نئے سال نے کروٹ بدل کر آنکھیں کھول لی ہیں۔ بیتے ہوئے برس کیا کھویا کیا پایا، 365 دن کی پونجی کہاں لٹائی، کتنے دن گزرے اور کیسے گزرے؟؟
یہ سوالیہ نشان ہر گزرتے برس کے اختتام پر، اور نئے سال کے آغاز پر ہمارے سامنے کھڑا ہو تا ہے۔ سال گزشتہ پر نظر دوڑائیں، تو سوائے مایوسی و پشیمانی کے بہت تھوڑا ہی کچھ ’مثبت‘ ہمارے ہاتھ میں آتا ہے۔
ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کے بیش تر دائروں میں ہم نے ناکامی و نا امیدی کے سوا کچھ نہیں حاصل کیا۔ زندگی کو بہتر سے بہترین بنانے کے حصول میں ہم سرپٹ دوڑتے رہے، اپنی خواہشوں کے ریلے میں بہتے بہتے اتنے آگے نکل گئے کہ اپنی اقدار وروایات سے بھی پیچھا چھڑا لیا۔
ہماری گھریلو زندگی ، مضبوط معاشرے کو قائم رکھنے کے لیے کتنی اہم ہے؟ یہ سوال اب ہر نئے استوار ہونے والے خاندان کے لیے خود ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔
خانگی زندگی کی ٹوٹ پھوٹ، اس میں پڑتی ہوئی دوریاں یا دراڑیں، اور چُور چُور ہوتا ہوا روایتی مشترکہ خاندانی نظام ہمارے لیے لمحہ فکریہ اختیار کر چکا ہے، بلکہ اب تو خاندان کی اِکائی بھی لرزہ براندام ہونے لگی ہے۔
ایک اخباری اطلاع کے مطابق، صرف صوبہ سندھ میں دو سال کے دوران کئی خاندانوں کی گھریلو زندگی، آپس کی ہم آہنگی کی فضا پیدا نہ ہونے کی وجہ سے اختتام پذیر ہوئی۔
طلاق اور خلع کے بڑھتے ہوئے واقعات نے اس صورت حال کو بڑا سنگین نوعیت کا بنا دیا ہے۔ اعداد و شمار جتنے خوف ناک ہو چکے ہیں، اتنی ہی درد ناک کہانیاں منظر عام پر آرہی ہیں۔
اگر ایک طرف یہ واقعات واقعی تکلیف دہ ہیں، تو دوسری طرف بہت معمولی نوعیت کے مسائل کی صورت میں بھی خواتین اپنی زندگی کے اہم ترین فیصلے کرنے میں جلد بازی اور غیر ضروری خودمختاری کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔
شادی دو فرد کے درمیان نہیں، بلکہ دو خاندانوں کے درمیان طے ہوتی ہے۔ ہم کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ اس سے متاثر صرف وہی فرد نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ارد گرد کے تمام افراد اس صورت حال کے سبب تکلیف کا سامنا کرتے ہیں ، اور آنے والے برسوں میں معاشرے کے اتار چڑھاؤ بھی برداشت کرتے ہیں۔
اخباری رپورٹ کے مطابق طلاق ہی نہیں بلکہ خلع کے کیسز میں بھی پچھلے دو سال میں 46 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ 2020ء کے مقابلے میں 2021ء میں خلع کے کیسوں میں بے پنا ہ اضافہ ہوا اور 22 میں بھی صورت حال تبدیل نہ ہو سکی۔
2020 میں صوبے بھر میں ساڑھے 11 ہزار خواتین شادی کے خاتمے کے لیے عدالت پہنچیں، تو 2021ء میں یہ کیس بڑھ کر 16 ہزار تک پہنچ گئے۔ اور 2022 میں یہ تعداد بہ جائے کم ہونے یا ٹھہر نے کے 17 ہزار سے بھی تجاوز کر گئی۔
یعنی تقریباً 17 ہزار خواتین نے اپنا ازدواجی بندھن توڑنے کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا، یہ تو وہ اعداد وشمار ہیں جو رپورٹ ہوسکے، ورنہ کتنے کیس تو ایسے ہوتے ہیں، جو اندر خانہ ہی کسی فیصلے تک پہنچ جاتے ہیں۔ اور اب شادی جیسے قیمتی رشتے کو کچے ریشم کی ڈور کی طرح سمجھ کر توڑ دیا جاتا ہے۔
