مالک سے انھیں ملوا دیا، انھیں اتفاق سے ایک دو کیمرا قلیوں کی ضرورت تھی۔
دونوں کی جسمانی مضبوطی دیکھتے ہوئے اسٹوڈیو مالک نے انھیں مناسب تنخواہ پر ملازم رکھ لیا، جہاں دونوں نے کیمرا قلی کے طور پر کام شروع کر دیا۔
ان کے دوسرے دوست کے بارے میں ہم لاعلم ہیں لیکن خود محبوب نے اپنا کام بڑی محنت اور دل جمعی سے شروع کردیا۔ وہ بہت جلد کیمرا مینوں اور دیگر اسٹاف سے گھل مل گئے۔ اپنے فاضل وقت میں محبوب نے بلا معاوضہ وہاں کے ہدایت کاروں کو اسسٹ کرنا شروع کر دیا۔ یوں انھیں فلم میکنگ کے بارے میں ابتدائی معلومات حاصل ہوگئیں۔
فلم اسٹوڈیو کا مالک ایک فلم ساز بھی تھا۔ اس نے ایک ہدایت کار سے ایک فلم بنوائی جو بدقسمتی سے ناکام ہوگئی جس پر وہ فلم ساز بہت ناراض ہوا، اور وہ طنزاً کہنے لگا کہ تم سے اچھی فلم تو ہمارا یہ چھوکرا بھی بنا سکتا ہے۔
پھر اس نے محبوب سے مخاطب ہو کر کہا، کیوں چھوکرے تم اس سے اچھی فلم بنا سکتے ہو؟ جس پر محبوب نے ہاں میں اپنی گردن ہلا دی۔ اور یوں ایک پل میں محبوب کیمرا قلی سے ہدایت کار بن گئے (یاد رہے کہ اداکار بدر منیر بھی اداکار بننے سے پیش تر ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں کیمرا قلی ہوا کرتے تھے) اسٹوڈیو رومز اور فلم ساز نے مذاق کو حقیقت کا رنگ دیتے ہوئے فلم کی تیاری شروع کردی۔
محبوب خان کی یہ پہلی فلم الہلال عرف Judgement Of God تھی۔ یہ فلم صلیبی جنگوں کے پس منظر میں تھی، جس میں ہیروئن ایک عیسائی دوشیزہ اور ہیرو ایک مسلمان فوجی مجاہد تھا۔ اس فلم کے اداکاروں میں ستارہ، کمار، یعقوب اور آسوجی شامل تھے۔ ہدایات کار محبوب کی یہ پہلی فلم کام یاب ترین ثابت ہوئی۔ یہ فلم 1935 میں مکمل ہوئی۔
اپنی پہلی فلم کی کام یابی کے بعد محبوب نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا، محبوب کی دوسری فلم ’’عورت‘‘ تھی اور اس کی تکمیل کا سال 1937 تھا۔ محبوب کی تیسری فلم ’’روٹی‘‘ کے نام سے مکمل ہوئی۔ یہ فلم امیر اور غریب کے فرق اور امتیاز سے متعلق تھی اور اس میں حکومت وقت (انگریزوں کی حکومت) پر بہت زیادہ تنقید کی گئی تھی۔
لہٰذا محبوب کی تیسری فلم پر حکومت وقت نے پابندی لگا دی۔ روٹی کے بعد محبوب نے ایک تاریخی فلم ’’ہمایوں‘‘ بنائی جو بڑی کام یاب ثابت ہوئی۔ ہمایوں کی تکمیل کے بعد محبوب نے ایک فلم ’’پیسہ ہی پیسہ‘‘ کے نام سے بنائی، جو ناکام ثابت ہوئی۔
اس کے بعد محبوب نے ’’نجمہ‘‘ اور ’’تقدیر‘‘ نامی فلمیں بنائیں جو دونوں کام یاب رہیں۔ 1942 میں محبوب نے اپنی ایک نئی فلم ’’انوکھی ادا‘‘ کے نام سے شروع کی، جس میں معروف اداکار نسیم بانو (سائرہ بانو کی والدہ) کے علاوہ سریندر، پریم ادیب اور مراد نے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ یہ فلم بے انتہا کام یاب رہی۔
1945 میں محبوب نے ایک فلم ’’انمول گھڑی‘‘ بنائی جس میں نورجہاں، ثریا اور سریندر نے کام کیا تھا۔ محبوب کی یہ فلم کھڑکی توڑ کام یابی سے ہم کنار ہوئی۔
انمول گھڑی کی کام یابی کے بعد محبوب خان نے اپنی ایک ٹیم تشکیل دے لی تھی جو موسیقار نوشاد، نغمہ نگار شکیل بدایونی، کیمرا مین فریدون ایرانی، اداکار مراد اور مزاحیہ اداکار محمد عمر مقری پر مشتمل تھی۔ محبوب نے 1946 میں اپنی نئی فلم ’’اعلان‘‘ شروع کی جس میں منور سلطانہ، سریندر اور امالیہ والا نے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔
