انسانی تاریخ مں قوموں کے بناؤ اور بگاڑ میں خواتین کے مرکزی کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ان کی گود میں ہی وہ لیڈر پرورش پاتے ہیں، جن کی ذہن سازی،کردارسازیمیں وہ بنیادی کردار ادا کرتی ہں اور ان ہی کی تربیت سے دنیا کے عظیم عالم ، مجاہد ، سائنس دان، مصلح تیار ہوتے ہیں اور اس سب کے لئے خواتین کا صحت مند ہونا بہت ضروری ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ تو بحیثیت مجموعی معاشرہ عورت کی اس خصوصی حیثیتکی قدر کر رہا ہے اور نہ ہی خود عورت کو اس کی اہمیت کا پورا ادراک ہے۔
2021ء کے ایک سروے کے مطابق پاکستا ن میں زچگی سے متعلق مراحل میں جاں بحق ہونے والی خواتین کی تعداد ایک لاکھ میں 186ہے جب کہ زچگی ایک نارمل قدرتی عمل ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میںیہ شرح 2، 3، 5 یا زیادہ سے زیادہ 10 ہے۔ یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
صحت ایک توازن کی حالت ہے، جس میں جسمانی، ذہنی،سماجی ( اور روحانی ) صحت شامل ہیں ۔ جسم ، ذہن، رْوح اور سماج آپس میں مربوط ہیں اور ایک حصہ کی صحت دوسرے حصہ پر اثرانداز ہوتی ہے۔
خواتین کی مخصوص جسمانی ساخت، جذبات، احساسات، سماجی حیثیت کے لحاظ سے صحت کے کچھ منفرد مسائل ہیں اور ضروریات بھی ہیں، جن کا جاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔ پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک ، زندگی کے مختلف مراحل میں خواتین کی غذائی ضروریات ، جذباتی کیفیات میں تغیر آتا ہے اور اس کا احساس سب سے بڑھ کر دوسری خواتین ہی کرسکتی ہیں۔
بلوغت کے وقت، حمل، رضاعت کے دوران میں اور بڑھاپے میں، خواتین کی صحت پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ (حمل اور رضاعت کے دوران300سے 500 اضافی حراروں کی ضرورت ہے جو پھل، سبزی، دودھ، گوشت ،انڈوں یعنی متوازن غذا سے پورے ہوتے ہیں۔)
خواتن مں صحت کے مسائل کی زیادتی کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً :
1۔ خواتین کی طرف سے خود اپنی صحت کی طر ف سے لاپرواہی۔ حالانکہ صحت کے ساتھ ہی دوسری ذمہ داریاں ادا کی جاسکتی ہیں۔ سالوں بیماری بڑھتی رہتی ہے اور جب پیچیدہ ہوجاتی ہے تو علاج مشکل ہوجاتا ہے، جب کہ ابتدا سے علاج کرنے، بلکہ احتیاط پہلے سے کرنے سے بیماری سے بچا بھی جاسکتا ہے اور ابتدائی مرحلے میں جلد شفا بھی ہوتی ہے۔ (اللہ کے اذن سے)
2۔ دیگر اہلِ خانہ کی بے توجہی: خواتین کی صحت ، علاج کو اہمیت نہ دینا۔
3۔ خواتین کا وقت نکال کر ہسپتال جانے میں سستی یا جھجک کہ پیسے خرچ ہوں گے، انتظار کرنا پڑے گا، کس کے ساتھ جائیں؟ بچے کہاں چھوڑیں؟
4۔ ملازمت کرنے والی خواتین کے لئے وقت نکالنا ۔ چھْٹی نہ ملنا، ملازمت یا خاتونِ خانہ سے۔ حالانکہ زیرِ سایہ ملازمین کی صحت کا خیال رکھنا اداروں کی بھی ذمہ داری ہے اور اہلِ خانہ کی بھی۔
5۔ ہسپتالوں کا فاصلوں پرہونا۔ وقت اور کرایوں کے مسائل۔ ( یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بوڑھی مائیں مختلف عارضوں میں مبتلا ہیں ، لیکن بیٹے ، بہو ہسپتال نہیں لے جا رہے یا دوا نہیں لارہے۔ ایسے میں کچھ نیک پڑوسی ان کی خدمت میں حصہ ڈال کر اجر کما لیتے ہیں۔)
