دنیا وسیع ہے ۔ اور اپنے اندر تنو ع سموئے ہوئے ہے۔ یوں تو دنیا کا ہر گوشہ ہی اپنے اپنے انداز میں منفرد اور خوبصورت ہے مگر سنگاپور ایک ایسا ملک ہے جو اپنی خوبصورتی اور دیگر وجوہات کی بنا پہ دنیا کے خوبصورت و ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتا ہے۔
جنوب مشرقی ایشیاء میں واقع اس چھوٹے سے ملک کا رقبہ 716کلو میٹر ہے اور یہ دنیا بھرمیں رقبے کے لحاظ سے176 ویں نمبر پر شمار ہوتا ہے۔
اس کی زیادہ تر آبادی چینی لوگوں پہ مشتمل ہے جو 74فیصد ہے۔14 فیصد کے قریب مالے قوم ہے اور 9فیصد کے قریب تامل لوگ ہیں۔ یہ بھارت کی ریاست تامل سے ایک صدی قبل کاروبار کی غرض سے آنے والے لوگ تھے۔
باقی3فیصد دوسرے ممالک سے آئے ہوئے لوگ ہیں۔اگر مذاہب کی بات کی جائے تو یہاں بڑی تعداد میں بدھ مت کے پیروکار بستے ہیں۔جو آبادی کا 33.2فیصد ہے۔ 18فیصد کرسچن15 فیصد مسلم 10 فیصد داؤ مت اور 5 فیصد ہندو اور دیگر مذاہب کے ماننے والے ہیں۔
مسلمانوں کی بڑی تعدار مالے قوم ہے جو ملائیشیا میں بھی رہائش پذیر ہے۔ سنگاپور کی تاریخی حیثیت کو جانا اور پرکھا جائے تو دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔
سنگاپور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ 14صدی عیسوی سے پہلے یہ جزیرہ نامعلوم تھا۔سمالٹا سے ایک شہزادے نے آکر یہاں شیر دیکھا اور مالی زبان میں شیر کو ’’سینگا‘‘ کہتے ہیں تو اس کا نام سنگا پور رکھا گیا۔صدیوں تک یہ جزیرہ غیر آباد رہا۔1819ء میں اس پر حکومت برطانیہ نے قبضہ کر لیا۔
دوسری جنگ عظیم میں اس پہ جاپانیوں نے قبضہ کیا۔1940میں اسے ایک برطانیوی کالونی کا درجہ دیا گیا۔31اگست 1963کو اس نے برطانیہ سے آزادی حاصل کر لی۔
یہ ایک وقت میں ملائیشیا کا حصہ بھی رہا، اس نے برطانیہ سے آزادی کے16 دن بعد ملائیشیاسے الحاق کر لیا۔اس الحاق کو ابھی دو برس بھی نہ گزرے تھے کہ ملایشیاء نے سنگاپور کو الگ کر دیا۔سنگاپور جب ملائیشیا کی چودہ ریاستوںمیں شامل تھا تب سنگاپور کی پیپل لبریشن پارٹی نے سیاست میں اپنے قدم دوسال کے عرصے میں جما لئے تھے۔
ملائیشیا کے وزیراعظم نے آنے والے وقتوںمیں اقتدار اپنے ہاتھوں سے جاتے دیکھا تو 9اگست 1965 مں سنگاپور کو ملائیشیا سے نکالنے کے لئے پارلیمنٹ میں ووٹنگ کی۔ جس میں 0کے مقابلے میں 126ووٹ سے کر سنگاپور کی قسمت کا فیصلہ کیا گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سنگاپور کو آزادی اس کی منشاکے بنا دی گئی ۔وہ ملائیشیا سے نہ نکالے جانے پہ گڑگڑایا تھا۔ پر اس کی شنوائی نہ ہوئی اور شاید اسی کو تقدیر کے سخت فیصلے کہتے ہیں۔
اس وقت مالے قوم کو ہی ملائیشیا میں حقوق حاصل تھے۔دوسری قوموں کو ضروریات زندگی کے حقوق حاصل نہ تھے۔جن میں تعلیم ، صحت اور نوکریاں شامل تھیں۔
سنگاپور کے وزیر اعظم اپنی آزادی کا اعلان کرتے اشک بار تھے۔وہ اس آزادی سے خوش نہ تھے، پر کہتے ہیں بعض اوقات مشکلات اس لئے بھی پڑتی ہیں کہ انسان کو کسی نئے سانچے میں ڈھالنا ہوتا ہے۔
