کراچی: گزشتہ دنوں واٹس ایپ حلقے، بزم زباں فہمی میں یہ بحث چھڑگئی کہ (اثنائے گفتگو)کوئی’کام کرنا‘ درست ہے یا ’کرنی‘، جیسے توبہ کرنی چاہیے یا توبہ کرنا چاہیے۔اس موقع پر حیدرآباد، سندھ میں مقیم ممتاز ادیب، ڈاکٹر مسروراحمد زئی نے فرمایا کہ ”توبہ کرنا چاہیے۔ فعل کی علامت…نا ..ہے اس لیے، توبہ کرنا، درست ہے۔
ایک مرتبہ ایسی ہی بحث پر ڈاکٹر عشقی صاحب (الیاس عشقی مرحوم)نے یہی فرمایا جو میں نے عرض کی، جس پر میں نے حسرتؔ کا یہ مصرع پیش کیا، بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی۔ تو عشقی صاحب فرمانے لگے، غلطی تو غلطی ہے، وہ حسرت ؔکے یہاں ہو یا غالب کے یہاں“۔ بحث آگے بڑھی تو پہلی گرفت یہی ہوئی کہ صاحب! آپ نے سہواً بہادرشاہ ظفرؔ کا مشہور مصرع … بات کرنی مجھے مشکل، کبھی ایسی تو نہ تھی….حسرتؔ موہانی کے نام کردیا۔
محترم غالبؔ ماجدی صاحب (مقیم لندن) نے بروَقت یاد دلایاتومسرورصاحب نے بھی برملا اعتراف کیا کہ اُن سے غلطی سرز دہوئی تھی۔سلسلہ چل نکلا تو محترم عارف عزیز نے احمدفراز ؔ کا مشہور کلام پیش کرتے ہوئے ’کرنی‘ کا مزید استعمال نمایاں کیا۔قارئین کرام کی اطلاع کے لیے عرض کروں کہ ڈاکٹر الیاس عشقی صاحب سے میری ملاقات تو کبھی نہیں ہوسکی، لیکن اُن سے خط کتابت اور ٹیلی فون پر گفتگو رہی، انھوں نے میرے رسالے ہائیکو انٹرنیشنل کے لیے اپنی ایک نگارش بھی عنایت کی تھی جو ہمارے بزرگ معاصر محترم اقبال حیدر مرحوم کی ہائیکو نگاری پر تھی۔بہت مشفق بزرگ تھے۔اپنی آخری علالت میں بھی بہت اچھی طرح گفتگو فرمائی۔جب مسرورصاحب نے اُن کا یہ حوالہ دیا تو مجھے کہنا پڑا کہ اگر وہ زندہ اور روبرو ہوتے تو اُن سے بھی یہی عرض کردیتاکہ اہل زبان ایساتصرّف کرسکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب ’بات کرنا‘ درست ہے تو پھر ’بات کرنی‘ کیوں ہے؟ خاکسار نے مختصرا ً جواب دیا کہ جی ہاں، یہ روزمرّہ ہے، جسے اہل زبان، ادبی زبان میں برتتے آئے ہیں۔ ہرچندکہ بات کرنا ہی درست ہے، مگر اہل زبان کاطور طریقہ ہے کہ اپنے روزمرّہ میں فعل کو بھی حسب منشاء تبدیل کرتے ہوئے مؤنث بنادیتے ہیں۔اس ضمن میں ہمارے بزرگ معاصر محترم شہاب الدین شہاب ؔ نے بتایا کہ ’بات کرنی‘، شہر دِلّی اور نواح نیز پنجاب میں رائج رہا ہے۔اب رہا یہ سوال کہ اسکول،کالج اور جامعات کی سطح پر اردو زبان وتدریس کے وقت،طلبہ کی آسانی کے لیے، یہ بات کیسے واضح ہو تو میری رائے میں یہ ایسا کوئی مشکل فریضہ نہیں۔بات کہنے کی بجائے بات کرنا اور پھر بات کرنی، یہ سب زبان کے سبق میں شامل ہے۔’بات کرنی‘ کے ضمن میں بہادرشاہ ظفرؔ کا شعر مشہور ترین ہے:
بات کرنی، مجھے مشکل،کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تیری محفل، کبھی ایسی تو نہ تھی
ؔ
ظفرؔ کے متعلق کچھ کہنے سے قبل،”بات کرنی“ پر یاد آیا کہ محترم غالب ؔ ماجدی صاحب نے معروف شاعر جناب امجد اسلام امجدؔ کی یہ نظم بھی اُسی موقع کی مناسبت سے پیش کرکے گویا مُہر تصدیق ثبت کردی تھی:
