آٹھویں قسط
میں ایوارڈ تقریب کے لیے اپنے ساتھ وہ سُوٹ سلوا کر لایا تھا جس کا کپڑا کئی برس پہلے میری والدہ نے خرید رکھا تھا۔
میں نے کپڑے بدلے تو ماسی نے یہ کہہ کر میری ٹائی کی ناٹ(knott) درست کی ’’کاکے تُوں ساری عمر کتھے لنگھا چھڈی اے؟…‘‘( بچے تم نے ساری عمر کہاں گذار دی ہے) میں ہنستا رہا تو اُنہوں نے بتایا کہ وہ اپنی بہن اور والد کے ساتھ آئیں گی۔
اصولاً تو مجھے اُن کے والد صاحب کے پاس خود جا کر ملنا تھا لیکن یہ ویزے کے مسائل اپنی جگہ پر تھے ۔ ہم دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے اور بَلی کور بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر اُدھر پہنچ گئیں۔
اُن کے سیاہ لباس اور بیوٹیشن کی تیاری سے لگ رہا تھا کہ وہ کسی ادبی تقریب کی بجائے کسی خاص سفارتی تقریب میں آئی ہوئی ہیں۔ ہم تینوں ایک بار پھر سے گپیں لگاتے برٹش کولمبیا یونیورسٹی کے کیمپس Robert H. Lee آڈیٹوریم کے باہر پہنچ گئے۔
یہ آڈیٹوریم کینیڈا کے معروف بزنس مین، سرمایہ کار اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے رابرٹ ایچ لی سے موسوم ہے۔ رابرٹ کا جنم 25 جون 1933ء کو ہوا اور وفات 19 فروری 2020ء کو ہوئی۔اُن کے والد چینی باشندے تھے جو بہتر روزگار کی خاطر کینیڈا کے شہر وینکوور منتقل ہوئے اور یہاں چینی کھانوں کا ریسٹورنٹ قائم کیا۔
یعنی جن دِنوں میں ایوارڈ وصولی کے لیے کینیڈا میں موجود تھا وہ حیات تھے۔ اور اگلے چند ماہ کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ رابرٹ کینیڈا کی مشہور رئیل اسٹیٹ فرم Prospero کے بانی چیئرمین تھے۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم بھی برٹش کولمبیا یونیورسٹی سے مکمل کی۔ رابرٹ فلاحی کاموں کے لیے رقم دینے کے معاملے میں بہت فراخ دل تھے۔
خصوصاً انہوں نے وینکوور کی چینی کمیونٹی کے لیے بہت سے رفاہی کام کیے۔ رابرٹ نے برٹش کولمبیا یونیورسٹی کو بھی ایک بڑی رقم بطور امداد دی۔ ان کی خدمات کے اعتراف کا اظہار یونیورسٹی میں موجود رابرٹ ایچ لی گریجوایٹ سکول کی موجودگی سے ہوتا ہے۔
آڈیٹوریم کے کاؤنٹر پر ہرِندر کور جی کی چھوٹی بہن، اُن کا شوہر اور ہرِندر کور جی کی بیٹی ملیں۔ بارج نے پہلے تمام پروگرام اورمہمانوں کے بارے میں پوچھااور اس کے بعد پروگرام کی کوریج کے لیے صحافیوں کو پروٹوکول کی بھی خاص ہدایات دیں۔
جن میں یہ ہدایت بھی شامل تھیں کہ ان سے کسی بھی قسم کی ٹکٹ نہ لی جائے گی۔ جب کہ اُن کے اپنے قریبی عزیز بھی ٹکٹ خرید کر تقریب میں آئے تھے۔ یہ بالکل اُسی طرح کا رویہ تھا جس طرح کا ہم اپنے ہاں دیکھتے آ ئے ہیں۔
ہال میں داخل ہوئے تو حاضرین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جس میں کئی ممالک کے خواتین و حضرات تھے لیکن زیادہ تعداد ہندوستانی پنجابیوںاور انگریز افراد کی تھی۔
