گھر کو جنت کہا جاتا ہے۔اگر گھر میں سکھ ، سکون اور صحت ہو تو انسانی زندگی کسی حسین نعمت سے کم نہیں۔گھر کو جنت کا گہوارا بنانے میں افرادِ خانہ کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
گھر کا ماحول وہاں کے باسی بناتے ہیں۔بعض اوقات ہم اپنے گھروں میں بیماریوں کا موجب بننے والے کچھ ایسے کام کر رہے ہوتے ہیں جن کے بارے میں شاید ہم خود بھی نہیں جانتے۔ توآج ہم آپ کو ایسی ہی چیزوں سے متعلق بتانے جا رہے ہیں جو ہم روزمرہ زندگی میں استعمال تو کر رہے ہوتے ہیں لیکن در حقیقت ان سے ہمارے درمیان بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
نان سٹک برتن
یوں تو نان سٹک برتنوں کو استعمال کرنے کا رواج عام ہو چکا ہے اور لوگ اس کو ضرورت سے زیادہ فیشن اور اچھا تاثر ڈالنے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔
اکثر تلی ہوئی چیزوں کو پکانے کیلئے نان سٹک برتنوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ان پر چونکہ نان سٹک تہہ لگی ہوتی ہے تو سب سے بڑا خطرہ ان میں درجہ حرارت کے بڑھنے کا ہوتا ہے جس سے ان میںموجود خوراک خطرناک دھوئیںکی آمیزش کا شکار ہوتی ہے۔ایسے دھوئیں سے زکام ، سردرد اور بخار ہوسکتا ہے ۔ اول تو ایسے برتنوںکو استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیئے اور اگر مجبوراً ان میں کچھ پکانا ہو تو اس کو کبھی بھی تیز آنچ پر نہ پکائیں۔
پانی کا نل
اکثر ٹپکتے نل جھنجھلاہٹ کا باعث بنتے ہیں۔یہ نا صرف پانی جیسی قیمتی دولت کے ضیاع کا باعث بنتے ہیں بلکہ اس کے صحت پہ نقصان دہ اثراث بھی مرتب ہوتے ہیں۔ضائع ہونے والا پانی دیواروں میں جذب ہو کر سیلن پیدا کرتا ہے جو کہ پھپھوندی کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے۔تحقیق کے مطابق پھپھوندی کے صحت پر نقصان دہ اثرات پڑتے ہیں جیسا کہ کھانسی اور خراٹے نما سانس لینے کی آواز ۔ جو لوگ اپنے گھروں میں پانی کے نل پر دھیان نہیں دیتے وہ اکثر سانس سے جڑی بیماریوں کا بہترین شکار ہوتے ہیں۔
ائیر کنڈیشنر
ائیر کنڈیشنرز یہ کمرے سے نمی کو کھینچ کر اس کو ٹھندی ہوا میں بدل دیتے ہیں ۔ جو ہوا میں خشکی پیدا کرتا ہے۔ اس سے نا صرف آنکھوں اور جلد میں خشکی پیداہوتی ہے بلکہ اس سے ڈی ہائیڈریشن بھی ہو سکتی ہے۔ اس سے مختلف الرجیز اور سانس کی بیماریوں کا بھی خطرہ رہتا ہے۔
ڈبوں والی خوراک
کھانا تازہ اورلذیز ہو تو مزہ دوبالا ہوجاتا ہے۔ اکثر ضرورت کے وقت لوگ ڈبوں میں موجود خوراک کا استعمال کرتے ہیں جو کہ کسی حد تک تو قابل قبول ہوتا بھی ہے ۔ لیکن حال ہی میں ایک بڑے پیمانے پر کی گئی تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ڈبوں میں بند خوراک میں چالیس فیصد بی پی اے موجود ہوتا ہے جو کہ پلاسٹک میں بھی پایا جاتا ہے یوں یہ خوراک اتنی ہی نقصان دہ ہوتی ہے جتنی کے پلاسٹک۔اور سوڈا ڈرنکس بھی اس قدر نقصان دہ ہیں۔
