کمر کس لیجیے۔ جنگ چھڑنے کو ہے۔ 32 ٹیمیں ٹکرائیں گی۔ گھمسان کا رن پڑے گا۔ 12 جون تا 13 جولائی؛ دنیا ایک ہیجان میں مبتلا رہے گی۔ محاذ سے خبروں کا تانتا بندھا رہے گا۔ کہیں خوشی کے شادیانے بجیں گے، کہیں صف ماتم بچھ جائے گی!
پریشان مت ہوں۔ اِس جنگ میں غم اور خوشی کے احساسات تو ہوں گے، گریہ بھی ہوگا اور گیت بھی، لیکن کشت و خون نہیں ہوگا۔ نہ تو ہلاکتیں ہوں گی، نہ ہی بم باری۔ اور جو کچھ ہوگا، جنوبی امریکی ریاست برازیل میں ہوگا۔ 12 اکھاڑوں میں کانٹے کے مقابلے متوقع ہیں۔جی ہاں، دنیا کا ایک بہت بڑا میلہ سجنے کو ہے۔ فٹ بال ورلڈ کپ 2014 کا آغاز ہونے والا ہے۔ اب دن رات ایک ہی موضوع زیربحث رہے گا۔ ایک ہی مدعا پر چرچا ہوگی۔ ایک ہی خبر توجہ کا مرکز رہے گی۔ پوری دنیا کو یہ مقابلے حصار میں لے لیں گے۔ اور یہ قابل فہم ہے؛ فٹ بال کھیلوں کا بادشاہ جو ٹھہرا۔
مگر اِس عظیم مقابلے کے پس منظر میں چند مسائل بھی ہیں۔ اور معمولی مسائل نہیں۔ اچھے خاصے گمبھیر مسائل۔ میزبان برازیل مصائب میں گَِھرا نظر آتا ہے۔ کئی تنازعات جنم لے چکے ہیں، کئی جنم لینے کو ہیں۔ تجزیہ کاروں کو یہ غم کھائے جارہا ہے کہ کہیں یہ تنازعات مقابلوں کا حسن نہ گہنا دیں۔ اور اگر ایسا ہوا، تو یہ کرب ناک ہوگا۔
پانچ ورلڈ کپ ٹرافیاں اپنے نام کرنے والے برازیل کو اِس کھیل کی جنم بھومی نہ بھی کہا جائے، تو اِس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اِس کے سیماب صفت کھلاڑیوں نے فٹ بال کو اوج بخشنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اِس سے قبل 1950 میں یہاں ورلڈ کپ میلہ سجا تھا۔ 1978 میں آخری بار براعظم جنوبی امریکا کو میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا۔ تب ارجنٹائن میں مقابلے منعقد ہوئے تھے۔ الغرض یہ خطہ، یہ ملک اِس اعزاز کا عشروں سے منتظر تھا۔ یہی سبب ہے کہ جب 2007 میں برازیل کو میزبانی کے لیے منتخب کیا گیا، تو نہ صرف برازیل، بلکہ پورے خطے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ باقی دنیا نے بھی خصوصی دل چسپی کا اظہار کیا۔ یہی سوچا کہ پیلے کے دیس میں مقابلے ہوں گے، خوب رنگ جمے گا۔ لیکن جوں جوں ورلڈ کپ قریب آتا گیا، پریشان خبروں کی تعداد بڑھنے لگی۔ تنازعات کھڑے ہونے لگے۔
اِس تحریر میں ایسی ہی چند پریشانیوں پر ایک نظر ڈالنے کی سعی کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ یہ تحریر ماہ جون کے اوائل میں لکھی جارہی ہے۔ ٹورنامنٹ کے آغاز میں ابھی چند روز ہیں۔ صورت حال میں تبدیلی امکانی ہے۔
