جنیوا میں منعقدہ عالمی کانفرنس میں عالمی اداروں اور ممالک نے پاکستان کے سیلاب متاثرین کیلئے 10 ارب 57 کروڑ ڈالر امداد دینے کا اعلان کیا جسے دنیا بھر میں خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔
اس اہم پیشرفت کو دیکھتے ہوئے ’’جنیوا کانفرنس اور اس کے اثرات‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر قیس اسلم
(ماہر معاشیات)
وزیراعظم محمدشہباز شریف ، وزیر خارجہ بلاول بھٹو ،وفاقی وزیربرائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمن و دیگر کا بہت بڑا کارنامہ ہے کہ جنیوا کانفرنس میں پاکستان کیلئے 10 بلین ڈالر کا اعلان ہوا۔
اس میں یہ بات قابل غور ہے کہ اس امداد کا زیادہ تر حصہ پراجیکٹ ایڈ ہے یعنی مغربی ممالک خود ہمارے متاثرہ علاقوں میں منصوبے بنائیں گے، میٹریل اور ماہرین بھی خود بھیجیں گے، اس طرح ایڈ کا ایک بڑا حصہ وہ واپس لے جائیں گے۔متاثرہ علاقوں میں بحالی کا کام تین برسوں میں مکمل ہوگا۔
دوسری طرف سعودی عرب ، اسلامی بینک و دیگر بینکوں کی امداد کا پیسہ سٹیٹ بینک میں آئے گا جس سے ہمارے ذخائر میں اضافہ ہوگا۔ بحالی کے کام کا آغاز ہوتے ہیں متاثرہ علاقوں میں لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہونگے، میری خواہش ہے کہ انہیں بیج بھی دیا جائے تاکہ وہ کھیتی باڑی کرکے روزگار کماسکیں۔وہاں اچھے گھروں کی تعمیر، نکاسی آب کا نظام ودیگر انفراسٹرکچر بننے سے ملکی معیشت کو سمت ملے گی۔
اس وقت ہماری معیشت خراب ہے، درآمدات بند، معیاری اشیاء نہیںبن رہی، ہمارے مزدور وں کی پراڈکٹیویٹی نہیں ہے، ہماری زمین بنجر ہورہی ہے اور یہاں اناج کا فقدان ہے۔ ان تمام مسائل کے باوجود اگر یہ 10 بلین ڈالر تین سال میں کسی بھی طرح ملک میں آتے ہیں تو انفراسٹرکچر بہتر ہوگا، نہری نظام بن جائے گا، پل بنیں گے اور یہ تعمیرات ملکی ترقی میں اہم ہوں گی۔
امریکا اور چین بھی ہمیں 10، 10 ملین ڈالر دے رہے ہیں۔ اس وقت سوال یہ ہے کہ شفافیت کیسے یقینی بنائے جائے گی؟ وزیراعظم نے کہا کہ تھرڈ پارٹی آڈٹ ہوگا، یہ ضرور ہونا چاہیے کیونکہ گزشتہ آفتوں میں لوگوں نے پیسہ کھایا۔ اس مرتبہ نہیں ہونا چاہیے وگرنہ دنیا ہم پر دوبارہ اعتماد نہیں کرے گی۔
دنیا نے مل کر اقوام متحدہ کے ذریعے 10ارب ڈالر کا وعدہ کر کے اخلاقی و مالی تعاون کیا ہے لہٰذا ہمیں شفافیت یقینی بناتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ رقم صحیح طریقے سے متاثرین اور ان کے بچوں پر خرچ ہونی چاہیے، تعلیم پر پیسے لگنے چاہیے، نکاسی آب، سولر پینل سے بجلی بنانے و دیگر منصوبوں پر خرچ ہونا چاہیے تاکہ دنیا کے اناج اور تیل پر ہمارا انحصار کم ہو۔ ہمیں اپنے لوگوں کو روزگار کے نئے مواقع فراہم کرنا ہونگے۔
سلمان عابد
(تجزیہ نگار)
پاکستان اس وقت شدید معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ معاشی ایمرجنسی اور ڈیفالٹ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں جنیوا کانفرنس نے وقتی طور پر پاکستان کو آکسیجن دی ہے لیکن اس کا براہ راست تعلق ہماری معیشت سے نہیں ہے۔
یہ 10 ارب ڈالر بنیادی طور پر سیلاب زدگان کیلئے ہیں جن میں سے کچھ امداد اور کچھ آسان قرضے ہیں۔ اس ساری رقم کو ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ جوڑا گیا ہے جو تین سال میں مکمل ہونگے اور ان کی مانیٹرنگ بینک و ممالک کریں گے۔ عالمی امداد ملنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کا پاکستان پر اعتماد بڑھا ہے۔