ایک تحقیق میں لوگوں کو کینڈ سوڈا ڈرنکس پلانے اور بوتل میں موجود سوڈا ڈرنکس پلانے کے بعد میں ان کا پیشاب ٹیسٹ کیا گیا تو اس کے نتائج انتہائی چونکا دینے والے تھے کیونکہ کینڈ ڈرنکس والوں میں پی پی ایچ کے ٹریسز سولہ سو فیصد بڑھ چکے تھے۔
ائیر فرشنرز
ہوا کو ایک دم سے معطر کردینے والے ائیر فریشنرز یوں تو سب کو ہی بہت بھاتے ہیں پر ان کے کتنے نقصان دہ اثرات ہو سکتے ہیں لوگ اس سے بے خبر ہیں۔
آسٹریلیا کی میلبرن یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق کے مطابق ائیر فریشنرز کے ایک چوتھائی اجزاء زہریلے ہوتے ہیں۔یہاں تک کے ان میں VOCsکی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے جو انتہائی نقصان دہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگوں کے نظام تنفس اور پھیپھڑوں پہ مضر اثرات مرتب کرتا ہے۔اس کے بجائے قدرتی خوشبوںکا استعمال مفید ثابت ہوتا ہے۔
بستر
جہاں آپ سوتے ہیں یا آرام کرتے ہیں اس جگہ کو صاف رکھنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔ یوں تو لوگوں کے لئے بستر آرام اور سکون حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے لیکن یہی گوشۂ سکون آپ کے لئے گوشۂ بے سکونی بھی بن سکتا ہے۔
اگر بیڈ شیٹ اور تکئے صاف نہ ہوں اور انھیں تواتر سے دھویا نہ جائے تو وہ جراثیم کی آمجگاہ بن جاتے ہیں۔بیڈ شیٹ اور تکئے پر دھول مٹی کے ساتھ جب مردہ جلدکے خلیات، پسینہ اور بیکٹریا مل کر جراثیم پیدا کرتے ہیں جو انسان کو مختلف جسمانی اورجلدی امراض کا شکار بنا دیتی ہیں۔ بہترین بچاؤ کی تدبیر یہ ہے کہ اپنے بستر کی چادروںکو کم ازکم ہفتے میں ایک مرتبہ دھوئیں۔
ائیر فونز
بہت سے لوگ پسند کرتے ہیںکہ وہ تاروں کے جھنجھٹ میں پڑے بنا کان میں لگانے والے ہیڈ فون استعمال کرتے ہیں۔لیکن وہ اس امر سے قطعی لاتعلق ہوتے ہیں کہ اس ائیر بڈز میں بیکٹریا کے جنم لینے کے وسیع امکانات موجود ہوتے ہیں اور اس کی بد ترین نتائج میں قوت سماعت کا چھن جانا بھی شامل ہے۔
بیکٹریا اندھیری اور نم جگہوں کو بے حد پسند کرتے ہیں اسی جگہوں میں کان ، ناک اور منہ شامل ہیں۔خاص طور پر گرمی کے موسم میں یہ زیادہ اثر انداز ہوتے ہیںکیونکہ ایسے میں جسم میں نمی اور پسینہ بڑھ جاتا ہے۔ اور جراثیم بڑھتے ہیں۔
سگریٹ
یہ بات تعجب انگیز ہے کہ لوگ سگریٹ کے نقصانات کو جانتے ہوئے بھی سگریٹ کے استعمال سے باز نہیں آتے۔لیکن ماہرین کے مطابق اس کا دھواں سگریٹ سے زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے اور اس میں کینسر کا سبب بنتے والے کیمیائی مادے موجود ہوتے ہیں۔جو لوگ گھر میں سگریٹ نوشی کرتے ہیںوہ اپنے پیاروں کی زندگیوںکو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سگریٹ کا دھواں اس کو پینے والے سے زیادہ دوسروں کو متاثر کرتا ہے کیونکہ سگریٹ سے دھواں کم از کم ایک فلٹر سے ہو کر اندر جاتا ہے ۔ اس کے بچوں کی صحت پہ کثیر مدتی اور قلیل مدتی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔جن میں دمہ، کالی کھانسی ، پھیپھروں کے انفیکشن اور نظام تنفس کی بیماریاں شامل ہیں۔