خواتین کی اکثر بیما ریوں کا تعلق غذا سے ہے۔
غیر متوازن غذا سے کئی طرح کے مسائل پید ا ہوتے ہیں۔
٭مناسب غذا کی عدم فراہمی۔ under-natiration
٭بعض غذائی اجزا کی زیادتی۔one natiration
٭غیر متوازن غذا۔ un-Balanced diet
پاکستان میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افرا دکی شرح بہت زیادہ ہے۔ بیشتر خواتین ، غذائی قلت ، خصوصاً پروٹین کی کمی اور آئرن کے فقدان کا شکار ہیں۔
حمل اور رضاعت کے دوران میں اضافی غذاؤں کی ضرورت ہوتی ہے جن کے نہ ملنے سے یہ کمی اور بڑھ جاتی ہے۔ تھکاوٹ، کمزوری، کمزور بچوں کی پیدائش ، پیچیدہ وضع حمل،چڑچڑاپن بھی پیداکرسکتا ہے۔صحت مند ماں ہی اپنے بچوں کی صحت اور تربیت بھرپور کردار ادا کرسکتی ہے۔
معاشرے میں دولت کی غیر مساوی تقسیم، خاندانوں کے اندر بھی سرایت کرگئی ہے۔ مضبوط خاندانی نظام اور صلہ رحمی سے ایسے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ایک گھر کے اندر بھی عورتوں کی غذائی ضروریات کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔ اگر ہمیںیقین ہو کہ حدیث کے مطابق حاملہ عورت سرحدوں پر پہرہ دینے والے مجاہد کی طرح اور دودھ پلانے والی خاتون،کسی کو زندگی دینے والے فرد کی طرح ہے، تو ہم ان کی قدر کریں اور ان کے لے اضافی خوراک کی فراہمی کو اجر کا باعث سمجھیں۔ خواتین خود بھی غیر ضروری اخراجات سے اجتناب کرکے گھر کی آمدنی کو اپنی اور گھر والوں کی غذائی ضروریات اور تعلیم پر خرچ کریں۔
خوراک میں دودھ، انڈے ،پھل، سبزی ، گندم کا آٹا،جو کا دلیا اور ایسی ہی دوسری قدرتی غذائیں استعمال کی جائیں، بازار کے کھانوں، چینی اور زیادہ چکنائی سے پرہیز کیا جائے، جو کہ شوگر، بلڈ پریشر، دل کی بیماریوں، معدہ کی تیزابیت اور کینسر کا باعث بن سکتی ہیں۔
ورزش
مناسب خورا ک کے ساتھ جسم کا ہر جوڑ مناسب ورزش کا حق رکھتا ہے اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں اکثر پٹھوں کی کم زوری، جوڑوں اور ہڈیوں میں درد کی شکایت رہتی ہے۔
ہفتے میں کم ازکم دو دفعہ ایسی ورزش جس میں سر سے پیر تک ہر جوڑ شامل ہو، ہر جوڑ پر پٹھوں کیStretching کھچاؤ اور Rebration، ڈھیلاپن ایک قاعدے کے مطابق ہو ، اس سے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں۔ کھڑے بیٹھے، چلتے ہوئے Posture درست رکھنا، چاق وچوبند رہنے سے بھی پٹھے مضبوط ہوتے ہیں۔
ہفتے میں کم ازکم 150 منٹ کی سیر بے حد ضروری ہے۔ اس سے جسمانی، ذہنی صحت کو فائدہ ہوتا ہے۔اگر وزن یا BMI نارمل حد سے زیادہ ہوتو 300 منٹ کی سیر یا متبادل activity ہفتے میں ضروری ہے۔
ذہنی صحت
یہ ایسا پہلو ہے جو عموماً نظرانداز ہوجاتاہے۔
کچھ مسائل موروثی ہوتے ہیں ۔کچھ مسائل معاشرے کے منفی رویوں ، بے جا تنقید سے پیدا ہوسکتے ہیں۔کچھ میں دونوں عناصر وجہ بنتے ہیں ۔
بعض اوقات معمولی نفسیاتی مسائل جو بر وقت علاج سے بہتر ہوسکتے ہیں، بہت سے گھمبیر مسائل کا باعث بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سے مشورہ کونسلنگ اور علاج سے بہت سی زندگیاں سنورسکتی ہیں۔ بہت سے گھر ٹوٹنے / بکھرنے سے بچ سکتے ہیں ۔
