نمونیا ایک وائرس یا بیکٹیریا کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ بذات خود متعدی مرض نہیں ہے۔ البتہ اس کے جراثیم کسی دوسرے شخص کو متاثر کر سکتے ہیں۔
اگر نمونیا کسی وائرس کے نتیجے میں ہوا ہو تو یہ جراثیم میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اس صورت میں شدید خطرناک شکل اختیار کر لیتا ہے۔ نمونیا عام طور پر نزلہ یا انفلوئنزا سے شروع ہوتا ہے، جس کے بعد بیماری کے پھیپھڑوں میں گھر کرنے کا امکان ہوتا ہے۔
سرکاری اندازوں کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک کروڑ بچے نمونیا سے متاثر ہوتے ہیں جن میں سے صرف50 فیصد کو ہی مناسب طبی امداد حاصل ہو پاتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت اور ’ بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن ‘ کے اشتراک سے عالمی ادارہ صحت برائے اطفال کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق افریقی ممالک میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ نمونیا ہے۔
ان ممالک میں انگولا، عوامی جمہوریہ کانگو، ایتھوپیا، نائجیریا اور تنزانیہ شامل ہیں۔ اسی طرح ایشیا میں بھی یہ شیر خوار بچوں کی ہلاکت کا سبب بننے والی اہم بیماری ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں ہر سال نمونیا کے باعث 70 ہزار سے زائد بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔بچوں میں نمونیا زیادہ عام ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں تین میں سے ایک بچہ نمونیا سے مرتا ہے۔ دنیا میں ہر سال تقریباً 20 لاکھ بچے نمونیا سے مر جاتے ہیں۔
’ سیو دی چائلڈ ‘ کی ایک تحقیق میںخدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں پانچ سال سے کم عمر کے 1100 ملین بچے اور ملک میں 17 لاکھ سے زائد بچے 2030 تک نمونیا کے شکار ہو سکتے ہیں۔ مائیکوپلازما نمونیا اور کلیمائڈوفیلا نمونیا بچوں میں نمونیا کا باعث بنتے ہیں۔
نمونیا کے اسباب
بہت سے جراثیم اس کا سبب بن سکتے ہیں سب سے عام ہوا میں بیکٹیریا اور وائرس ہیں جو ہم سانس لیتے ہیں آپ کا جسم عام طور پر ان جراثیموں کو آپ کے پھیپھڑوں کو متاثر کرنے سے روکتا ہے لیکن بعض اوقات یہ جراثیم آپ کے مدافعتی نظام پر قابو پا سکتے ہیں چاہے آپ کی صحت عام طور پر اچھی ہی ہو کئی اقسام کے متعدی ایجنٹ کا سبب بن سکتے ہیں جن میں بیکٹیریا وائرس اور پھپھوندی شامل ہیں۔
نمونیا کی علامات
اس حالت میں بچوں میں خشک کھانسی، ہلکا بخار، سر درد اور تھکاوٹ جیسی علامات نظر آتی ہیں۔ ان کا علاج معیاری اینٹی بائیوٹک تھراپی سے کیا جاتا ہے۔ لیکن جوں جوں مسئلہ بڑھتا ہے، تیز بخار، سردی لگنا، بدہضمی، پتلا پیشاب، نیلے ناخن، چکر آنا، سانس لینے میں دشواری جیسے علامات ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ نمونیا کے شکار بچوں کو کھانے پینے میں بھی پریشانی ہو سکتی ہے۔ نمونیا سے بچاؤ کے لیے ویکسین دستیاب ہیں۔