جتندر اندر داخل ہوئے تو کئی ہندوستانی لکھاری ادیب اُن کی جانب بڑھے۔ پھرجتندر ہی کے توسط سے میرے ساتھ بھی کچھ رسمی (formal) گفتگو ہوئی۔
ہال کے داخلی دروازے کے بائیں جانب ایک قدیم پیانو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ سجا کر رکھا گیا تھا اور اُس کے ساتھ کچھ فاصلے پر ایک سٹال پر کتابیں رکھی تھیں جن میں پچھلے برسوں کے ڈھاہاں ایوارڈ جیتنے والے اور اُس روز کے انعام یافتگان کی بھی کتب تھیں۔
اُس کے ساتھ بَلی کور کے انگریزی ناول بھی تھے۔ بے انتہا ٹھنڈ میں موسم گرما کا لباس زیب تن کیے بلی کور جسوال کے گرد لوگوں کا ایک جھُرمٹ لگا ہوا تھا جو اُن سے اُن کے ناول دستخطوں کے ساتھ لیتے اور تصاویر بھی بناتے۔ یوں لگ رہا تھا کہ یہ تقریب خالصتاً ایک خاتون ناول نگار کے اعزاز میں منعقد کی گئی ہے۔
پروگرام کے اختتام تک اُن کی وہاں آئی تمام Copies ختم ہو گئی تھیں۔ اُن کے علاوہ جتندر کی کتب بھی بہت سے لوگ خرید رہے تھے۔
شاہ مُکھی رسم الخط میں صرف اور صرف ’’کون‘‘ کی Copies تھیں جو کچھ بزرگ سردار صاحبان نے خریدیں اورمجھ سے بھی دستخط کروائے۔ ساتھ ساتھ وہ بڑے پیار سے یہ بھی بتاتے کہ وہ شاہ مکھی پڑھنا جانتے ہیں اور اُنہوں نے پاکستانی پنجاب کے فلاں فلاں لکھاریوں کو بھی پڑھ رکھا ہے۔
کچھ افراد خاص طور پر مجھے افضل ساحر کے حوالے سے ملنے آئے کہ اُن کی ای میل آئی تھی کہ مدثر بشیر آ رہے ہیں، اُن سے ملتے رہیے گا، اُن کا یہ پاکستان سے باہر کا پہلا سفر ہے۔
میں اُن کوبھی شکریہ ادا کر کے ملتا رہا۔ ہال کے آخری حصّے اور اس سے ملحقہ کمرے میں کھانے پینے کی اشیاء اور ہر طرح کے ڈرنکس موجود تھے۔ میں نے جتندر کولوگوں کے نرغے سے نکالا اور اُنہی کے ساتھ جا کر چائے پی اور ٹِم ہارٹنز کی سوغاتوں سے لُطف اُٹھایا۔
اس تمام وقت میں مجھے اس بھرپور ہجوم میں تنہائی کا احساس ہو رہا تھا۔ کوئی بھی ہمارے دیس کا فرد نہ تھا۔ شرم بھی آئی کہ ہمارے لوگ ادب اور زندگی کی لطافتوں سے کتنے دُور ہو چکے ہیں۔
صرف دو پاکستانی ملے، ایک شہزاد نذیر کیوں کہ وہ بھی ڈھاہاں کی کور کمیٹی کے ممبر تھے اور اُن کے ساتھ آئے اُن کے ایک بچپن کے دوست شہزاد نذیر سے دو منٹ کی ملاقات ہوئی۔ مجھے تو بس اپنی ماسی نِشا کا انتظار تھا جنہوں نے اپنے والد اور بہن کے ساتھ آنا تھا۔
میں انہی سوچوں میںگُم تھا کہ کچھ لوگ جتندر کے ساتھ مجھے ملنے آئے۔ ان میں زیادہ تر لوگوں نے میرا OMNI TV پر دلبر کانگ کے ساتھ ٹی وی انٹرویو دیکھا تھا اور کچھ نے ریڈیو پنجابی کے پروگرام کو سُنا تھا۔
اُن سے ملاقات کے دوران کچھ اور مہمان بھی موہن گل جی کے ساتھ آ کر مجھے بڑے ہی دوستانہ انداز سے ملے۔