سماجی صحت
ہمارے معاشرے میں خواتین کی سماجی حیثیت پر مختلف عوامل اثراندازہوتے ہیں مثلاً دینی سوجھ بوجھ ، علم وفہم ، خاتون اور دیگر اہلِ خانہ کی تعلیمی، معاشی حیثیت ، ملازمت ، رسم ورواج ، علاقہ رہائش کی جگہ۔
(ایک سروے کے مطابق جو خواتین 15 سے 49 سا ل کی عمر میں وفات پاتی ہیں ، اْن میں 633% غیر تعلیم یافتہ ہیں)۔
سب سے اہم پہلو دینی علم و فہم ، تقویٰ اور آخر ت مں جوابدہی کا احساس ہے۔ اگر ہر فرد رب کی رضا کے راستے میں سبقت لے جانے کی کوشش کرے، دوسروںکے حقوق کی ادائی میں تو وہ محبت، رحمت ، اْلفت کارنگ گھروںمیں نظر آئے جہاں معاشی اور دیگر مسائل بھی رکاوٹ نہ بن سکیں۔
اگر حدیث کے مطابق ایک دوسرے کے لئے وہ پسند کریں جو اپنے لیے پسند کرتے ہں تو ہر ایک کومعاشرے میں عزت، تحفظ مل سکے۔ایسے دِل جو ہر رشتے اور تعلق کے لئے محبت بھرا ، صاف، خیرخواہ دِل رکھتے ہوں وہ خود بھی پرسکون رہتے ہیں اور ان کا ماحول بھی۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں مادی دوڑ نے تعلقات کو کمزور کیا ہے ، اپنی ضروریات حد سے بڑھ جائیں تو دوسروں کی ضرورت سے نظریں چْرائی جاتی ہیں۔ ورنہ جہاں صلہ رحمی ہو وہاں ایک فرد پر مشکل ہو تو سارا خاندان بڑھ کر تھام لیتا ہے۔
غیر ضروری اخراجات پر کنٹرول ، غیر ضروری رسوم سے اجتناب ، نمائش سے بچنا ، صحت اور تعلیمی و تربیت کو ترجیح دینا بہت سے مسائل حل کرسکتا ہے۔ مثبت رویوں کو فروغ دینا ، حوصلہ افزائی، محبت کا اظہار ،بیمار پرسی، بزرگوں کی خدمت ، معاشرے کی صحت پر اچھا اثر ڈالتی ہیں۔
مرد’ قوام ‘ ہونے کی ذمہ داری کو سمجھیں اور بیویکو گھر میں پْرسکون ماحول دیا جائے، جو اولاد کی تربیت ، بزرگوں کی خدمت اور دیگر اْمور کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے۔ہمیں ہندووانہ اور مغربی تصورات کی بْنیاد پر نہیں بلکہ سیرت طیبہ کی روشنی میں، اپنے گھروں کو تعمیر کرنا ہے۔ جس گھر میں سب افراد اللہ کی رضا چاہتے ہوں، دینی علم کی روشنی میں عمل کی راہیں متعین کی جاتی ہوں وہاں فروعی مسائل سر نہں اْٹھا سکتے۔
بحیثیت خاتون ہمارا دین ہمیں جو مقام اور مراعات دیتا ہے اس پر اللہ کا جتنا شکر بھی ادا کریں کم ہے۔ معاشرے میں بھی خواتین کو تعلیم ، صحت اور بوقتِ ضرورت ملازمت کے لیے۔ ضروریات مثلاً ڈے کیئر سنٹر ز کا ہر جگہ انتظام ہونا چاہتے ہیں، تاکہ خواتین مطمئن ہوکر اسلامی فلاحی مملکت کی تعمیرمیں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
( ڈاکٹر فلزہ آفاق پیشہ کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے کمیو نٹی مڈیسن میں، ایم فل کیا اور فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی لاہور کے شعبہ کمیونٹی میڈیسن میں تدریسی خدمات بھی سرانجام دیں۔آپ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کی سابق مرکزی صدر، حالیہ رکن سنٹرل ایگزیکٹو کونسل ہیں اور میڈیکل ریلیف اور عوامی آگاہی کے شعبوں میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔
The post خواتین کی صحت کیسے بہتر بنائی جائے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.