بھارت میں کسی عام ہندو سے وزیراعظم نریند مودی کے بارے میں رائے پوچھیے تو وہ عموماً تعریف کرتا ہے۔
بنیادی دلیل یہ ہوتی ہے کہ مودی کرپٹ لیڈر نہیں…اس نے دیگر سیاست دانوں کی طرح کرپشن سے مال اکھٹا نہیں کیا، سرکاری خزانہ لوٹ کے محل کھڑے نہیں کیے، غیر ملکی اکاؤنٹس میں ناجائز کمائی جمع نہیں کی، جائیدایں نہیں بنائیں اور نہ کاروبار دنیا بھر میں پھیلائے۔وہ تو توشہ خانے کے تحائف بھی نیلام کر رقم سماجی تنظیموں کو دے ڈالتا ہے۔
دوسری دلیل یہ کہ اس نے ہندو قوم کو عزت وشہرت بخشی ۔اب ہندو بھارت کے حقیقی حکمران ہیں ورنہ پہلے سیکولر لیڈر حکمرانی کر رہے تھے جو اقلیتوں کو بھی سر پہ چڑھا کر رکھتے۔اور آخری دلیل یہ کہ مودی اچھا منتظم یا گڈ گورنس کرنے والا راہنما ہے۔وہ بھارت کو سپر پاور بنا کر ہی دم لے گا۔
عام ہندوؤں کی باتوں سے عیاں ہے کہ مودی اپنے پرستاروں اور پیروکاروں کی نظر میں اور جن کی تعداد کروڑوں میں ہے، ایک دیوتا بن چکا۔وہ سمجھتے ہیں کہ مودی سے کوئی غلط کام سرزد نہیں ہو سکتا اور وہ ’’پوتر‘‘یعنی پاک ہے۔
مذہبی طور پہ شدت پسند ہونے کے سبب مودی کے اکثر پیروکاروں کا نظریہ ہے کہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی اس کی پالیسی درست ہے۔وہ اِسے مسلمانوں کے خلاف مودی کا جہاد قرار دیتے ہیں۔ان کا دعوی ہے کہ بھارت میں ہندو کئی صدیوں سے ظلم سہ رہے تھے۔
مودی نے انھیں دوبارہ بھارت کا حاکم بنا دیا۔بھارتی مسلمانوں کو ان کی اوقات یاد دلائی اور انھیں بتایا کہ وہ بھارت کے حکمران نہیں بلکہ ہندوؤں کے ماتحت ہیں۔اس بنا پر مودی دیوتا سمان ہے اور پوجا کے لائق بھی۔
بھارت میں خصوصاً عام ہندو نریندر مودی کے بارے میں جو رائے رکھتے ہیں، وہ اس عمل کی کلاسیک مثال ہے جسے پہلے پہل جرمن آمر ہٹلر کے وزیر، جوزف گوئبلز نے نمایاں کیا۔عمل یہ ہے کہ جھوٹ اتنا زیادہ اور بار بار بولو کہ وہ سچ میں بدل جائے۔
اس پروپیگنڈے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عام آدمی اپنی محدود عقل اور تنگ نظری کے باعث جھوٹ کے پیچھے پوشیدہ سچائی نہیں دیکھ پاتا اور ظاہر کو قبول کر لیتا ہے۔وہ پھر جھوٹ پر اندھا دھند اعتماد کرتا ہے۔
مودی کا معاملہ ہی دیکھ لیجیے۔درست کہ مودی کو بظاہر مال ودولت اور دنیاوی چیزوں سے رغبت نہیں۔اس کا شوق بھی لے دے کر یہ بتایا جاتا ہے کہ اسے عمدہ لباس پسند ہیں۔مگر سادگی کا یہ ظاہری نمونہ فراڈ اور دھوکے بازی کے لباس میں ملفوف ہو سکتا ہے۔
وجہ یہ کہ مودی کٹر ہندو اور قوم پرست ہے۔ ممکن ہے کہ وہ سرکاری ٹھیکوں میں رشوت المعروف بہ کمیشن لیتا ہو۔
یہ رقم پھر اس کی قوم پرست ہندو جماعت، آر ایس ایس کی سرگرمیوں میں استعمال ہوتی ہو۔آخر کیا وجہ ہے، آج آر ایس ایس بھارت کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم بن چکی؟اس کے ’’30 ہزار ‘‘تعلیمی اداروں میں لاکھوں بچے پڑھتے ہیں۔پھرسماجی خدمت کے ہزارہا ادارے اس کے علاوہ ہیں۔اسی خدمت کے بہانے آرایس ایس ہندو عوام کے دلوں میں جگہ بناتی اور اپنے سیاسی ونگ، بی جے پی کے لیے ووٹ حاصل کرتی ہے۔
