دنیا کے امیر ترین انسانوں میں سے ایک ایلون مسک بہت جلد ایک انتہائی طاقتور بیٹری اپنی نئی الیکٹرک گاڑیوں میں متعارف کروانے والے ہیں۔
یہ بیٹری اس قدر طاقتور ہے کہ اس کے ذریعے کسی بھی الیکٹرک گاڑی کو ایک چارج میں 1200کلومیٹر یا اس سے زیادہ مسافت طے کرنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کے ماضی کو دیکھا جائے تو یہ گاڑیاں اپنی ایجاد کے فورا بعد عوام میں وہ پذیرائی حاصل نہ کر پائیں تھی، جن کی ان سے توقعات وابستہ تھیں۔
ان جدید گاڑیوں کا خیال دو وجوہات کی بنا پر متروک رہا، پہلی وجہ یہ کہ الیکٹرک گاڑی ایک مرتبہ چارج کرنے کے بعد چند سو کلومیٹر ہی سفر کر سکتی تھی، اس لیے یہ خیال اچھوتا نہیں، دوسری وجہ یہ کہ کسی الیکٹرک گاڑی کوچارج کرنے کیلئے درکار بجلی کو کیسے پیدا کیا جائے، جیسا کہ پاکستان، انڈیا اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں فیکٹریوں اور گھریلو صارفین کی جانب سے بجلی کی بھاری مقدار کی مانگ کی وجہ سے بجلی کی ضرورت کو پورا کرنا ایک مشکل ٹاسک سمجھا جاتا ہے۔
تاہم اب ایک پاکستانی سائنسدان و انجینئر مجیب اعجاز نے اس مسئلے کا حل جیمینائی بیٹری کی صورت میں نکال لیا ہے۔ اس بیٹری کی نہ صرف ایلون مسک نے تعریف کی، بلکہ انہوں نے مجیب اعجا ز سے یہ بیٹری خرید بھی لی ہے اور بہت جلد دنیا کی سب سے بڑی الیکٹرک گاڑی ساز کمپنی اپنی نئی الیکٹر ک گاڑیوں میں یہ بیٹری متعارف کروائے گی۔
جیمینائی بیٹری کے ٹیسلا نے اپنی نئی گاڑی میں چند تجربات بھی کیے ہیں۔ گاڑی کے پہلے روڈ ٹیسٹ میں یہ معلوم ہوا کہ اس کی رینج ایک معیاری ٹیسلا ماڈل ایس کی مخصوص رینج سے تقریباً دوگنا زیادہ ہے اور کسی بھی بڑے پیمانے پر تیارکردہ گیسولین سے چلنے والی گاڑیوں کی سب سے زیادہ رینج سے بھی زیادہ ہے۔صرف اِس رینج ہی کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ ’ٹیسلا‘ کی نئی گاڑی کو پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں پر ترجیح دیں گے۔
پاکستانی سائنسدان مجیب اعجاز امریکا میں ’ون نیکسٹ انرجی‘ کے نام سے ایک کمپنی چلا رہے ہیں۔ یورپ اور امریکا میں مجیب اعجاز کی ’جیمینائی بیٹری‘ کو کافی سراہا جا رہا ہے، یہاں تک کہ بعض انجینئرز نے اس ایجاد کو 21ویں صدی کی سب سے بڑی ایجادوں میں سے ایک بھی قرار دیا ہے۔
جیمینائی بیٹری جس قدر دلچسپ ہے، ا س سے زیادہ دلچسپ مجیب اعجاز کی کہانی ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنے خواب کو محدود وسائل کے باوجود تعبیر دی اور نا ممکن کو ممکن کر دکھایا۔مجیب نے جب اپنی کمپنی قائم کی تو اس وقت انہوں نے ایک روڈ میپ تشکیل دیا، جس میں یہ بات واضح تھی کہ ایک ایسی جدید ترین بیٹری ایجاد کرنی ہے، جو الیکٹرک گاڑیوں کے ایک چارج میں طویل سفر طے نہ کر پانے کے مسئلے کو حل کر سکے۔لیکن مجیب اعجاز کے پاس وسائل انتہائی محدود تھے۔
