میرا نام حسن امام صدیقی ہے۔ میں مشرقی پاکستان کے شہر ’’ایشرڈی‘‘ جوکہ ضلع پبنہ (Pabna) میں واقع ہے اپنے والدین کے ساتھ رہائش پذیر تھا۔ میں 1971 میں جناح کالج میں بی۔ کام فائنل ایئر کا طالب علم تھا۔
میں نے 1970 میں جناح کالج میں کالج یونین کے انتخاب میں حصہ لیا۔ اس کے علاوہ مشرقی پاکستان کے شہر کُھلنا (Khulna) سے شایع ہونے والا ہفت روزہ ’’قوم‘‘، ڈھاکا سے شایع ہونے والا ہفت روزہ ’’انصاف‘‘ اور ہفت روزہ ’’بصارت‘‘ سے منسلک رہا۔ اپنے شہر میں نامہ نگار تھا۔ ’’ایشرڈی‘‘ سے شایع ہونے والا ماہنامہ ’’شاہکار‘‘ کا نائب مدیر تھا۔ مشہور ادبی انجمن ’’تحریک ادب‘‘ کا سیکریٹری جنرل تھا۔
1971 میں مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہونا شروع ہوگئے، شیخ مجیب الرحمن کی جماعت ’’عوامی لیگ‘‘ نے محب وطن پاکستانیوں، پاکستانی افواج اور پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا تھا۔ میرے علاقے ’’ایشرڈی‘‘ میں بھی کشیدہ صورت حال تھی۔
میرے والد محمد اسلام صدیقی مشرقی پاکستان ریلوے میں لوکوفورمین / لوکو انسپکٹر تھے۔ 22 مارچ 1971 کی صبح وہ شہر ’’سانتاہار‘‘ جانے کے لیے ’’ایشرڈی‘‘ سے صبح کی ٹرین سے روانہ ہوگئے، شہر ’’سانتاہار‘‘ میں لوکو شیڈ میں انھیں انسپکشن کرنا تھا۔ انھوں نے کہا کہ میں صبح جا کر شام کو واپس آجاؤں گا۔ ہم نے ان کو مشورہ دیا کہ ’’سانتاہار‘‘ نہیں جائیں کیوں کہ ایسا لگتا ہے کہ 23 مارچ 1971 کو ’’یوم پاکستان‘‘ کے موقع پر کوئی گڑبڑ ہوسکتی ہے۔
23 مارچ کے بعد جائیں۔ میرے والد محمد اسلام صدیقی نے کہا کہ میرے فرض کی ادائی میں رکاوٹ نہ ڈالو۔ میرا وہاں جانا بہت ضروری ہے کیوں کہ اطلاعات کے مطابق ریلوے لوکو شیڈ ’’سانتاہار‘‘ سے بڑی تعداد میں ’’کوئلہ‘‘ چوری ہوا ہے۔ یہ یاد رہے کہ وہاں مشرقی پاکستان ریلوے میں کوئلہ سے چلنے والے انجن بھی تھے۔
ہم گھر والوں کے لاکھ جتن کے باوجود وہ اپنے فرض کی ادائی کے لیے ’’سانتاہار‘‘ روانہ ہوگئے۔ اسی شام یعنی 22 مارچ 1971 کو ’’قیامت‘‘ برپا ہونا شروع ہوگئی۔ پورے مشرقی پاکستان میں ریلوے لائنوں کو اکھاڑنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ سفر کے لیے ’’ریل گاڑی‘‘ کا رابطہ منقطع ہوگیا۔ سڑکوں کو درخت کاٹ کر اور ناکارہ گاڑیوں اور دیگر چیزوں کے ذریعے بند کردیا گیا۔
ریل اور روڈ کے ذریعے ایک شہر ایک علاقے کا دوسرے شہر اور علاقوں کا رابطہ ختم ہو گیا تھا۔ ریل گاڑیوں اور مسافر بسوں پر حملہ کرکے انھیں جلانا اور مسافروں کو ہلاک کرنا شروع کردیا گیا تھا۔ محب وطن پاکستانیوں کی بستیوں/کالونیوں پر حملے شروع ہوگئے تھے۔ پورے مشرقی پاکستان میں محب وطن پاکستانیوں غیر بنگالیوں کا قتل عام شروع ہو گیا تھا۔
ان کا قصور یہ تھا کہ وہ پاکستان کے وفادار اور پاکستانی افواج کی حمایت کر رہے تھے۔ ’’عوامی لیگ‘‘ نے کرفیو نافذ کردیا، جس کی وجہ سے ہم بھی اپنے شہر میں ’’قیدوبند‘‘ ہوگئے تھے۔ عوامی لیگ نے اعلان کیا کہ 23 مارچ 1971 کو یوم پاکستان کے موقع پر سیاہ پرچم لہرایا جائے۔ علاقائی عوامی لیگ کے عہدے داروں نے اعلان کیا کہ سیاہ پرچم کے ساتھ بنگلادیش کا پرچم بھی لہرایا جائے۔
ہم نے بھی اپنے گھروں پر سیاہ اور بنگلادیش کا پرچم لہرایا، ہر قسم کا رابطہ منقطع ہونے کے سبب والد صاحب محمد اسلام صدیقی واپس شہر ’’ایشرڈی‘‘ نہ آ سکے۔
