ویب ڈیسک: ؎ مِرے کانوں میں مصری گھولتا ہے
کوئی بچہ جب اُردو بولتا ہے
میرے بزرگ کرم فرما محترم مشتاق دربھنگوی صاحب کا یہ شعر ہماری پیاری زبان کے تعارف اور ہمارے اس سے تعلق خاطر پر دال ہے (یعنی بجائے خود، دلیل ہے)۔بچپن سے کانوں میں پڑنے والے بعض مشہور الفاظ میں ’مصر‘ اور ’مصری‘ بھی شامل ہیں۔مصری کا مصر سے تعلق بھی ایک دل چسپ حکایت ہے۔دانے دار اور سخت قِوام کے جمائے ہوئے قند کو مصری کہاجاتا ہے کیونکہ اس قسم کے شِیرے کی بہترین قسم، مصر ہی میں تیار ہوتی ہے۔اس میٹھی چیز کے گول ڈلے کو مصری کا کُوزہ کہاجاتا ہے، جبکہ اس کے ٹکڑے کو مصری کی ڈلی کہتے ہیں۔مجازاً نہایت شیریں اور میٹھے ذائقے والی شئے کو بھی مصری کی ڈلی کہاجاتاہے۔
مصری کھلانا فعل متعدی ہے جس کا مطلب ہے خنجر مارنا، کٹارمارنا، تلوار یا پیش قبض سے قتل کرنا، جبکہ رشتہ طے کرنے، منگنی کی رسم ادا کرنے اور منھ میٹھا کرنے کے لیے بھی مصری کھلانا مستعمل ہے۔مصر کی شہرت قدیم اہرام سے ہے جن کے پُراَسرار معاملات ابھی تک پوری طرح سمجھے نہیں جاسکے۔حضرت یوسف علیہ السلام کی سلطنت اور فراعنہ کا باب بھی مصر کی وجہ شہرت ہے۔اس سارے پس منظر کے بعد، اردو کی جدید بستیوں میں شامل اس ملک کی لسانی وادبی اہمیت بھی بہت واضح ہوچکی ہے۔اہل مصر کا اردو سے بہت گہرا تعلق ہے۔
”کہاجاتا ہے کہ اردو ، عربی کے بعد،دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے جس نے تہذیبی و ثقافتی اعتبار سے دنیا کے طو ل و عرض کا سفر کیا ہے۔ یعنی تہذیبی ہجرت کے لحاظ سے اردو دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے۔ یہ اردو والوں کے لیے باعث فخر ہے۔ لیکن اس فخر و مباہات کاذکر اب تک ہم اس تزک و احتشام سے نہیں کر پائے ہیں جتنا کہ ہونا چاہیے تھا۔شاید اس معاملے میں خود ہم اپنی دور افتادہ تہذیبی وراثتوں سے یا تو واقف نہیں ہیں یا مزید تلاش و جستجو کی کوشش نہیں کرتے۔ ورنہ اردو کے تلاطم خیز سمندر، اس کی موجوں کی طغیانی اور اس کی تہوں میں ابھی بھی بہت سے دُرِنایاب موجود ہیں“۔میں اپنے معاصر محقق پروفیسر خواجہ اکرام الدین صاحب(جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی)سے بالکلیہ متفق ہوں جنھوں نے مصرکو”اردو کی تابناک سرزمین“قراردینے میں کسی مصلحت سے کام نہیں لیا۔(”مصر اردو کی تابناک سرزمین“ ازپروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی)۔
مصر میں اردو کی فصل تیار کرنے کے لیے پہلا بیج 1930ء میں ہندوستان سے مصر تشریف لے جانے والے بعض حضرات نے بویا۔اس سال،ایک ہندوستانی صحافی،جناب ابو سعید العربی نے پہلی بار اردو زبان کا ایک رسالہ بعنوان ’جہان اسلامی‘، قاہرہ سے شائع کیا۔اس میں عربی اور ترکی زبان کا حصہ بھی شامل تھا۔