سنگاپور کی محنتی عوام نے اس کی تقدیر بدل دی۔اور سنگا پور کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ترین شہروں میں ہونے لگا۔اگر ملائیشیا وہ فیصلہ نہ کرتا تو شاید آج سنگاپوردنیا کے افق پہ جس قدر چمکتا دکھائی دیتا ہے نہ دے پاتا۔ ایسا نہیں کہ سنگاپور دنوں میں کامیابیوں کی منزلیں طے کر گیا۔ یہ ایک طویل جدو جہد کا کی کہانی ہے۔
شروع میں اسے بھی بہت سے مسائل کا سامنا رہا ۔آبادی شروع میں زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں امیگریشن کو فروغ دیاگیا۔اب سنگاپور کی آبادی چھپن لاکھ سے زائد ہے۔سنگاپور اپنی صاف شفاف سڑکوں اور گلیوں کی وجہ سے بھی دنیا میںا یک منفرد مقام رکھتا ہے یوںتو لوگوں کو لگتا ہے کہ صفائی ستھرائی بڑے پیمانے پہ کرنا ایک مشکل کام ہے اور عموماً لوگ اس کا خیال بھی نہیں رکھتے۔ مگر سنگاپور نے اس حوالے سے بہترین اقدامات اور اصول و قوانین وضع کر رکھے ہیں۔
50ہزار سے زائد ملازمین بھرتی کئے گئے ہیں جن کا کام شاہراہوں اور گلیوں کی صفائی کرنا ہے، پر آپ سوچ رہے ہوں گے صفائی تو ہمارے ہاں بھی ہوتی ہے تو جی اس ضمن میں اہم کام وہاں پر قوانین کی پابندی پر عمل درآمد ہے۔ سڑک یا گلیوں میں کچھ گرانا، تھوکنا، پیشاب کرنا یا توڑ پھوڑ کرنا قابل جرمانہ جرائم میں شمار کیا جاتا ہے۔ اور اس کی سزا جسے کریکٹیوو رک آرڈر کہا جاتا ہے، کے طور پرمجرموںکو ایک چمکدار بنیان پہن کر عوام میں کوڑا اٹھانا پڑتا ہے۔
یہاں تک کہ وہاں چیونگم کھانے پہ بھی پابندی ہے۔ یہ پابندی 1992سے عائد ہے ۔اس کے پیچھے بھی ایک دلچسپ کہانی ہے ۔ جب سنگاپور میں سب وے یعنی میٹرو ٹرین چلائی گئیں تو لوگ ببل گم کھا کر انھیں نیچے پھینک دیتے تھے جس سے اس کے دروازے کھلنے اور بند ہونے میں مشکلات پیش آتیں اور حادثات پیش آتے۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے وہاں کی حکومت نے ببل گمز کی خرید وفروخت پہ مکمل پابندی عائد کر دی۔اب بھی یہ پابندی برقرار ہے سوائے ڈاکٹر کی ہدایات کے کوئی بھی فارمیسی ڈینٹل گم نہیں دیتی۔ شاید کم ہی لوگ اس حقیقت سے آشنا ہوں گے کہ سنگاپور ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں ابارشن بین ہے اور یہ پابندی کئی دہائیوں سے عائد ہے۔
سنگاپور قوانین کے حوالے سے کافی سخت مشہور ہے یہاں تک کہ سیاح عموماً ‘Fine City’ لکھ کر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔کیونکہ سیاحوں کو سگریٹ کے مخصوص علاقوں کے علاوہ سگریٹ پینے اور MRTپہ کھانے پینے پر پابندی عائد ہے۔
اس کے علاوہ چوری ،تخریب کاری، ڈرگ ٹریفیکنگ جیسے جرائم پہ جیل اور سزائے موت تک کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ ہر ترقی یافتہ ملک کی طرح یہاں بھی ٹریفک کے مسائل تھے مگر حکومت نے اس پہ قابو پایا اور وہاں لوگوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کو استعمال کرنے کے رُحجان کو ترغیب دی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سڑکوں پہ کم گاڑیاں نکلتی ہیں اور دھوئیں کی کمی سے ماحولیاتی آلودگی بھی پیدا نہیں ہوتی۔