٭ ورلڈ کپ نہیں یارو، پیسے کا ضیاع ہے یہ!: فیفا ورلڈکپ کی میزبانی بلاشبہہ برازیلی سرکار کے لیے خوشی کی بات ہوگی، مگر حکومت مخالف سرگرمیوں نے انتظامیہ کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ ملک بھر میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ ہزاروں لوگ سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ خطرہ ہے، کہیں یہ ’’شرپسند‘‘ رنگ میں بھنگ نہ ڈال دیں۔حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ مظاہرین پر قابو پالے گی، مگر اس دعویٰ پر یقین کرنا اتنا آسان نہیں۔ یاد رہے کہ گذشتہ برس برازیل میں کنفیڈریشن کپ منعقد ہوا تھا۔
اس دوران مظاہروں کی وجہ سے خاصی بدمزگی ہوئی۔ کئی شہروں میں زندگی معطل رہی۔ یہی حال وارم اپ مقابلوں کا رہا۔ جب سڑکوں پر پتھرائو ہورہا ہے، پولیس لاٹھی چارج کر رہی ہو، تو کھیلوں کے لیے فضا کسی طور سازگار نہیں رہتی۔مظاہروں میں تشدد کا سرخ رنگ بھی در آیا ہے۔ تصادم کی خبریں بڑھ رہی ہیں۔ اب تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق چھے افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ورلڈ کپ قریب آنے تک اِس تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔
ورلڈکپ نے حکومت مخالفین کو احتجاج کے لیے ایک اور ایشو فراہم کر دیا۔ وہ اسے پیسوں کا ضیاع قرار دے رہے ہیں۔ اعتراض ہے کہ جن اسٹیڈیمز کی تعمیر پر کروڑوں ڈالر پھونک دیے گئے، مقابلے کے بعد ان کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ حکومت وہ رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی۔ تعمیراتی منصوبوں کا ابتدائی تخمینہ 3.7 بلین ڈالر لگایا گیا تھا، اِس میں 435 ملین ڈالر کا اضافہ ہوا، تو عوام بھڑک اٹھے۔ سڑکوں کی تعمیر، ٹرام سروس، ریلوے لائن، ایئرپورٹس اور دیگر منصوبوں پر اندازوں کے مطابق 14.5بلین ڈالر خرچ ہونے ہیں۔
وزیر کھیل کا موقف ہے؛ عالمی کپ کے انعقاد سے برازیل کی معیشت میں لگ بھگ 90 بلین ڈالر داخل ہوں گے، جس کا فائدہ عوام کو ہوگا، لیکن لوگ ہیں کہ سُننے کو تیار ہی نہیں۔ احتجاج کا ایک سبب رہایشی علاقوں کو خالی کروانا بھی ہے۔ صرف ریوڈی جینیرو ہی میں تیس ہزار خاندان بے گھر ہوگئے۔ مزدور تنظیمیں ناراض ہیں کہ اسٹیڈیمز تعمیر کروانے کے لیے اُنھیں ’’اوور ٹائم‘‘ کی بھٹی میں جھونک دیا گیا۔ کام کے دبائو کے ساتھ حادثات بھی بڑھ رہے ہیں۔ بس ڈرائیور اپنی تن خواہوں میں اضافے کی مانگ کرچکے ہیں۔لگتا ہے، یہ انتشار گھٹنے والا نہیں۔ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
٭خبردار، اسٹیڈیم زیرتعمیر ہے: ورلڈ کپ میچز بارہ ’’اکھاڑوں‘‘ میں منعقد ہوں گے۔ طریقۂ کار کے مطابق اِن اسٹیڈیمز میں نمایشی میچز ضرور منعقد کیے گئے، مگر پریشان کن امر یہ رہا کہ اُن میں سے کوئی ایک بھی مکمل یا بھرپور مقابلہ نہیں تھا۔ سبب یہی ہے کہ مئی کے آخر تک یہ اسٹیڈیمز تکمیل کے مراحل میں تھے۔ کچھ میں تو نشستیں تک نصب نہیں کی گئیں۔عام طور سے کسی اسٹیڈیم کو ورلڈکپ مقابلے کے لیے موزوں قرار دینے سے قبل وہاں تین مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں، لیکن اِس بار فیفا کے لیے شاید یہ ممکن نہیں۔ برازیل اس عظیم مقابلے کی تیاریوں میں وقت سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اور یہ تاخیر ایک ایسا مسئلہ بن چکی ہے، جو شاید فیفا کو اپنی شرائط نرم کرنے پر مجبور کر دے۔