پورے علاقے میں خوف و ہراس کا ماحول تھا۔ دوسرے شہروں سے کوئی خبر موصول نہیں ہو رہی تھی۔ ’’ایشرڈی‘‘ کی ساری آبادی اللہ کے حضور میں ہر نماز میں اپنی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھی۔ ہم گھر والے اور دیگر رشتے دار والد صاحب کی خبر نہ معلوم ہونے کی بنا پر بہت پریشان تھے۔ اللہ سے مدد و سلامتی کی دعائیں کر رہے تھے۔
یکم یا 2 اپریل 1971 کو لکھا ہوا والد صاحب کا دستی خط ایک بنگالی نے، جو سانتاہار ریلوے میں ملازم تھا پیدل سفر کرکے ایشرڈی آیا اور ہمارے حوالے کیا، جس میں والد صاحب نے تحریر کیا تھا ’’میرے بچوں اور حاجرہ (والدہ) میری غلطیوں کو معاف کر دینا۔
یہاں قیامت برپا ہو چکی ہے امید نہیں ہے کہ تم لوگوں سے دوبارہ ملاقات ہوگی۔ ’رنگزروم‘ میں کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔ کالونی میں بھی سارے لوگ شہید کر دیے گئے۔ عوامی لیگ کے ورکرز نے نوجوان لڑکیوں کو اغوا کرلیا ہے، باقی سب کو ختم کردیا۔ گھروں کو لوٹ کر آگے لگا دی گئی ہے۔ میں ابھی تک زندہ ہوں۔ EPR نے بہت زیادہ قتل عام کیا ہے۔
حسن امام! تم اپنی ماں، بھائی اور بہنوں کا بہت خیال رکھنا۔ اگر تمہیں اس طرح کے حالات کا سامنا ہو تو سب سے پہلے اپنی بہنوں کو اغوا ہونے سے بچانے کے لیے خود شہید کر دینا۔ تم لوگ بہت یاد آتے ہو۔ نماز پابندی سے ادا کرنا۔ ہمارے لیے اپنے ملک کے لیے دعائیں کرنا۔ معلوم نہیں یہ لوگ مجھے چھوڑیں گے یا نہیں۔ ولی اللہ ڈرائیور کے گھر چلے جانا، فاروق صاحب اور جمشید صاحب اپنے پورے خاندان اور ڈھاکا سے آئے ہوئے بیٹی داماد بچوں کے ساتھ شہید کر دیے گئے۔
ان کے رونے کی آوازیں میرے برابر والے کمرے سے آ رہی تھیں۔ میں اس جگہ پر واحد زندہ بچا ہوں۔ ’’مکتی باہنی‘‘ کے کمانڈر کے سسر میرے پاس ملازم ہیں انھوں نے آج مجھے یہاں سے نکال کر بہت دور دیہات میں بانس سے بنی ہوئی جھونپڑی میں رکھا ہے جو آدمی خط لے کر جا رہا تھا اسے 200 روپے دے دینا۔ یہ بنگالی شریف ہے اور ریلوے کا ملازم ہے۔
یہ پیدل یہاں سے جائے گا۔ اب میں کچھ نہیں لکھ سکتا ہوں۔ ہر طرف موت نظر آ رہی ہے۔ میرے بچو! مل کر رہنا۔ اللہ حافظ! تمہارا والد محمد اسلام صدیقی۔‘‘
خط پڑھتے ہی ہماری حالت غیر ہوگئی یقین نہیں آ رہا تھا کہ اتنا ظلم اور بربریت ہوگی۔ سب سے زیادہ والدہ صاحبہ کی طبیعت خراب ہوگئی، ہم سب گھر والوں نے اللہ کے حضور معافی مانگی اور رو رو کر سلامتی کی دعائیں مانگیں۔ یہاں ’’ایشرڈی‘‘ میں بھی سخت تناؤ کا شکار تھے، عوامی لیگ کے کرفیو کی وجہ سے ہم اپنے علاقوں سے نکل نہیں سکتے تھے۔
’’ایشرڈی‘‘ کے دوسرے علاقوں سے لوگ اپنے گھروں کو تالا لگا کر لوکو کالونی، اسپتال کے ایریا اور ناظم الدین ہائی اسکول کے ساتھ کے علاقوں، نیو کالونی کے علاقوں میں منتقل ہوگئے تھے یعنی پوری آبادی ایک طرف کو آگئی تھی، اس طرح دفاعی نقطہ نگاہ سے یہ ضروری تھا۔ چوںکہ غذا کی شدید قلت ہوگئی تھی اس لیے ہم لوگ صرف دو وقت کا کھانا کھاتے تھے۔
یعنی صبح کا ناشتہ اور رات کا کھانا پانی اور بجلی کاٹ دی گئی تھی۔ پانی کے لیے بورنگ کرکے ہینڈ پمپ کا استعمال اور لکڑی اور کوئلے سے آگ اور روشنی کا انتظام کیا گیا تھا۔ اللہ کی پناہ ہم سخت مشکلات اور پریشانیوں سے گزر رہے تھے۔
