17دسمبر 2022ء کو بھارتی سپریم کورٹ نے گجرات فسادات (2002ء) میں ریپ اور قتل کے مجرمان (انتہا پسند ہندو جن کا تعلق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہے) کی رہائی کے خلاف مسلمان خاتون بلقیس بانو کی اپیل خارج کر دی ۔
ظلم کے اس بدترین واقعہ کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی گئی تھی ۔ ان مجرموں نے 2002ء میں بلقیس بانو کا ریپ کرنے کے ساتھ ہی، اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے خاندان کے 14 افراد کو قتل کر دیا تھا ۔ تب بلقیس بانو کی عمر21 برس تھی ، وہ پانچ ماہ کی حاملہ تھیں۔
جب مجرم بلقیس تک پہنچے تو ان کی گود میں تین برس کی بیٹی تھی جسے مجرموں نے چھینا اور اٹھا کر دور پھینک دیا۔ نتیجتاً بچی کا سر پھٹ گیا اور وہ شہید ہو گئی ۔ مجرموں نے بلقیس بانو کے خاندان کے جن افراد کو قتل کیا ، ان کے سر کاٹ کے پھینک دیے تھے تا کہ ان کی شناخت نہ ہو سکے ۔
ان دنوں نریندر مودی اسی ریاست گجرات کے حکمران تھے ۔ تب متعدد حلقوں نے مودی کو فسادات بھڑکانے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا ۔
اس واقعے پر ملک اور بیرون ملک شدید ردعمل آنے کے بعد سپریم کورٹ نے اس کی تفتیش کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی اور ایک طویل قانونی جنگ کے بعد 11افراد کو مجرم قرار دیا گیا تھا ، انہیں سن 2008ء میں عمر قید کی سزا سنائی تھی ۔ واضح رہے کہ بھارت میں عمر قید کی سزا ، جرم کی نوعیت کے اعتبار سے کم از کم 14برس سے پوری زندگی تک کے لئے ہوتی ہے ۔
تاہم ریاست گجرات کی بی جے پی حکومت نے 14افراد کو قتل کرنے اور بلقیس سمیت خاندان کی خواتین کا گینگ ریپ کرنے والے ان مجرموں کو 15 اگست 2022ء کو یوم آزادی کے موقع پر جیل سے رہا کر دیا ۔ اس اقدام میں بھارتی سپریم کورٹ پوری طرح ملوث تھی کیونکہ اسی نے گجرات کی حکومت کو مجرموں کی رہائی کے لئے غور کرنے کو کہا تھا ۔
اس روز بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی قوم سے خطاب کیا کہ وہ خواتین کی عزت و وقار کا احترام کرنے کا عہد کریں ۔ اور چند گھنٹوں بعد گینگ ریپ اور چودہ افراد کے قاتلوں کو ’’ باعزت ‘‘ انداز میں رہا کیا گیا ۔
مجرموں کی رہائی کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے مختلف گروہوں نے ایک تقریب میں ان مجرموں کا شاندار استقبال کیا ، انہیں پھولوں کے ہار پہنائے ، ان کی آرتی اتاری گئی اور لوگوں میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں ۔ بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی نے کہا :’’ یہ لوگ برہمن ہیں اور برہمن نیک فطرت کے مالک ہوتے ہیں ۔ اسی لئے ان کی رہائی کا فیصلہ کیا گیا ۔‘‘
یاد رہے کہ انڈیا کے داخلی تفتیشی ادارے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) نے ان مجرموںکی رہائی کی مخالفت کی تھی۔ سی بی آئی کے ساتھ ساتھ، پولیس، سول جج اور سیشن کورٹ نے بھی اس رہائی کی مخالفت کی تھی ۔