کیونکہ انہوں نے اپنی کمپنی کا آغاز کرنے سے قبل کسی سرمایہ کار سے رابطہ نہیں کیا تھا، اس وجہ سے ان کے مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بیٹری کی تیاری کا مکمل روڈ میپ تیار تھا، لیکن اس روڈ میپ پر عملی طور پر کام کرنے کیلئے ان کے پاس پیسے ہی موجود نہ تھے۔
انہوں نے دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ کاروں کے سامنے اپنا پروجیکٹ پیش کیا، لیکن کسی نے بھی ان کے منصوبے میں دلچسپی کا اظہارنہ کیا۔ آخر دن رات کی محنت اور جدوجہد رنگ لائی اور انہیں دنیا کے امیر ترین انسانوں میں سے ایک بل گیٹس سے ملاقات کا موقع میسر آگیا۔ مجیب اعجاز نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنا سارا پلان بل گیٹس کے سامنے رکھ دیا اور ان سے وعدہ کیا کہ اگر وہ ان کی کمپنی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو انہیں غیر معمولی حد تک منافع مل سکتا ہے۔
بل گیٹس کیونکہ خود بھی نئی ٹیکنالوجیز میں دلچسپی رکھتے ہیں اور نئے ٹرینڈز کے بارے میں جانتے ہیں، اس وجہ سے انہوں نے فوری طور پر مجیب کی کمپنی میں بھاری سرمایہ کاری کا اعلان کر دیا۔ جب دنیا بھر میں یہ خبر پھیلی کہ بل گیٹس مجیب اعجاز کی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے والے ہیں تو دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے مجیب کی کمپنی میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا، لیکن مجیب نے دنیا کی سب سے بڑی ای کامرس کمپنی ایمازون کے مالک جیف بیزوس کے علاوہ مزید کسی سرمایہ کار کے پرپوزل کو قبول نہیں کیا۔
کیونکہ بل گیٹس اور جیف بیزوس سے انہیں 25ملین ڈالر کی اتنی سرمایہ کاری مل گئی تھی، جتنی کہ انہیں جیمینائی بیٹری کی تیاری کیلئے ضرورت تھی۔ مجیب نے اس انویسمنٹ کا ایک بڑا حصہ بیٹری کی تیاری کیلئے کی جانے والی ریسرچ کیلئے مختص کر دیا اور دن رات کی محنت کے بعد آخر انہوں نے ’جیمینائی بیٹری‘ تیارکر کے بل گیٹس اور جیف بیزوس سے کیا اپنا وعدہ پورا کر دیا۔
اب ایلون مسک کی جانب سے مجیب کی نئی ایجاد کردہ جیمینائی بیٹری کو اپنی گاڑیوں کیلئے منتخب کرنا، پور ی پاکستانی قوم کیلئے بڑے اعزاز اور فخر کی بات ہے۔ مجیب اعجاز ایک مثال اور موٹیویشن ہیں۔
ان پاکستانی سائنسدانوں کیلئے جو اپنے اپنے شعبہ میں تحقیق کر رہے ہیں اور سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے وہ کارہائے نمایاں انجام نہیں دے پارہے، جنہیں انجام دینے کی وہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ مجیب اعجاز نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مسلسل کوشش جاری رکھیں، اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے کام کو کتنی مرتبہ مسترد کر دیا گیا، فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ آپ نے اس دنیا سے جانے سے قبل عوام الناس کو کیا دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کام کے آغاز میں سرمایہ کاری کی فکر نہ کریں، بس کچھ نیا اور دلچسپ کریں، سرمایہ کار خود آپ کے پاس چل کر آئیں گے۔