لوگوں سے ملتے ہوئے میں بالکل استقبالیہ کے قریب چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے تین چار خواتین کے بلند آہنگ قہقہے سنائی دیئے جو Main Entrance سے داخل ہو رہی تھیں اور اُن کے ساتھ ایک انتہائی خوبصورت اور وجیہہ بزرگ پینٹ کوٹ میں دکھائی دیئے۔
ان کا پہناوا معلوم ہوتا تھا جیسے انگریز عہد کا ہو۔ تینوں چاروں خواتین میں سے دو تو دوپہر کے کھانے والی تھیں اور دو کو میں نہیں جانتا تھا۔ پرویز سندھو اور ہرکیرت کور کے ساتھ دو خواتین میں سے ایک بزرگ اور ایک درمیانی عمر کی تھیں۔ پرویز کو دیکھ کر جتندر تمام مہمانوںکو چھوڑ کر آگئے۔
ان بزرگ خاتون سے آگے بڑھ کر سر پر پیار لیا اور ہرکیرت کور سے کچھ صفحات لے کر جیب میں ڈال لیے اور پھر اُن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:
’’دھنواد گورو جی۔‘‘
میں نے حیرانی سے اُنہیں دیکھا تو میرے کان میں کہا :
’’میں ایہناں کولوں انگریزی دی گل بات گورمُکھی وِچ لکھوا لئی اے۔‘‘( میں نے ان سے انگریزی کی تقریر گورمکھی میں لکھوا لی ہے۔)
جتندر کی یہ معصومانہ بات سُن کر میرا دل قہقہے لگانے کو کرے تاہم موقع کی نزاکت کے باعث میں نے محض سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔
اسی دوران پرویز سندھو نے دیگر دو خواتین سے بھی تعارف کروایا۔ ایک تو معروف مصنفہ تھیں او ردوسری خاتون پریت پال پُنی تھیں، جن کا مُکھڑا دیکھتے ہی آپ کوہندوستانی فلم ایکٹرس ’رانی مُکھرجی‘ کا گمان ہوتا ہے۔ میں نے بلاجھجک ہی اُنہیں کہا:
’’آپ تو رانی مُکھرجی دِکھائی دیتی ہیں۔ لیکن آپ کے اُونچے قد نے آپ کو رانی سے زیادہ graceful بنا دِیا ہے۔‘‘
میری اس بات پر میرے ارد گرد کھڑے لوگوں نے دل کھول کر قہقہے لگائے۔ جب یہ تمام افراد آگے بڑھے تو میں ایک بار پھر ماسی کی راہ دیکھنے لگا۔
اسی دوران ہرکیرت دروازے کی جانب دوبارہ آئیں تو میں نے اُنہیں ہنس کر دیکھا اور وہ مجھے مبارکباد دیتے ہوئے میرے پاس کھڑی ہو گئیں۔
’’میں آپ سے کچھ ناراض ہوں۔‘‘
میں نے اُن کے سادگی بھرے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔ تووہ ایک دم شدید پریشان ہو گئیں۔
’’کیا ہوا…؟‘‘
’’آپ پریشان نہ ہوں۔ ’بِندی والی عورت‘ Main Event میں بغیر بِندی کے آ گئی ہیں۔‘‘
اس پر وہ تھوڑا سا ہنسیں، ہلکا سا ہاتھ ماتھے پر رکھا اور بولیں،’’میں بھول گئی تھی۔‘‘یہ کہتے ہوئے وہ ایک بار پھر جتندر کی جانب بڑھ گئیں۔
گفتگو، مِلنا مِلانا اور کھانے پینے کا سلسلہ جاری تھا اور اس دوران ماسی نِشا ایک بہترین تراش خراش والے سُوٹ میں ملبوس ایک بزرگ کے ساتھ اندر آئیں۔ پتا چلا کہ وہ اُن کے والد کرم سنگھ جی تھے اور اُن کے ساتھ اُن کی چھوٹی بہن ‘‘کِی کو‘‘ بھی تھیں۔