اس دوران اطلاع ملی کہ ’’ارن کھولا روڈ‘‘ (Arankhola) پر چاول کے تاجر کو ہلاک کردیا گیا۔ ریلوے ہیڈ کوارٹر شہر ’’پاکسی‘‘ شہر ’’ایشرڈی‘‘ سے تقریباً تین کلو میٹر دور تھا، وہاں سے کسی طرح جان بچا کر پہنچنے والوں نے بتایا کہ ’’پاکسی‘‘ میں بڑے پیمانے پر بہیمانہ انداز میں قتل عام ہوا ہے۔
’’ہارڈنگ بریج‘‘ پر دریائے ’’پدما‘‘ کے کنارے امن کمیٹی “Peace Committee” کے نام پر بلائے گئے اجلاس میں نہتے بہاریوں اور پنجابیوں/پٹھانوں کو شہید کردیا گیا، ان کی لاشوں کو دریائے ’’پدما‘‘ میں پھینک دیا گیا۔ ’’پاکسی‘‘ میں ہائی اسکول کی بلڈنگ میں بھی بڑی تعداد میں لوگوں کو جمع کرکے زندہ جلا دیا گیا۔ ’’ایشرڈی‘‘ میں مجبوری کی حالت میں بوڑھے مرد اور عورتوں کو بازار جانے کے دوران گرفتار کرکے مار ڈالا گیا۔ چاروں طرف سے لرزہ خیز خبریں مل رہی تھیں۔
29/28 مارچ 1971 کو عوامی لیگ نے ’’ایشرڈی‘‘ میں امن و امان قائم کرنے کے لیے امن کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا اور بس/رکشہ اسٹینڈ پر شام کے پانچ بجے بہاریوں، بنگالیوں کے نوجوانوں اور بزرگوں کا ایک اجلاس طلب کرلیا، اجلاس میں بہاری نوجوانوں نے کہا کہ ہم شریک نہیں ہوں گے، صرف ہمارے بزرگ شریک ہوں گے۔
اجلاس میں اشتعال انگیزی ہوئی عوامی لیگ کا اصرار تھا کہ نوجوانوں کو بھی طلب کیا جائے لیکن کوئی نوجوان اپنے علاقوں سے نکلنے کو تیار نہیں تھا کہ ہم اپنی حفاظت خود کریں گے۔ عوامی لیگ نے فیصلہ سنایا کہ تمام لوگ اپنے ہر قسم کے ہتھیار جمع کرا دیں تاکہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے کوئی اندیشہ باقی نہ رہے اور بھائی چارے کی فضا برقرار رہے۔ ہمارے بزرگوں نے بھی کہا کہ سب مل جل کر رہیں گے۔
اس لیے ہتھیار جمع کرا دیے جائیں، لیکن بہاری نوجوانوں اور پٹھان جو لنڈے کا کام کرتے تھے کسی نے بھی ہتھیار جمع نہیں کرائے اس طرح امن کمیٹی کا اجلاس بغیر کسی نتیجے پر ختم ہو گیا۔ ہتھیار جمع نہ کرنے کا فیصلہ بعد میں صحیح ثابت ہوا۔ جن جن شہروں میں بہاریوں اور بنگالیوں نے ’’امن کمیٹی‘‘ کے کہنے پر ہتھیار جمع کرائے وہاں قتل عام ہوا۔ مکتی باہنی عوامی لیگ کے کارکنوں نے بغیر کسی رکاوٹ/مقابلے کے بربریت کا بازار گرم کیا۔
اب صورت حال بے قابو ہوتی جا رہی تھی۔ ہم سب ہی خوف زدہ تھے بلکہ دہشت زدہ تھے کیوں کہ پولیس اور رضاکار مسلح ہو کر آتے جاتے اسلحہ دکھاتے، قتل کی دھمکیاں دیتے، لیکن آبادی کے اندر داخل ہونے کی جرأت نہ کر سکے۔ ہم سب ’’ایشرڈی‘‘ کے سرحدی علاقوں میں رات کو بم کا دھماکا کرتے، کبھی کبھی ہوائی فائرنگ بھی کردیتے، جس سے سب کو معلوم ہوجاتا کہ بہاریوں کے پاس بڑی تعداد میں اسلحہ ہے۔
ایشرڈی ایئرپورٹ کی حفاظت پر ایسٹ پاکستان رائلفلز (EPR) کی ایک نفری مامور تھی جس میں پنجابی، بہاری اور بنگالی شامل تھے۔ اس دوران شرپسندوں نے ایئرپورٹ کو چاروں طرف سے گھیر لیا، فائرنگ شروع کردی اورآگے بڑھنے لگے۔
ایسٹ پاکستان رائفلز والوں نے بھی دفاع میں گولیاں چلانا شروع کردیں۔ 28 مارچ 1971 کی صبح بنگالی سپاہی راشن لانے کے بہانے بھاگ گئے۔ اب ایئرپورٹ کی حفاظت کی ذمے داری بہاری اور پنجابی سپاہیوں پر تھی۔ خندقیں کھود لی گئیں، کئی دنوں تک مقابلہ ہوتا رہا۔ شرپسند ایئرپورٹ پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے۔