یہ ایک مسلم سوشل فلم تھی، لیکن 1947 میں نمائش کے لیے پیش ہونے والی یہ فلم تقسیم کے ہنگاموں کی وجہ سے کام یاب نہ ہوسکی۔ 1949 میں محبوب نے ایک نئی فلم ’’انداز‘‘ کے نام سے شروع کی جو 1950 میں نمائش کے لیے پیش ہوئی اس فلم کی کام یابی نے محبوب کی گذشتہ تمام فلموں کی کام یابی کے ریکارڈ توڑ دیے۔
اس فلم میں نرگس، دلیپ کمار، راج کپور کے علاوہ رقاصہ ککو نے بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ کہانی، ہدایت کاری، اداکاری اور موسیقی کے لحاظ سے یہ محبوب کی کام یاب ترین فلم ہے۔ اس فلم کی کام یابی کے بعد فلم بینوں نے محبوب خان کو ہدایت کار اعظم کا خطاب دیا۔
1951میں محبوب خان نے اپنی ایک نئی فلم ’’امر‘‘ کے نام سے شروع کی، جس میں مدھوبالا، دلیپ کمار اور نمی نے مرکزی کردار ادا کیے تھے، یہ فلم ایک نفسیاتی موضوع پر مبنی ہونے اور کمزور موسیقی کی وجہ سے ناکام رہی۔ انھوں نے 1952 میں اپنی ایک نئی فلم ’’آن‘‘ کے نام سے شروع کی جو ان کی پہلی مکمل رنگین فلم تھی۔
فلم کی کاسٹ میں دلیپ کمار، نمی، پریم ناتھ، مراد اور ایک نیا چہرہ نادرہ شامل تھے، محبوب کی یہ فلم بھی بے انتہا کام یاب رہی اور اس فلم کی نمائش بیک وقت کئی ملکوں میں کی گئی۔ اس فلم نے محبوب خان کو اتنا زیادہ نفع پہنچایا کہ انھوں نے اس پیسے سے اپنا ایک اسٹوڈیو تعمیر کروا لیا جو آج بھی محبوب اسٹوڈیو کے نام سے موجود ہے۔
اب محبوب فلم ساز و ہدایت کار کے علاوہ اسٹوڈیو اونر بھی بن گئے۔ دو سال کے وقفے کے بعد محبوب نے اپنی ایک نئی فلم ’’مدر انڈیا‘‘ کے نام سے شروع کی جس کی کاسٹ می نرگس، راج کمار، راجندر کمار اور سنیل دت شامل تھے۔
دراصل یہ فلم محبوب کی دوسری فلم ’’عورت‘‘ کا ری میک تھی۔ فلم کے موضوع کی مناسبت سے حکومت ہند نے اس فلم کا تفریحی ٹیکس معاف کردیا تھا جس کی وجہ سے محبوب کو بہت زیادہ مالی منافع ہوا، یہاں آپ کو یہ بات بتا چلوں کہ محبوب نے اپنی ابتدائی فلموں کی ہیروئن سردار اختر سے شادی کرلی تھی جن کی چھوٹی بہن بہار اختر بھی ایک اداکارہ ہوا کرتی تھیں اور جنہوں نے ایک دوسرے فلم ساز اور ہدایت کار کاردار سے شادی کی تھی، یہ دونوں صاحبان بھارت کے کام یاب ترین فلم ساز اور ہدایت کار تھے۔
محبوب کی آخری فلم ’’سن آف انڈیا‘‘ تھی جس میں ہالی وڈ کے ایک نو عمر اداکار ساجد نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ بدقسمتی سے محبوب کی یہ آخری فلم ناکام ثابت ہوئی، بعدازآں محبوب نے ساجد کو اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا تھا۔ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ محبوب خان اردو زبان کے حرف الف سے بہت متاثر تھے۔ انھوں نے اپنی بیش تر فلموں کے نام الف ہی سے رکھے تھے۔
60ء کی دہائی میں محبوب مسلسل بیمار رہے انھیں کئی عوارض نے گھیر لیا تھا، جس میں خاص طور سے ہائی بلڈ پریشر قابل ذکر ہے۔ 18 مئی 1964 کو دل کے ایک شدید دورے کے نتیجے میں محبوب انتقال کر گئے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے (آمین)
The post عظیم ہدایت کار۔۔۔۔ محبوب خان appeared first on ایکسپریس اردو.