آرایس ایس اپنی سرگرمیوں کے لیے ہندو عوام سے چندہ لیتی ہے مگر وہ اتنا زیادہ نہیں ہوتا کہ تنظیم کے بھاری بھرکم اخراجات پورے ہو جائیں۔ یہ خرچے ہندو و غیر ہندو امرا سے رقم کسی نہ کسی بہانے اینٹھ کر پورے کیے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہہ کر کہ ہندومت کی ترویج کے لیے پیسا دو۔ یا غریب ہم مذہبوں کی مالی مدد کرو۔پھر اب تو آر ایس ایس کی حکومت ہے۔
کوئی چوں چرا کرے، تو مودی کے دفتر سے ایک دہمکی آمیز فون کال اس کا مزاج درست کر دیتی ہو گی۔مودی کی سادگی و بے رغبتی اس لیے بھی دکھاوا اور ڈراما لگتی ہے کہ موصوف کی عملی زندگی جھوٹ و مکاری سے عبارت ہے۔
مثلاً اس کی ازدواجی زندگی ہی کو لیجیے جو کسی بھی انسان کے کردار وشخصیت کی اصلیت جاننے کا بڑا اہم پیمانہ ہے۔ جو انسان گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ جیسا سلوک روا رکھے، وہی اس کی حقیقی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اور مودی کی گھریلو زندگی اسے ایک جھوٹا اور ظالم انسان ثابت کرتی ہے۔
۱۹۶۸ء میں جب مودی اٹھارہ سال کا تھا تو اس کی شادی ہو گئی۔مگر وہ نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر بھاگ گیا۔دو سال تک بھارت بھر میں آوارہ گردی کرتا رہا۔واپس آیا تو ہندو قوم پرست تنظیم، آر ایس ایس کا پرچارک(کل وقتی کارکن)بن گیا۔چونکہ صرف غیر شادی شدہ مرد ہی پرچارک بن سکتے تھے لہذا مودی نے یہ حقیقت چھپا لی کہ وہ شادی شدہ ہے۔
یہ اس کا بہت بڑا جھوٹ تھا جو کئی عشروں بعد ۲۰۱۴ء میں سامنے آیا جب مودی پارلیمانی الیکشن لڑنے لگا۔تب ایک قانون کے ذریعے یہ لازم کر دیا گیا تھا کہ امیدوار اپنی ازدواجی حیثیت ظاہر کرے۔ اس کی بیوی، یشودھا آج تک اپنے شوہر سے ناراض ہے مگر کُھل کر احتجاج نہیں کر سکتی۔اسے خطرہ ہے، اس کا طاقتور شوہر نقصان پہنچا سکتا ہے۔اسی لیے مودی کے ظلم وستم کا شکار بیچاری عورت خاموشی سے زندگی گذار رہی ہے۔
یشودھا کی زندگی اس لیے تباہ ہوئی کہ مذہبی انتہا پسندی اور قوم پرستی نے مودی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ دونوں نظریے انسان کے لیے زہر ِقاتل ہیں۔
یہ اسے دوسرے انسانوں سے نفرت کرنا سکھاتے ہیں۔ ان نظریوں کی وجہ سے ہی انسان جانور بن کر دوسرے انسانوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔اس ضمن میں مودی کے اعمال سبھی کے سامنے ہیں۔ اس کی زیرقیادت ہندو انتہا پسند بھارتی مسلمانوں،عیسائیوں اور دلتوں پہ بے انتہا ظلم ڈھا رہے ہیں، صرف اس لیے کہ ہندومت کا بول بالا ہو سکے۔
تعلیم کے معاملے میں بھی مودی نے جھوٹ بولے اور اصل حقائق پوشیدہ رکھے۔ مودی کا دعوی ہے کہ 1978ء میں اس نے دہلی یونیورسٹی کے سکول آف اوپن لرننگ سے بذریعہ خط کتابت سیاسیات میں بی اے کیا اور اس کی تھرڈ کلاس آئی تھی۔پھر 1983ء میں گجرات یونیورسٹی سے وہ بذریعہ خط کتابت ایم اے سیاسیات کرنے میں کامیاب رہا۔اس کی فرسٹ کلاس آئی۔