مجیب اعجاز کی بین الاقومی سطح پر اتنی بڑی کامیابی پاکستان کیلئے اس لیے بھی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ آج آپ امریکا کی کسی بھی بڑی ٹیک کمپنی کو دیکھ لیں، جس سے آپ واقف ہوں، اُن میں سے بیشتر کمپنیوں کے سی ای اوز کا تعلق انڈیاسے ہو گا۔
مثال کے طور پر گوگل کے سی ای او’سندر پیچائی‘ کا تعلق بھارت سے ہے، جو بھارت کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے اور اپنی ہمت اور لگن سے آج دنیا کی سب سے بڑی ٹیک کمپنی کے ’سی ای او‘ بن گئے۔سندر پیچائی کی صرف ایک ماہ کی تنخواہ 36کروڑ سے زائد ہے۔اسی طرح ایک اور بڑی ٹیک کمپنی جس کے بانی ’بل گیٹس‘ ہیں کا نام ’مائیکروسافٹ‘ ہے۔
مائیکروسافٹ کے سی ای او ’ستیا ناڈیلا‘ کا تعلق بھی بھارت سے ہیجو مائیکروسافٹ سے 44کروڑ ماہانہ تنخواہ لے رہے ہیں اور بھی ایسی بہت ساری کمپنیاں ہیں جن کا ذکر یہاں کیا جاسکتا ہے۔ ایسے میں ایک پاکستانی اوریجن شخص کی 21ویں صدی کی سب سے بڑی ایجاد کا سہرا اپنے سر جانا، کوئی معمولی پیش رفت نہیں، بلکہ یہ ایک بڑا کارنامہ ہے۔
مجیب سے متعلق دلچسپ بات یہ ہے کہ جیمینائی بیٹری کی ایجاد سے قبل ہی وہ بین الاقوامی ٹیکنالوجی انڈسٹری میں بڑی کامیابیاں حاصل کر چکے تھے۔ مجیب دنیا کی سب سے بڑی سمارٹ فون ساز کمپنی ’ایپل‘ Apple میں بطور سینئر ڈائریکٹر بھی اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں، علاوہ ازیں وہ امریکی گاڑی ساز کمپنی ’فورڈ‘ Ford سے بھی 15 برس تک منسلک رہے۔
انہوں نے فورڈ کیلئے الیکٹرک ہائبرڈ گاڑیاں تیار کیں، مجیب کی تیار کردہ ان ہائبرڈ گاڑیوں نے امریکا سمیت دنیا بھر میں کافی مقبولیت حاصل کی تھی۔
ہائبرڈ گاڑیوں کے شعبے میں مجیب کو ان کی خدمات کے عوض امریکا نے میرٹ ایوارڈ سے بھی نواز تھا۔ اس کے علاوہ مجیب 30مختلف اقسام کی بیٹریوں سے متعلق ٹیکنالوجیز تیار کر چکے ہیں اور ’جیمینائی بیٹری‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
چلیں یہ تو ایک بات، یہ جیمینائی بیٹری آخر کیا بلا ہے، اس کی ٹیکنیکل خصوصیات کو جانتے ہیں۔یہ بیٹری آج کی الیکٹرک گاڑیو ںمیں استعمال ہونے والی دیگر بیٹریوں کی نسبت ماحول دوست مٹیریل کا استعمال کرتی ہے اور اِس بیٹری کی تیاری میں نیکل اور کوبالٹ (cobalt) کا کم استعمال کیا جاتا ہے۔جیمینائی بیٹری میں لیتھیئم آئن بیٹریوں کی توانائی کی کثافت کی حدود کو نئے اینوڈز اور انتہائی موثر پروسیسرز کے ذریعے بڑھایا جا رہا ہے، لیکن محققین اب لیتھیئم سلفر جیسی نیکسٹ جینریشن کی بیٹریوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ابھی تک اِن بیٹریوں کا استعمال کسی بھی الیکٹرک گاڑی میں نہیں کیا گیا، البتہ ٹیسلا کے ماڈل ایس میں اِس کی پہلی آزمائش کر دی گئی ہے۔ دوسری مسئلہ جو ٹیسلا کی گاڑیوں کی کامیابی میں در پیش ہے، وہ ’بجلی‘ کی ضرورت ہے۔