نشا کے آتے ہی مجھے یُوں لگا کہ میرے اپنے آ گئے ہوں۔ کرم سنگھ جی کو میں نے اپنے ویزے کے بارے میں بتایا کہ اگر امریکا کا ہوتا تو اُن کو اُن کے گھر خود ملنے آتا۔ ان باتوں کے دوران ہی بارج اور ہریندر کور جی بھی آ گئے۔
جب وہ ملے تو اُنہوں نے بھی کرم سنگھ کو پہچان لیا کہ اُن کے والد کے ساتھ اُن کے گہرے دوستانہ مراسم تھے۔ اُن سے باتیں کرتے ہوئے ایک بار پھر ہم کھانے پینے کی چیزوں کی جانب بڑھ گئے۔ نشا نے اپنے کیمرے سے فوٹو گرافی شروع کردی۔
مہمانوں کی تعداد جس طرح بڑھتی جا رہی تھی اُن میں انگریز مہمان بھی زیادہ ہوتے جا رہے تھے۔ اسی دوران ہمیں انتظامیہ کی جانب سے بتایا گیا کہ مین پرائز ڈسٹری بیوشن اُوپر ایک ہال Jack Poole Hall میں ہو گی۔ اور ساتھ ساتھ E-mail میں دیئے گئے Seating Planاور کس طرح سٹیج پر جانا ہے، وہ بھی یاد دلایا گیا۔
جیک پُول کینیڈا کے ایک مشہور بزنس مین تھے۔ 1933ء میں پیدا ہونے والی اس مشہور کاروباری شخصیت کا انتقال 23 نومبر 2009ء کو ہوا۔ جیک کاایک خاص کارنامہ کینیڈا میں Winter Olympics 2020 کے انعقاد کو ممکن بنانے کے لیے انتھک کوششیں تھیں۔
جن کے ثمر آور ہونے پر ان کی نیک نامی میں مزید اضافہ ہوا۔ ایک وقت میں پُول کی قائم کردہ Daon Development Corporation شمالی امریکا کی دوسری بڑی ریئل اسٹیٹ فرم تھی۔ تاہم 80 ء کی دہائی کی کساد بازاری کے دوران مسلسل خسارے کی وجہ سے انہوں نے اسے فروخت کرنے میں ہی غنیمت جانی۔ جیک پُول کو ان کی خدمات کے اعتراف میں بہت سے اعلیٰ اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔
میں اور جتندر دونوںباتیں کرتے اُوپرکو چل دیئے۔ یہ ایک بڑا وسیع ہال تھا جس میں کُرسیاں انتہائی قرینے سے سجائی گئی تھیں۔ مہمانوں کے ناموں کی پرچیاں پہلے سے لگی ہوئی تھیں۔
پہلی رو میں بزرگ اور سینئر لکھاریوں کو بٹھایا گیا۔ میری نشست ہال کی بائیں جانب کرسیوں میں دوسری Row میں تھی۔ جتندر بھی سنٹر والی دوسری Row میں تھے۔ مجھے اپنے لاہور کے پروگرام یاد آئے جہاں پر انعام یافتگان پہلی Row تو کیا سیدھے سیدھے سٹیج پر ہی بٹھا دئیے جاتے ہیں۔
پروگرام کا آغاز کینیڈا کی ایک مشہور Radio Broadcaster ترنم تھِند (Tarannum Thind)کے ابتدائی کلمات سے ہوا۔ انہوں نے ڈھاہاں کے پچھلے پروگرامز اور اب تک کی خدمات کا ذکر کیا اور اس بات کا تذکرہ بھی بڑے فخر کے سے کیا کہ اب تک ہونے والی تمام تقریبات کی میزبانی کے فرائض انہوں نے ہی انجام دیئے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی وینکوور سٹی پولیس کے بینڈ نے تمام ہال میں گھوم پھر کر کئی روایتی اور پنجابی دُھنیںبھی بجائیں۔ اُن کے بینڈ میں مرد حضرات کے ساتھ ساتھ مختلف سازوں پر خواتین بھی تھیں۔ اُس کے بعد بینڈ کی جانب سے ایک انگریز صاحب آئے۔
