شہر گماں (شعری مجموعہ)
شاعر : جمیل یوسف
ناشر: عوامی کتاب گھر، اردو بازار لاہور
صفحات:256، قیمت: 300 روپے
جمیل یوسف کا شمار پاکستان کے اہم شعراء میں کیا جاتا ہے، جنھوں نے اپنی طویل ادبی جدوجہد سے ادبی منظر نامے میں اپنا ایک مقام بنالیا ہے۔ جمیل یوسف نہ صرف شاعر بلکہ تنقیدی مضامین، تبصروں کے حوالے سے بھی اپنی ایک شناخت رکھتے ہیں۔ شعری مجموعے ’’شہر گماں،، سے قبل ان کی غزلیات کے تین مجموعے، موج صدا (1970) گریزاں (1974)، غزل (1985) کے علاوہ جل پری کے دیس میں (ڈنمارک کا سفر نامہ) باتیں کچھ ادبی، کچھ بے ادبی کی (مضامین+خاکے) جب کہ تالیفات میں باہر سے سفر تک، مسلمانوں کی تاریخ، سر سید احمد خان (سوانح) شائع ہوچکے ہیں۔جمیل شاعرانہ فکر کے اس مرحلے میں ہیں جہاں ان کے لیے اب شعر کہنا کوئی مسئلہ نہیں۔ بس قافیہ، ردیف اور ایک مصرعہ ذہن میں آتے ہی ان کا قلم تیزی سے غزل مکمل کرنے کی کاوشوں میں مصروف ہوجاتا ہے:
اس کے آنچل سے لپٹ کر آئی ہے
آج ہے موج صبا آراستہ
۔۔۔۔۔
جمیل ان سے ہمارا عشق تھا بس خواب کی باتیں
خیال و خواب سے اک داستاں تخلیق کرتے ہیں
عمومی طورپر قافیہ پیمائی کا رجحان شعری حسن کو بری طرح سے متاثر کرتا ہے اور ایسے شعری مجموعوں میں اچھا شعر منتخب کرنا ازحد مشکل ہوجاتا ہے، جمیل یوسف کے ہاں زودگوئی، قافیہ پیمائی کا عمل کہیں کہیں ضرور ملتا ہے، مگر شعری لطافت کو مجروح کیے بغیر
ہر اک سے تیری محبت کی داستاں کہہ دی
میں یہ خزانہ چھپاکر بھلا کہاں رکھتا
جمیل یوسف ایک کہنہ مشق شاعر ہیں، سو وہ لفظوں کو برتنے کا سلیقہ خوب جانتے ہیں۔
انھوں نے زندگی کے مشاہدات کو حساس ذہن و دل کے ساتھ دیکھا محسوس کیا اور انھیں شعری پیراہن دیا۔ ان کے ہاں کئی شاعر ان کی استادانہ مہارت اور مشاہدے کا واضح ثبوت ہیں، مثلاً:
محسوس ہورہا ہے کہ دل کا معاملہ
دربار مصطفیٰؐ سے خدا تک پہنچ گیا
۔۔۔۔
اس کو ٹٹولتے ہوئے آگے بڑھ چلو
دیوار آگئی ہے تو اب در بھی آئے گا
۔۔۔۔
یہی تو زیست کا سب سے عظیم سانحہ ہے
کہ رہ گئی ہے فقط داستاں گئے وہ لوگ
مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’شعر گماں،، میں جمیل یوسف کا شعری تجربہ اپنے تمام تر فنی تقاضوں کو مد نظر رکھتا ہوا قاری تک پہنچتا ہے۔
بیگم رضی حمید کمالی، ایک شخصیت، ایک دور
تدفین وتالیف: انجنیئر مسعود اصغر
ناشر: نیشنل ایجوکیشنل پبلی کیشن
یہ کتاب علمی اور سماجی شخصیت بیگم رضی حمید کمالی کے بارے میں ہے، جنھوں نے پاکستان میں تعلیم کے فروغ اور ترقی کے لیے بے بہا خدمات انجام دیں۔ اس کتاب کی تدفین وتالیف کا فریضہ ان کے صاحب زادے انجنیئر مسعود اصغر نے انجام دیا ہے۔