تاہم دہلی یونیورسٹی اور گجرات یونیورسٹی، دونوں کے پاس مودی کی ڈگریوں کا ریکارڈ موجود نہیں۔اس سچائی سے عیاں ہے کہ مودی کی تعلیم کا کوئی ریکارڈ نہیں اور عین ممکن ہے کہ اس نے میٹرک بھی نہ کیا ہو۔
1985ء تک مودی آر ایس ایس میں مقامی سطح کا راہنما تھا۔اسی سال اسے آر ایس ایس نے اپنے سیاسی ونگ، بی جے پی کے سپرد کر دیا۔تب ہندو قوم پرست بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لیے بھارت بھر میں اپنی مہم چلا چکے تھے۔مودی نے اس مہم میں سرگرم حصہ لیا۔ جلسے جلوسوں کا انعقاد کامیابی سے کیا۔یوں وہ ہندو قوم پرستوں میں جانا پہچانا لیڈر بن گیا۔
اس طرح مسلمانوں کے خلاف منفی سرگرمیوں میں حصہ لے کر مودی نے سیاسی طور پہ ترقی کی۔نفرت کی سیاست کرنے والے لیڈر کو صرف اسی ملک میں پذیرائی ملتی ہے جہاں جہالت کی وجہ سے مذہبی شدت پسندی کا دور دورہ ہو اور اکثریت اپنے مذہبی عقائد بہترین ہونے کے زعم و غرور میں اقلیتوں پر ظلم وستم کرنے لگے۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کے جلسوں میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں کرنا مودی کا معمول تھا۔وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جھوٹی باتیں کرتا اور افواہیں پھیلاتا۔ مثلاً یہ کہ پچھلے آٹھ سو سال سے مسلم حکمران ہندوؤں پر ظلم کرتے رہے ۔یا یہ کہ مسلمانوں نے زبردستی بت پرستوں کو مسلمان بنا لیا۔چناں چہ اب ہندؤں کو بھی مسلمانوں پہ ظلم کرنے کا حق حاصل ہے۔نوجوانی میں مودی اپنے مسلم ہم وطنوں کے خلاف بڑھ چڑھ کر بولتا اور ہرزہ سرائی کرتا تھا۔
بیسویں صدی کے اواخر میں ریاست گجرات میں بی جے پی کو مستحکم کرنے کی خاطر مودی کووہاں کا وزیر اعلی بنا یا گیا۔مودی نچلی ذات کا راہنما تھا۔لہذا بی جے پی کے مقامی برہمن لیڈروں نے اس کی قیادت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
قریب تھا کہ مودی کو واپس نئی دہلی بلوا لیا جاتا، ایک پُراسرار واقعے نے اسے راتوں رات زیرو سے ہندو قوم کا ’’ہردے سمرت‘‘(دلوں کا بادشاہ)بنا ڈالا۔ہوا یہ کہ 27 فروری 2002ء کی صبح گجراتی شہر، گودھرا پر ہندو قوم پرستوں اور مسلمانوں کے مابین توتکار ہوئی۔اس دوران ریل کی بوگیوں میں پراسرار طور پہ آگ لگی اور انسٹھ مسافر مارے گئے۔
ہندو قوم پرستوں نے فوراًً مسلمانوں پہ آگ لگانے کا الزام لگا دیا۔ اس واقعے کے بعد مودی نے ہندو قوم پرست تنظیموں کے غنڈوں کو مسلمانوں پہ حملے کرنے کی کھلی چھٹی دے دی۔پولیس کو ہدایت کی کہ وہ غنڈوں کا راستہ نہ روکے۔چناں چہ بلوائیوں نے ہزارہا مسلمان شہید کر دئیے۔ان کے گھر، دکانیں اور دفتر لوٹ کر جلا دئیے گئے۔خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔
یوں مودی کی زیرقیادت گجرات کے ہزارہا انسان حیوانوں سے بھی بدتر بن گئے۔مودی کے احکامات پر ریاستی مشینری تماشائی بنی رہی۔حتی کہ بھارتی فوج کے پورے ڈویژن کو فساد زدہ علاقوں سے دو دن تک دور رکھا گیا حالانکہ اس کا کمانڈر ایک مسلم میجر جنرل تھا۔