محبت، فکر، چاہت اور عزت، یہ چاروں عوامل مل کر زوجین کے رشتے کو مضبوط کرتے ہیں، ایک دوسرے کی، چا ہت، اور خلوص یہ ایسے پائیدار ہتھیار ہیں، جو اس تعلق کو لمبی زندگی عطا کرتے ہیں۔
دین سے دوری اور لا علمی نے ہمارے ملک میں بھی ایسے حالات پیدا کر دیے کہ آج نئے رشتے میں جڑنے والے، راستے الگ کرنے میں سرگرداں ہیں، ان کی راہ نمائی کرنے والوں کو خود اس وقت راہ نمائی کی ضرورت ہے، کیوں کہ ہمارا معاشرہ آج خود نمائی ، خود غرضی، فخر، اور اپنے آپ میں مگن ہے۔
وقت کیسے گزرتا ہے کہ کبھی کبھی تو اس کی آہٹ بھی محسوس نہیں ہو تی۔ ہم کھڑے رہ جاتے سب کچھ ہاتھ سے نکل جاتا ہے، اور ہم کو احساس کب ہوتا ہے، جب وقت کی ڈور پھسل جاتی ہے، اس وقت ہم صرف ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں،کیوں کہ اس سمے چاہتے ہوئے بھی کچھہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہم مغربی معاشرے میں نہیں رہتے، لیکن چن چن کر ان کی منفی راہیں اپنا کر اپنی راہ کھوٹی کر رہے ہیں۔ جس سے بڑے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
ہم اپنے بچوں سے بچپن چھین رہے ہیں، ان کو زندگی کے سمندر میں تیرنے کے لیے ایسی کشتی فراہم کرتے ہیں، جس کا ناخدا، درست سمت سے ان جان ہے، جو خود کمزور اور سہارے کا ضرورت مند ہے، وہ کشتی تو اپنے اندر کئی سوراخ رکھتی ہے ، ایسی کشتی کے مسافر سے منزل پر کام یابی سے پہنچ جانے کی آرزو ہی عبث ہے۔ یہ تو خود بیچ منجھدار میں پھنس گئی ہے۔
ایسے مسافر اس طویل مسافت کو کس طرح عبور کرتے ہیں ، کیسی خار دار راہوں سے ، تاروں سے الجھتے ہیں، گرتے ہیں، سنبھلتے ہیں، اْٹھتے ہیں، پھر سنبھلتے ہیں۔ لوگوں کی تند و تیز رویوں کو سہہ کر ، عدم اعتماد کا شکار بھی رہتے ہیں۔
ایسے اور اس جیسے حالات اور مشاہدات ہمارے ارد گرد، ان ہونے نہیں رہے، بلکہ یہ عام ہو چکے ہیں، لیکن ہمیں انھیں مزید بڑھنے سے روکنا ہے، اور ان والدین کو ٹوکنا ہے، اس سیلاب بلا خیز پر کچھ بند باندھنے ہیں تو کچھ پابندیاں اور سختیاں بھی برداشت کرنی ہیں، ہمیں، واحد والدین کی اصطلاح اپنے سماج میں رائج نہیں کرنی، ہمیں اس کے شدت میں آنے سے قبل ہی کچھ اصول بنانے ہیں، جس کے لیے تربیت کی ضرورت ہے۔
کچھہ قواعد رائج کرنے ہیں تو کچھ قوانین لاگو کرنے ہیں۔ کچھ ضوابط عائد کرنے ہیں، اس کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ معاشرہ خاندانوں سے مل کر بنتا ہے اور خاندان دو افراد سے۔ یہی خاندان سماج کی اکائی ہے۔ جو اگر ریت کے مانند ڈھیر ہو گئی، تو پیچھے کچھ نہیں بچتا۔
ہمیں آنے والے کل کے لیے آج پر محنت کرنا ہے، طویل المیعاد منصوبہ بندی کر نی ہے۔ اپنے لیے ، اپنے بچوں کے محفوظ مستقبل کے لیے۔ ارد گرد برپا ہونے والی چیزیں، اور سب سے بڑھ کر ہر خاص وعام کی دستِ رس میں آنے والا مختلف مواد اور بچوں کے حلقے اور ان کی نشست وبرخاست سے لے کر بول چال اور گفتار اور خیالات تک، سب پر کڑی نظر رکھنی ہے اور اسے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنی اقدار اورمفید اصولوں پر استوار رکھنا ہے۔
The post بدلتا وقت اور سماجی تغیرات appeared first on ایکسپریس اردو.