ٹوائلٹ پیپر
باتھ روم ہر گھر کا حصہ ہوتے ہیں مگر یہ بیکٹریا کا گڑھ ہوتا ہے۔ نمی کی وجہ سے جراثیموں کو افزائش کے وسیع مواقع ملتے ہیں۔
یہاں تک کے ٹوائلٹ پیپر میں بھی بیکٹریاموجود ہوتا ہے۔ اس کے اجزاء میں تمام ایسے کیمیکل موجود ہوتے ہیں جو چبھن اورجلن پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس میں کچھ خطرناک کیمیائی مرکبات موجود ہوتے ہیں جو جسم پر خارش اور چبھن کا باعث بن سکتے ہیں۔
چھری
چھری ایک ناگزیر کچن آئٹم ہے۔ چھری کو دھونا اور اس کو سوکھا کر رکھنا ضروری ہے کیونکہ اس کو خشک نہ کیا جائے تو اس میں سے جو قطرے نکلیں گے وہ باکس میں جا کر بیکٹریا کے جنم لینے کے لئے سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔
گو کہ یہ بیکٹریا بہت زیادہ نقصان دہ نہیں ہوتا پراس کے نقصانات ہو سکتے ہیں۔اپنے چھریاں رکھنے والے باکس کو اچھے سے صاف کرنے کو اپنی عادت بنا لیں۔ کم از کم مہینے میں ایک مرتبہ ایسا کریں۔چھری کے سٹینڈکو گرم پانی اور صابن کی مدد سے صاف کریں اور اندر سے صاف کرنے کے لئے سٹرا کی مدد سے میل نکالیں۔
فریج
یوں تو ہم اپنی خوراک کو ریفریجریٹر میں رکھتے ہیں تاکہ یہ خراب ہونے سے بچ جائے لیکن ماہرین کے مطابق فریج میں خوراک رکھنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس میں بیکٹریا اور جراثیم کی افزائش نہیں ہو سکتی۔ ہم اکثر بچی ہوئی چیزوںکو خراب ہوتا دیکھتے ہیںاور ایسا عموماً تب ہوتا ہے جب ہم لمبے عرصے تک فریج میں چیز رکھ کر بھول جاتے ہیں۔
اس چیز کو دھیان میں رکھنا چاہئے کہ فریج کی ٹھنڈک چیز کے خراب ہونے کے عمل کو آہستہ کر دیتی ہے۔اور اگر فریج کی اچھے سے صفائی نہ کی جائے تو اس میں بیکٹریا پھیلنا شروع ہوجاتے ہیں۔فریج میں چیزوںکو ترتیب سے رکھنا اس ضمن میں مفید ثابت ہوسکتا ہے۔فریج کے دروازے میں مصالہ جات اور ایسی اشیاء جو کم درجہ حرارت میں بھی ٹھیک رہ سکتی ہیں انھیں رکھنا چاہیئے۔اس کے علاوہ انڈے رکھنے چاہیئے۔فریج کو ایک ماہ میں ایک سے دو مرتبہ ضرور تفصل میں صاف کرنا چاہیئے۔
پودے
پودے ماحول دوست ہوتے ہیں یہ کاربن ڈائی اکسائیڈ کو اپنے اندر جذب کرتے ہیں اور آکسیجن خارج کرتے ہیں۔ یہ گھر میں تازہ اور صاف اکسیجن کا منبہ ہوتے ہیں۔لیکن ایسے افراد جن کو مخصوص پودوں سے پولن الرجی ہو ان کے لئے یہ تکلیف کا باعث بن جاتے ہیں۔چھینکیں، زکام ، آنکھوں میں پانی آنا اور سوجن الرجی کی علامات ہوتی ہیں۔
گھر کے اندر رکھنے والے پودوں کا انتخاب کرتے ہوئے ان کے پھولوں سے زیادہ ان کے پتوں کو ملخوظ خاطر رکھا جائے تو نتائج بہتر ہو سکتے ہیں۔
پھولوں والے پودوں کے ریشے یعنی پولن زیادہ ہوتے ہیں جب سے حساس افراد میں الرجی کے امکانات موجود رہتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ پودو ں میں پانی کا تناسب برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔اگر پانی پودے کی ضرورت سے زیادہ ہو تو وہ مٹی میں پھپھوندی کو جنم دے گا ۔