ایجنسیوں نے کہا کہ یہ افراد ’ گھناؤنے، سنگین اور بدترین‘ جرائم میں ملوث پائے گئے تھے ۔ ایک خصوصی عدالت کے جج نے کہا تھا کہ یہ نفرت پر مبنی جرم کی بدترین شکل ہے۔ اس معاملے میں چھوٹے بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا ۔
بلقیس بانو نے مجرموں کی رہائی کے خلاف سپریم کورٹ میں استدعا کی کہ وہ اپنے مئی ( 2022ء ) کے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے، جس میں اس نے مجرموں کی رہائی کے لیے ریاست گجرات کی حکومت سے غور کرنے کو کہا تھا ۔
اس فیصلے اور مجرموں کی رہائی کے بعد بلقیس بانو نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا : ’’ وہ اس فیصلے سے سکتے میں ہیں ۔ آخر کسی انصاف کا اختتام اس طرح کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے ملک کی اعلیٰ عدالتوں پر بھروسہ کیا ، میں نے سسٹم پر بھروسہ کیا اور دھیرے دھیرے اپنے دکھ کے ساتھ جینا سیکھ رہی تھی لیکن ان مجرموں کی رہائی نے میرا سکون چھین لیا ہے اور انصاف پر سے میرا بھروسہ بھی ڈگمگا گیا ہے ۔‘‘
سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر صرف بلقیس بانو ہی صدمہ کا شکار نہیں ہوئیں بلکہ انسانی ، سماجی اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم متعدد تنظیموں سمیت 6000 سے زائد شہریوں نے ایک مشترکہ بیان میں سپریم کورٹ سے اپیل کی تھی کہ ان مجرموں کو معاف کرنے کے ریاستی حکومت کے فیصلے کو منسوخ کرے ۔
لیکن 17 دسمبر 2022ء کو بلقیس بانو کی اس استدعا کو ’’ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ‘‘ ہونے کے دعویدار ملک کی عدالت عظمیٰ نے اٹھا کر باہر پھینک دیا ۔ بھارتی سپریم کورٹ میں اگر کسی فیصلے کے خلاف اپیل کی جائے تو اس پر فیصلے میں شریک ججز اپنے چیمبر میں بیٹھ کر غور و خوض کرتے ہیں اور پھر فیصلہ سنا دیتے ہیں۔
بلقیس بانو کی اپیل پر غور اور فیصلہ کرنے والے دو ججز تھے: اجے رستوگی اور وکرم ناتھ ۔ ان ججز نے اپنے فیصلے میں اس سوال کا جواب دینا بھی ضروری نہیں سمجھا کہ یہ اپیل کیوں خارج کی گئی ۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ بھارت کی تازہ ترین پالیسی کے مطابق گینگ ریپ اور قتل کے مجرموں کو جلدی رہائی نہیں دی جا سکتی ۔
بھارتی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر بھی کڑی تنقید شروع ہو گئی ہے ۔ دہلی کمیشن فار ویمن کی سربراہ سویتی ملیوال کا کہنا تھا،’’ جب لوگ سپریم کورٹ سے بھی انصاف نہ حاصل کر پائیں تو پھر وہ کہاں جائیں ؟؟؟‘‘ نئی دہلی میں مقیم صحافی روہنی سنگھ کا کہنا ہے ’’ بھارت میں فسادات کی تاریخ کے صفحات کو پلٹنے سے پتہ چلتا ہے کہ بلقیس بانو کا کیس واحد ایسا کیس تھا ، جہاں ملزمان کو قانون کے ذریعے سزا دی گئی تھی ۔
یہ ایک واٹرشیڈ مومنٹ تھی، جب ملک کی تاریخ میں پہلی بار فسادات کے وقت جنسی تشدد کا شکار ہونے والے کو انصاف فراہم کیا گیا تھا اور ملزمان کو عدالت نے مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا سنائی ۔ مگر جب 15 اگست کو گجرات صوبے نے 11 مجرمان کو معافی دے کر رہا کر دیا تو اس سے نہ صرف بلقیس کے زخم پھر سے تازہ ہوئے بلکہ بھارت کی پوری خواتین انصاف کے اس اسقاط کو دیکھتی رہ گئیں ۔‘‘