لوگ پبلک ٹرانسپورٹ اور سب وے استعمال کرنے کو ترجیع دیتے ہیں۔یہاں مختلف لسانی و نسلی گروہوں کے آباد ہونے کے باوجود تعصب نہ ہونے کے برابر ہے مذہبی اور لسانی ہم آہنگی نے ماحول کو پرسکون بنا رکھا ہے۔یہاں ایشیا کی سب سے بڑی بندگاہ ہے جو انتہائی مصروف ترین بندرگاہوں میں سے ایک ہے ۔
یہاں کی خوبصورتی کی بات کی جائے تو مرینا بے سینڈ کو متعارف کرانے کے بعد سے اس کی دلکشی کو چار چاند لگ گئے ہیں۔مگر لوگوں کے لئے اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ آج سے 10برس قبل یہ حصہ سمندری پانی سے جڑا ایک بے کار علاقہ تصور کیا جاتا تھا۔
آرچرڈ روڈ وہاں کی معروف ترین شاہراہوں میں سے ایک ہے وہاں بڑے بڑے شاپنگ مالز اور پلازے ہیں جہاں خصوصا ہفتے کے آخری دنوں میں بے تحاشا رش ہوتا ہے۔
گو یہ ہوٹلوں اور رہائش کے حوالے سے مہنگا شہر ہے پریہاں انتہائی سستا ، صاف ستھرااور معیاری کھانا میسر آتا ہے۔یہاں ہاکرز اور دیگر ٹھیلوں سے تازہ اور لذیز خوراک ملتی ہے جسے سیاح سستاا ور معیاری ہونے کی وجہ سے پسند کرتے ہیں۔زیادہ تر مقامی کھانے ہی پکوان کا حصہ ہوتے ہیں۔
سنگاپور میں پانی کی قلت ایک بڑا مسئلہ رہی ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے انھوں نے ایسا نظام متعارف کرایا ہے جس سے واش رومز میںا ستعمال ہونے والے پانی اور فضلے کو ری سائیکل کر کے اسے پینے کے صاف پانی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
نیز سنگاپور جہاں ایک خوبصورت ملک ہے وہیں وہ قوانین کی پابندی کی بھی ایک بڑی مثال پیش کرتا ہے اور اس سے ترقی پذیر ممالک بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ قوانین تو ہمارے ہاں بھی موجود ہیں مگر عمل درآمدناگزیر ہے۔
ہم ٹریفک جیسے مسئلے سے نمٹنے کے لئے سنگاپور جیسے ماڈلز سے آئیڈیاز لے کر اپنے ملک میں ٹریفک کا نظام بہتر بنا سکتے ہیں۔
سنگاپور کی قسمت بدلنے والا کون؟
قوموں اور ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اس کے پیچھے ایسی کوئی نہ کوئی ہستی ضرور ہوتی ہے جس کی کوششیں اور تدبر کسی قوم یا ملک کو عروج سے ہمکنار کراتی ہیں۔سنگاپور کو بھی دنیا میں اگر ایک منفرد مقام ملا تو اس کے پیچھے ایک ایسے فرد کا ہاتھ تھا جنھیں آج بھی وہ قوم کو آزادی دلانے والے عظیم شفیق باپ کی طرح جانتے ہیں۔
’لی کون یو ‘، وہ شخص ہیں جو سنگاپور میں نظم و ضبط، قوانین کی پاسداری اورشہر کی خوبصورتی کی داغ بیل ڈالنے والے تھے۔ جب وہ 2015ء میں دنیا سے رخصت ہوئے تو پوری قوم سوگ اور دکھ میں مبتلا ہوئی، ان کے بیٹے لی حسن لونگ اس وقت سنگاپور کے تیسرے وزیر اعظم کی حیثیت سے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
دلچسپ حقائق
یوں تو سنگاپور کے حوالے سے کئی چیزیں دلچسپی کا باعث ہیں مگر آئیے آپ کو کچھ مزید دلچسپ حقائق بتاتے ہیں۔
سنگاپور کی 90فیصد آبادی اپنے ذاتی گھروں میں رہتی ہے۔
یہاں کی فی کس آمدنی دنیا کے چوٹی کے ممالک میں شمار ہوتی ہے۔یہ قریباً57ہزار امریکی ڈالر کے قریب ہوتی ہے۔