انھی دنوں محترم محمود احمد عرفانی نے اپنے بھائی جناب ابراھیم علی عرفانی کے تعاون واشتراک سے ایک ہفت روزہ اخبار ”اسلامی دنیا“جاری کیا۔13فروری1931ء تک جاری رہنے والے اس اخبار کا عربی ایڈیشن”العالم الاسلامی“ کے نام سے شایع ہوتا تھا۔1931ء میں علامہ اقبال نے گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن جاتے ہوئے اور مابعد، مصر کا دورہ کیا اور اس بارے میں نوجوانوں کی تنظیم ”شبان المسلمین“ سے ملاقات میں خطاب کیا کہ ہندوستان کی آزادی کی راہ میں مسلمان رکاوٹ نہیں۔علامہ موصوف کی خواہش تھی کہ ہندوستان میں جامعہ الازہرکی طرز پر کوئی درس گاہ قایم ہوجائے۔ا س ضمن میں انھوں نے شیخ الازہر، مصطفی المراغی (1881ء تا 1945ء) سے خط کتابت کی،انھوں نے جائزے کے لیے ایک وفد علامہ کی خدمت میں روانہ کیا، مگر یہ منصوبہ اس لیے پروان نہ چڑھ سکا کہ الازہر میں، عربی کے سواء کسی زبان پرعبورکے حامل علماء موجود نہ تھے۔1946ء میں لندن سے واپسی پر قائد اعظم نے مصر کا دورہ کیا اور تحریک پاکستان سے متعلق غلط فہمی دور کرنے کے لیے گفت وشنید کی۔
مصری جامعات میں اردو زبان کی تدریس کاسلسلہ، گزشتہ تقریباً اسی(80) برس سے جاری ہے۔1939ء میں،شاہ فاروق کے حکم پر، مصر کے سرکاری ادارے معہد اللغات الشرقیہ (Oriental Language Institute) نے جامعہ قاہرہ میں کام شروع کیا۔جولائی سنہ1952ء کے بعد مصری حکومت نے، پاکستان وہندوستان سے خوشگوارتعلقات استوارکرنے کے لیے، اردو زبان میں ریڈیونشریات کا آغاز کیا۔ اردو پروگرام شام 6 بجے سے 8 بجے تک قاہرہ کے وقت کے مطابق ”ریڈیو قاہرہ“سے نشر کیا جاتا ہے، جبکہ دوگھنٹے کا وقت، اردو بولنے والوں کو عربی زبان سکھانے کے لیے دیا جاتا ہے۔مصر سے ہمارے دینی طبقے کے مراسم کا تسلسل بھی ایک اہم باب ہے۔
معہد اللغات الشرقیہ میں اردو کی تدریس کا آغاز، اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے محترم حسن الاعظمی نے کیا جو 1938ء میں جامعہ الازہر سے العالمیہ کی سند حاصل کرچکے تھے۔انھوں نے علامہ اقبال کو عرب دنیا سے متعارف کروانے میں شیخ صاوی علی شعلان مصری سے بھرپورتعاون کیا۔ابتداء میں، جامعہ کے کلیہ فنون میں بھی عربی کے ساتھ ساتھ اردو پڑھائی جاتی تھی،پھر اس کے لیے الگ شعبے کے قیام کے ساتھ اردو بطور اختیاری زبان پڑھائی جانے لگی۔
اب وہاں فارسی کوبنیادی حیثیت دی گئی ہے اور اردو کے ساتھ ساتھ طلبہ کو ترکی یا فارسی کا انتخاب کرنا ہوتاہے۔اس ادارے میں دوسرے استاد،بنگال سے تعلق رکھنے والے، عربی وانگریزی سے واقف، جناب ابوالحسنات تھے جنھوں نے کئی سال فرائض تدریسی انجام دیے، پھر شیخ لقمان صدیقی، ڈاکٹر یوسف، سید ابوالحسنی،ڈاکٹراسمٰعیل ندوی، ڈاکٹر امجد حسن سید احمد جیسی شخصیات نے یہ سلسلہ جاری رکھا۔شیخ لقمان پکے مسلم لیگی اور فدائے قائد اعظم تھے، اس لیے ہندوستان نے اپناشہری ماننے سے انکارکیا تو 1948ء تا 1955ء سیاسی پناہ گزیں رہنے کے بعد، انھیں مصر کی شہریت حاصل ہوئی اور وہ دوبارہ اسی منصب پر فائز ہوئے، وہیں 1962ء میں فوت ہوئے۔