سیلاب کے باعث پاکستان کو مشکل صورتحال سے نکالنے کیلئے اقدامات کا کریڈٹ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو کو جاتا ہے مگر جس طرح کامیابی کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے وہ درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس امداد سے لوگوں کے بنیادی معاشی مسائل، بے روزگاری، مہنگائی، معاشی بدحالی و دیگر حل نہیں ہوں گے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے سخت فیصلے کیے جا رہے ہیں۔وزیر اعظم نے خود آئی ایم ایف سے کہا کہ ہم پر رحم کریں، ہماری حالت ایسی نہیں ہے کہ مزید ٹیکس لگا ئیں یا مہنگائی کابوجھ ڈالیں لیکن آئی ایم ایف کوئی بات سننے کو تیار نہیں ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معاشی طور پر آگے بڑھنے کے لیے حکومت کو سخت فیصلے لینا پڑیں گے ، انفرا سٹرکچر، ادارہ جاتی ریفارمز و دیگر معاملات کو دیکھنا پڑے گا۔
یہ انتخابات کا سال ہے لہٰذا حکومت بڑے فیصلے لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے، آئی ایم ایف کی سختیوں سے بچنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ عوام پر مزید بوجھ نہ پڑ ے اور الیکشن خراب نہ ہو۔ پاکستان کو ماضی میں سیلاب، زلزے جیسی قدرتی آفات میں بھی عالمی امداد ملتی رہی مگر شفافیت پر ہمیشہ سوال اٹھے کہ پیسہ حقداروں تک نہیں پہنچا، بدعنوانی اور کرپشن کی نظر ہوگیا۔ عالمی ڈونرز نے اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا اور خود مانیٹرنگ کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ امداد قسط وار ملے گی، کاموں کو مانیٹر کیا جائے گا اور کارکردگی کی بنیاد پر اگلی قسط جاری کی جائے گی۔ ہم حادثات کو نمایاں تو کرتے ہیں لیکن اصل حقداروں تک نہیں پہنچتے۔ سرویز میں بہت بڑھا چڑھا کر حالات بتائے جاتے ہیں جبکہ زمینی حقائق کچھ اور ہوتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی حکومت ان تمام معاملات کو کس طرح سے آگے لے کر چلتی ہے۔ ممالک کے ساتھ کس طرح روابط بڑھائے جاتے ہیں، صوبوں و متعلقہ اداروں کے ساتھ کس طرح آگے بڑھا جاتا ہے۔
اس وقت ملک میں سیاسی پولرائزیشن بہت بڑھ چکی ہے، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے، اسمبلیاں تحلیل اور نئے انتخابات کی باتیں ہورہی ہے۔ سیاسی کرائسس کی صورتحال ہے، دیکھنا یہ ہے کہ ان چیلنجز میں کس طرح آگے بڑھا جائے گا۔انتخابات کی صورت میں پیسہ کس طرح متاثرین پر خرچ ہوگا ؟ ایسے بہت سارے پہلو ہیں جن پر غور وفکر کرنا ہوگا۔
ہمیں اس پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا نے جو وعدے کیے ہیں وہ پورے ہوں اور تیزی کے ساتھ یہ رقم پاکستان کو ملے تاکہ بحالی کا کام شروع ہوسکے، غیر ضروری تاخیر سے مسائل پیدا ہونگے۔ جنیوا کانفرنس میں ملنے والی امداد کو حکمران طبقہ بڑی سفارتی کامیابی قرار دے رہا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا اس سے ملکی معیشت کو بحال کیا جاسکے گا؟ جواب نفی میں ملتا ہے۔
کیا اس سے متاثرین کو ریلیف ملے گا، بروقت کام ہوگا، لوگوں کی بحالی ہوگی؟ دیکھنا ہے کہ حکومت کیا میکنزم بناتی ہے ، شفافیت کیسے یقینی بنائی جاتی ہے۔ حکومت کی توقعات زیادہ تھی تاہم جو ملا وہ غنیمت ہے، اس کا درست استعمال کیا جائے تو بہتری آسکتی ہے۔ معاشی استحکام، سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں۔ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا تک تب مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ہمارا ایک مسئلہ سکیورٹی بھی ہے۔