یہ ایسا ملک ہے جو خود ہی ملک بھی ہے اور اپنا دارلحکومت بھی۔
اس کا مکمل نام ’’ریپبلک آف سنگاپور ‘‘ہے۔
مالے یا ملائی سنگاپور کی قومی زبان ہے۔
انگلش، ملائی، تامل اور مندائی یہاں بولے جانے والی عام زبانیں ہیں۔
یہاں سیر کرنا دوسرے سیاحتی ممالک کی نسبت کافی مہنگا ہو سکتا ہے۔
یہاں کا ایک ڈالرپاکستان کے 168.60روپوں کے برابر ہے۔
وہاں کا وقت پاکستان سے تین گھنٹے آگے ہے۔
یہاں دیگر کئی ممالک کی طرح ڈرائیونگ بائیں جانب کی جاتی ہے۔
یہاں ایک اندازے کے مطابق ہر دس میں سے ایک فرد کے پاس دس ہزار امریکی ڈالر کی مالیت کے اثاثہ جات ہوں گے یوں اسے کڑور پتیوں کا شہر بھی کہا جاسکتا ہے۔
نومبر ، دسمبر اور جنوری میں یہاں ہلکی ہلکی بارش برستی رہتی ہے۔
یہاں مشہور مشروب کی ہگنگ مشینیں لگی ہیں جن میں پیسے ڈالنے کے بعد انھیں گلے لگا کر ہلانا پڑتا ہے تاکہ مشروب کی بوتل باہر آسکے مگر ان مشینوںکی تعداد بہت کم ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ تیز رفتار افراد سنگاپور میں ہائے جاتے ہیں۔
اس کا شمار دنیا کے پانچ انتہائی کم کرپٹ جبکہ ایشیاء کے سب سے کم کرپٹ ملک میں ہوتا ہے۔
یہ شہر کے علاوہ 63چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے۔
یہاں کار خریدنے کے بعد اس کی مالیت سے ڈیڑھ گنا زیادہ ادائیگی کر کے اس کی تصدیق کرانی پڑتی ہے۔
سنگاپور دنیا کے 20چھوٹے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔
یہاں کسی بھی عمارت کو 280میٹر سے بلند تعمیر کرنے پہ پابندی عائد ہے۔
یوں تو اس کا نام شیر پہ رکھا گیا ہے مگر یہاں آپ کو چڑیا گھر اور فواروں میں شیر تو ملیں گے مگر حقیقت میں وہاں شیر نہیں بستے۔
سنگاپور میں 18ماہ کے بچے کو دو گھنٹوں کے لئے سکول بھیجا جاتا ہے۔
یہاں باقی مہینوں کی نسبت اکتوبر میں سب سے زیادہ بچوں کی پیدائش ہوتی ہے۔
اس ملک کا 23 فیصد حصہ جنگلات پہ مبنی ہے۔ آبادی بڑھنے کی وجہ سے کافی حصے کو کاٹا گیا ہے پھر بھی خوبصورتی برقرار رکھنے کیلئے جگہ جگہ پارکس نظر آتے ہیں۔
یہاں ہر سال گیارہ سرکاری چھٹیاں منائی جاتی ہیں۔
سنگاپور میں جرائم کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
یہاں ہر ماہ 12سے 16لاکھ افراد وزٹ کے لئے آتے ہیں۔
ہر سو سے دوسو کلو میٹر پر ٹیلی فون بوتھ اور ڈرنکس کی خودکار مشینیں نصب کی گئی ہیں۔
یہاں بسوں کا ٹکٹ پرنٹ کرنے والی مشینیں 1996میں ہی لگا دی گئی تھیں۔
سنگاپور میں پینے کے صاف پانی کی کمی انڈونیشیا اور ملائشیا سے پانی درآمد کر کے پوری کی جاتی ہے۔
یہ دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے باسیوں کو جنوبی کوریا، چین اورامریکہ جیسے ممالک میں جانے کے لئے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
سنگاپور کو دنیاکا سب سے پہلا نائٹ زو اور نائٹ سفاری بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔
ایشیا ء کا بہترین ائیرپورٹ رکھنے کا اعزاز بھی اسے ہی حاصل ہے۔
The post سنگاپورسرسبز جزیرہ، خوابوں کا شہر appeared first on ایکسپریس اردو.