کرو، جو بات کرنی ہے
اگر اس آس پہ بیٹھے، کہ دنیا
بس تمہیں سننے کی خاطر
گوش بر آواز ہو کر بیٹھ جائے گی
تو ایسا ہو نہیں سکتا
زمانہ، ایک لوگوں سے بھرا فٹ پاتھ ہے جس پر
کسی کو ایک لمحے کے لئے رُکنا نہیں ملتا
بٹھاؤ لاکھ تُم پہرے
تماشا گاہِ عالم سے گزرتی جائے گی خلقت
بِنا دیکھے، بِنا ٹھہرے
جِسے تُم وقت کہتے ہو
دھندلکا سا کوئی جیسے زمیں سے آسماں تک ہے
یہ کوئی خواب ہے جیسے
نہیں معلوم کچھ اس خواب کی مہلت کہاں تک ہے
کرو، جو بات کرنی ہے
معروف شاعرہ محترمہ آمنہ عالم نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ”اگر بات کرنی غلط ہے تو…نماز پڑھنی،روٹی پکانی،روٹی کھانی،آگ جلانی،ورزش کرنی،وغیرہ سب پر اعتراض درست ہوگا“۔
یہاں حسب معمول لغات سے رجوع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فرہنگ آصفیہ میں مندرجہ ذیل اندراج موجود ہے:
بات کرنا: فعل لازم۔ا)۔بولنا، گفتگو کرنا ب)۔مخاطب ہونا ج)۔ متوجہ ہونا د)۔ رجوع کرنا
بات کرنے میں (ہندی)۔تابع مُہمِل: دَم کی دَم میں، آناً فاناًمیں، لمحے میں، پَل میں، بہت جلد، تُرَنت
؎ بات کرنے میں گزرتی ہے،ملاقات کی رات
بات ہی کیا ہے جو رہ جاؤ، یہیں رات کی رات
(بیخود ؔ دہلوی)
یہ شعر کئی اعتبار سے منفرد ہے۔ایک ہی لفظ کے روزمرّہ اور محاورے میں عمدہ استعمال سے شاعر نے وہ بات کہہ دی جس کے لیے نثر میں قدرے طوالت درکار ہوتی۔بیخود ؔ دہلوی، اپنے وقت کے جےّد استادِ سخن نواب میرزا داغ ؔ دہلوی کے عزیز تلامذہ میں شامل تھے۔راجستھان کے باشندے فخر کرسکتے ہیں کہ سید وحید الدین جیسے طبّاع سخنور نے داغؔ جیسے عظیم سخنور، لَسّان العصر (زمانے میں زبان کا عظیم ماہر)کے فن کی شمع آگے بڑھا کر، بیخود ؔ دہلوی کے تخلص سے دنیائے شعر میں اپنا مقام بنایا۔ویسے تو ’وحید‘ بھی عمدہ نام ہے، مگر وحید الہ آبادی کے لیے چھوڑدیا گیا۔(قدرے مختلف مثال:خاکسار سہیل نے اس موقع پر احباب کو یہ بھی یاد دلایا کہ بہاری حضرات کے روزمرہ میں ’میں نے وہ قمیض/شرٹ،فلاں جگہ سے لائی ہے‘۔یا۔’ہم نے کپڑاخریدا‘کی جگہ،’ہم کپڑاخریدے ہیں‘وغیرہ بھی رائج ہے اورپھرلطف یہ کہ اُن کے بعض اہل قلم کے یہاں، شعریانثرمیں، اسے جا بجاجائزرکھاگیا ہے۔اب اسے جملہ معترضہ سمجھ کر نظرانداز کیاجائے یا اس سے حَظ اٹھایا جائے، یہ فیصلہ بِہاری احباب پر چھوڑتاہوں)۔
بہادرشاہ ظفرؔ کے مشہور ترین شعر کے متعلق کچھ بھی کہنے اور تنقید کرنے سے پہلے، یہ یادرکھنا لازم ہے کہ شاہ نصیرؔ، میر کاظم حسین بیقرارؔ، ذوقؔ اور غالب ؔ کے اصلاح یافتہ یہ بادشاہ کوئی معمولی شاعر نہ تھے۔اُن کی اردو شاعری میں تحقیق کے شناور کو یہ بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ ظفرؔ کے کلام میں ان سب اساتذہ کا رنگ ِ سخن ہلکا ہلکا شامل سہی، مگر بحیثیت مجموعی وہ اپنا جدا رنگ جمانے اور دکھانے میں کامیاب رہے۔