دہشت گردی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے جس سے نمٹنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہماری سول ملٹری قیادت معیشت کی بحالی کیلئے کام کر رہی ہے۔ آرمی چیف نے گزشتہ دنوں ایک کانفرنس میں کہا کہ پاکستان کو معیشت اور سکیورٹی، دو بڑے چیلنجز درپیش ہیں، ان پر جب تک سیاسی اتفاق رائے نہیں ہوگا، بات آگے نہیں بڑھ سکے گی۔
سیاسی پولرائزیشن کی وجہ سے عمران خان کی جماعت جنیوا کانفرنس کی امداد کا مذاق اڑا رہی ہے، حکومت برے حالات کا ذمہ دار عمران خان کو ٹہرا رہی ہے۔ اگر یہ ٹکراؤ اسی طرح جاری رہا تو چیزیں آگے نہیں بڑھ سکیں گی۔ آرمی چیف نے سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی جو بات کی ہے، ا س پر کام کرنا ہوگا۔دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت، حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ اس ساری صورتحال کو کیسے ڈیل کرتی ہے اور کس طرح سیاسی استحکام پیدا کیا جاتا ہے۔
آئی ایم ایف کے دباؤ کے نتیجے میں مہنگائی کا جو ریلا آئے گا، اس سے کیسے نمٹا جائے گا؟ اس وقت حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج عوام کو ریلیف دینا ہے، اگر عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا تو ان کی سیاست کو نقصان ہوگا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے اعلان کے مطابق 90 فیصد حصہ پراجیکٹ قرضوں پر مشتمل ہے جن کے بارے میں حکومت پاکستان نے امید ظاہر کی ہے کہ اس کے ساتھ سخت شرائط نہیں لگائی جائیں گی۔
حکومت کی جانب سے توقع سے کہیں زیادہ امداد ملنے کے دعووں سے ثابت ہوتا ہے کہ عالمی برادری پاکستان کی موجودہ اندرونی اور بیرونی پالیسی سے کسی حد تک مطمئن ہے لیکن اگر ہم شرائط کی خلاف ورزیاں کرتے ہیں تو آئی ایم ایف معاہدہ اور عالمی امداد دونوں معطل ہوسکتے ہیں۔
یہ باعث افسوس ہے کہ پاکستانی ریاست، حکومت، ادارے و معاشرہ، کسی کو بھی سیلاب کے حوالے سے اتنے دکھ درد کا احساس نہیں ہوا جتنا عالمی برادری کو ہوا۔ ہمیں اپنی داخلی پالیسیوں کا جائزہ لینا ہوگا کہ کیوں ہم بار باران مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور عالمی دنیا سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہماری مدد کرے۔ یہ ایک اہم پہلو ہے کہ جنیوا کانفرنس میں جو مواقع ملے ہیں، کیا ریاست، حکومت اور ادارے ان سے فائدہ اٹھا سکیں گے اور وہ کچھ کرسکیں گے جو ہم کرنا چاہتے ہیں اور جو دنیا ہم سے توقع رکھتی ہے۔ اگر ہم نے اس اہم موقع کو ضائع کر دیا تو بہت بڑی نالائقی ہوگی۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
(تجزیہ نگار)
جنیوا میں پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں اور افراد کے لیے گزشتہ دنوں ڈونرز کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس کا فیصلہ نومبر میں شرم الشیخ میں اقوام متحدہ کے تحت ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں کیا گیا اور یہ سمجھا گیا کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے آئے ہیں اور ایسے بدترین سیلاب سے پاکستان کا پہلے کبھی سامنا نہیں ہوا۔ اقوام متحدہ نے جنیوا کانفرنس کو سپانسر کیا، پاکستان بھی اس کا میزبان تھا۔
40 سے زائد ممالک اور عالمی اداروں نے اس میں حصہ لیا۔ حکومت اور عالمی ایجنسیوں نے سیلاب کے بعد نقصانات کا جو تخمینہ لگایا وہ تقریباََ 31 ارب ڈالر کا تھا جس میں انفراسٹرکچر کا نقصان 14.9 ارب ڈالر، فصلیں،مال مویشی و دیگر نقصان تقریباََ 15 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان جنیوا کانفرنس میں 16.3 بلین ڈالر کا کیس لے کر گیاتھا جس میں سے تقریباََ 9 ارب ڈالر کی یقین دہانی کروائی گئی۔
