قیام پاکستان اور تعمیر پاکستان میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھیوں اور اس تحریک آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو تحریک آزادی کے راہ نما اور کارکنانِ تحریک پاکستان کے نام سے سے پکارا جاتا ہے۔
ان ہی راہ نماؤں میں اور قائد اعظم کے قریبی رفیق الحاج محمد ہاشم گزدر کا نام بھی سرفہرست راہ نماؤں میں شمار ہوتا ہے۔
ہاشم گزدر کا تعلق مسلم مارواڑی سلاوٹہ جماعت رجسٹرڈ (جیسلمیری) کراچی سے ہے۔ وہ سلاوٹ برادری میں بابائے سلاوٹ جماعت کے لقب سے پکارے جاتے ہیں۔
ہاشم گزدر کو قائداعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کی محبت کے سبب نہ صرف قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں بلکہ ان پر تاحیات ایبڈو کا قانون بھی لگا رہا۔ اس قانون کے تحت وہ ساری عمر دوبارہ سیاست میں حصہ نہ لے سکے۔
ہاشم گزدر صاحب کی پاکستان کے لیے خدمات کو آج پاکستان کے 76 سال مکمل ہونے تک بھی کوئی فراموش نہیں کر سکتا ہے اور سب اس بات کا اعتراف سب کرتے ہیں کہ ہاشم گزدر نے قیام پاکستان کی تحریک میں تن من دھن کے ساتھ ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے بھرپور کام کیا۔
ہاشم گزدر جیسلمیر، راجستھان، انڈیا میں پیدا ہوئے تھے۔ والد کے انتقال کے بعد ان کے بڑے بھائی ان کو کراچی لے آئے، جہاں انہیں سندھ مدرسۃالاسلام اسکول میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔
اس کے بعد پونا بھارت کے لیے اعلٰی تعلیم حاصل کرنے گئے اور انجینئر کی تعلیم مکمل کرکے واپس کراچی آئے اور اپنی زندگی کی پہلی ملازمت سکھر بیراج کی تعمیر میں بحیثیت انجینئر ملازمت اختیار کی۔
ہاشم گزدر کا ذکر جی ایم سید نے اپنی کتاب میں بھی بہت اچھے الفاظ میں کیا ہے اور ان کی شعلہ بیان تقاریر اور سندھ اسمبلی میں پیش کی گئی قراردادوں اور بل کو تاریخی قرار دیا گیا ہے۔
ہاشم گزدر سلاوٹ برادری کے بزرگ بابا میر محمد بلوچ کے انتقال کے بعد سیاست میں آئے اور حصہ لینا شروع کیا۔ بابا میر محمدبلوچ سندھ کے ایک سرگرم راہ نما رہے ہیں۔ بمبئی سے سندھ کو الگ کرنے کی تحریک میں ان کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
1936 ء میں سندھ بمبئی سے علیحدہ ہو کر خودمختار صوبہ بنا اور جب سندھ کی 1936 ء میں پہلی اسمبلی بنی تو اس کا ممبر ہاشم گزدر بھی تھا۔ ہاشم گزدر 1936 ء سے 1948 ء تک سندھ اسمبلی کے ممبر رہے اور اس دوران وزیر تعلیم، وزیرقانون، وزیر پارلیمانی امور اور وزیرداخلہ کے قلم دان سمیت دیگر ذمے داریاں بھی ان کو سونپی گئی۔
ہاشم گزدر 1941۔ 1942 ء میں میئر کراچی بھی رہے۔ 1945ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر بڑی کام یابی حاصل کی۔ ہاشم گزدر سندھ مدرسۃ الاسلام بورڈ کی تاحیات ممبر بھی رہے۔ اس کے علاوہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ٹرسٹی میں بھی شامل تھے اور ریلوے کی کمیٹی ممبر میں بھی شامل تھے۔
ہاشم گزدر پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بھی رہے اور پاکستان کا مشہور مقدمہ مولوی تمیز الدین کی ایف آئی آر بھی ہاشم گزدر نے ہی کاٹ واکر مقدمے کی بنیاد رکھی تھی۔
