وفاقی حکومت کی جانب سے نافذ العمل ’’توانائی بچت پلان‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت ، بزنس کمیونٹی اور ماہرین سے خصوصی گفتگو کی گئی جو نذر قارئین ہے۔
خواجہ محمد آصف
(وفاقی وزیر برائے دفاع)
ہماری عادات و اطوار باقی دنیا سے مختلف ہیں۔ ہم قدرتی توانائی پر زیادہ انحصار کے بجائے خود پیدا کی گئی توانائی پر انحصار کرتے ہیں۔
اس توانائی پر پیداواری لاگت بھی آتی ہیں اور معیشت پر بوجھ بھی پڑتا ہے لہٰذا ہمیں اپنا طرز زندگی بدلنے کی ضرورت ہے۔ ملک بھر میں توانائی کی بچت کیلئے اصلاحات کی جا رہی ہیں،بہت سے ممالک ایسے ماڈلز پر چل رہے ہیں۔ ہم نے خود کو دوسرے ممالک سے الگ رکھا ہوا ہے۔
ہماری مارکیٹیں 12، ایک بجے دوپہر کوکھلتی ہیں اور ساری رات کھلی رہتی ہیں،دفاتر کا بھی یہی حال ہے ۔ ہم اللہ کی عطا کردہ روشنی سے فائدہ اٹھانے کے بجائے بتیاں جلاتے ہیں۔ شادی ہالز رات 10 بجے اور مارکیٹیں ساڑے 8 بجے بند کرنے سے 62 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
توانائی کے حصول کے لئے قدرتی وسائل کا استعمال کرنا ہوگا،وفاقی حکومت کے تمام اداروں میں بجلی کے استعمال میں تیس فیصد کمی لائی جائے، تمام دفاتر میں برقی آلات کے غیر ضروری استعمال سے اجتناب کیا جائے، وفاقی کابینہ نے پاور ڈویژن کی سفارش پر توانائی بچت پلان کے نفاذ کی منظوری دے دی ہے جو پورے پاکستان میں نافذ العمل ہے۔
بجلی سے چلنے والے غیر موثر پنکھے یکم جولائی کے بعد فیکٹریوں میں تیار نہیں کئے جا سکیں گے، بجلی سے غیر موثر پنکھوں پر اضافی ڈیوٹی عائد کی جائے گی، اس سے پندرہ ارب روپے کی بچت ہوگی۔ 29 ہزار میگاواٹ بجلی گرمیوں میں استعمال ہوتی ہے جبکہ سردیوں میں 12 ہزار میگاواٹ بجلی استعمال ہوتی ہے۔
گرمیوں میں استعمال ہونے والی بجلی میں سے 5300 ایئر کنڈیشنڈ اور باقی بجلی پنکھوں اور لائٹس کی مد میں استعمال ہوتی ہے، مارکیٹ میں بجلی کی بچت والے پنکھے موجود ہیں۔ یکم فروری 2023ء کے بعد پرانے ٹرانسپرنٹ بلب تیار نہیں کئے جا سکیں گے، تمام سرکاری ادارے توانائی کے حوالے سے بجلی کی بچت والے آلات استعمال کریں گے۔
عرفان اقبال شیخ
(صدر فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری )
ملک کی موجودہ معاشی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور تاجر برادری کیلئے کاروبار کرنا انتہائی مشکل ہوچکا ہے۔ ایف پی سی سی آئی سمجھتی ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک ملک کی سیاسی اور معاشی قیادت، غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کیلئے معیشت اور صنعت دوست پالیسیاں نہیں لاسکی۔
واضح حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے ملک کو برسوں پرانے غیر ملکی قرضوں سے بھی چھٹکارہ نہیں دلوایا جاسکا۔ زرعی اور صنعتی شعبوں کی پیداوار میں کمی بھی غیر موثر حکمت عملی کی وجہ سے ہوئی۔
7 دہائیاںگزرنے کے بعد بھی ہم تذبذب کا شکار ہیں کہ ہمیں تعلیم،صحت اور صنعتی ترقی پر خرچ کرناہے یا دفاع پر جبکہ ٹیکسوں کے حوالے سے بھی معاملات عجیب ہیں۔