انھوں نے عربی میں پہلی کتاب اردو قواعد لکھی۔ڈاکٹر امجد نے عربی میں پی ایچ ڈی کیا اور اردو کی تدریس کے لیے اُن کی خدمات بہت نمایاں رہیں۔انھوں نے جامعہ قاہرہ،جامعہ عین شمس، جامعہ الازہر اور جامعہ اسکندریہ میں اپنے فرائض منصبی انجام دیے۔وہ 2007ء میں فوت ہوئے اور مصر ہی میں مدفون ہیں۔ مصر میں اساتذہ اور طلبہ کی کھیپ تیار کرنے والے ڈاکٹر امجد کو ”مصر کا بابائے اردو“ کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر سمیر عبدالحمید ابراہیم، مصر میں اردو کے پہلے عرب اور مصری استاد ہیں جنھوں نے 1979ء میں جامعہ پنجاب سے پی ایچ ڈی کیا اور مصر کی جامعہ قاہرہ وجامعہ الازہر کے علاوہ، سعودی عرب میں بھی اردو پڑھائی۔جامعہ عین شمس میں انڈر گریجویٹ طلبہ کو عربی، انگریزی کے ساتھ ساتھ، اردو، فارسی اور ترکی پڑھائی جاتی ہے۔یہاں اردو پڑھانے والوں میں ڈاکٹر امجد کے علاوہ، ڈاکٹر تبسم منہاس، ڈاکٹر نجیب الدین جمال،ڈاکٹر مظفرعباس اور ڈاکٹر اختر شمار شامل ہیں۔
1938ء میں قایم ہونے والی جامعہ اسکندریہ میں مشرقی زبانوں فارسی،ترکی اورعبرانی کی تدریس ایک مدت جاری رہنے کے بعد، بیسویں صدی کے چوتھے عشرے میں یہاں بھی انڈرگریجویٹ طلبہ کو اردو پڑھائی جانے لگی۔اس جامعہ میں بھی ترکی کے ساتھ، فارسی یا اردو کا انتخاب کیاجاتاہے۔دیگرجامعات کی نسبت یہاں اردواساتذہ بہ آسانی دستیاب نہیں۔
جامعہ الازہر میں 1939ء سے کچھ سال اردو کی تدریس کا سلسلہ جاری رہنے کے بعد، 1962ء میں اس جامعہ کے کلیہ اصول الدین کے شعبہ دعوت وارشاد میں اس زبان کی باقاعدہ تدریس شروع ہوئی۔اس جامعہ نے اردو کو اتنی اہمیت دی کہ اس کے دومستقل شعبے برائے طلبہ وطالبات جداجدا قایم کیے۔شعبہ طلبہ کا آغاز 1979ء میں کلیہ لغات وترجمہ کی تشکیل سے ہوا۔یہاں طلبہ بی اے آنرز تا پی ایچ ڈی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔1960ء میں قایم ہونے والے شعبہ طالبات میں 1996 ء سے باقاعدہ تدریس اردو کی ابتداء ہوئی۔
1998ء سے2013ء تک یہاں مصر کا واحد اردو رسالہ ’اردویات‘ جاری رہا اور تعدادنیز سرگرمی کے لحاظ سے یہ شعبہ پورے ملک میں سب سے آگے ہے۔اس شعبے کی اولین سربراہ، صدرشعبہ فارسی محترمہ آمال سلامہ تھیں جن کے بعد معروف ادیب، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم نے فرائض منصبی انجام دیے۔وہ اگست 1998ء تا جولائی 2006ء ان خدمات کے بعد، پانچ سال جامعہ پنجاب(لاہور)سے بھی بطور مہمان پروفیسور منسلک رہے، پھر 2011ء تا 2019ء دوبارہ الازہر کے شعبہ طالبات کی سربراہی کی۔
ان کے ایماء پر اردوسوسائٹی کا قیام عمل میں آیا۔اس کا نصب العین ڈاکٹر موصوف کے عربی کلام پر مبنی ہے جس میں اردو کو پیدائشی اسلامی زبان، ہندوستان کو اس کی جنم بھومی اور پاکستان کو اس کا قلعہ قراردیاگیاہے۔الازہر کے عالمی ماہنامے،رواق کا بھی اردو میں گوشہ شایع کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر ابراہیم نے انکشاف کیا کہ جامعہ الازہر کے شعبہ اردو میں سرسید کی زبان وادب کی خدمات پڑھائی گئیں، ان پر مقالے لکھے گئے، جس سے اُن کی مکمل شخصیت سامنے آئی۔