اس میں وہ تاریخی واقعہ آج بھی کتابوں اور سندھ اسمبلی کے ریکارڈ میں موجود ہے کہ جب پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کیا گیا تو ہاشم گزدر سندھ اسمبلی پہنچے اور سندھ اسمبلی کے مرکزی دروازے پر گاڑی کی ٹکر مار کر کہا کہ دروازہ کھولو میں ڈپٹی اسپیکر ہوں۔ اس اسمبلی کی تحلیل کو نہیں مانتا۔ اس کے بعد ہاشم گزدر نے تھانے جا کر ایف آئی آر درج کروائی۔
ہاشم گزدر قائداعظم محمد علی جناح سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ 1940 ء میں لاہور میں جب مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد پاکستان پیش کی جا رہی تھی تو یہ افواہ گرم تھی کہ اس موقع پر قائداعظم پر حملہ کیا جائے گا۔ ہاشم گزدر جلسہ گاہ میں قائد اعظم کی کرسی کے قریب کھڑے رہے کہ دیکھتا ہوں کون قائد اعظم پر حملہ کرتا ہے۔
اس طرح جب قائداعظم کی رحلت کے بعد مسلم لیگ کو تقسیم کرنے کی باتیں کی جانے لگیں اور کلفٹن میں ایک اجلاس بلایا گیا اور لوگوں سے کہا جانے لگا کہ کونسل مسلم لیگ میں شامل ہو تو ہاشم گزدر نے نواب آف کالا باغ سردار عبدالرب نشتر سمیت بڑے بڑے راہ نماؤں سے بات کی کہ وہ قائداعظم کی مسلم لیگ کو نہ چھوڑ یں اور نہ ہی اسے تقسیم کریں۔
اس موقع پر سلاوٹ برادری کے ایک بزرگ کے مطابق انہوں ں نے قسم بھی کھائی کہ وہ مسلم لیگ کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ مسلم لیگ اس کے بعد اتنی تقسیم ہوئی کہ اب ان کے نام بھی یاد نہیں ہے۔
ایوب خان کے دور میں جب صدارتی الیکشن ہوا تو ان کے مقابلے میں فاطمہ جناح نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور لالٹین انتخابی نشان لیا۔ اس موقع پر ہاشم گزدر نے فاطمہ جناح کی بھرپور کام یابی کی تحریک چلائی جس کی پاداش میں ایوب خان کے دور میں تحریک آزادی کے اس راہ نما کو پابند جیل کر دیا گیا اور ان پر اے بٹا کا قانون بھی لگادیا گیا جس کے تحت گزدر صاحب کو تاحیات سیاست سے دور کر دیا گیا تھا۔
1967 ء کو گزدر صاحب کو ذوالفقار علی بھٹو نے جیل سے رہا کروایا۔ اس کے دو سالوں کے بعد 11 فروری 1969 ء کو تحریک آزادی کا وہ عظیم سپوت قائداعظم محمد علی جناح کا رفیق خاص اس دنیا سے کوچ کر گیا، جسے سلاوٹ قبرستان دھولی گھاٹ کراچی کے قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔
ہاشم گزدر سے ڈھائی سو سالوں سے کراچی میں آباد مسلم مارواڑی سلاوٹہ جماعت والہانہ محبت کرتی ہے اور ہر سال 11 فروری کو ان کی برسی کے موقع پر قرآن خوانی اور دعائے مغفرت کا اہتمام کیا جاتا ہے، جب کہ ان کے پوتے محمد کمال گزدر کی جانب سے راجستھانی ڈش لاپسی دال چاول برادری کے افراد کو کھلائی جاتی ہے۔
فروری کا مہینہ گزدر صاحب کی یادوں کا مہینہ ہے۔ یکم فروری ہاشم گزدر کا یوم پیدائش ہے اس روز میر محمد پروگریسؤ اکادمی میں سلاوٹ پلس کی جانب سے کیک کاٹا جاتا ہے جب کہ 11 فروری الحاج محمد ہاشم گزدر کی وفات کا دن ہے۔
The post ہاشم گزدر؛ تحریک پاکستان کے عظیم راہ نما appeared first on ایکسپریس اردو.