یہ کتاب جو بہت ہی خلوص و محنت اور لگن کی آئینہ دار ہے اور پاکستان کے ایک عہد کی یادگار تحریروں سے مزین ہے۔ اس میں کراچی سے متعلق تمام علمی و ادبی خواتین و حضرات کی منفرد تحریری، مضامین موجود ہیں۔ ایسے مضامین جو واقعی پورے ایک عہد کی ترجمانی کرتے ہیں اس اعتبار سے تاریخی مضامین ہیں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ادبی ذوق اور دانش وری کے ساتھ ان مضامین کو ترتیب دیا گیا ہے۔ نہ صرف بیگم رضی حمید کمالی کی علم دوستی، بصیرت اور انفرادیت کے بارے میں قیمتی مواد یکجا کیا گیا ہے بلکہ ایک خاص عہد کو تاریخی طور پر اس کتاب میں محفوظ کیا گیا ہے۔ جس چیز نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا وہ رضی کمالی کی دانش ورانہ سوچ ہے جو مذہب، تہذیب و تمدن، برصغیر کے کلچر اور اس میں رچی ہوئی ایک زیریں لہر ہے جو کسی سوچنے والے انسان کو متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔
ہماری خواتین کی ایسی کارکردگی جو آہستہ آہستہ اپنی گہرائی اور مسلسل جدوجہد سے پتھروں کے دل بھی چیرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جو اس کتاب کے آخری حصے میں بہت زیادہ ابھر کر سامنے آتی ہے۔ میں نے اپنی مختصر تعلیمی زندگی میں ایک لمبا چوڑا سفر بھی طے کیا ہے۔ بیگم کمالی جیسی شخصیتیں زندگی میں بہت ہی کم نظر آئیں اور پھر ان کے بیٹے نے جس طرح تمام رکاوٹوں کے باوجود اس کتاب کو مرتب کیا یہ اعتراف ضروری ہے کہ انھوں نے ایک بھرپور کتاب مرتب کی۔ اور اس طرح سے کئی چیزوں کا حق ادا کیا۔
تعلیم کا، ادب کا، اپنے ماں باپ کا، اپنے اساتذہ کا اور سب سے بڑھ کر ایک کلچر اور ایک تہذیب کا حق ادا کردیا۔ ہے اس کتاب میں خامیاں تلاش کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن ایک بات ضرور کھٹکتی ہے کہ کیوں نہ یہ کتاب ہمارے دانش وروں نے مرتب کی۔ کسی ثقافتی اور علمی حلقے نے اس کی اشاعت میں حصہ لیا۔ انجمن ترقی ادویات ارتقا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز نے اس کو کیوں نہ مرتب کیا۔
بہ ایں ہمہ یہ کتاب اپنے ناظرین اور تہذیب و تمدن کی آئینہ دار تحریروں کے متلاشی لوگوں کے لیے بہت بڑا خزانہ ہے جسے ہر لائبریری کی زینت بننا چاہیے۔ بالخصوص کراچی کے تعلیمی مراکز کی لائبریریاں اس کتاب کے بغیر پاکستان کی اچھی لائبریریز کہلانے کی مستحق نہیں ہوسکتیں۔آخر میں اپنی محدود علمی قابلیت کے باوصف یہ اعتراف کرنا بھی ضروری ہے کہ اس کتاب کی مرکزی شخصیت میں قرآن فہمی کی جو جھلک مجھے نظر آئی وہ یقینا اس نوع کی دیگر تحریروں میں کہیں نہیں ملتی۔
شاہ عنایت شہید (سوانح عمری)
مصنف: شاہ محمد مری، ناشر: سنگت اکیڈمی آف سائنسز، کوئٹہ،
صفحات:80، قیمت:150 روپے