ڈاکٹر ابراہیم نے میر، غالب، علامہ اقبال اورپروین شاکر کا کلام، عربی کے قالب میں ڈھالا ہے۔ وہ 2017ء میں جامعہ کراچی میں منعقد ہونے والے سرسید احمد خان کے صد سالہ یوم پیدائش کے سلسلے میں ہونے والی کانفرنس میں مقالہ ’مصر کی جامعات میں سرسید کا مطالعہ‘ پیش کرچکے ہیں۔ ”1947ء کے بعد پاکستانی اساتذہ کی معاونت سے ہی اردو آگے بڑھ رہی ہے۔
بھارتی سفارت خانہ بھی اردو کے لیے اساتذہ کی پیش کش کرتا ہے، لیکن وہاں عمومی رجحان ہندوستان کی بجائے پاکستان کی طرف ہے، کہ جس کی قومی زبان ہی اردو ہے۔ اُن کے بقول ہندوستان کے باشندوں کو مصر میں کم عقل تصور کیا جاتا ہے۔ وہاں ہندوستانی سفارت خانے کے ’ابوالکلام آزاد سینٹر‘ سے بھی مختلف کورس کرائے جاتے ہیں اور ہندی کے ساتھ اردو بھی پڑھائی جاتی ہے۔ ریاستی سطح پر ہندوستان اور مصر میں گہرے تعلقات ہیں، لیکن عوام پاکستان کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں“۔ (بحوالہ گفتگو اَز رضوان طاہر مبین، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، جمعرات 29 مارچ 2018ء)۔جامعہ الازہر کے پاکستان سے اردو میں پی ایچ ڈی کرنے والوں میں ایھاب حفظی عز العرب، ابراہیم محمد ابرہیم اور ہندوستان سے پی ایچ ڈی کرنے والوں میں احمد القاضی،یوسف عامر اورمصطفیٰ علاء الدین شامل ہیں۔
منصورہ یونیورسٹی میں 1990ء کی دہائی سے تدریس اردو شروع ہوئی۔یہاں فارسی کے ساتھ، اردومیں پوسٹ گریجویٹ کرنے والے طلبہ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کرسکتے ہیں۔طنطا یونیورسٹی میں 2014ء میں جبکہ منوفیہ یونیورسٹی میں 2015سے اردو کی تدریس کا آغا ز ہوا۔
جامعہ حلوان (حلوان) اور جامعہ قناۃ السویس (اسمٰعیلیہ) میں بھی اردو کی تدریس کا منصوبہ بنایا جاچکا ہے۔
کچھ عرصہ قبل،مصر کے ممتاز معلم وادیب، ڈاکٹر احمد القاضی صاحب،سابق صدرشعبہ اردو،جامعہ الازہرنے مجھ سے بذریعہ واٹس ایپ رابطہ کرکے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مصر کی حکومت کے ایماء پر کسی ایسی کتاب کی نشان دہی کروں جو اُردوزبان وتہذیب کا احاطہ کرتی ہو۔خاکسارنے اپنے حلقے میں نیز کالم زباں فہمی کے ذریعے اس بابت گفت وشنید کا سلسلہ شروع کیا،مگر کچھ دنوں کے بعد، معاملہ بظاہر سردخانے کی نذرہوگیا۔
6جولائی 2022ء کو اچانک ڈاکٹر احمد القاضی صاحب نے مجھے اطلاع دی کہ نامور ادیب جناب انتظار حسین کا ناول ”بستی“ مصر کے ایک مقابلہ تراجم مابین نوجوانانِ مصر کے لیے نامزد ہوا تو اُسے مصرمیں پڑھائی جانے والی سولہ دیگر زبانوں کے مقابلے میں اوّل قراردیا گیا اور یوں اس کا عربی میں ترجمہ کرکے،”القریہ“ کے عنوان سے ملک گیر سطح پر ہماری زبان کے فروغ کے لیے چُن لیا گیا۔
مصر کی وزارت اعلیٰ ثانوی تعلیم نے جولائی2020ء میں، وزارت ثقافت کے اشتراک سے اس منصوبے کا آغاز کیا جس میں ڈاکٹر صاحب موصو ف کی نگرانی میں جامعہ الازہرکے چارمصری معاون اساتذہ نے کامیابی حاصل کی۔یہ ترجمہ مصر کی وزارت ثقافت نے شایع کیا اور وزارت اعلیٰ ثانوی تعلیم وسائنسی تحقیق نے مترجمین کو دوہفتے کے تربیتی دورے پر بیرون ملک بھیجنے کا اعلان کیا۔اس مقابلے میں مصر کی بائیس قومی جامعات کے مترجمین نے،سترہ زبانوں کے سترہ تراجم برائے نقد ونظر پیش کیے تھے۔