شرپسندوں نے علاقہ مسجد کے پیش امام کو قرآن لے کر بھیجا کہ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کو کچھ نہیں کہیں گے۔ ہتھیار رکھ دیں۔ وہ بے چارے ان کے دھوکے میں آگئے۔ باہر نکلے اور انھوں نے اسلحہ رکھ دیا۔ اس کے بعد شرپسندوں نے انھیں اسی جگہ پر نے گولی مار کر شہید کردیا۔ گردن اور پیر میں رسی باندھ کر پورے شہر میں مردہ جسم کی نمائش کی گئی تھی۔ راستے میں شرپسند ان کے جسم کا گوشت کاٹ کاٹ کر کتوں کو کھلاتے رہے۔
عجیب حیوانیت تھی۔ ہمیں بھی خبر ہوگئی تھی لیکن ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے۔ ہم اپنے علاقوں سے باہر نہیں جاسکتے تھے۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ ان شہید سپاہیوں کو لے کر ایک بڑا جلوس ہمارے علاقے میں آ رہا ہے۔ یہاں کہرام مچ گیا، سب لوگ تیار تھے۔
ناظم الدین ہائی اسکول کے آگے درخت کاٹ کر پہلے ہی راستہ بند کردیا گیا تھا۔ اردگرد کے درختوں اور مکانوں کی چھت پر مورچہ بند ہوگئے۔ جلوس نے اسکول سے پہلے ہی راستہ بدل لیا اور ’’آرن کھولا روڈ‘‘ کی طرف مڑ گیا۔ اللہ کی مدد سے یہ مصیبت ٹلی۔ ہمارے علاقے میں 24 گھنٹے پہرے داری کا نظام پہلے سے ہی نافذ تھا۔ خاص کر رات کو ہر گلی میں لڑکے موجود ہوتے۔
یکم اپریل 1971 کو چھاتھرو لیگ کے کارکن جن کی تعداد 10 افراد پر مشتمل تھی ہمارے علاقے میں آئے اور کہا کہ پنجابیوں کو آپ نے اپنے گھروں میں چھپا رکھا ہے، ہم نے کہا کہ یہاں ایک شخص بھی نہیں ہے۔ سب بڑے شہروں میں چلے گئے۔
انھوں نے کہا کہ ہم تلاشی لیں گے۔ دراصل وہ پٹھان تھے جو ہمارے گھروں میں موجود تھے چند ایک پنجابی بھی تھے۔ ہم نے ان پنجابی اور پٹھانوں کو کمرے کے اندر ان کی مونچھیں صاف کرکے عورتوں کے درمیان بٹھا دیا تھا اور ان کے چاروں طرف عورتیں کھڑی ہوگئیں۔ جب تلاشی لینے آئے تو ہم نے سب کو کمروں کی تلاشی دینے کے بعد ان سے کہا کہ صرف اس ایک کمرے میں ہماری عورتیں ہیں جو کہ پردہ کرتی ہیں۔
پھر بھی ہم نے انھیں دروازہ کھول کر دکھا دیا۔ عورتیں سب کھڑی تھیں ان کے درمیان میں چٹائی پر پنجابی، پٹھان بیٹھے رہے۔ اس طرح انھوں نے 10/12 گھروں کی تلاشی لی، اللہ کے فضل سے ہم نے سب کو بچا لیا اور کوئی حادثہ رونما نہیں ہوا۔ پٹھانوں کی کل تعداد تقریباً 15 تھی اور پنجابی3 تھے، انھیں ہم نے 15/20 گھروں میں تقسیم کرکے چھپا دیا تھا۔ جہاں یہ چھپے رہے۔
میرے گھر پر شرپسندوں کا ایک نمائندہ آیا اور میری والدہ سے میرے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ میں نے پہلے ہی خطرے کو بھانپ لیا تھا اس لیے گھر کے بجائے لوکو کالونی میں روپوش ہو گیا تھا۔ ’’اسٹوڈنٹ لیگ‘‘ کے کارکن نے کہا کہ ہم حسن امام صدیقی کے کالج کے ساتھی ہیں ان سے بات کرنا ضروری ہے۔ والدہ نے کہا مجھے معلوم نہیں ہے کہ وہ کہاں ہے۔
دوسرے دن میرے اور حدیث کریمی کے خلاف جلوس میں نعرہ لگایا کہ حسن امام صدیقی اور حدیث کریمی کا سر چاہیے کیوں کہ ہم لوگوں نے ’’چھاترو لیگ‘‘ کے خلاف کالج میں الیکشن لڑا تھا۔ اب ہمارا روز کا معمول تھا کہ رات کو ہم قبرستان میں قبر کے اندر ہڈیوں کو سمیٹ کر سو جاتے۔ نیند کہاں آتی بلکہ اندر چھپ جاتے۔ قبرستان کے اردگرد بھی بہاریوں کی سخت سیکیوریٹی تھی۔
ہمارے علاقے میں بغیر اسلحہ ایک دو عوامی لیگ، اسٹوڈنٹ لیگ اراکین کو آنے کی اجازت تھی لیکن گروپ یا بڑے جلوس آنے کی ممانعت تھی، شرپسندوں نے بینک اور دکانوں کو لوٹنا شروع کردیا تھا۔