’’ اس گھناؤنے جرم کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ایک عدالت سے دوسری اور ایک صوبے سے دوسرے صوبے تک، جو برسوں تک لڑائی ہوئی، اسے قلم کے ایک جھٹکے سے صاف کر دیا گیا ۔ اور یہ سب کچھ اس وقت ہوا، جب وزیر اعظم نریندر مودی نے دہلی کے لال قلعہ میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے ’ناری شکتی‘ خواتین کو با اختیار بنانے کی بات کہی ۔‘‘
’’ بھارت کی آزادی ہی تو فرقہ وارانہ فسادات اور خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعات سے شروع ہوئی ۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت مشرقی اور مغربی دونوں محاذوں پر بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے ۔ ان فسادات میں دس لاکھ سے زیادہ افراد کے مارے جانے کی اطلاع ہے‘‘۔
’’ تاریخ کے صفحات لوٹ مار ، آتش زنی اور جنسی حملوں کی داستانوں سے لال پڑے ہیں۔ آزاد بھارت نے تقریباً 60 ہزار فسادات دیکھے ہیں۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2014ء میں نریندر مودی کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد 2020ء تک بھارت کے کئی حصوں میں کل 5714 فسادات رپورٹ کیے گئے ہیں۔ یعنی روز دو فسادات ہوئے‘‘۔
’’ وقتاً فوقتاً متواتر حکومتوں کی طرف سے تشکیل دی گئی کمیٹیوں نے دہلی فسادات کی تحقیقات کی ہیں ۔ تمام کمیٹیوں نے اپنی رپورٹوں میں جنسی زیادتی کا شکار خواتین کی شہادتیں منظر عام پر لائی ہیں ۔ لیکن کبھی کسی پر جنسی زیادتی کا مقدمہ نہیں چلا ‘‘۔
’’ بلقیس بانو کا سفر بھی آسان نہیں رہا ۔ تین مارچ 2002ء کو بلقیس، جو کہ اس وقت 21 سال کی تھیں، پانچ ماہ کی حاملہ تھیں اور اس کی گود میں ایک تین سالہ بیٹی بھی تھی ۔
عصمت دری کرنے والوں نے بچی کو چھین کر ہوا میں اڑایا۔ زمین پر گرنے سے بچی کا سر پھٹ گیا اور وہ دم توڑ گئی ۔ بلقیس اس ماں، بہنوں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ کئی مردوں نے زیادتی کی ۔ جب کہ اس کے خاندان کے 12 افراد کی موت ہو گئی ، وہ اس آزمائش کو بیان کرنے اور انصاف کے حصول کے لیے زندہ بچ گئی‘‘۔
’’ تیستا سیتلواڑ اور سینئر پولیس افسر سنجیو بھٹ جیسے لوگ ہی تھے، جنہوں نے بلقیس کو انصاف دلانے میں مدد کی ۔ لیکن سچ کے لیے کھڑے ہونے کی بھاری قیمت انہوں نے ادا کی اور اب بھی کر رہے ہیں ۔ جنسی زیادتی کرنے والوں کا رہائی کے بعد ایسے استقبال کیا گیا، جیسے وہ کسی جدو جہد آزادی کی وجہ سے جیلوں میں چلے گئے تھے‘‘۔
روہنی سنگھ کا کہنا ہے : ’’جب تک جنسی زیادتی کے متاثرین کو انصاف نہیں ملے گا ، تب تک خواتین فسادیوں کے ہاتھوں شکار ہوتی رہیں گی ۔ جیسا کہ انگلینڈ میں مقیم سکھ صحافی اور مصنف پاؤ سنگھ اپنی کتاب ’1984، انڈیاز گلٹی سیکریٹ‘ میں لکھتے ہیں، ’’ جنسی زیادتی شروع سے ہی تشدد کا مرکزی عنصر تھی ۔