گجراتی مسلمانوں کی نسل کشی پر باضمیر بھارتی مودی پہ تنقید کرنے لگے۔ اسے اس تنہائی سے ایک گجراتی ارب پتی، گوتم اڈانی نے نکالا۔یہی وجہ ہے، مودی اس پر بے جا اور غیر قانونی نوازشیں کرنے لگا۔دونوں کے ناجائز گٹھ جوڑ کو حال ہی ایک امریکی کمپنی کی رپورٹ نے نمایاں کیا ہے۔
یہ اقربا پروری اور قانون پیروں تلے روند دینے کی داستان ہے جو نریند ر مودی کا ایک اور سیاہ و مکروہ پہلو سامنے لے آئی۔دراصل خدا کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں! مودی کے پیروکاروں نے اس کے گرد تقدس و تکریم کا جو ہالہ بنا دیا تھا ، اسے اڈانی کے اسکینڈل سے بڑا دھچکا لگا۔
دنیا میں آباد انسانوں کے بنیادی طور پہ دو گروہ ہیں: اچھے لوگ اور بُرے لوگ۔انسان کے اعمال ہی اسے کسی ایک گروہ میں شامل کرتے ہیں۔
اور مودی کے اعمال دیکھے جائیں تو غیر جانب دار انسان فوراً اسے بُرے انسانوں کے گروپ میں ڈال دے گا۔مگر مودی کے پوجنے والے ہندوؤں کو اس میں کوئی خامی نظر نہیں آتی۔ جبکہ طاقتور ممالک کے حکمران معاشی مفادات کی وجہ سے مودی کا ساتھ دیتے ہیں۔
الم ناک بات یہ کہ بعض عرب حکمران بھی معاشی فوائد پانے کے لیے مودی سے قربت بڑھا چکے۔وہ اتحاد اسلامی اور مسلم بھائی چارے کو بھول چکے جسے شاہ فیصل، کرنل قذافی اور شیخ زائد جیسے مسلم رہنماؤں نے پروان چڑھایا تھا۔
یہ رہنما ہر پلیٹ فارم پر بھارتی مسلمانوں کی حمایت اور ہندو قوم پرستوں کی مخالفت کرتے تھے۔دنیائے اسلام میں اب ان جیسے دلیر حکمران دکھائی نہیں دیتے۔
درج بالا حقائق سے آشکارا ہے کہ نریندر مودی ایک بدمعاش انسان ہے۔اس نے اپنی بیوی سے ناروا سلوک کیا اور بطور شوہر اپنے فرائض ادا نہیں کیے۔سیاست میں داخل ہوا تو مسلمانوں پہ ظلم ستم ڈھانا اپنا شعار بنا لیا۔ پھر اڈانی جیسے ارب پی پس پشت رہتے ہوئے مودی کے حمایتی بن گئے۔
انہی کے سرمائے کی مدد سے مودی وزیراعظم بننے میں کامیاب رہا۔یہی وجہ ہے، مودی ایسی سرکاری پالیسیاں بنانے لگا کہ صنعت ، تجارت اور کاروبار کرتے ارب و کھرب پتیوں کو فوائد پہنچا سکیں۔
زرعی اصلاحات بھی اسی پلان کا حصہ تھیں مگر سکھ کسانوں کے پُرزور احتجاج کے باعث مودی کو پسپا ہونا پڑا۔یہ نہایت افسوس ناک اور صدمہ انگیز بات ہے کہ مودی کے پرستار ہندو عوام کو اس کے کردار کی خرابیاں و خامیاں دکھائی نہیں دیتیں۔چناں چہ پیروکار راہنما کی باتوں پہ بے سوچے سمجھے عمل کرنے لگتے ہیں۔اسی باعث معاشرے میں انتشار و افتراق جنم لیتا ہے۔
مودی نے اپنی پالیسیوں سے بھارتی معاشرے میں اتحاد، محبت ، یگانگت اور رواداری کو فروغ نہیں دیا، بلکہ مختلف گروہوں کے مابین اختلاف ودشمنی میں اضافہ کر ڈالا۔خصوصاً بھارتی مسلمان اب ہندو اکثریت کے نرغے میں آ کر بڑی کسمپرسی اور خوف کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