ڈاکٹر احمد القاضی نے ڈاکٹر اُسامہ شَلَبی کے تعاون سے ہندی اوراردو قواعد کی کتاب بعنوان ” المُبَسط فی قواعد الہندیہ والُاردیہ“بھی تحریر کی ہے۔مصر میں اردو تصنیف، تالیف وتحقیق کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اس بابت ایک الگ مضمون لکھا جاسکتاہے۔
دنیائے عرب میں،خاکساراور اس کی واٹس ایپ بز م زباں فہمی کو سب سے زیادہ پذیرائی بھی اہل مصر کی طرف سے ملی۔میرے ادبی کام پر پہلا مقالہ(برائے ایم اے اردو)، جامعہ عین الشمس، قاہرہ (مصر) کی طالبہ آنسہ مریم سلیمان نے 2019ء میں،بزبان عربی تحریر کیا جو میرے بنیادی کوائف کے ساتھ ساتھ، میری نظم ’کشمیر بزورتقریر‘ کے آزاد عربی ترجمے پر مبنی تھا۔
اس مقالے کی نگراں میری ایک اور کرم فرما ڈاکٹر ہند عبدالحلیم محفوظ صاحبہ ہیں جنھوں نے میرے کثیرلسانی ادبی جریدے ’ہم رِکاب‘ [The Fellow Rider]میں اشاعت کے لیے میرزا ادیب کے ایک اردوڈرامے کا عربی ترجمہ بھی ارسال فرمایا تھا۔اس طالبہ نے مجھ سے بذریعہ ای میل رابطہ کرکے اس کام کے لیے اجازت طلب کی تھی۔
اسی نظم کا بہتر عربی ترجمہ، شیخ زائد سینٹر، جامعہ کراچی سے منسلک معروف علمی شخصیت،پروفیسر ڈاکٹر جہاں آرا لطفی صاحبہ کے لطف وعنایت سے پایہ تکمیل کوپہنچا اور پھر بزم زباں فہمی کی لائق فائق رکن، ڈاکٹر ایمان شُکری صاحبہ نے میری اجازت سے اسی نظم کا بہترین عربی ترجمہ کیا۔نہایت دل نشیں لب ولہجے میں اردو بولنے والی ایمان صاحبہ میری کچی پکی عربی دانی کو بہت سراہتی ہیں،میری تعریف میں رطب اللساں رہتی ہیں اور مجھے اپنا فاضل استاد قراردیتی ہیں۔انھوں نے میری متعددمنظومات(بشمول ہائیکو، مزاحیہ غزل اور ایک شعر) کا برملا عربی ترجمہ کرکے اردو سے اپنے قلبی تعلق کا خوب خوب مظاہرہ کیا۔اسی واٹس ایپ بز م کی معزز مصری رکن ڈاکٹر رِحاب مصطفی صاحبہ اردو کے ساتھ ساتھ، فارسی سے شغف رکھتی ہیں۔
میری فیس بک/واٹس ایپ دوست، ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی صاحبہ دنیائے عرب کی اولین صاحب ِ دیوان اردو شاعرہ ہیں اور نثرمیں بھی خوب رَواں ہیں۔انھوں نے میری گزارش پر گاہے گاہے روزنامہ ایکسپریس میں بھی اپنی نگارشات شایع کروانی شروع کی ہیں۔یہاں میں ایک بات بطور خاص کہنا چاہتا ہوں کہ اردو کے ان پروانوں کو مصرمیں ایسے اہل زبان کم ملتے ہیں جو ان سے بول چال کی مشق کے ساتھ ساتھ ان کی گاہے گاہے رہنمائی کرسکیں۔اس بابت ہم سب کو عملی کاوش کی ضرورت ہے۔
اس مضمون کی تیاری میں مجھے ڈاکٹر احمد القاضی اور ڈاکٹر ابراہیم صاحب نے خصوصی تعاون فراہم کیا جس کے لیے بندہ صمیم قلب سے شکرگزارہے۔گزشتہ کالم ”سرقہ، توارد، چربہ اور استفادہ“ کے لیے بعض کتب کا ہدیہ میرے محترم محقق دوست جناب احمد طرازی اور بعض دیگر معلومات محقق، شاعر محترم اسحاق وردگ اور فرہاد احمد فگار نے فراہم کیں، جن کا شکریہ اب اداکررہاہوں۔
The post زباں فہمی نمبر173؛ مصرمیں اردو۔ایک مختصر جائزہ appeared first on ایکسپریس اردو.