Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

صنف نازک سے ’ہتک آمیزرویے!‘

$
0
0

عورتوں اور لڑکیوں کی قیادت، قوت اور جرأت کا اعتراف کرتے ہوئے خواتین کا عالمی دن ویسے تو ہر سال آٹھ مارچ کو عالمی یک جہتی اور جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ رواں سال اس دن کا خاص موضوع ’مساوات کو گلے لگائیں‘ ہے۔ 

جب کہ خواتین کی ذمہ داریوں اور معاشرے میں نبھاتے ہر کردار کی اہمیت کو سراہتے ہوئے ہر روز خواتین کا ’عالمی دن‘ ہونا چاہیے۔

ہر دن ہمیں خواتین کے حقوق کی حمایت، ان کی معاونت، معاشرے میں ان کی ترقی اور کام یابی کو منانا چاہیے۔ ساتھ ہی امتیازی سلوک کے حوالے سے آگاہی اور حقوق کے لیے اپنی آواز بلند کرنا چاہیے، اور وہ سب کچھ کرنا چاہیے، جو خود کو منوانے لیے بہ حیثیت خواتین ہم کر سکتے ہیں۔

معاشرے میں خواتین کے لیے اپنائے جانے والے رویوں میں ہم سب صحیح معنوں میں مساوات کو اپنا سکتے ہیں۔ یہ صرف وہ کچھ نہیں ہے، جو ہم خواتین کے لیے کہتے یا لکھتے ہیں، بلکہ خواتین کے لیے برابری کے رویے یا معاشرے میں آگے بڑھنے کے یک ساں مواقع فراہم کرنا وہ عمل ہے، جس کے بارے میں ہمیں سوچنے، جاننے، قدر کرنے اور اس کو اپنانے کی ضرورت ہے۔

خواتین کے لیے ہمیں وہ تمام حقوق، رویے اور اقدامات جس پر ہم غیر مشروط یقین رکھتے ہیں ان کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔ مساوات کا مطلب ایک جامع دنیا بنانا ہے۔ اور ہم میں سے ہر ایک اپنے اثر و رسوخ کے دائرے میں فعال طور پر خواتین کے لیے مساوات اور حقوق کی حمایت اور اس کو قبول کر سکتا ہے۔

ویسے تو معاشرے بلکہ دنیا میں ہر سطح پرطبقاتی نظام رائج ہے، جو کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید گہرا اور واضح ہوتا نظر آتا ہے، لیکن خواتین کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو دنیا کی 90 فی صد آبادی خواتین کے خلاف تعصب کا شکار ہے۔

زندگی کے ہر شعبے کاروبار، تعلیم سے لے کر سائنس اور کھیل کے میدان تک خواتین کو کم اہمیت اور مواقع فراہم کیے جاتے ہیں، جب کہ اگر دیکھا جائے تو آج کی جدید اورسائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کرتی دنیا میں ہمارے معاشرے میں خواتین کی ڈیجیٹل پلیٹ فارم تک رسائی محدود ہے، جب کہ وہ خواتین جن کو یہ سہولت میسر ہے ان کو حضرات کے مقابلے میں ڈیجیٹل طعنے تشنے اور ہتک آمیز رویوں کا سامنا ہے۔

’کمپیوٹنگ‘ کے ابتدائی دنوں سے لے کر ورچوئل رئیلٹی اور مصنوعی ذہانت کے موجودہ دور تک، اس ڈیجیٹل دنیا میں خواتین نے بے شمار کام یابیاں حاصل کیں۔

ایک ایسے میدان میں جس نے تاریخی طور پر نہ تو ان کا خیرمقدم کیا ہے اور نہ ہی ان کی تعریف کی ہے لیکن ڈیجیٹل دنیا کے ارتقائی عمل میں بھی خواتین ہمیشہ حضرات کے شابہ بشانہ رہیں ہیں۔ تمام تر مشکلات کے باوجود ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے لیے خواتین کے کارنامے اور کام یابیاں بے شمار ہیں۔

آج، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر رسائی سے لے کر ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی مکمل صلاحیت کو منوانے میں مستقل صنفی تفریق خواتین کی راہ میں  بڑی رکاوٹ ہے۔

ایک طرف تعلیم اور کیریئر میں ان کی محدود نمائندگی، تو دوسری طرف ٹیک ڈیزائن اور ای گورننس میں ان کی شرکت میں صنفی تفریق ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ جب کہ ٹھوس سائبر قوانین اور سزاؤں کا تعین نہ ہونے کے باعث صنفی بنیادوں پر ’آن لائن ٹرولنگ‘ خواتین کی ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سے دوری یا ان کے محدود استعمال کا باعث بنی ہے۔

