معاشرے کی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے تجزیہ کار، جن کا تعارف کہنہ مشق اور معتبر اہل دانش کے طور پر کرایا جاتا ہے، بھی تحقیق کے بغیر تاریخ کے موضوعات پر اظہاررائے میں تامّل نہیں کرتے۔
یہاں تک کہ مستند کہلائے جانے والے الیکٹرانک میڈیا ہاؤسز تک میں یہ تجزیہ کار قائداعظم سے متعلق تاریخی شواہد کو نظرانداز کرتے نظر آتے ہیں۔ قائداعظم کی پیدائش کو سندھ میں بعض سیاسی شخصیات نے متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ قائداعظم “جھرک ” میں پیداہوئے تھے۔
حال ہی میں ایک تجزیہ کار نے ایک نجی ٹیلیویژن چینل پر بڑے زعم کے ساتھ اس کا اعادہ کیا تھا۔ یہاں تک وہ یہ بھی کہہ بیٹھے کہ بیشتر تخلیق کار یہ نہیں جانتے کہ قائداعظم کی اصل پیدائش “جھرک ” تھی اور وہ کراچی پر اصرار کرتے ہیں۔ یہیں پر بس نہیں بلکہ موصوف نے اردو زبان میں شایع ہونے والے اخبار (جنگ)کے ایک کالم میں قائداعظم کے دست راست سے متعلق بھی بے سروپا گفتگوکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ”جھرک” کا مقام موجودہ ضلع ٹھٹھہ / سجاول میں واقع ہے، لیکن بابائے قوم کی پیدائش کے وقت اور اس کے بعد متعدد دہائیوں تک پورا ضلع ٹھٹھہ، کراچی ضلع میں شامل تھا۔
راقم الحروف نے ٹھٹھہ کی ایک تحصیل میرپوربٹھورو کی عمارت پر انگریزی زبان میں تحصیل اور تعلقہ کے نام کے ساتھ ضلع کرا چی لکھا ہوا دیکھا تھا، جس میں انیسویں صدی کے اواخر کا سال بھی درج تھا جس سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ “جھرک “کراچی ضلع کا حصہ تھا۔ قائداعظم نے خود 25 اگست 1947 ء کو KMC کے استقبالیے میں کراچی کو اپنی جائے پیدائش قراردیا تھا۔ قائداعظم کے اس بیان کے بعد پیدائش کے ضلع کی یہ بحث کوئی جواز نہیں رکھتی۔ لگتا ہے کہ بابائے قوم سے متعلق اپنی ان آراء کا اظہار کرنے والے قائداعظم کے اپنے بیان سے بھی ناواقف ہیں۔
راقم الحروف کو بابائے قوم کی ہمشیرہ محترمہ شیریں جناح سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ اس موقع پر میرے ساتھ معروف سماجی کارکن نسیم احمد عثمانی ودیگر احباب کے علاوہ محترمہ شیریں بائی کے فرزند اکبر بھائی بھی موجود تھے۔ ملاقات میں اپنے بھائی قائداعظم محمدعلی جناح اور اپنے خاندان کا ذکر کرتے ہوئے شیریں جناح نے بتایا تھا کہ ہمارے والد اور ہمارا خاندان ایک بڑا اور متموّل خاندان تھا اور ہم جہاں رہتے تھے وہ بڑی وسیع وعریض جگہ تھی۔
فاطمہ جناح روڈ اور شارع فیصل کے سنگم پر واقع قائداعظم کی ملکیت موجود ہ قائداعظم ہاؤس میوزیم، سابق فلیگ اسٹاف ہاؤس کو صدر ضیاء الحق کے دورمیں نیلام کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ ا س منصوبے کے روح رواں امریکہ میں پاکستان کے پہلے سفیر مرزا ابوالحسن اصفہانی تھے، جو اس وقت قائداعظم کی جائیداد کے ٹرسٹی بھی تھے۔ محترمہ شیریں جناح نے بتایا تھا کہ انہوں نے ٹیلیفون پر مذکورہ ٹرسٹی کو اس رائے سے آگاہ کیا تھا کہ یہ مکان جو قائداعظم کی ذاتی ملکیت ہے اور جسے انہوں نے اپنی آمدنی سے خریدا تھا، کو فروخت نہیں ہونے دیں گی اور اگر ضرورت پڑی تو وہ خود کرسی ڈال کر وہاں بیٹھ جائیں گی اور اپنے بھائی کے مکان کو نیلامی سے بچائیں گی۔
اس مضمون کی وساطت سے قائداعظم سے متعلق میں ان کے ذاتی نوادرات کو قائداعظم ہاؤس میوزیم میں یک جا کرنے کی اہمیت محسوس کرتا ہوں۔ بدقسمتی سے اس ملک میں قائداعظم کے فرمودات پر تو عمل نہ ہوسکا البتہ قائداعظم کے ذاتی استعمال کی اشیاء جن میں ان کا لباس، کار، فرنیچر وغیرہ شامل ہیں، کو بابائے قوم کے مقبرے سے متصل ایک کمرے، جو دیگر مشاہیر پاکستان کی قبور سے منسلک ہے میں نمائش کے لیے جمع کردیا گیا ہے۔
حالاںکہ ہماری پوری اسلامی تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں کہ کسی راہ نما کی آخری آرام گاہ سے منسلک صاحب مزار کے نوادرات کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہو۔ نوادرات کی نمائش بابائے قوم کے مزار کی حرمت کے منافی ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ مزارقائد میں بانی پاکستان سے متعلق موجود نوادرات و ذاتی اشیاء کو نمائش کے لیے قائداعظم ہاؤس منتقل کیا جائے تاکہ ایک طرف زائرین پورے احترام کے ساتھ مزارقائد پر حاضری دے کر فاتحہ خوانی کرسکیں اور دوسری طرف یہ نوادرات ایک مقام پر یک جا ہونے سے لوگ ایک ہی جگہ یہ تمام اشیاء ملاحظہ کرسکیں۔
The post قائداعظم کی جائے پیدائش کو متنازع بنانے کی کوشش appeared first on ایکسپریس اردو.