اِس کتاب کی بابت اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ یہ کتابی سلسلے ’’عشاق کے قافلے‘‘ کی کڑی ہے۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری قارئین کو ایسی کئی اُجلی شخصیات سے متعارف کروا چکے ہیں، جنھوں نے سماج کی بہتری کے لیے بے مثل جدوجہد کی۔ اِس کتابی سلسلے کے طفیل ہمیں دنیا کے مختلف خطوں میں جنم لینے والی ترقی پسند تحاریک اور اُن سے جڑے کارکنان کی بابت آگاہی ہوئی۔ اور اِس بار وہ ہمیں جھوک جنگ کے کمانڈر، شاہ عنایت سے متعارف کروا رہے ہیں۔ گو کتاب ضخیم نہیں، مگر یوں بے حد اہم ہے کہ شاہ عنایت سے متعلق اردو میں زیادہ مواد دست یاب نہیں۔
اس کتاب کو مرتب کرنے کے لیے مصنف کو خاصی تگ و دو کرنی پڑی ہوگی۔ اور شاہ عنایت کی جدوجہد اس کی حق دار بھی تھی۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ صاحبِ کتاب نے شاہ عنایت کو رائج عقیدے کے برعکس، جو اُنھیں ایک صوفی کے طور پر پیش کرتا ہے، انھیں کسانوں کی فلاح کے لیے لڑی جانی والی جنگ کے کمانڈو کے روپ میں پیش کیا ہے۔بیانیے میں افسانوی رنگ بھی ہے، اشعار آرایش بڑھاتے ہیں، مصنف کے تاثرات بھی ملتے ہیں۔ یہ عناصر مطالعے کے عمل کو مہمیز کرتے ہیں۔ قاری شاہ عنایت کی جدوجہد کے ساتھ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اور کتاب کے آخر میں، جہاں مجاہد کا سر تن سے جدا ہوتا ہے، قاری کا سر شاہ عنایت کے سامنے جھک جاتا ہے۔ یہ کتاب، بلاشبہہ، قاری کے وقت کا بہترین مصرف ہے۔
انٹرنیٹ اور اِس کے فوائد
مصنف: ریحان اللہ والا،ناشر: رہبر پبلشرز، کراچی،
صفحات:48، قیمت:100 روپے
یہ کتاب، بلکہ کتابچہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی دنیا سے وابستہ، ریحان اللہ والا کی کاوش ہے۔ ریحان امریکا میں ٹیلی فون کمپنیز کو سافٹ ویئر سروسز فراہم کرنے والا ایک ادارہ چلاتے ہیں۔ اُنھوں نے غربت کے خاتمے کے لیے ’’ریحان فائونڈیشن‘‘ کے نام سے ایک فلاحی ادارہ بھی شروع کر رکھا ہے، جو تعلیم اور صحت سمیت مختلف شعبوں میں کام کر رہا ہے۔ چوں کہ مصنف خود کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے آدمی ہیں، سو انٹرنیٹ کے فوائد اور اثرات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
انھوں نے اس کے ماضی، حال اور مستقبل کا جائزہ لینے کی کوشش کی، نتیجہ کتاب کی صورت سامنے آیا۔ یہ کتاب مختصر ضرور ہے، مگر دل چسپ ہے۔ مصنف نے سادہ پیرایے میں اظہار خیال کیا۔ موضوع انٹرنیٹ ہے، سو انگریزی الفاظ بھی بہ کثرت ہیں۔ بلاشبہہ زبان کی بہتری کا امکان موجود ہے۔ اشاعت کے معاملے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، البتہ مختصر ہونے کے باوجود یہ کتاب نوجوان نسل، بالخصوص بچوں کے لیے سودمند ثابت ہوسکتی ہے۔
کتاب اور صاحبِ کتاب
مصنف: رفیع الزماں زبیری،ناشر: فضلی سنز، کراچی
صفحات: 256،قیمت:درج نہیں