راقم اپنے مشفق بزر گ معاصرڈاکٹر شان الحق حقی (مرحوم) کی اس رائے سے اتفاق کرتا ہے کہ بہادرشاہ ظفرؔ بنفسہ خود ایک استاد ِ سخن تھے،کیونکہ اُن کا رنگ، سب سے جُدا نظرآتا ہے۔خاکسار نے اُن کی تحقیقی کتاب ”نوادرِ ظفر“ کا مطالعہ بہت سال پہلے کیا اور اُسے اس موضو ع پر منفرد، مفید اور جامع ادبی کام قراردیا۔ماقبل اُن کی اور پنڈِت برج موہن دتاتریہ کیفیؔ (آنجہانی) کی مشترکہ کتاب ”انتخاب ِ ذوقؔ و ظفرؔ“، انجمن ترقی اردو،ہند نے 1945ء میں شایع کی تھی جس میں ظفرؔ کا حصہ مع مقدمہ، حقی مرحوم کی محنت کا نتیجہ تھا۔اس گوشہ کتاب کے ذیلی سرورق پر یہ عنوان تحریرہے: ”انتخاب ِ ظفرؔ یعنی بہادرشاہ ظفرؔ کے آب دار دیوان کا انتخاب، جس کے ساتھ ظفرؔ کی شاعری پر ایک بَسےِط مقدمہ بھی شامل ہے; شان الحق حقی دہلوی“۔آئیے اس شاندار کتاب سے ایک اقتباس دیکھتے ہیں:
”ظفرؔ نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں، وہ خوش نوایانِ سخن کی آزمایش گاہ اور اُردو زبان کی ٹکسال تھا ;قَلعہ مُعَلّیٰ میں دن رات، شعروشاعری کی محفلیں گرم رہتیں،اور اشعار کے دفتر کھُلتے۔ظفرؔؔ بھی نَوعُمری ہی سے ان دل چسپیوں میں حصہ لینے لگے تھے او رفطری لگاؤ کے باعث،یہ مشغلہ اُن سے آخردم تک نہ چھُٹا۔خودکہتے ہیں:
طبیعت ہے جواں، پِیری میں بھی وہ اے ظفرؔ تیری
سخن فہمی، سخن سنجی، سخن دانی نہیں جاتی
بلکہ آخرزمانے میں اُن کی شاعری نے اپنا اصلی رُوپ دِکھایا اور وہ آگ بھڑک اُٹھی جس کی چنگاریاں پہلے بھی کہیں کہیں برآمد ہوجاتی تھیں:
بھڑکی ہے بے طرح یہ ظفرؔ آج دل کی آگ
آگے تو شعلہ سا کئی بار اُٹھ کے رہ گیا“
یہاں شاعر نے لفظ ’آگے‘ بمعنی پہلے باندھا ہے، جیسے پرانے لوگ کہا کرتے تھے کہ اگلے وقتوں میں یوں ہوتا تھا یا جیسے بقول کسے
ع یہ اگلے وقتوں کے ہیں لوگ اِنھیں کچھ نہ کہو
بقول حقی ؔ صاحب،بہادرشاہ ظفرؔ اپنے عہد کے پُرگو شعراء میں شامل تھے اور اُن کے چاردواوِین میں تقریباً تمام اصناف سخن پر طبع آزمائی کے متعدد نمونے موجودہیں، جبکہ انھوں نے بعض اصناف ایجاد بھی کیں۔وہ محض اردو ہی کے نہیں، بلکہ پنجابی، ہندی، بھاشااور پنجابی کے بھی شاعر تھے۔نظیر ؔ اکبرآبادی کے گویا ان معنوں میں پیش رَو تھے کہ انھوں نے بھی موقع محل اور موضوع کی بہتات کے ساتھ بھرپور شاعری کی۔یہ اور بات کہ ’آبِ حیات‘ کے مؤلف،آزادؔ نے اپنے استاد بھائی کی یوں تحقیر کی کہ جیسے ذوقؔ کے بغیر، ظفر ؔ کوئی معمولی شعرگو ہو۔علامہ سیماب ؔ اکبرآبادی کا مشہور ِ زمانہ شعر، عمرِدراز مانگ کے لائی تھی چار دن+دو آرزو میں کٹ گئے،دو اِنتظار میں…معمولی رَدّوبدل کے ساتھ، ظفرؔ سے کیا منسوب ہوا (….مانگ کے لائے تھے)کہ یاروں نے شاہ ظفرؔ کی فنی عظمت سے گویا مَفر کی راہ اپنالی۔یادرکھنا چاہیے کہ شاہ کے دیوان اول کی اشاعت کے بعد جاکر، بیقرارؔ کے، اُن سے مفارقت اختیار کرنے کے بعدہی ذوقؔ کی اصلاح کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔طبیعی عمر اور شعری عمردونوں اعتبارسے شاہ ایک پختہ کار سخنور بن چکے تھے۔