اسلامک ڈویلمپنٹ بینک نے 4.2 ارب ڈالر، ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک نے 2 ارب ڈالر، سعودی ڈویلپمنٹ بینک نے 1 ارب ڈالر کا اعلان کیا جبکہ باقی چھوٹی امداد دیگر ممالک اور اداروں کی جانب سے ہے۔ اس امداد میں 90 فیصد پراجیکٹ قرضے ہیں۔ اسلامک ڈویلپمنٹ بینک کی کمٹمنٹ بھی 3 برسوں میں مختلف اقساط میں پوری ہوگی۔ اقوام متحدہ نے پاکستان کا کیس ٹیک اپ کیا، عالمی اداروں اور ممالک نے اس پر مثبت ردعمل دیا جو اچھی علامت ہے۔
میرے نزدیک یہ پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے کہ دنیا پاکستان میں دلچسپی رکھتی ہے، اس کے مسائل کو سمجھنا، اور اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔90فیصد براجیکٹ لونز کی شرط رکھنے سے پاکستان کے حوالے سے بداعتمادی نظر آتی ہے کہ یہاں رقم خرچ کرنے میں شفافیت نہیں ہوتی۔ ممالک خود ضروریات کا جائزہ لیں گے، اپنے کنسلٹنٹ بھیجیں گے، انفراسٹرکچر ، مشینری و میٹریل وغیرہ بھی ان کا ہی ہوگا۔ طویل المدتی قرضوں پرعالمی حالات اور حکومتی پالیسیاں اثر انداز ہوتی ہیں۔
پاکستان کو دنیا کو یہ یقین دہانی کروانی ہوگی کہ وہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کرمنصوبہ بندی کر رہا ہے، تمام منصوبے متاثرین کی بحالی کیلئے ہیں اور ان میں شفافیت کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان کویہ باور کروانا ہوگا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں کیونکہ یہی ہمارا کیس ہے۔ اگر خدانخواستہ ایک سال بعد ہی سیلاب آگیا تو اس کے لیے ہماری کیا تیاری ہے؟
سندھ، خیبر پختونخوا و دیگر علاقوں میں پانی کی گزرگاہوں پر تعمیرات ہوچکی ہیں۔جب تک ہم یہ راستہ نہیں چھوڑیں گے، گرین لینڈ کو گرین نہیں کریں گے تب تک ہمارے مسائل سنگین ہوتے جائیں گے۔ ہمیں موسمیاتی مسائل کے حوالے سے پالیسی بنانا ہوگی۔
جنیوا کانفرنس کے نتیجے میں اعلان کردہ امداد کا تعلق ہماری معیشت سے نہیں ہے۔ اسی کانفرنس کی سائڈ لائنز پر آئی ایم ایف کے نمائندہ سے وزیر خارجہ کی جو ملاقات ہوئی، اس میں کوئی نرمی نہیں دکھائی گئی، آئی ایم ایف اپنی شرائط پر قائم ہے۔
آئی ایم ایف کی نظر ثانی کے حوالے سے ابھی کوئی تاریخ نہیں دی گئی، اس کے بعد ہی 1.2 ارب ڈالر کی قسط ملنی ہے۔ ایک لحاظ سے جنیوا کانفرنس میں ہمارے لیے اپرچونٹی ہے کہ ہم پراجیکٹس اچھے انداز میں کریں اور دنیا کو دکھائیں کے ہم اربن، رورل پلاننگ، موسمیاتی مسائل سمیت دیگر مسائل کے حل میں سنجیدہ ہیں۔
اگر ہم نے اچھے انداز میں معاملات کو آگے نہ بڑھایا تو دنیا کا اعتماد مزید کم ہوگا اور آئندہ اگر خدانخواستہ سیلاب جیسی کوئی مشکل صورتحال پیدا ہوئی تو ہمیں اس سے اکیلے ہی نمٹنا پڑے گا۔
عالمی امداد پر سیاست کرنا، حکومت اور اپوزیشن دونوں کیلئے ہی بہتر نہیں۔ دنیا عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے جو کام کر رہی ہے اس میں پاکستان کو شامل کیا گیا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کا عالمی ماحولیات تبدیلی کی وجہ سے جتنا نقصان ہوا ہے اس کے مقابلے میں یہ 10 ارب ڈالر کچھ بھی نہیں ہیں۔30 ارب ڈالر پاکستان جیسے ملک کے لیے بہت بڑا نقصان ہے، سیاست کے بجائے ہمیں بہتر پلاننگ پر توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم اچھے اقدامات سے دنیا میں اپنا امیج بہتر کرسکیں۔
The post جنیوا کانفرنس میں دنیا کی امداد پاکستان پر اعتماد کا اظہار۔۔۔ شفافیت یقینی بنانا ہوگی! appeared first on ایکسپریس اردو.