بیکٹیریل نمونیا کا علاج اینٹی بائیوٹکس سے کیا جاتا ہے۔ اگر مریض کی حالت زیادہ خراب ہونے لگے تو اسے ہسپتال لے جانے میں ایک لمحہ کی دیر نہیں کرنی چاہیے۔ اگر آکسیجن کی سطح کم ہو تو آکسیجن تھراپی دی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں، بچوں کو پی سی وی کے خلاف ویکسین دی جاتی ہے، جو 2، 4، 6، 12 اور 15 ماہ کی عمر کے نوزائیدہ اور چھوٹے بچوں کو دی جاتی ہے۔
بسا اوقات جب بچوں کو نمونیا ہوتا ہے تو والدین کا خیال ہوتا ہے کہ بچے کو یہ مسئلہ آئس کریم کھانے کے سبب ہوا ہے، وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے گرم لبادہ تو پہنایا تھا، مگر مسئلہ یہ ہے کہ انسان کے چہرے میں پانچ سوراخ ہوتے ہیں، جن میں سے تین سوراخ (دو نتھنوں کے اور ایک منہ کا سوراخ ) کھلے رہتے ہیں جن میں سردی داخل ہونے کا امکان رہتا ہے، ہم انہیں بند بھی نہیں کرسکتے۔ تاہم والدین کو کوشش کرنی چاہیے کہ ان سوراخوں کے ذریعے سردی کو داخل ہونے سے روکیں، جس قدر ہوسکے۔
نمونیا سے بچاؤ کے لئے غدائیں اور علاج
غذا میں سرد موسم میں عرقیات (پھلوں کے) سے پرہیز کرنا چاہیے، اگر زیادہ طبیعت چاہے تو کالی مرچ کے ہمراہ استعمال کرسکتی ہیں۔ اسکول کے بچوں کو رات سوتے وقت پرندوں کے گوشت کی یخنی استعمال کرانی چاہیے۔ دودھ کا استعمال موسم سرما میں ہلکی سیاہ پتی کے ہمراہ کرنا چاہیے۔
ڈسپرین ( ہرگز نہ دیں۔اپنے بچے کے جسم میں پانی کی مقدارکو برقرار رکھیں جسم میں پانی کی مقدار کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے بچے کو وافر مقدار میں مائعات پلائیں۔
نمونیا کے دوران میں بچے کی بھوک کم ہونے کا بھی امکان ہوتا ہے، اس کیفیت میں بہتری تب آئے گی جب انفیکشن ٹھیک ہونا شروع ہوگا اور بچے بہتر محسوس کرنے لگیں گے۔ شروع میں بچے کو زیادہ کھانے کی حاجت نہیں ہوگی لیکن جونہی انفیکشن میں افاقہ ہونا شروع ہوگا تو وہ اپنے آپ کو بہتر محسوس کرنے لگے گا، یوں بتدریج اس کی بھوک بڑھ جا ئے گی۔
نمونیا سے بچاؤ یا اسے شدید ہونے سے روکنے کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کو دھوئیں والی جگہوں سے دور رکھا جائے۔اسی طرح اسے پھیپھڑوں میں سوزش یا خراش پیدا کرنے والی چیزوں سے بھی دور رکھنا چاہئے۔ کھانسی کی علامات میں اس بات کا بھی امکان ہے کہ بچے کی کھانسی صحیح ہونے سے پہلے شدید ترین ہو جائے۔ ممکن ہے کہ اس کی کھانسی کچھ ہفتوں تک جاری رہے۔
عالمی سطح پر ماہرین نے بیماریوں کی روک تھام کے لیے مختلف اقدامات تجویز کیے ہیں۔ سب سے پہلا اقدام تو یہی ہے کہ بیماری کو سِرے سے پیدا ہی نہ ہونے دیا جائے۔ دوسرا مرض کی بروقت تشخیص اور فوری علاج ہے۔
اگر مرض وبائی صْورت اختیار کرلے تو مریض کو کچھ عرصے کے لیے کسی ایک جگہ محدود کر دیا جاتا ہے تاکہ دیگر افراد محفوظ رہیں۔
اور اگر مرض کے باعث کوئی مستقل عارضہ یا معذوری جنم لے، تو بحالی صحت کی کوششیں کی جائیں اور مریضوں کو مناسب مدد فراہم کرکے معاشرے کے لیے کارآمد بنایا جائے۔ نمونیا سے نبرد آزما ہونے کی صْورت میں یہ تمام اقدامات ضروری ہیں۔واضح رہے کہ ویکسین کے ذریعے مرض کو پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے۔ بروقت علاج سے مریض کی تکالیف کا خاتمہ ممکن ہے۔
The post بچوں میں نمونیا کی بڑھتی ہوئی شکایات appeared first on ایکسپریس اردو.