قالین
قالین مختلف اور اچھوتے نقش ونگار کے ساتھ آنکھوں کو تو بھاتے ہیں مگر ان کے نقصانات بے پناہ ہیں۔یہ صرف مٹی ، ذرات ، بال اور دھاگوں کو ہی نہیں بلکہ جراثیموں کو بھی اپنے اندر سموئے ہوتے ہیں۔یہ گھر لانے سے پہلے سے ہی جراثیموںکا مراقع ہوتے ہیں۔
جہاں قالینوں کو رکھنے سے فرش محفوظ رہتا ہے وہاں اگر قالین کے مٹیریل کا استعمال سمجھداری سے کیا جائے تو بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
ایسے مٹیریل سے بنا قالین جو صحت کے لئے خطرناک نہیں ہو سکتا اس میں اون اور سمندری گھاس سے بنے قالین شامل ہیں۔قالین کو بچھاتے ہوئے اگر ساری جگہ کا انتخاب کیا جائے تو اس سے ان کو چپکانے والے مادوں کے خطرناک اثرات سے بھی بچا جا سکتا ہے۔
پلاسٹک
پلاسٹک کی مصنوعات سستی اور دیرپا ہونے کی وجہ سے لوگوں میں خاصی مقبول ہوتی ہیں۔ گھر میں استعمال کے برتن سے لے کر بازاری مصنوعات کے ڈبے اور پیکنگ پلاسٹک پہ انحصار کرتی ہے۔لیکن شاید کم ہی لوگ اس حقیقت سے واقف ہوں کے بہت کم ایسے پلاسٹک کی اشیاء ہوتی ہیں جو بی پی اے سے پاک ہوں۔یوں تو سائنسدان کئی دہائیوں سے پکاسٹک کے انسانی صحت پہ مضراثرات پہ تحقیق کرنے میں مشغول ہیں۔
جیسے جب پلاسٹک کے برتنوںکو گرم کیا جاتا ہے تو اس کے اندر پائے جانے والا بی پی ایچ اور دوسرے مضر صحت مادہ بھی خوراک میں شامل ہوجاتے ہیں۔اس کے علاوہ سیلیکون کا بھی شامل ہونا ایک خطرناک بات ہے۔
انسان کے علاوہ جانداروں کی 180انواع میں بھی اس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔ جو کہ سانس کی بیماریوں اور کینسر کا سبب بنے والے عوامل میں سے ایک ہے۔امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ وہاں کی آبادی کا بڑا حصہ پلاسٹک کے استعمال کے منفی اثرات کا شکار ہے۔
جب لوگوں شامل تحقیق کیا گیا تو ان کے پیشاب کے سیمپلز میں بی پی ایچ موجود تھا جو کے پلاسٹک کے استعمال کا شاخسانہ تھا۔ جس سے ناصرف ان کے ہارمونز متاثر ہوتے ہیں بلکہ تولیدی صحت پہ بھی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں پلاسٹک کے ڈبوں کا استعمال کافی عام ہے اور وہ دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں کے لوگوں بار بار استعمال کے چکر میں انھیں لے لیتے ہیں۔
جن ڈبوں یا اشیاء کے پیچھے #2،#4یا #5لکھا ہوتا ہے ان کو استعمال کرنا قدرے محفوظ ہوتا ہے لیکن ان کے مقابلے میں جن پہ #7 لکھا ہو ان کو کھانے پینے کی اشیاء کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔
ماہرین کے مطابق پلاسٹک کے برتن اور ڈبوں کے بجائے قدرتی دھاتوں سے بنے برتن استعمال کرنے چاہیئے۔سٹیل ، شیشے ، مٹی اور لکڑی کے برتنوں کا استعمال خاصا محفوظ ہے۔
The post کہیں آپ اپنے گھر میں پنپتی بیماری سے بے خبر تو نہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.