آئیے ذرا ’بات کرنی‘ کی پوری غزل سے لطف اندوز ہوں:
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
اس کی آنکھوں نے خدا جانے کیا کیا جادو
کہ طبیعت مری مائل کبھی ایسی تو نہ تھی
عکس رخسار نے کس کے ہے تجھے چمکایا
تاب تجھ میں مہ کامل کبھی ایسی تو نہ تھی
اب کی جو راہ محبت میں اٹھائی تکلیف
سخت ہوتی ہمیں منزل کبھی ایسی تو نہ تھی
پائے کوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں
آتی آواز سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی
نگہ یار کو اب کیوں ہے تغافل اے دل
وہ ترے حال سے غافل کبھی ایسی تو نہ تھی
چشم قاتل مری دشمن تھی ہمیشہ لیکن
جیسی اب ہو گئی قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی
کیا سبب تو جو بگڑتا ہے ظفرؔ سے ہر بار
خو‘ تری حور شمائل کبھی ایسی تو نہ تھی
اب اگر کوئی رَوارَوی میں اسے رنگِ غالبؔ میں کہی گئی غزل کہہ دے تو یہ ظفرؔ سے زیادتی ہوگی۔مضطرؔ خیر آبادی کی ایک غزل کا انتساب بہادرشاہ ظفرؔ سے بہت مدتوں مشہور رہا، پھر تحقیق نے اس باب پر جمی دھول ہٹائی تو انکشاف ہوا کہ اصل شاعر، شاہ نہیں، بلکہ اُنھی کے معاصر، مجاہد آزادی، علامہ مفتی فضل حق خیرآبادی (غالب ؔ کے قریبی دوست، اولین مرتب ِ دیوان ِغالبؔ وناقد)کے نواسے، مضطرؔ خیر آبادی ہیں۔انتہائی دل چسپ بات اس کالم کے توسط سے اہل ذوق تک پہنچارہاہوں کہ جب یہ معاملہ نیا نیا تھا تو اس خاکسارنے شاعر موصوف کے پوتے اور معروف ہندوستانی نغمہ نگار جنا ب جاوید اختر(وَلَدجاں نثار اختر) سے بذریعہ فیس بک رابطہ کرکے اس بابت استفسار کیاتو انھوں نے صاف جواب دیا کہ ہم نے تو یہ غزل، اپنے بچپن ہی سے بہادرشاہ ظفرؔ سے منسوب سنی ہے۔ماضی قریب میں یہ غُلغُلہ ہواتو نغمہ نگار موصوف نے بھی تحقیقی مساعی کے بعد، مضطرؔ خیر آبادی کامطبوعہ کلام پانچ جلدوں میں اور غیرمطبوعہ کلام بعنوان ’خرمن‘شایع کردیا۔وہ غزل یہ تھی:
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں، نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جوکسی کے کام نہ آسکے، میں وہ ایک مُشتِ غبارہوں
یہ تحقیق تسلیم کرنے والوں میں ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی (مرحوم)بھی شامل تھے۔اب یہاں کہانی میں ایک نیا موڑ آتا ہے۔بھوپال کے بزرگ شاعر محترم اشرف ندیم بھوپالی (26دسمبر 1931ء تا 3جون 2016ء) نے ایک کتابچہ بعنوان ”بہادرشاہ ظفرؔ کی ایک غزل پر تحقیقی مجلہ“ شایع کرکے اپنی جوابی تحقیق یعنی رَدّتحقیق پیش کرکے دنیا کوچونکا دیا۔اُن کی تحقیق بوجوہ تاخیر کا شکار ہوئی اور کلام مضطرؔ پہلے شایع ہوگیا، بہرحال اشرف ندیم صاحب کی تحقیق،برحق تسلیم کرنے والوں میں گلزار دہلوی، بیکل اُتساہی، شمیم طارق اور مظہراِمام جیسے معتبرشعراء شامل ہیں۔