مسلمانوں کی اکثریتی ریاست جموں وکشمیر میں تو مودی اپنی طاقت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر آمر بن بیٹھا۔وہاں مودی ایک بار پھر ظالم اور عیار انسان کی شکل میں سامنے آیا۔مودی کی زیرہدایت جموں و کمشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسز مقامی مسلمانوں پر ہر قسم کا ظلم وستم ڈھا رہی ہیں۔جبکہ شاطر مودی سازشوں اور چالوں کی بدولت بھرپور کوشش کر رہا ہے کہ ہندو اقلیت ریاست میں حکومت بنا کر اکثریتی مسلمانوں پہ حکمرانی کرنے لگے۔
اگر یہ ’’چمتکار‘‘ظہور پذیر ہوا تو نریندر مودی کے پرستاروں کی نگاہ میں اس کی دنیاوی کامیابیوں کے تاج میں ایک نئی کلغی لگ جائے گی۔ مگر حقیقی مسلمان اور دنیا کا ہر حق گو انسان اس فعل کو ظلم، عیاری اور غیر منصفانہ ہی قرار دے گا۔
مودی اگرچہ پہلے کی طرح مسلمانوں کا ظاہری دشمن نہیں رہا ۔وجہ یہ کہ بھارت میں اسلام یا مسلمانوں کے خلاف واقعات جنم لیں تو بیرون ممالک میں مودی کی شخصیت کا تاثر متاثر ہوتا ہے۔نیز بھارت کے معاشی و سیاسی مفادات کو ضرب لگتی ہے۔مگر باطنی طور پہ مودی اب بھی مسلمانوں سے نفرت کرتا اور انھیں نقصان پہنچانے کی ترکیبیں سوچتا رہتا ہے۔
وجہ یہی کہ مودی کو بھارت میں مسلمانوں کی مخالفت کرنے سے عروج ملا۔وہ مسلمانوں کو ٹارگٹ کر کے ایک معمولی کارکن سے وزیراعظم بن گیا۔لہذا اب مسلمانوں کی مخالفت کرنا اور ہندومت کی بڑھوتری و ترقی چاہنا مودی کی مجبوری ہے۔ جس دن اس نے مسلمانوں کی مخالفت ترک کی، ہندو عوام کے دل سے اتر جائے گا۔
جنوری 2923ء میں برطانوی خبر رساں ایجنسی، بی بی سی نے ایک دستاویزی فلم ’’India: the Modi Question‘‘ جاری کی۔ یہ فلم سانحہ گجرات کے بارے میں ہے۔اس میں افشا کیا گیا کہ مودی گجراتی مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث تھا۔مودی نے فورا ً بھارت بھر میں دستاویزی فلم دکھانے پر پابندی لگا دی۔ یوں اس نے آمر بنتے ہوئے آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹ دیا۔
آمر اپنے اوپر تنقید برداشت نہیں کر سکتے ۔ یہی نہیں، مودی نے بی سی سی کو انتقام کا نشانہ بھی بنا ڈالا۔اس کی ہدایت پر ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے افسروں نے بھارت میں بی سی سی کے دفاتر پر دھاوا بول دیا اور سارا ریکارڈ اپنے قبضے میں لے لیا۔بعد ازاں بی سی سی کے بھارتی عملے پر الزام لگا دیا کہ وہ ٹیکس چوری میں ملوث ہے۔
اس واقعہ نے مودی کی آمریت ، خودسری اور غرور سبھی دنیا والوں پہ اجاگر کر دیا۔ میڈیا اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بی بی سی کے خلاف ناروا اقدامات کرنے پر مودی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ مودی دراصل خود کو خدا سمجھنے لگا ہے۔
مگر حقیقی خدا بھی وقتاً فوقتاً اسے زبردست جھٹکے دے کر عرش سے فرش پر لے آتا ہے۔اگلے سال بھارت میں پارلیمانی الیکشن ہیں۔اگر بھارتی اپوزیشن یکجا ہو گئی اور اس نے فاشسٹ مودی کے مقابلے میں ملکی ترقی کا متبادل ماڈل پیش کر دیا تو وہ مودی کو شکست سے ہمکنار کر سکتی ہے۔
The post نریندر مودی کا ’’ مقدس ‘‘ بُت پاش پاش appeared first on ایکسپریس اردو.