اسٹیڈیمز کے اندر ہی نہیں، باہر بھی کئی مسائل ہیں۔ جن سڑکوں سے گزر کر ہزاروں شائقین اسٹیڈیمز پہنچیں گے، اُن کی حالت میں سدھار کی رفتار توقع سے کم ہے۔ یہی حال پارکنگ ایریا اور ٹرانسپورٹ کا بھی ہے۔برازیلیا کے ’’ اسٹاڈیو نیشنل مین گارینشا‘‘ کو دو ہزار دس میں گرا کر نئے سرے سے تعمیر کیا گیا ہے۔ ابتدائی تخمینہ تین سو ملین ڈالر تھا، خرچ ہوئے نو سو ملین ڈالر۔ سلواڈور اور ریسیف کے اسٹیڈیمز کا بھی یہی معاملہ رہا۔ کیا یہ اسٹیڈیمز مقابلوں کا بوجھ ڈھو لیں گے؟ توقع تو یہی ہے کہ معاملات سنبھال لیے جائیں گے ، مگر اس ایشو کی وجہ سے خاصی بدمزگی پیدا ہوئی۔
٭ کیا برازیل محاذ جنگ ہے؟: برازیل میں حالات کشیدہ ہیں۔ اسپورٹس منسٹر، ایلدوریبیلو اعتراف کرچکے ہیں کہ سیکیوریٹی صورت حال گمبھیر ہے، مگر ساتھ ہی اُنھوں نے یقین دلایا کہ صورت حال پر قابو پالیا جائے گا۔ اپنے یقین کا سبب وہ یوں بیان کرتے ہیں: ’’یہ برازیل ہے، عراق اور افغانستان نہیں!‘‘
کیا اِس جواز میں وزن ہے؟ساحلی ضلع ریوڈی جینیرو کئی روز سے فسادات کی زد میں ہے۔ ضلعی انتظامیہ تفکرات میں گِھری ہے کہ بیرون ملک سے آنے والے مداحوں کو کسی طرح تحفظ فراہم کرے۔ مذکورہ ضلعے کے ان علاقوں میں بھی، جہاں فٹ بال ٹیمیں ٹھہریں گی، کشیدگی عروج پر نظر آئی۔اب اگر برطانوی ٹیم کو اپنے ہوٹل کے باہر فائرنگ کی آواز سنائی دے رہی ہے، تو اُن سے میدان تک جانے کی امید رکھنا خلاف عقل ہوگا۔
٭ جنگ نہیں، تو جنگ جوئوں کا کیا کام؟: امن و امان برقرار رکھنے کے لیے حکومت نے جس نوع کے اقدامات کیے ہیں، درحقیقت وہ حالات کے بگاڑ کی جانب اشارہ ہیں۔ سیکڑوں تربیت یافتہ اہل کاروں پر مشتمل ایک ایلیٹ فورس تشکیل دی گئی ہے، جسے BOPE کا نام دیا گیا ہے۔ کسی Robocop کے مانند نظر آنے والے یہ سپاہی 24 گھنٹے، اسلحہ تھامے مستعد نظر آئیں گے۔ انھیں شرپسندوں کے علاوہ ان نٹ کھٹ تماشائیوں سے نمنٹے کی ذمے داری بھی دی گئی ہے۔
انتظامیہ کے مطابق اگر ٹورنامنٹ کے دوران کسی کو اغوا کرلیا جاتا ہے، دہشت گردی کی کارروائی ہوتی ہے یا مذہبی فسادات ہوتے ہیں، تو BOPE نامی یہ فورس ہی معاملات سنبھالے گی۔ ذرا غور تو کریں؛ اغوا کے امکانات، مذہبی فسادات کا خدشہ، دہشت گردی کا اندیشہ، یہ کھیلوں کا مقابلہ ہے، یا میدان جنگ؟اِن خوں خوار اہل کاروں کا ہاتھ بٹانے کے لیے 4 ہزار خصوصی پولیس والے بھی ہمہ وقت تیار رہیں گے۔ 1500 فوجی ایک اشارے پر ’’میدان‘‘ میں آجائیں گے۔ مجموعی طور پر ایک لاکھ ستر ہزار سیکیوریٹی اہل کار اس مشن میں شامل ہیں۔