تعلیم سے محروم افراد کی بابت اعدادوشمار ہمارے ملک میں تعلیم کی صورت حال سامنے لاتے ہیں، مگر ہمارے ہاں علم کی شرح کا اندازہ پڑھے لکھوں کی گفتگو اور ان کے گھروں سے ہوتا ہے، اس گفتگو میں اگر ذکر نہیں ہوتا تو بس کتابوں کا اور ان گھروں میں اگر کچھ نہیں تو بس کتابیں۔ کتابوں سے دوری ہماری سطحی سوچ اور ذہنی پس ماندگی کا بنیادی سبب ہے۔ اچھی کتابیں وہ ہوتی ہیں جو سوچنے پر مجبور کریں، دل میں نہ جاننے کا کرب اور جاننے کی جستجو جگائیں، مگر ہمارے ہاں اچھی تو کجا بری کتابیں پڑھنے کا رجحان بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے میں وہ لوگ جو مطالعے کے شوق کو فروغ دینے کے لے کوشاں ہیں اندھیرے میں اپنے حصے کا چراغ جلا رہے ہیں۔ ان لوگوں میں رفیع الزماں زبیری بھی شامل ہیں، جو روزنامہ ایکسپریس میں ’’کتابوں کی دنیا‘‘ کے زیرعنوان اپنے کالموں کے ذریعے اپنے قارئین کو کتب بینی کی طرف مائل کرنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
ریڈیوپاکستان میں نیوز کنٹرولر اور چیف رپورٹر اور بعد میں ہمدرد فاؤنڈیشن میں ڈائریکٹر نونہال ادب کے عہدے پر فائز رہنے والے رفیع الزماں زبیری کی تحریریں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے ساتھ مسلسل کتابوں سے ناتا جوڑے رہے، اور ’’اک نظر تم مرا محبوب نظر تو دیکھو‘‘ کے مصداق وہ لوگوں میں کتابوں کا مطالعہ عام کرنے کو اپنا مقصد بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے کالم کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی کتاب کا تذکرہ اس دل کش پیرائے میں کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کہ دل میں اس کتاب کے مطالعے کا شوق جاگ اٹھتا ہے۔ ان کے کالم نہ صرف قاری کو معیاری اور خوب صورت کتابوں سے متعارف کراتے ہیں بل کہ صاحب کتاب کی زندگی اور شخصیت سے بھی آگاہی دیتے ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب رفیع الزماں زبیری کے ان دل پذیر کالموں کا انتخاب ہے۔ ہماری ہاں کم کتابیں ایسی شایع ہوتی ہیں جنھیں پڑھ کر احساس ہو کہ وقت رائیگاں نہیں ہوا، اور یہ ایک ایسی ہی کتاب ہے، جس میں کتنی ہی کتابوں کے چہرے اپنی جھلک دکھا کر قاری کو شوقِ بڑھا رہے ہیں۔
اجرا (ادبی جریدہ)
مدیر: احسن سلیم،ملنے کا پتا:1-G, 3/2، ناظم آباد، کراچی،
صفحات: 576 ،قیمت: 400 روپے
عدم برداشت کے اِس عہد میں ادبی تقریبات، جراید اور کتابیں ہی ایسا ذریعہ ہیں، جو خیر کا احساس اجاگر کرتی ہیں۔ خوش آیند امر یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں ادبی تقریبات اور جراید کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، جن کے وسیلے کچھ راحت مل جاتی ہے۔
کراچی سے نکلنے والے جراید میں ’اجرا‘ ایک نمایاں پرچہ ہے۔ اِس کا سفر چار برسوں پر محیط ہے۔ سولہ ضخیم شمارے آچکے ہیں۔ کاغذ کی بڑھتی قیمت، اشتہارات کا فقدان اور مطالعے کا گھٹتا رجحان پیش نظر رکھا جائے، تو یہ ایک بڑی کام یابی ہے۔