اُنہوں نے موجودہ پروگرام کے ساتھ ساتھ اپنی لکھی ہوئی تقریر میں وہ یادیں بھی تازہ کیں جب اُن کے بینڈ نے سانحہ جلیانوالہ باغ کی سو سالہ تقریب کے موقع پر پرفارم کیا تھا۔ اپنی تقریر میں اُنہوں نے اس دُکھ اور درد کو بھی دُہرایا جو اُنہیں اُس مقام پر جا کر ہوا تھا۔ اُن کی اُس جذباتی گفتگو نے تمام ہال پر ایک خاموشی طاری کر دی تھی اور ایک گہری اُداسی بھی۔
بینڈ کے اس Tribute کے بعد ترنم تھِند نے بارج ڈھاہاں سمیت مختلف ادبی اور سیاسی شخصیات کو سٹیج پر بات چیت کی دعوت دی۔ اُن میں B.C (برٹش کولمبیا)کی ایم۔ایل۔ اے بھی تشریف لائیں۔
اُنہوں نے پنجابی زبان کی ترویج کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا کہ سرکاری سطح پر B.C میں یہ ہفتہ پنجابی زبان کے نام کردیا گیا ہے۔
اس طرح بات چیت کا سلسلہ جاری رہا اور پھر Keynote Speech کے لیے بَلی کور جسوال کو بُلایا گیا۔ جنہوں نے پنجابی بولی کی بڑھوتری کے اس پروگرام پر انگریزی زبان میں ایک پُرمغز تقریر کی۔ جس سے حاضرین بہت متاثر ہوئے۔
اُن کی اس تقریر کے بعد مجھے انتظامیہ کی جانب سے وہ ہدایات یاد آ گئیں کہ ہمیں 10 منٹ سے زائد ہرگز بات نہیں کرنی۔ بہرحال بَلی تو بَلی تھیں۔ اُن کی بات چیت کے بعد وہاں ہائی سکول کے بچوں میں مختلف Categories میں فکشن رائٹنگ کے انعامات تقسیم کیے گئے جس میں اُن کے والدین کو بھی سراہا گیااور اساتذہ کو بھی۔ اس تمام مرحلے میں اُنہیں نقد انعامات کے ساتھ ساتھ تعریفی اسناد بھی دی گئیں۔
بچوں کی اُس حوصلہ افزائی کے بعد ڈھاہاں فکشن کے انعامات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اُن کے اپنے SOP`s کے تحت سب سے پہلے گوردیو روپانا جی کی ہندوستان سے بھجوائی گئی ویڈیو پروجیکٹر پر چلائی گئی۔
بہت ہی خوبصورت مشرقی پنجاب کی دیہاتی بولی اور دیہات ہی میں فلمائی گئی اس ویڈیو نے حاضرین پر بہت ہی خوبصورت تاثر چھوڑا۔ اسّی برس سے زائد کے گوردیو روپانہ جی اتنا طویل سفرنہیں کر سکتے تھے۔
اس لیے اُنہوں نے آنے سے معذرت کر لی تھی۔ پھر اُن کی ٹرافی اُن کے ہال میں موجود دوست اجمیر اروڑے جی کو دے دی گئی۔ اس کے بعد ترنم تھِند نے کچھ دیر میرے کام پر بات چیت کی اور اُس کے بعد میری وہ ویڈیو جو، میں نے دوستوں کے ساتھ مل کر بنائی تھی، پروجیکٹر پر چلی تو مجھے اپنے دوست خالد مغل کی مہارت کا ایک بار پھر اندازہ ہوا۔
ایوارڈ کی اس تقریب کے لیے سمند پار سے طویل مسافت طے کرتا مدثر بشیر کُلی طور پر گُم صُم تھا۔ میرے کام کے بعد نام پکارا گیا اور ٹرافی کی وصولی کے لیے سٹیج پر بلایا گیا۔ ٹرافی جب میرے ہاتھوں میں آئی تو مجھ پر ایسی کیفیت طاری تھی جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے ابھی کچھ بات چیت بھی کرنا تھی۔