ذرا برازیل کے حالات پر بھی نظر ڈال لیں: قتل کی وارداتوں کی شرح وہاں سب سے زیادہ۔ اندازوں کے مطابق ایک لاکھ آبادی والے علاقے میں سالانہ 25 سے 30 آدمی قتل ہوتے ہیں۔ عام طور پر یہ واقعہ لوٹ مار کی دوران ہوتا ہے۔ شاید اِسی وجہ سے ’’ذہین‘‘ برازیلی انتظامیہ نے بیرون ملک سے آنے والوں کو ہدایات کی ہے کہ اگر کسی بدمعاش سے سامنا ہوجائے، تو شور نہ مچائیں۔ اس کی ہاں میں ہاں ملائیں۔ پیسہ تو ہاتھ کا میل ہے جناب! جان سلامت رہنی چاہیے۔پڑوسیوں کی وجہ سے بھی برازیلی پریشان ہیں۔ اور کوئی ایک دو پڑوسی نہیں۔ پورے دس ملکوں سے سرحد ملتی ہے برازیل کی۔ یوراگوئے سے ملحقہ سمندری پُل پر تعینات فوجیوں کو خصوصی طور پر چوکنا رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہی معاملہ پیرو، کولمبیا، وینزویلا کا بھی ہے۔ کڑی نگرانی ہے سرحدوں پر۔
انتظامات اور بھی ہیں۔ ایک امریکی کمپنی سے 3.5 ملین ڈالر کی مالیت کے 30 روبوٹ خریدے گئے ہیں۔ کام اُن کا دھماکا خیز مواد تلف کرنا ہوگا۔ 25 ملین ڈالر سے دو ڈرون طیارے بھی خریدے گئے ہیں۔اس کے بعد بھی اگر آپ کہتے کہ برازیل محاذ جنگ نہیں، تو ہم حیران ہونے کے سوا اور کیا کرسکتے ہیں۔
٭ افتتاحی تقریر سے محروم ورلڈ کپ:یہ بھی عجیب معاملہ ہے۔ ورلڈ کپ کی رنگا رنگ افتتاحی تقریب میں جوشیلی تقریریں معمول کی بات ہیں۔ عام طور سے میزبان ملک کا صدر یا وزیراعظم اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے، مگر اس ورلڈ کپ میں یہ امکان نہیں۔ اس بار کسی قسم کی تقریر نہیں ہوگی۔ اس کا سبب گذشتہ برس ہونے والے کنفیڈریشن کپ کی پریشان کن افتتاحی تقریب ہیں۔ برازیلی صدر کی تقریر کے دوران تماشائیوں نے خوب شور مچایا۔ فقرے کسے۔ خاصی بدمزگی ہوئی۔اب فیصلہ تو ہوگیا، مگر یہ سوچیے کہ تقریر سے محروم افتتاحی تقریب خود کتنی پھیکی اور بے مزہ ہوگی۔
٭ متنازع ٹی شرٹ: اس معاملے نے رواں برس فروری میں جنم لیا۔ جرمنی کی ملٹی نیشنل کمپنی، ایڈیڈاس کی دو ٹی شرٹس پر مقامیوں کی جانب سے شدید اعتراضات کیے گئے۔ موقف کچھ یوں تھا کہ یہ ٹی شرٹس جنسی جذبات انگیخت کرتی ہیں۔ ایک ٹی شرٹ پر خاتون مختصر لباس میں دِکھائی دے رہی تھیں، دوسری میں دل کو جس انداز میں ڈیزائن کیا گیا تھا وہ قابل اعتراض ٹھہرا۔
حکومتِ برازیل نے رائے عامہ کی حمایت کر کے سمجھ داری کا ثبوت دیا۔ حکومت نے کہا؛ قومی کھیل کو کسی بھی پہلو سے جنسی اشتہا سے جوڑنا دُرست نہیں۔ بالآخر ان قمیصوں کو اسٹورز سے اٹھا لیا گیا۔
واضح رہے کہ جنوبی امریکا میں جسم فروشی کا کاروبار گمبھیر شکل اختیار کر گیا ہے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ ورلڈ کپ کے دوران یہ پوری قوت سے سر اٹھائے گا۔ برازیل میں اس انڈسٹری سے جرائم پیشہ گروہوں کے ڈانڈے بھی ملتے ہیں، جس وجہ سے اندیشے مزید قوی ہوجاتے ہیں۔