جب تک سیاسی اور معاشی قیادت خلوص نیت کے ساتھ ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے کے لیے بہترین معاشی ماڈل اور حکمت عملی نہیں بنائے گی تب تک مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ملکی معیشت اور تجارت کے تمام معاملات کو ایف پی سی سی آئی ا ور ٹریڈ باڈیز جو بڑے سٹیک ہولڈرز ہیں کی مشاورت سے چلائے جائیں۔
گزشتہ 15 برسوں سے میثاق معیشت کے نعرے لگائے جا رہے ہیں مگر اس پر کام نہیں ہوا، ہر سیاسی جماعت نے اس نعرے کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا اور پھر ملکی معیشت کی کمر توڑ دی۔
ایف پی سی سی آئی سمیت ملک کے تمام چھوٹے بڑے چیمبرزاور ٹریڈ ایسوسی ایشنز نے چارٹر آف اکنامی کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیتے ہوئے مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے کیے اور انہیں ملک کی معاشی ترقی، کاروبار کے فروغ کیلئے ایک ساتھ بٹھانے کی سر توڑ کوششیں کیں لیکن سیاسی جماعتوں حتیٰ کہ پارلیمنٹ نے بھی اس حوالے سے کچھ نہ کیا۔
جس کے بعد عوام کی مایوسی میں مزید اضافہ ہوا۔ خدارا سیاسی جماعتیں ملکی معیشت پر محض بیان بازی سے کام نہ لیں بلکہ عملی طور پرعوامی مفادات کے تحفظ کیلئے ایسی اقتصادی اصلاحات کے ایجنڈے پر اتفاق رائے پیدا کریں جو وقت اور حالات کی اہم ترین ضرورت ہے۔ میرے نزدیک ملک کے موجودہ مسائل کا حل’’چارٹر آف اکانومی‘‘ میں ہے۔
سٹرکچرل چیلنجز پاکستان کی پائیدار معاشی ترقی کیلئے بڑے خطرات ہیں۔یقینا کم سرمایہ کاری، برآمدات اور پیداوار میں کمی معاشی بحالی کیلئے خطرہ ہیں۔ ہم نے اپنی برآمدات کو بڑھانے کیلئے روپے کی قدر میں کمی کی لیکن اس کمی کی وجہ سے ہمارا امپورٹ بل بڑھا لیکن ایکسپورٹ بل نہیں بڑھ سکا، ہمیں روپے کی قدر میں مزید کمی نہیں کرنی چاہیے۔
اس سے معیشت کو مزید نقصان ہوگا۔فوری ڈالر کی قیمت کو نیچے لانا ممکن نظر نہیں آتا، حکومت ہر درآمد کردہ شے پر ٹیکس نہ لگائے بلکہ ٹارگٹڈ ٹیکس لگانے چاہیے۔ جو خام مال ہماری صنعتی پیداوار میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
اس پر ٹیکس کم کرنا چاہیے تاکہ ہماری پیداواری لاگت کم ہو۔ ملکی معیشت بہتر بنانے کیلئے قلیل المدتی اور طویل المدتی پالیسیاں بنانا پڑیں گی۔ قلیل المدتی پالیسی میں ہمیں اپنا مالی خسارہ کم کرنا ہوگا جس کے لیے حکومت کے حجم اور اسکے اخراجات کو کم کرنا ہوگا، جو سرکاری ادارے نقصان میں چل رہے ہیں۔
ان کی یا تو نجکاری کرنا ہوگی یا منافع بخش بنانا ہوگا۔ طویل المدتی پالیسیوں میں ہمیں زرعی اصلاحات کرنا ہوں گی اور زمین کی خرید کیلئے حد بندی کرنا ہوگی۔نوجوانوں کو تعلیم اور ہنر دینا ہوگا تا کہ ہم افرادی قوت کو برآمد کر سکیں۔ حکومت کو چاہیے کہ سٹرکچرل ریفارمز اور مالیاتی پالیسیوں کو نئے سرے سے مربوط کرے۔ ملکی آمدنی میں اضافے اور اخراجات میں کٹوتی کیلئے اصلاحات کی جائیں۔
اس کا اثر ڈالر کی قیمت کے ساتھ ساتھ ساتھ معاشی اشاریوں پربھی پڑے گا۔ ایف بی آر میں ریفارمز کی شدید ضرورت ہے جن کے نتیجے میں یہ ادارہ اپنے اہداف بھی آسانی حاصل کرے اور اپنی روز افزوں کارکردگی کے ذریعے ملکی معیشت کی مضبوطی کا باعث بنے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بالواسطہ ٹیکسیشن کے بجائے براہ راست ٹیکسیشن کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔
ایکسائز، کسٹم اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے ذریعے معیشت کا بھلا نہیں کیا جا سکتا۔ براہ راست ٹیکس نیٹ بڑھائیں نہ کہ ٹیکس کی شرح کو بڑھایا جائے، نتیجتاً عوام ٹیکس چوری کا سوچنے لگتے ہیں۔ بزنس ایشوزاور تنازعات کے حل کیلئے ملک بھر میں تیز رفتار کام کرنے والی ڈیجیٹل بزنس کورٹس بنائی جائیں۔
امپورٹ بیسڈ ٹریڈ پالیسی کولوکل پروڈکشن بیسڈ انڈسٹریل پالیسی میں بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔پاکستانی پیداوار کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے،قوم معاشی ترقی کے راستے پر چلتے ہوئے خود کفالت کی منزل حاصل کرلے گی۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ترقی کا ایک بہترین راستہ ہے، پی آئی اے، سٹیل ملز، ریلوے جیسی کارپوریشنز کی بحالی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے شفاف عمل کے ذریعے کی جائے۔ سی پیک ہمارا قومی مستقبل ہے۔
امید ہے کہ موجودہ حکومت اس کی تعمیر کیلئے بھرپور محنت جاری رکھے۔ سی پیک انٹرنیشنل زونز کی تکمیل جنگی بنیادوں پر کی جانی چاہیے، اس حوالے سے چینی کمپنیز کو درپیش مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔
آبی ذرائع اور توانائی کیلئے ہمارے بہت سے ڈیمز کے قومی پراجیکٹس زیرالتوا ہیں،ان منصوبوں کی تکمیل کیلئے کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ ہر قدم پر پیش نظر رہنا چاہیے کہ خود کفالت ہی میں خودداری ہے۔ خود کفالت کیلئے مضبوط معیشت اور مضبوط معیشت کیلئے معاشی پالیسی کا تسلسل ضروری ہے، اسی میں ہماری قوم کی بقاء ہے۔
معاشی خودمختاری اور خود انحصاری کے حصول کیلئے ساتھ ملکر آگے بڑھنا ہو گا۔ چارٹر آف اکانومی کو اولین ترجیح دینے کا وقت آچکا ہے، سب مل کر پاکستان اور عوام کو معاشی قوت بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
اجمل بلوچ
(صدر آل پاکستان انجمن تاجران)
سرکاری افسران، بیوروکریٹس اور حکومتی افسران مراعات لیتے ہیں جبکہ تاجر برادری دن رات محنت کرکے ملکی معیشت چلا رہی ہے۔
ہم اپنے پیسوں سے کاروبار کرتے ہیں اور ٹیکس بھی باقاعدگی سے دیتے ہیں، حکومت ہمیںسہولیات دینے کے بجائے ہمارے مسائل میں اضافہ کر رہی ہے۔
ہم ارباب اختیار پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ دوکانیں ساڑھے آٹھ بجے بند نہیں ہوں گی،اگر حکومت رات 9سے10بجے تک بجلی بند کرے گی تو تاجران یوپی ایس استعمال کرلیں گے مگر کام کو روکا نہیں جائے گا۔
حکومتی فیصلہ کسی کو قابل قبول نہیں، یہ ملکی معیشت کیلئے بھی زہر قاتل ہے۔ صوبوں نے وفاقی حکومت کا فیصلہ نہیںمانا لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ فی الفور اپنا فیصلہ واپس لے اور اس طرح کے فیصلے کرنے سے پہلے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرے تاکہ سب مل کر ملکی معیشت کو مستحکم کر سکیں، لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ نہ کیا جائے۔
جب سے تاجر دوست حکومت آئی ہے ہمیں لگا کہ اب تاجر برادری پر کسی قسم کی قدغن اور پابندیاں نہیں لگیں گی مگر سب الٹ ہے۔ حکومتی شہ خرچیوں پر کنٹرول نہیں کیا جارہا مگر تاجروں پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔
حکومتی اور سرکاری اداروں میں اے سی ہیٹرز بند کئے جائیں حکمران اور بیوروکریٹ پروٹوکول ختم اور مفت پیٹرول، بجلی، گیس لینا بند کریں۔ معاشی پہیہ روک کر توانائی بچانا کہاں کی عقل مندی نہیں۔ کاروباری طبقہ ملک میں سب سے مہنگی بجلی کا خریدار ہے۔
کاروباری طبقے کو بجلی فراہم کی جائے تاکہ معاشی پہیہ چلتا رہے،ملک بھر میں سٹریٹ لائٹس رات 10 بجے کے بعد جلائی جائیں،ملکی شاہراہوں اور موٹرویز پر بجلی کے بے دریغ استعمال میں کمی لائی جائے،پارکوں اور سرکاری دفاتر کی بجلی مغرب کے بعد بند کردی جائے،بجلی، گیس چوروں کو پکڑ کر جیلوں میں ڈالا جائے۔
حکمران دنیا کی مثال دیتے ہیں،دنیا خوشحال ہے جس دن ہم خوشحال ہوگئے اس دن کاروبار پانچ بجے بند کر دیں گے۔ حکومت نے شام چھ سے رات دس بجے تک پیئک آورز رکھے ہوئے ہیں جس میں مہنگی بجلی ملتی ہے،تاجر مختلف ٹیکس شامل کر کے 80 سے 85 روپے فی یونٹ بجلی خریدتا ہے،مہنگی بجلی خرید کر سترہ فیصد جی ایس ٹی اور دس فیصد انکم ٹیکس بھی دیتے ہیں۔
ایک کروڑ سے زائد تاجروں کے علاوہ کوئی نہیں جو اتنی مہنگی بجلی خریدتا ہو،اگر تاجر ان چار گھنٹوں میں مہنگی بجلی نہیں خریدیں گے تو ملک میں بجلی کیسے بنائی جائے گی؟ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ 62ارب کی بچت ہو گی،100 ارب کا نقصان کر کے 62ارب کی بچت کیسی عقلمندی ہے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ توانائی کی بچت کرتے کرتے معیشت کا بیٹرہ غرق ہوجائے۔
کفائت شعاری میں حکمران، بیوروکریٹ نمونہ بنیں، گاڑیاں، مفت علاج و دیگر مراعات چھوڑدیں،صبح چھ بجے دفاتر پہنچیں، عوام خودبخود جلدی اٹھنا شروع ہو جائیں گے مگر افسوس یہ خود مراعات چھوڑنے کو تیار نہیں اور لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کررہے ہیں۔
ہم حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کو تیارہیں جہاں دس لایٹس جلتی ہیں وہاںپانچ چلائیں گے،دو پنکھوں کی جگہ ایک پنکھا چلایا جائے گا،ہم کسی صورت کاروبار بند نہیں کریں گے۔
محمد فاروق چوہدری
(صدر آل پاکستان ریسٹورنٹ جوائنٹ ایکشن کمیٹی )
حکومت نے ریسٹورنٹ انڈسٹری کے تاجروں کی رضامندی کے بغیر یکطرفہ فیصلہ کیا جسے ہم مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ ہم نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ انٹرنیشنل مر وجہ اصول کے مطابق مارکیٹس بند ہونے کے بعد ریسٹورنٹ، ہوٹلز، بیکرز کو 4 اضافی گھنٹے دئیے جائیں، ریسٹورنٹس پر مسافر، پردیسی، مزدور، طالبعلم سب کھانا کھاتے ہیں۔
ایک ہی وقت میں سارے کاروبار پر پابندی لگانے سے لوگوں کو مشکلات ہونگی اور فوڈ انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کا معاشی قتل عام ہوگا۔ ملک بھر مہنگائی کا طوفان ہے، اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
مارکیٹس جلد بند کرنے کے فیصلے سے بے روزگاری بڑھے گی، جو افراد روزگار کمانے کیلئے ڈبل شفٹ میں کام کرتے ہیں ان کا بہت بڑا نقصان ہوگا، 40 لاکھ کے قریب سیکنڈ شفٹ ملازمین بیروزگار ہو جائیں گے۔ رات چھ بجے سے لے کر دس بجے تک سب سے مہنگی بجلی ہم خریدتے ہیں، سیلز ٹیکس بھی دیتے ہیں جس سے ملکی معیشت کو فائدہ ہوتا ہے۔