اس لیے مسلسل اپنے آپ کو قابو میں رکھنے کی کوشش میں تھا۔ سارا ہال تالیوںسے گونج رہا تھا اور انتظامیہ کی جانب سے Official خاتون فوٹوگرافر اپنے بھاری وجود کے باوجود انتہائی مستعدی کے ساتھ اپنا کام کر رہی تھیں۔ اُس کے بعد مجھے ترنم تھِند نے انگریزی زبان میں یہ فرمائش کی کہ اب مدثر ہمارے ساتھ کچھ باتیں لاہوری پنجابی میں کریں گے۔
جو پہلے سے سوچا تھا، اُس سے متعلق تمام نکات ہاتھ میں پکڑی پرچی پر انگریزی میں لکھے تھے (کیونکہ منتظمین نے گفتگو کے لیے انگریزی زبان کا انتخاب کیا تھا) وہ تمام کا تمام یک دم ’’ختم شُد‘‘ ہو گیا ۔ میں ہلکا سا مسکرا کر ڈائس کی جانب بڑھا۔ مائیک کو اونچا کیا۔ سب سے پہلے ڈھاہاں کی انتظامیہ، بارج فیملی اور دیگر منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔
پھر انتہائی غلط انگریزی بولتے ہوئے اپنی ماسی کا شکریہ ادا کیا۔ پھر ہال سے مخاطب ہو کر کہا کہ مجھے سمجھ نہیں لگ رہی کہ میںانگریزی میںبات کروں یا پنجابی میں، کیونکہ حاضرین میں دونوں طرح کے لوگ موجود ہیں، تو ہال میں سے پنجابی پنجابی کی آوازیںآنے لگ گئیں۔
پہلے لمحے یہ احساس اُبھرا کہ جب لوگ پنجابی فکشن کے ایوارڈ میں پنجابی بولی ہی سُننا چاہتے ہیں تو انتظامیہ نے انگریزی کے لیے کہا ہی کیوں؟….. اس کے بعد میں نے وہی کچھ بولا جو اُس وقت میرے دماغ میںآ رہا تھا۔ کچھ اُن لوگوںکا شکریہ ادا کیا جن کا میرے ساتھ ان پچھلے برسوں میں بہت زیادہ تعاون رہا تھا۔ کچھ ماں بولی کی اہمیت بیان کی اور پھر بابا فرید کا یہ دوہا بھی حاضرین کی سماعت کی نذر کیا:
فریدؔا ایہہ جو جنگل رُکھڑے ہریل پت تنہاں
پوتھا لکھیا ارتھ دا ایکس ایکس مانہہ
یعنی جنگل میں موجود درختوں کے پتوں کی لکیریں مختلف ہوتی ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ شجر کی مانند ہوتے ہیں جو آپ کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔
اپنی گفتگو کا اختتام نجم حسین سید کا شکرگزار ہوتے ہوئے کیا جنہوں نے مجھے پنجابی زبان میں لکھنے کے لیے کہا تھا۔
اُس کے بعد ترنم تِھند نے باری باری دیگر انعام یافتگان کو اسٹیج پر بُلایا اور جتندر کی تقریر کے بعد ترنم تِھند نے باقاعدہ طور پر تقریب کے اختتام کا اعلان کر دیا۔جس کے بعد ہال میں موجود حاضرین اوردیگر مہمان ایک دوسرے کے ساتھ ملنے لگے۔
جتندر مکمل طور پر اس تقریب کے دولہا بن گئے۔ ہال میں موجود ہرکوئی اُن کے ساتھ سیلفی اور تصاویر بنوانا چاہتا تھا۔
ڈھاہاں والوں کی جانب سے Official فوٹوگرافر خاتون نے بھی کئی یادگار تصاویر بنائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نِشا نے بھی بہت خوبصورت لمحات کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا۔ میں یہاں مہمانوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا چاہ رہا تھا کیونکہ ابھی تقریب اپنے پُورے جوبن پر تھی لیکن پریم مان کو ہمیں یعنی جتندر،دیوندر اورمجھے ہوٹل بھی چھوڑنا تھا۔