مذکورہ غزل پر مضطرؔ کے نام کی چھاپ کا آغاز ہوا تھا 1978 ء میں، رسالہ ’فن وشخصیت‘ کے ”غزل نمبر“ سے جس کے مرتبین میں مرحوم شاعر کے فرزند جاں نثار اختر مع دیگر (صابردت، قرۃ العین حیدر، حسن کمال، سردار جعفری و مظہرحسین قیصر)۔ماقبل کی تفصیل کا خلاصہ:
ا)۔ شاہ ظفرؔ کے چار دواوین شایع ہوئے اور پانچواں جنگ آزادی ہند کے ہنگامے کی نذر ہوگیا جسے بعد میں تلاش ومرتب کرکے شایع کیا گیا۔اُن کی ایک کلیات مطبع مصطفائی نے 1862ء میں، پھر مطبع احمدی اَموجان نے اور آخر میں 1870ء میں نَوَل کِشور نے شایع کی جس میں محولہ غزل شامل نہیں، اسی بنیاد پر،بقول محقق موصوف،مداحین ِ مضطر ؔکی تحقیق کی پوری عمارت قایم ہوئی۔یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب 1960ء میں ہندوستانی فلم ’لال قلعہ‘ کی عکس بندی ہوئی اور یہی غزل نامور گلوکار، رفیع صاحب نے گائی تو جناب جاں نثار اختر، زندہ تھے، مگر اُنھوں نے اس کے شاہ ظفرؔ سے انتساب پر کوئی اعتراض نہ کیا۔ یہ غزل (اگر شاہ ظفرؔ ہی کی تسلیم کرلی جائے تو)
بقول اشرف ؔ صاحب، شاہ ظفرؔنے حالت ِاسیری میں (1858ء تا 1862ء: وفات)، رنگون (برما) میں کہی تھی اور اس سمیت کئی غزلیں، کسی بھی دیوان میں شامل نہیں، غیرمطبوعہ کہلاتی ہیں۔اس ضمن میں ایک اور مشہور غزل (لگتا نہیں ہے دل/جی میرا اُجڑے دیا رمیں)بھی شامل ہے۔(ابھی ہم سیمابؔ کی غزل کا قضیہ نہیں چھیڑ رہے)۔حقیؔو کیفیؔ کی کتاب ’انتخاب ِ ذوق ؔ وظفرؔ‘ میں جسٹس محمود بن سرسید کے حوالے سے یہ انکشاف ہے کہ اُس دورکا کلام (ناصرف قوالوں اور عوام الناّس کے توسط سے، بلکہ) ایک انگریز کے ذریعے سے منظرعام پر آیا اور سرسید کو (قطع نظر اُن کی انگریز نوازی کے)، خاندان مغلیہ کے ساتھ ہونے والے مظالم کا ایسا قلق تھا کہ انھیں اپنے شاہ کا رنگون والا کلام بھی اَزبر تھا۔1992ء تک شایع ہونے والے(متعددنامی شخصیات کے مُرَتَب) پانچ انتخابات ِ کلام میں محولہ بالا غزل، بہادرشاہ ظفرؔ ہی سے منسوب شامل ہوئی، تب یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا۔مسئلہ بظاہر دونوں جانب ہی حل ہوچکا، مگر تحقیق کا باب ہنوز بند نہیں ہوا۔
حسرتؔ موہانی کے ”انتخاب سخن“ (جلد ہشتم) میں یہ غزل، کلام مضطرؔ کا حصہ نہیں،یہ بات بھی قابل غور ہے، اس لیے کہ حسرت ؔ محض سخنور یا نَثّار ہی نہیں، اعلیٰ پائے کے محقق بھی تھے۔آخر میں اپنے انتہائی مشفق بزرگ معاصر ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی مرحوم (25دسمبر 1954ء تا 5دسمبر 2022ء) کا خراجِ عقیدت بنام بہادرشاہ ظفرؔ پیش کرتاہوں:
سوز و سازِ زندگی کی تھی علامت اُن کی ذات
روحِ اردوشاعری ہے اُن کی شعری کائنات
The post زباں فہمی نمبر169؛ بات کرنی اور بہادرشاہ ظفرؔ appeared first on ایکسپریس اردو.