ممتاز تاجر اور سماجی شخصیت نظام خان، سلطان خان، شمیم خان، طالب علم راہ نما شمیم وقار، رحمت اللہ کاظمی، حسن امام صدیقی، سید اشتیاق حسین اعظمی، شیخ بدرالدین احمد (ایڈیٹر ماہنامہ شاہکار)، ایم اے قاسم، بی اے، سید محبوب احمد، (صدر انجمن مہاجرین مشرقی پاکستان، ’’ایشرڈی شاخ‘‘) ممتاز شاعر اور کئی ادبی انجمنوں کے سرپرست/صدر، ہر دل عزیز شخصیت صابر علی صابر، نجابت علی، سید ذکی احمد حیدر، ابو نصر خان سحر، سمیع اللہ بسمل، پروفیسر طلحہٰ انصاری، پروفیسر قدیر اختر ندوی، ذاکر حسین برق، رفیع احمد قریشی، مقبول احمد مقبول، نثار خان، محمد حسین خان، موسیٰ انصاری، شیر علی خان، نصیرالدین شاہد، خدومان (خدابخش خان) بنگالی، (جماعت اسلامی)، فضل الرحمن، بنگالی (ملا) عبدالمتین، بنگالی (بھاشانی گروپ) اور دیگر حالات کو کنٹرول کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔
ان لوگوں کے عوامی لیگ کے عہدے داروں سے اچھے تعلقات تھے، کیوں کہ تاجر برادری نے انھیں چندہ وغیرہ بڑے پیمانے پر دیا تھا۔ اللہ اللہ کرکے 15 اپریل 1971 کو پاکستان آرمی 26/25 مارچ 1971 کو ڈھاکا سے امن و امان بحال کرنے کے لیے قدم قدم پر شہادت کا نذرانہ دیتے ہوئے پہنچی۔ جنگ کے میدان (چاول کے کھیت) میں ’’ایشرڈی‘‘ میں مرد اور عورتوں نے انھیں کھانا/پانی فراہم کیا۔
ہمارے فوجی جوانوں نے کہا کہ راستے میں پانی اور کیلا و دیگر کھانے کی چیزوں میں زہر ملا دیا گیا تھا جس کی وجہ سے کئی فوجیوں کی شہادت ہوگئی۔ پاکستانی فوج نے پورے علاقے کو تحفظ فراہم کیا اور فوراً ایئرپورٹ پر قبضہ کرکے فضائی آمدورفت کو بحال کیا۔ ہم نے انھیں ’’پاکسی‘‘ میں بڑی ہلاکت کے متعلق آگاہ کیا۔ ان میں سے ایک نفری ’’پاکسی‘‘ روانہ ہوگئی۔
’’ایشرڈی‘‘ میں حالات معمول پر آنے لگے۔ پاکستانی فوج نے بہاریوں کے نوجوان لڑکوں کو ایسٹ پاکستان سول آرمڈ فورس (EPCAF) میں بھرتی کرنا شروع کردیا۔ ہفتہ/پندرہ دنوں کی فوجی تربیت کے بعد انھیں اپنے ساتھ دیگر اہم تنصیبات کی حفاظت کے لیے تعینات کردیا۔ بعض نوجوانوں کو سرحدی چوکیوں ہندوستانی سرحد پر بھیج دیا گیا۔
گو کہ ’’ایشرڈی‘‘ میں بڑی قتل و غارت گری نہیں ہوئی تھی۔ پھر بھی فضا سوگوار تھی۔ عوام غم زدہ اور خوف زدہ تھی کیوں کہ قرب و جوار کے علاقوں سے بڑی تعداد میں شہیدوں کے بچے اور بیوائیں آ رہی تھیں۔ ’’مکتی باہنی‘‘ نے ان کے خاندان کے سارے افراد کو شہید کردیا تھا۔ زخمیوں کی بھی بڑی تعداد تھی۔ ان کے لیے امدادی کیمپ کیے گئے۔ اسکولوں کو خالی کروا کر عارضی پناہ گاہیں مہیا کی گئیں۔
میڈیکل کیمپ بھی بنائے گئے۔ زخمیوں کا برا حال تھا۔ پاکستان آرمی کے تعاون سے مدد فراہم کی جا رہی تھی۔
22 اپریل 1971 کو پاکستانی افواج ’’سانتاہار‘‘ پہنچی۔ 26/26 مارچ 1971 کو ڈھاکا سے روانہ ہونے والی یہ فوج چپے چپے پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے مادر وطن پر قربان ہوتی رہی اور سانتاہار پہنچ کر لاشوں کے انبار کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔ بہاریوں کی لاشیں بے گور و کفن پڑی سڑ رہی تھیں۔ کُتے اور دیگر جانور انہیں کھا رہے تھے۔