اِس بار اداریے میں احسن سلیم نے تخلیق کاروں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ اُن کے طرز تخلیق کو چیونٹی، شہد کی مکھی اور مکڑی کے طرز عمل سے، بامعنی انداز میں، تشبیہ دی ہے۔ سلسلے ’’موضوع سخن‘‘ کے تحت شایع ہونے والے تینوں مضامین ہی قابل مطالعہ ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے افسانے کے پس منظر اور پیش منظر کو موضوع بنایا ہے۔ ذکی احمد نے نفسیات کا ریاضیاتی تصور پیش کیا۔ ممتاز مترجم، ڈاکٹر عمر میمن نے اپنے مضمون میں منٹو پر لگنے والے فحاشی کے الزامات پر، ایک الگ ہی ڈھب میں، قلم اٹھایا ہے۔پرچے میں مستنصر حسین تارڑ اور محمد احمد سبزواری کے انٹرویوز شامل ہیں۔
مرزا حامد بیگ کے ناول ’’انار کی کلی‘‘ کے دو ابواب، جب کہ طاہرہ اقبال کے ناول ’’نیلی بار‘‘ کا دوسرا حصہ شامل کیا گیا ہے۔ تراجم کے سلسلے میں اسد محمد خاں کے قلم سے نکلا، سری کانت ورما کی نظم ’’پلیژر ہائوس‘‘ کا ترجمہ اہم ہے۔ افسانوں کی تعداد تیرہ ہے۔ ڈاکٹر طاہر مسعود کا گوشہ شمارے میں شامل ہے۔ نظموں اور غزلوں کا حصہ متوازن ہے۔ کئی کتابوں پر تبصرے ہیں۔ سلسلہ ’’خرد افروزیاں‘‘ قابل مطالعہ مضامین سے سجا ہے۔ احسن سلیم نے رسا چغتاتی، نور الہدیٰ سید نے ڈاکٹر شیر شاہ سید اور میمونہ چوگلے نے زاہدہ حنا کے فن اور شخصیت پر قلم اٹھایا ہے۔ اسی سلسلے میں شامل محمد قاسم کا مضمون ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ سے متعلق ہے، جو اِس ناول کی بابت کئی دل چسپ سوالات اٹھاتا ہے، جو نئی بحث کو جنم دے سکتے ہیں۔
صلیب وفا (شاعری)
شاعر: سید مظفر حسین رزمی،ناشر: زین پبلی کیشنز، کراچی، ترتیب: سید طارق حسین، احمد زین الدین
صفحات: 144، قیمت: 200 روپے
یہ کتاب مرحوم شاعر، سید مظفر حسین رزمی کا دوسرا مجموعہ ہے، جس کی اشاعت کا اہتمام اُن کے صاحب زادے، سید طارق حسین اور رفیق، احمد زین الدین نے کیا ہے۔ وہ مشہور شاعر، رمز کسمری کے بیٹے تھے، یعنی شاعری وراثت میں ملی، جو مشرقی پاکستان کے زمانے میں اظہار کے قالب میں ڈھلتی گئی۔ پہلا مجموعہ ’’خواب کی ریت‘‘ 83ء میں شایع ہوا، جس کے ٹھیک دس برس بعد وہ انتقال کر گئے۔اِس مجموعے میں ان کی غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ قیام چین کے دوران چینی نظموں کے جو ترجمے کیے، وہ بھی اِس میں شامل ہیں۔ ان کے ہاں ہمیں کلاسیکی غزل ملتی ہے۔
زبان میں روانی ہے، عصری حالات کی جھلک ہے۔ ذاتی تجربات بڑی گرفت سے شعر میں سموئے گئے ہیں۔کتاب میں شاعر کے کوائف درج ہیں۔ احمد زین الدین اور پروفیسر نظیر صدیقی کے شاعر سے متعلق مضامین شامل ہیں۔ اِس کے علاوہ ڈاکٹر سید عبداﷲ، ڈاکٹر محمد اجمل، انجم اعظمی، سلیم احمد، افسر ماہ پوری اور پروفیسر عطا کاکوری کی رائے ملتی ہے۔ فلیپ پر پروفیسر اظہر قادری کی رائے درج ہے۔ یہ شخصیات ہمیں شاعر کے فن سے متعلق خاصی معلومات فراہم کرتی ہیں۔ ایک مرحوم شاعر کے کلام کو یک جا کر کے شایع کرنے کی یہ کوشش حوصلہ افزا ہے۔
کتاب ڈسٹ کور کے ساتھ شایع کی گئی ہے۔ قیمت ٹھیک ہی ہے۔