دوسری جانب  ڈیجیٹل ٹیکنالوجی خواتین، لڑکیوں اور دیگر پس ماندہ کمیونٹی کو عالمی سطح پر بااختیار بنانے کے لیے نئے دریچے بھی کھول رہی ہے۔

گلوبلائزیشن کے اس دور میں ڈیجیٹل پیلٹ فارمز ہر قسم کی تفریق اور عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے بے شمار مواقع فراہم کرتے ہیں۔

ڈیجیٹل سائنس کے میدان میں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی دنیا جہاں مصنوعی ذہانت، روبوٹس اور بلاک چین جیسی ٹیکنالوجیز اب ناگزیر ہیں، وہاں پرائیویٹ سیکٹرز سمیت حکومتی سطح پر ٹھوس قوانین اور حکمت عملی کے ذریعے خواتین کے لیے ڈیجیٹل دنیا کو محفوظ بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

ٹھوس حکمت عملی، قوانین اور سزاؤں کا تعین ڈیجیٹل دنیا کو محفوظ، زیادہ جامع اور زیادہ مساوی بنانے کی کوششوں میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

متعدد عالمی بحرانوں کا سامنا کرتی ہوئی دنیا میں خواتین کے لیے محفوظ ڈیجیٹل دنیا کی فراہمی نہ صرف خواتین اور لڑکیوں کے لیے، بلکہ پوری انسانیت اور زمین پر موجود تمام زندگیوں کے لیے ایک بہتر مستقبل تخلیق کرنے کا موقع ہے۔ ڈیجیٹل دنیا سے لے کر روز مرہ زندگی میں ہم میں سے ہر ایک اپنے اثر و رسوخ کے دائرہ میں فعال طور پر خواتین کے لیے مساوات کی حمایت اور اس کو قبول کر سکتا ہے۔

معاشرے میں ہم سب صنفی دقیانوسی تصورات کو چیلنج کر سکتے ہیں، امتیازی سلوک کو للکار سکتے ہیں، تعصب کی طرف توجہ مبذول کرا سکتے ہیں، اور زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کی برابری کی بنیاد پر شمولیت کے لیے کوشش کر سکتے ہیں۔

اجتماعی جدوجہد وہ ہے جو تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔ نچلی سطح پرجدوجہد سے لے کر وسیع پیمانے پر آگاہی پھیلانے تک، ہم سب ’ایکویٹی‘ کو اپنا سکتے ہیں۔

جب ہم مساوات کو قبول کرتے ہیں، تو دراصل ہم ہم معاشرے میں تنوع کو قبول کررہے ہوتے ہیں۔ معاشرے میں ہم آہنگی اور اتحاد قائم کرنے اور سب کے لیے کام یابی کو آگے بڑھانے میں مدد کرنے کے لیے مساوات کو اپناتے ہیں۔

کیوں کہ  یہ ’مساوات‘ ایک مقصد ہے، وہاں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے جہاں سب کے لیے آگے بڑھنے اور ترقی لے لیے یک ساں مواقع ہوں۔

صنفی تفریق کے بہ جائے اس جذبے اور جوش کو شیئر کرنا سیکھیں، جو ’فرق‘ قدر کرنے اور حمایت کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔

اس بات پر غور کریں کہ ہم سب مسئلہ بننے کے بہ جائے کسی مسئلے کا حل بن سکیں۔ صنفی مساوات کو فروغ دینا صرف خواتین تک محدود نہیں ہے جو اپنے حقوق کی لڑائی لڑ رہی ہیں، بلکہ خواتین کی سماجی، اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی تنظیمیں بھی ان کی ترقی کے لیے ناقابل یقین حد تک اہم ہیں۔

تو آج خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہمیں خود سے یہ عہدے کرنے کی ضرورت ہے کہ  اپنے دوستوں، خاندان، ساتھیوں، اور طبقے اور برادری میں سب کے ساتھ خصوصاً خواتین کے لیے مساوات کو اپنانے کے لیے حوصلہ افزائی کریں گے اور ان کا ساتھ دیں۔

کیوں کہ ہم مل کرہی معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں اور رویوں پر مثبت اثر ڈالنے کے لیے اجتماعی طور پر کام کر سکتے ہیں۔ ہم سب مل کر ایک مساوی دنیا بنانے میں مدد کر سکتے ہیں۔

The post صنف نازک سے ’ہتک آمیزرویے!‘ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>