ان کی بے حرمتی کر رہے تھے۔ 80 ہزار کی آبادی میں بچنے والے چند سو افراد جس میں زخمی بچے بوڑھے شامل تھے۔ پورے ’’سانتاہار‘‘ شہر میں بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ انسانی جانوں کو جلایا گیا تھا۔ 23 اپریل 1971 کو اسپیشل ریلوے ٹرین کے ذریعے ’’کرب و بلا‘‘ کے ان مسافروں کو ’’سانتاہار‘‘ سے ایشرڈی لایا گیا۔ جب مجھے خبر ملی کہ ’’سانتاہار‘‘ سے ایک اسپیشل ٹرین زخمیوں کو لے کر گیارہ بجے کے قریب آنے والی ہے تو میں مدھم سی آس اور امید لگائے ریلوے اسٹیشن پہنچا۔ ٹرین سے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ کسی کے درد سے کراہنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میرے سامنے قیامت نامہ کا منظر تھا۔
ٹرین رکنے کے بعد میں نے آگے بڑھنا چاہا کہ ان میں شاید میرے والد بھی نظر آجائیں۔ لیکن روح فرسا مناظر دیکھنے کے بعد میرے قدم منجمد ہوگئے۔ میرے سامنے والی کھڑکی میں ایک عورت پانی مانگ رہی تھی اسے جب پانی دیا گیا تو چند قطرے اس کے پیٹ میں جاسکے کیونکہ گردن کٹی ہوئی تھی۔ گردن کے اندر گلے کی سفید چربی باہر لٹک رہی تھی۔ وہ شدید زخمی حالت میں روتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ مجھے پاکستان چاہیے۔ مجھے پاکستان چاہیے۔
اسی طرح کئی شیرخوار بچوں اور بوڑھوں کو دیکھا کہ ان کے بازو کٹے ہوئے تھے کسی کی ٹانگوں سے خون بہہ رہا تھا۔ بعض اندھے ہو چکے تھے ان کی آنکھیں پھوڑ دی گئی تھیں۔ ایک بھی نوجوان لڑکی اور نہ ہی کوئی نوجوان مرد نظر آیا۔ لڑکیوں کو اغوا کرکے بھارت لے جایا گیا اور نوجوانوں کو گولی مار دی گئی تھی۔ یا پھر زندہ جلا دیا گیا تھا۔ میں تلاش کرتے کرتے ریل کے ایک ڈبے کے قریب گیا جہاں ہجوم تھا۔
دیکھا کہ والد صاحب محمد اسلام صدیقی (ایم۔آئی۔صدیقی) ایک بوڑھی عورت کو جس کے پیر کٹے ہوئے تھے سہارا دے کر نیچے اتار رہے تھے۔ میری آنکھوں کو یقین نہیں آیا۔ ان سے نظریں چار ہوئیں تو انھوں نے روتے ہوئے گلے لگایا اور کہا کہ گھر چل کر باتیں کریں گے۔ پاکستانی فوج نے پاکستان کو بچا لیا۔ اب کچھ نہیں ہوگا۔
گھر پہنچنے کے بعد والدہ نے جو ان کی حالت دیکھی تو بے ہوش ہوگئیں۔ سب بھائی بہن فرط جذبات سے بے قابو ہو کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے لگے۔ محلے والے اردگرد کے مکانوں سے نکل کر ہمارے بنگلے پر آگئے۔ مبارک باد دینے لگے۔ والد صاحب نے کہا کہ پاکستانی فوج کو مبارک باد دو، کیوں کہ انھوں نے اپنی جان دے کر اس ملک کو بچایا ہے۔
پورا ہفتہ والد صاحب نے بھرپور نیند لی۔ اس کے بعد ان سے گفتگو ہوئی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میں تو ’’ایشرڈی‘‘ سے صبح آیا اور شام کو میری ’’سانتاہار‘‘ سے واپسی تھی۔ لیکن عوامی لیگ اور نو گاؤں (Naogaon) میں ایسٹ پاکستان رائفلز اور ایسٹ بنگال رجمنٹ (EBR) نے بغاوت کرکے اپنے غیربنگالی ساتھیوں اور افسروں کو شہید کرنے کے بعد سانتاہار کی آبادی کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ آگ لگانا شروع کردیا۔ بہاریوں کو ہلاک کرنا شروع کردیا۔
عورتوں اور لڑکیوں کو برہنہ کرکے جلوس نکالا گیا بعدازآں ان کی آبروریزی کی گئی، نوجوان لڑکیوں کو اغوا کرلیا گیا۔ نوجوانوں اور بڑی عمر کے لوگوں کو ہلاک کردیا گیا۔ ’’حمل زدہ‘‘ خواتین کے پیٹ چاک کرکے بچے کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔
ماؤں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے قتل کیے گئے بچوں کا خون پییں۔ شہر کے اندر آ کر بینک اور دکانوں کو لوٹ کر آگ لگا دی گئی۔ بینک کے چوکی داروں میں پٹھان بھی تھے انھیں بھی بینک کے اندر نذرآتش کردیا گیا۔ والد صاحب نے بتایا کہ ’’رننگ روم‘‘ میں مقیم افراد میں جس میں ریلوے افسران کے بیوی بچے سب شامل تھے۔