یہ سچ ہے کہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور اِن جیسے دیگر ترقی پذیر ممالک میں بجلی (electricity)کی کمی ایک اہم مسئلہ ہے، لیکن جب بھی کسی ملک میں کوئی نئی چیز یا ٹرینڈ مقبولیت پاتا ہے تو اُس کی ترویج کیلئے حکومتی سطح پر کاوش کی جاتی ہے، یعنی جب پاکستان میں عوام الیکٹرک گاڑیوں میں دلچسپی ظاہر کریں گے اور بڑی تعداد میں یہاں الیکٹرک گاڑیاں فراٹے بھرتی دکھائی دیں گی، تو حکومتی ترجیحی بنیادوں پر ایسے پروجیکٹس شروع کرے گی جن سے اِن ماحول دوست الیکٹرک گاڑیوں کو چلنے کیلئے طاقت فراہم کی جا سکے۔
تاہم یہاں ایک سوال یہ ہے کہ اِس مسئلے کا حل ٹیسلا یا ایلون مسک نیکیا نکالا۔ گزشتہ سے پیوستہ برس الیون مسک نے اعلان کیا تھا کہ وہ ٹیب لیس بیٹری تیار کر رہے ہیں، جو زیادہ موثر توانائی(energy efficient) کی حامل ہوگی۔
یعنی اسے چارج کرنے کیلئے بجلی کی کم مقدار کی ضرورت پڑے گی اور یہ زیادہ دیر تک چل سکے گی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اِس بیٹری کی تیار ی میں آنے والی کاسٹ میں بھی کمی واقع ہو گی، لیکن سوال یہ ہے کہ ٹیسلا اب ’ٹیب لیس‘بیٹری کے کانسپٹ کو ’جیمینائی بیٹری‘ کے ساتھ کس طرح منسلک کرے گی۔
ایک اور اہم بات جس کا یہاں ذکر ضروری ہے کہ ٹیسلا کی جانب سے مجیب اعجاز کی ایجاد کردہ ’جیمینائی بیٹری‘ کا تجربہ ’ٹیسلا ماڈل ایس‘ میں کامیابی سے کر لیا گیا ہے۔ جس کے بعد اِس بات کی امید ہے کہ ’کیا موٹرز‘، ’مرسیڈیز‘، ’فورڈ‘ اور دیگر الیکٹرک گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیاں بھی اِس نئی اورجدید ٹیکنالوجی کا ہاتھوں ہاتھ لیں گی، جس سے مجیب اعجاز کی کمپنی ’ون نیکسٹ انرجی‘ ممکن ہے کہ چند برسوں میں ملین ڈالرز کا کاروبار کرے۔
مجیب اپنی نئی ایجاد ’جیمینائی بیٹری‘ کا حوالے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج کے جدید دور میں ایک چارج میں 480کلومیٹر تک چلنے والی الیکٹرک گاڑیاں صارفین کی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتیں، اِس لیے ہمیں ایک ایسی ہائیبرڈ بیٹری کی ضرورت تھی جو نہ صرف ماحول دوست اور کم بجلی خرچ کرنے والی ہو، بلکہ اِسے اِس قابل بھی ہونا چاہیے کہ ایک چارج میں 1ہزار سے 12سو کلومیٹر تک کا سفر کر سکے۔مجیب اعجاز پاکستان کا مثبت چہرہ ہیں جن کیلئے ’ہڈن فگر‘، کی اصطلاح استعمال کی جا سکتی ہے، یعنی ایک ایسی شخصیت جو گم نامی میں رہ کر بڑے کارنامے انجام دے رہا ہے۔
The post مجیب اعجاز… appeared first on ایکسپریس اردو.