حکومت 62ارب روپے بچانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، ہم حکومت کو 100ارب روپے دیتے ہیں لہٰذا مارکیٹس بند کرنے سے اگر 62 ارب اکٹھے ہوتے ہیں تو دوسری طرف قومی خزانے کو38 ارب روپے کا نقصان بھی ہوگا۔
یہ ملکی معیشت کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ ہم دن کی روشنی میں کام کرنے کے اقدام کو سپورٹ کریں گے مگر پہلے مارکیٹس کو علی الصبح کھلوانے کیلئے اقدامات کریں، اس کی ابتداء سرکاری دفاتر اور بینک سے ہونی چاہیے۔
بینک کے اوقات کار صبح 7 سے دوپہر2 بجے تک کر دیں، کاروباری طبقہ خود بخود جلدی دوکانیں کھولے گا جو دوکان صبح سات بجے نہ کھلے اسے جرمانہ کیا جائے۔ جس دوکان، مارکیٹ، شادی ہال، ریسٹورنٹ، ہوٹل وغیرہ میں فالتو بجلی کا استعمال ہو، اسے جرمانہ کیا جائے، تمام بڑے بل بورڈ اور سٹریٹ بورڈز کو بجلی کی سپلائی معطل کی جائے، انہیں سولر ٹیکنالوجی پر منتقل کیا جائے ۔
ہم توانائی بچت پروگرام میں حکومت کا ساتھ دینے کیلئے پوری طرح تیار ہیں، ملکی مسائل اور توانائی بچت کے لیے ہم دن میں بھی سولر سمیت دیگر آپشنز پر غور کر رہے ہیں، ہم نے ریسٹورنٹ مالکان کو بڑے سائن بورڈز بند اور لائٹس کم سے کم کرنے کا کہا ہے۔
ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ فوری طور پر اپنا فیصلہ واپس لے، ہمای تجاویز کو تسلیم کرے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو ریسٹورنٹ، ہوٹلزاور بیکرز سمیت پوری فوڈ انڈسٹری مکمل شٹرڈاؤن کرے گی اور پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے دھرنا دیا جائے گا۔
انجینئر ارشدعباسی
(ماہر توانائی )
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مارکیٹیں بند کرنے کے فیصلے پر ہوم ورک نہیں کیا گیا۔ ریونیو کا بڑا حصہ کمرشل صارفین سے جمع ہوتا ہے لہٰذا کاروبار شام آٹھ بجے بند کرنے سے اس پر اثر ہوگا۔ کمرشل سیکٹر سب سے زیادہ بل دیتا ہے۔
اسلام آباد کا بلیو ایریا ہو یا قصہ خوانی بازار پشاور ہو، تاجر 100 فیصد بل دیتے ہیں، ان علاقوں کے لائن لاسز بھی کم ہیں۔فاٹا میں بلنگ کو آؤٹ سورس کرنے سے بہتری آئی، اسی طرح واسا پنڈی میں بل کلیکشن کا مسئلہ تھا ،آؤٹ سورس کرنے سے 80فیصد بل ادائیگیاں شروع ہو گئی ہیں،سب جگہ ایسا کرنے سے کلیکشن بڑھ جائے گی۔ 42ہزار میگا واٹ انسٹال کیپسٹی ہے، ہم 8 سے 12 ہزار میگا واٹ بجلی نہیں بنا سکے۔ ملک بھر میں سمارٹ گرڈ لگانے کی ضرورت ہے۔
گھر سے ڈیم تک سسٹم کو ڈیجیٹل کرنا ہوگا تا کہ معلوم ہو سکے کہ کہاں بجلی چوری ہو رہی ہے ،کہاں ٹیکنیکل لاسز ہیں۔
ملک میں لائن لاسز 48فیصد ، تقریباََ تین ارب ڈالر ہوچکے ہیں، بہتر حکمت عملی بناکر لائن لاسز میں صرف ایک ماہ کے اندر اندر 50 فیصد کمی لائی جاسکتی ہے۔ لائن لاسز اور موسمیاتی تبدیلی پر تحقیق ہو رہی ہیں،ہم نے UFG کم کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ ملک میں توانائی سکیورٹی کو نیشنل سکیورٹی کاحصہ بنایا جانا چاہیے۔
The post معاشی خود انحصاری کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا!! appeared first on ایکسپریس اردو.