انھیں اسی جگہ ہلاک کیا گیا۔ میں تنہا کمرے میں موت کا انتظار کر رہا تھا۔ دن اور رات میں کوئی فرق نہیں تھا۔ جب بھی چاہتے ’’مکتی باہنی‘‘ والے آتے کسی نہ کسی کو لے جا کر ہلاک کر ڈالتے۔ مجھے بھی مارنے کی غرض سے کئی دفعہ لے کر جایا گیا لیکن پھر واپس مجھے اسی کمرے میں لے آتے۔ دراصل ایک مکتی باہنی والے کا سسر میرے پاس ملازم تھا۔
میں نے کبھی بھی کسی ملازم کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ ان کی غلطیوں پر انھیں ڈانٹ اور ڈپٹ سے کام چلاتا تھا۔ جب چاول کی فصل تیار ہوتی تو ریلوے کے بعض ملازم جو کسان بھی تھے بغیر چھٹیوں کے اپنے اپنے علاقوں میں فصل کاٹنے چلے جاتے تھے۔ جب واپس آتے تو میں انھیں ڈانٹتا اور زبانی وارننگ دے کر چھوڑ دیتا اس طرح انھیں پوری تنخواہ مل جاتی تھی۔ دوسرے لوگ ان سے غیرحاضری کے دنوں کے روپے رشوت لیتے تھے۔
اس طرح مکتی باہنی کے علاقائی کمانڈر کے سسر نے یہ بات اپنے داماد کو بتائی اور کہا کہ یہ ہمارے صاحب ’’بابا‘‘ ہیں۔ ان کی حفاظت کرنا ہے۔ یہ لوگ میرے سر پر ’’گمچھہ‘‘ (ایک قسم کی چھوٹی چادر/تولیہ) ڈال کر شہر سے باہر اپنے دیہات میں لے گئے۔ وہاں بانس کی بنی ہوئی ایک جھونپڑی تھی جس کے نزدیک ایک تالاب بھی تھا، وہاں مجھے رکھا۔
انھوں نے کہا کہ دراصل ’’رننگ روم‘‘ پر EBR/EPR کی سرچ ٹیم آنے والی تھی انھیں کسی نے آگاہ کیا تھا کہ یہاں ابھی لوگ زندہ ہیں۔ مجھے چلنے دشواری پیش آ رہی تھی، ہاتھ پیر کانپ رہے تھے اور لوگ سر پہ رکھا کپڑا ہٹا کر مجھے دیکھنے کوشش کرتے اور کہتے کہ بہاری جا رہا ہے۔ پنجابی کا دلال جا رہا ہے۔
راستے میں خون اور بہاریوں کی لاشوں کی بھرمار تھی۔ میں کیا بتاؤں کہ میں نے کیا کیا دیکھا۔ راستے میں کئی جگہ پر مجھے پتھر سے مارنے کی کوششیں ہوئیں جس کی وجہ سے میں زخمی بھی ہوا۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ لوگ مجھے مار دیں گے۔ لیکن اللہ کی ذات سے امید تھی۔ وہی مارنے اور بچانے والا ہے۔ میں نے نماز اور تہجد نہیں چھوڑی۔
20 اپریل 1971 کو مکتی باہنی اور ان کے ساتھیوں نے گاؤں اور علاقوں سے نکلنا شروع کردیا تھا۔ وہ آگے کہیں جا رہے تھے۔ مجھے کہا کہ یہاں بڑی لڑائی ہونے والی ہے۔ اس لیے آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔ والد صاحب نے کہا کہ میں اب ایک قدم بھی نہیں چل سکتا ہوں۔ مجھے مارنا ہے تو اسی جگہ مار دیں۔
اس گاؤں میں قید کے دوران کئی مرتبہ وہ میری تلاش میں اس جگہ پر آئے۔ لیکن جیسے ہی محسوس ہوتا کہ کوئی آ رہا ہے تو میں اس ’’تالاب‘‘ میں چلا جاتا اور غوطہ لگا کر اندر آدھا گھنٹے سے بھی زیادہ وقت تک پانی کے اندر بیٹھا رہتا۔ ’’اس ’’تالاب‘‘ میں پانی کے اوپر ’’جل کمی‘‘ ایک پودا ہوتا ہے جو پانی پر پھیلا ہوتا ہے جس کی وجہ سے باہر سے کوئی پانی کے اندر نہیں دیکھ سکتا۔ جب میں پانی کے اندر ہوتا تھا تو منہ میں سانس کے لیے پپیتے کا ڈنٹھل لے کر بیٹھتا، کیوں کہ اس کی شاخ میں سوراخ ہوتا ہے جیسے کہ پانی کی پائپ لائن میں ہوتا ہے۔ یہ سمجھ لیں کہ منہ میں پانی کا پائپ لے کر بیٹھ جاتا تھا۔
آخر زندگی مل گئی۔ اللہ کے حکم پر 22 اپریل 1971 کو پاکستانی فوج ’’سانتاہار‘‘ شہر میں داخل ہوئی۔ اس کا ایک دستہ ہماری جھونپڑی کے قریب سے گزر رہا تھا، میں نے دیکھا کہ ان کی وردی خاکی ہے اور گاڑی پر پاکستانی پرچم لہرا رہا تھا۔