وہ ہمیں بارہا جلد فارغ ہونے کا کہہ چکے تو میرے دل میں تھوڑا سا احتجاج تھا کہ بھائی یہ لوگ دوبارہ اس طرح سے نہیں ملنے والے۔ اس لیے کچھ وقت اِدھر گزارنے دیں۔
بہرحال دیارغیرمیں کیاکیا جا سکتا تھا۔ ہم لوگ کب ہوٹل پہنچے، پتا ہی نہیں چلا۔ پریم مان جی کی تمام تر مہمان نوازی کا پوری طرح سے شکریہ ادا کرنے کی کوشش کی کہ کس طرح اُنہوں نے ہمیں بارہا اپنی گاڑی میں بٹھا کر مختلف جگہوں پر لانے لے جانے کا جتن کیا۔
اُنہوں نے مجھ سے پاکستان میں مختلف شخصیات کا آئندہ جیوری میں ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں پوچھا تو میں نے اُن سے کوئی بھی بات کرنے سے تقریباً معذرت ہی کر لی کہ میں ان جھمیلوں سے الگ کھڑا ہوں جس طرح پنجابی میں کہتے ہیں کہ ’’سادھوواں نوں کیہ سواداں نال…؟‘‘ اور پھریہ بھی کہا کہ اگراُن کا کوئی دوست لاہور کی سیر کے لیے آئے تو میں کچھ گائیڈ بھی کردوں۔
میں اپنے کمرے میںاور جتندر،دیوِندر دونوں بھائی اپنے کمرے میںچلے گئے۔ میں نے ایک بار تمام سامان کو اچھے طریقے سے چیک کیا۔ لکڑی کی اُس خوبصورت ٹرافی کو سنبھال کر رکھا اور ماسی کو کال کی کہ اُس ٹرافی کے لیے کوئی ڈبہ لیتی آئیں کیونکہ بارج اُس کی پیکنگ اپنے دفتر چھوڑ آئے تھے اور اگلے روز ملنا بھی ممکن نہ تھا۔
پروگرام کے دوران ہی مجھے ہرِندر جی اگلے دن کی فلائیٹ کے ٹکٹ کا پرنٹ آؤٹ دے چکی تھیں اور میں نے احتیاطاً اُن کو بھی پرنٹ آؤٹ لانے کے لیے کہہ دیا تھا۔ اُس کے بعد کچھ دیر پاکستان میں اپنے گھر اور دوستوں سے گپ شپ کی۔ میرے ڈیپارٹمنٹ نے اپنے Official page کی News پہلے ہی سے لگا رکھی تھیں۔
اُن کو بھی کچھ تصاویر بھجوائیں۔ کچھ پاکستانی چینلز کے دوستوں کی کالز بھی آ گئیں جن میںذیشان حسین، کاشف رضا اور شمس الحق نے اپنے اپنے چینل کے لیے رپورٹس بھی بنوا کر بھجوا دی تھیں۔
یہاں ایک بات بتاتا چلوں کہ گورمکھی رسم الخط میں اپنی کتاب ’’عام خاص‘‘ پر ایوارڈ جیتنے والے مشرقی پنجاب کے لکھاری گوردیو سنگھ روپانہ ضعیف العمری اور خرابی صحت کے باعث تقریب کے موقع پر کینیڈا تشریف نہیں لا سکے تھے۔
(مُکتسر سے تعلق رکھنے والے اس شاندار لکھاری کا 6 دسمبر 2021ء کو 85 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔) سو اُن سے ملاقات نہ ہونے کا قلق عمر بھر رہے گا۔اُن کا ایوارڈ بارج کے رشتہ دار اجمیر روڈے نے وصول کیا۔ (جاری ہے)
The post ایوارڈ وصول کرنے کی کیفیت کا بیان لفظوں میں ممکن نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.