تاہم غیر سرکاری اور سرکاری دونوں کھاتوں میں اس پر توجہ نہیں دی گئی کیوں کہ ہندوستان میں جنسی تشدد سماجی بدنامی سے منسلک ہے ۔ قتل عام کی شدت اور ہولناکی اس قدر تھی کہ انہوں نے جنسی حملوں کو بڑے پیمانے پر ڈھانپ دیا ہے ، جو بذات خود انسانیت کے خلاف ایک بڑے جرم کے مترادف ہے۔‘‘
گجرات فسادات کے متاثرین کی نمائندگی کرنے والے وکیل شمشاد پٹھان کا کہنا ہے:’’ گینگ ریپ جیسے ہولناک جرم کے مقابلے میں کم بھیانک جرم کرنے والے سینکڑوں افراد جیلوں میں بند ہیں اور انہیں معافی نہیں مل رہی ۔‘‘ کچھ اسی طرح کی بات نیشنل کانگریس پارٹی کے رکن پارلیمان منیش تیواری نے بھی کی ۔ ان کا کہنا ہے : ’’عمر قید اور معافی دینے کے حوالے سے ملک بھر میں یکسانیت ہونا چاہیے ۔
ایک طرف تو کچھ مجرموں کو 15 برس بعد جیل سے رہا کیا جا رہا ہے جب کہ کچھ لوگ 30 برس یا اس سے بھی زیادہ عرصے سے جیلوں میں ہیں ۔ اس کی ایک بڑی مثال ان سکھ قیدیوں کی ہے، جو تین دہائیوں سے جیلوں میں ہیں ۔‘‘
بھارتی سپریم کورٹ کے اپیلیٹ بنچ کے حالیہ فیصلے کے بعد بلقیس بانو کی حالت کیا ہو گی ؟ اس کی عکاسی ممتاز بھارتی جریدے ’ انڈیا ٹوڈے ‘ سے وابستہ صحافی اور مصنف ظفر آغا نے ان الفاظ میں کی :
’’ اب ذرا تصور کیجیے کہ بلقیس کو جب یہ خبر ملی ہو گی تو اس کے دل پر کیا بیتی ہو گی! یہ ایسی خبر تھی کہ جس کے بعد بلقیس کے ہوش تو اڑ ہی گئے ہوں گے، اس پر مزید کیا بیتی یہ ہم اور آپ تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں ۔ شاید اس کے دل و دماغ میں پہلا خیال یہ آیا ہو کہ اب میرا کیا ہوگا! کیونکہ وہ گیارہ افراد جن کی سزا معاف کر کے آزادی کا تحفہ ملا ، ان کو حکومت گجرات کا تحفظ حاصل ہے۔ تب ہی تو ان کو جیل سے رِہا کیا گیا ۔
گجرات سرکار ہی کیا ، ان تمام لوگوں کو وزیر اعظم مودی جی کی بھی پشت پناہی حاصل ہے ۔ کیونکہ بلقیس کیس کے مجرموں کو رِہا کرنا ایک سیاسی فیصلہ تھا ۔ ظاہر ہے کہ گجرات سرکار کا اتنا اہم فیصلہ مودی جی کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا ہے ۔
ظاہر ہے کہ بلقیس اس خبر سے کانپ اٹھی ہو گی ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے وہ تمام واقعات پھر گھوم گئے ہوں گے جو اس کے ساتھ سنہ 2002 میں گجرات فسادات کے وقت پیش آئے ہوں گے ۔ بلقیس کو ایک عجیب قسم کے عدم تحفظ نے آن گھیرا ہو گا ۔ ظاہر ہے کہ بلقیس اب کبھی چین کی نیند نہیں سو سکے گی ۔‘‘
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے(مئی 2022ئ) میں گجرات حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ بلقیس بانو کو رہائش کے لیے گھر فراہم کرے تاہم ریاستی حکومت نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ بلقیس بانو کا کہنا ہے کہ گجرات حکومت مجھے بلاخوف جینے کا میرا حق واپس کرے ۔ اور میرے اور میرے خاندان کی حفاظت کو یقینی بنائے ۔‘‘
The post بلقیس بانو بھارتی سپریم کورٹ کے ظالمانہ فیصلے کی بھینٹ چڑھ گئی appeared first on ایکسپریس اردو.