میں نے انھیں آواز دی اور السلام علیکم کہا۔ وہ فوراً سنگین تانیں میری جانب بڑھے میں نے انھیں کہا کہ میں پاکستانی ہوں بہاری ہوں۔ انھوں نے سلام کا جواب دیا چند فوجی میرے قریب کھڑے رہے باقیوں نے میری جھونپڑی کی تلاشی لینا شروع کردی۔ انھیں مٹی کے برتن ملے کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا۔
اس کے بعد انھوں نے گلے لگایا اور پوچھا شہر سے باہر اتنی دور یہاں کیسے؟ میں نے پوری صورت حال سے انھیں آگاہ کیا۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ میں ریلوے افسر ہوں تو انھوں نے بہت دی اور کھانے کو بسکٹ اور پانی دیا۔ ویسے بھی دو دنوں سے بھوکا تھا کیوں کہ عوام لیگ والے پہلے ہی بھاگ گئے تھے۔ فوجی بھائی مجھے سیدھا ریلوے اسٹیشن لے آئے۔ راستے میں بری حالت میں زخمیوں کو اٹھاتے جاتے۔ جلے ہوئے مکانات، تباہ حال مارکیٹ، چاروں طرف بہاریوں کا خون پھیلا ہوا تھا، سرکٹی لاشیں، بازو کٹا ہوا، جانور نوچ نوچ کر کھا رہے تھے۔
کہیں کہیں سے دبی دبی آوازیں، چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ فوجی بھائی انھیں اٹھا کر لے جا رہے تھے۔ ’’قیامت‘‘ کا منظر تھا۔ ’’ریلوے اسٹیشن‘‘ کیا تھا مقتل تھا۔ یہاں بھی بہاریوں کو ذبح کیا گیا تھا۔ پھانسی گھاٹ تھی۔ لاشیں لٹکی ہوئی، گل سڑ رہی تھیں۔ بچے بوڑھے زخمی عورتیں جن کی تعداد دو سو کے قریب ہوگی۔ جن کی بری حالت تھی۔
ان میں چلنے پھرنے کی سکت نہیں تھی۔ بعض بے ہوش تھے۔ رونے اور فریاد کرنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ انسانی جسم کے مختلف اعضا کٹے، پٹے پڑے تھے۔ مردہ جسم بھی زمین پر پڑے ہوئے تھے۔ زندہ مردہ سب ایک ساتھ ہی پڑے تھے۔ نفسانفسی کا عالم تھا۔ جو ہوش میں تھے پانی مانگ رہے تھے۔ درد کی شدت سے کراہ رہے تھے، کوئی ریلوے لائن پر پڑا تھا، کوئی پلیٹ فارم پر گرا ہوا تھا۔ واش روم بھی مردوں سے اٹا ہوا تھا۔
ریلوے اسٹیشن پر پناہ لینے والوں کو بھی بے دردی سے شہید کردیا گیا تھا۔ والد صاحب بیان کر رہے تھے کہ یہ مناظر دیکھنے کے بعد میرا دماغ ہی کام نہیں کر رہا تھا۔ چکر آنے لگے۔ میں زمین پر بیٹھ گیا اور پھر لیٹ گیا۔ فوجی بھائی ’’فرسٹ ایڈ‘‘ کا سامان لے کر زخمیوں کو طبی امداد فراہم کر رہے تھے۔ مجھے بھی کچھ دوا پلائی غالباً دو یا تین گھنٹے کے بعد میری طبیعت بحال ہوئی، اسی دوران ایک ریل گاڑی آئی اور سارے لوگوں کو اس گاڑی میں سوار کردیا گیا۔
اس طرح اللہ کی رحمت اور کرم کی وجہ سے ’’ایشرڈی‘‘ پہنچ گئے۔ والد صاحب بیان کرتے جاتے اور روتے جاتے، اللہ سے معافیاں مانگتے جاتے، کئی ماہ تک ان کی طبیعت خراب رہی، رات کو متعدد بار خوف کی وجہ سے سوتے سوتے جاگ جاتے تھے، ہمیں آواز دیتے اور کہتے کہ دروازے کھڑکیاں جلدازجلد بند کر دو وہ لوگ مارنے کے لیے آ رہے ہیں۔
والد صاحب محمد اسلام صدیقی کا ڈاکٹروں سے بھی علاج جاری رہا۔ ڈاکٹر نبی الحق اور دیگر ڈاکٹروں سے ہوتا رہا۔ والد صاحب کافی دل برداشتہ ہوگئے تھے۔ انھوں نے کراچی جانے کا فیصلہ کرلیا کیوں کہ واہ کینٹ، اندرون سندھ اور کراچی میں ہمارے کافی رشتے دار رہتے تھے۔ 5 اکتوبر 1971 کو ’’ایشرڈی‘‘ سے ڈھاکا ہوتے ہوئے بہ راستہ کولمبو کراچی آگئے، کیوں کہ ڈھاکہ سے کراچی پروازیں براہ راست بند تھیں۔
The post اور قیامت ٹوٹ پڑی۔۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.